انسانی اسمگلنگ میں مسلسل اضافہ

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بین الاقوامی طور پر انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی خبر دی گئی ہے

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بین الاقوامی طور پر انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی خبر دی گئی ہے: انٹر نیٹ

ملکوں کی سرحدوں کے آر پار انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ بہت زیادہ تشویش کا باعث بن گیا ہے جس کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے دفتر سے منشیات اور جرائم کے حوالے سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

2016 میں ایسے افراد کی تعداد گزشتہ تیرہ سال میں سب سے زیادہ تھی۔ ملکوں کی باہمی جنگیں' اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافے' موسمیات میں تبدیلی اور بدلاؤ' لوگوں کو سرسبز کی علاقوں کی تلاش میں اپنے آبائی گھروں کو چھوڑنیکی خواہش انسانی اسمگلنگ کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کو تقویت دیتی ہے۔


اس صورتحال نے حالات کو قابو سے باہر کر رکھا ہے اور لوگ اپنی ضروریات کی وجہ سے ان گروہوں کے ہاتھ نشانہ بن جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ سب سے زیادہ منافع بخش پیشے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان سے30 ہزار سے 40 ہزار تک شہری یورپ' مشرق وسطیٰ' ترکی اور روس وغیرہ غیرقانونی طور پر جانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے زیادہ کا تعلق ملک کے پسماندہ قصبوں سے ہوتا ہے یا پنجاب کے دیہات سے۔ بے روزگار نوجوانوں دولت اور ترقی کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں ۔ بالعموم ان کا انجام المناک ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض تو دوسرے ممالک میں قید کر دیے جاتے ہیں۔

غیرممالک میں انھیں اجنبی زبان کی مشکل ہوتی ہے نیز ملازمت بھی نہیں ملتی۔ بعض مجبور ہو کر جنسی مظالم کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ جہاں تک حکومتوں کا تعلق ہے تو وہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث مجرموں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ نرم سلوک کرتے ہیں اور ان کے بچ نکلنے کے راستے آسان بنا دیتی ہیں۔ حکومت پاکستان نے 2018میں دو نئے قوانین منظور کیے، اکتوبر 2018میں پولیس نے بلوچستان میں 13سال اور اس سے بھی کم عمر کے100 لڑکے پکڑے جن کو ملک سے باہر اسمگل کیا جا رہا تھا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بین الاقوامی طور پر انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی خبر دی گئی ہے۔ 2016 میں بتایا گیا تھا کہ نوجوان عورتوں اور لڑکیوں کو بھی اسمگل کیا جاتا ہے جن کی عمر پندرہ سال یا اس سے کم ہوتی ہیں، ان بے چاریوں کو جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم اس بارے میں مکمل اطلاعات نہیں دی جاتیں۔ اس افسوسناک مسئلے پر بہتر طور پر قابو پانے کے لیے لازم ہے کہ حکومتوں کے علاوہ سول سوسائٹی بھی قانون نافذ کرنے والوں کا ساتھ دے۔
Load Next Story