غریب طبقات کا اتحاد
سنگ تراشی میں اس کا جواب نہ تھا۔ ہندو اور بدھ مذاہب کا شمار قدیم مذاہب میں ہوتا ہے
ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، جس زمین پر بس رہے ہیں، اس کے بارے میں 90 فی صد سے زیادہ انسان کچھ نہیں جانتے ۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک علم کی کمی ، دوسرے وقت کی کمی ۔ ہماری آبادی کا اکثریتی حصہ اپنا وقت روزگار کے حصول ہی میں گزار دیتا ہے۔ اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی دنیا ، اپنی زمین، اپنے آسمان کے بارے میں کچھ سوچ سکے۔ غریب آدمیوں کی تو یہ مجبوریاں ہیں لیکن امیر اور تعلیم یافتہ لوگ بھی اپنی جنم بھومی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ زمین آسمان کے بارے میں جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ہم ہزاروں سال سے اس پر رہ رہے ہیں۔
ہماری سیکڑوں بلکہ ہزاروں نسلیں اسی زمین کا رزق بن چکی ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین یعنی کرۂ ارض کو وجود میں آئے چار ارب سال ہورہے ہیں اور اگرکوئی کائناتی حادثہ نہ ہوا توکہاجاتا ہے کہ ہماری زمین یعنی دنیا ابھی ساڑھے تین ارب سال باقی رہے گی۔ اس نا قابل تصور دنیا کی عمرکے مقابلے میں کرۂ ارض پر ہماری معلوم تاریخ دس پندرہ ہزار سال پر مشتمل ہے۔ ہزاروں سال پہلے دنیا میں رہنے والا انسان بھی مختلف حوالوں سے بہت ترقی یافتہ تھا۔
سنگ تراشی میں اس کا جواب نہ تھا۔ ہندو اور بدھ مذاہب کا شمار قدیم مذاہب میں ہوتا ہے۔ ہزاروں، لاکھوں سال پہلے اگر کرۂ ارض پر انسان موجود تھا تو اس کی تہذیبی زندگی کیسی تھی، مذہب و عقائد کی کیا صورتحال تھی اس دور کا معاشی اور معاشرتی نظام کیسا تھا۔ انسان سے انسان کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔ انسانوں کے درمیان رشتوں، ناتوں کا کلچر کیسا تھا۔ معاشی اور معاشرتی زندگی کی نوعیت کیا تھی ۔ اس قسم کے سوالات کے جواب تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی روشنی میں نہ صرف ماضی کی زندگی اور تہذیب و ترقی کا پتہ چل سکے ۔ لاکھوں کروڑوں سال پہلے کی زندگی کے حوالے سے تو تحقیق ممکن نہیں لیکن انسانوں کی معلوم تاریخ کے بارے میں تحقیق نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس تحقیق سے انسانی سماج کی ہیت انسانی رشتوں انسانی تعلقات کے بارے میں دلچسپ بلکہ حیرت انگیز انکشافات سامنے آ سکتے ہیں۔ آج انسان جن، جن حوالوں سے تقسیم ہے کیا ماضی بعید میں بھی انسانی تقسیم کی یہی نوعیت تھی۔
کیا اس دور میں کوئی مربوط معاشی اور معاشرتی نظام تھا؟ اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج جس امتیازی معاشرتی اور نا منصفانہ معاشی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں،کیا ماضی بعیدکا انسان بھی اسی قسم کے معاشی اور معاشرتی نظام کا شکار تھا۔
ہماری دنیا اور دنیا میں بسنے والا دو بڑے غیر منصفانہ اور متعصبانہ نظام میں پھنسا ہوا ہے، اس سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر ایک منصفانہ اور تقسیم سے پاک دنیا کا وجود ممکن ہی نہیں، کیا ہمارے مفکرین اور دانشور اس سمت میں سوچنے کی زحمت کر رہے ہیں۔
انسان اشرف المخلوقات۔ دنیا میں صرف ایک مذہب نہیں کئی مذاہب ہیں ۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کے طریقے عبادت مختلف ہیں ۔ لیکن مذہب کو بنیاد بنا کر صلیبی جنگوں کے علاوہ مذہب کے حوالے سے بے شمار جنگیں ہوئیں جن میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ 1947 میں تقسیم ہند کے موقعے پر بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے اس بربریت کا شکار 22 لاکھ انسان ہوئے جن میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی، سکھ بھی، عیسائی بھی۔ یہ انسانیت کے چہرے پر ایسا سیاہ داغ ہے ، جس کی مثال نہیں ملتی۔
عوام کی مختلف حوالوں سے تقسیم تعصبات پیدا کرتی ہے؟ اور تعصبات خون خرابے کا سبب بنتے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس تقسیم، ان تعصبات کی نظر ہو گئے ان تعصبات اور خون خرابے سے دنیا ہمیں جاہل اور وحشی کہتی ہے۔ بد قسمتی سے تعلیم میں اضافے اور جدید علوم سے واقفیت کی وجہ سے ان تعصبات میں نہ صرف کمی ہونی چاہیے ، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
انسانی تقسیم اور مذہبی نفرتوں کے حوالے سے پاکستان بہت بدنام ہے، معاشی ایلیٹ اور سرمایہ داروں کی یہ ضرورت ہے کہ اس تفریق کو نہ صرف باقی رکھیں بلکہ اورگہرا کریں کیونکہ تقسیم شدہ انسان ان کی ضرورت ہے۔ انسانوں کے درمیان تعصبات ہی انسانوں کے درمیان نفرتیں اور جنگیں پیدا کرتی ہے اور مغرب کی ہتھیاروں کی انڈسٹری کا کاروبار ترقی کرتا ہے آج صنعتوں میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی صنعت اسلحے کی صنعت ہے۔
اس حوالے سے دوسرا بڑا مسئلہ طبقاتی استحصال ہے، دنیا کے 90 فی صد کی لگ بھگ انسان بھوک، بیماری اور اقتصادی نا انصافی کا شکار ہیں۔ دو فی صد اشرافیہ عوام کی کمائی کے 80 فی صد سے زیادہ حصے پر قابض ہیں۔ سیاسی ایلیٹ عوام کے درمیان نفرت پیدا کرنے اور انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے رکھنا ضروری سمجھتی ہے انھیں ڈر رہتا ہے کہ دنیا خصوصاً پسماندہ دنیا کے انسان ان لعنتوں سے باہر نکل آئیں تو پھر منطقی طور پر یہ متحد ہو جاتے ہیں اور اشرافیہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ غریب انسانوں کے درمیان مذہب، رنگ، نسل، زبان اور قومیت کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم ختم ہو جائے تو استحصالی طاقتوں کو یہ خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کہ عوام تقسیم کے عذاب سے نکل آئے تو لازماً وہ طبقاتی حوالے سے متحد ہو جائیںگے، اگر ایسا ہوا تو ایلیٹ کے قیدیوں کے لیے جگہ بھی نہیں ملے گی۔