ایرانی عوام کے بدلتے تیور
ایرانی عوام جبر سے نکلنے کے لیے کروٹیں لے رہے ہیں ۔ ایران میں صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں اور...
ایرانی عوام جبر سے نکلنے کے لیے کروٹیں لے رہے ہیں ۔ ایران میں صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں اور روحانی ملک کا نیا صدر بن گئے ہیں ۔ یہ ملک پر براجمان مخالف قوتوں کی واضح شکست ہے۔ الیکشن نتائج سامنے آتے ہی لوگ گھروں سے باہر نکل پڑے اور ملک بھر کی سڑکوں پر لوگ بھرگئے۔ لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر امڈ آئے جیسے ان میں کوئی بجلی کوند گئی ہو۔ بیشتر مقامات پر یہ جشن احتجاج اور نعرے بازی میں بھی تبدیل ہوگیا جن میں ''سیاسی قیدیوں کو رہا کرو'' الوداع الوداع احمدی الوداع جیسے نعرے شامل تھے۔ عوام کی اس نوعیت اور شدت کی مداخلت نے مکمل طور پر ایرانی حکمران طبقات کے منصوبوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔
روحانی نے ایک سر چڑھے رہنما کی طرح نوجوانوں سے پر جوش خطابت کے باوجود یہ کوشش بھی کی کہ عوام کا جوش و جذبہ کسی طور کسی تحریک کی صورت نہ اپنالے۔ اپنی ساری مہم کے دوران وہ خود کو نئی نسل کا نمائندہ قرار دیتے رہے اور الیکشن کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں اس نے اپنی فتح کو ''دانش، جدت، ترقی، شعور، استقامت، شدت پسندی اور بے راہ روی کے خلاف رواداری و شائستگی کی فتح قرار دیا، لیکن اس سب لفاظی سے الگ تھلگ اس کے جلسوں میں شریک ہونے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ ایک واضح اشارہ کرتے ہیں کہ سطح کے نیچے لوگ اب دوبارہ طاقت حاصل کرچکے ہیں۔ لوگوں کا یہ دیوہیکل دباؤ ہی ہے جو حکمران طبقات کو آپس میں سر پھٹول پر مجبور کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو ہر قسم کے جبروتشدد کے ذریعے نیچے سے لوگوں کی تحریک کو کچلنے کا کہہ رہے ہیں تو دوسری جانب وہ جو اصلاحات کرکے لوگوں کا اضطراب اور غم و غصہ کم کرنا چاہ رہے ہیں۔ درحقیقت دونوں درست سمجھ رہے ہیں۔
حکمران ایسی حالت میں ہیں کہ ان کے پاس اب سازش اور منصوبہ بندی کی گنجائش کم رہ گئی ہے۔ صورت حال میں نئی نسل کی شمولیت مستقبل میں ممکنہ انقلابی ابھار کا واضح اعلان ہے۔ نوجوان ہی کسی سماج کا بیرومیٹر ہوا کرتے ہیں اور یہاں وہ اپنا انقلابی رجحان اور مزاج دکھا بھی چکے یہں۔ فطری طور پر وہ اپنا اظہار جمہوری طور طریقوں سے کریں گے۔ اس کے علاوہ راستہ بھی کیا ہے؟ ایک دم گھونٹ کے رکھ دینے والی آمریت اور کسی انقلاب کی نام لیوا تنظیم کی غیر موجودگی میں انقلاب کی آرزو مند نئی نسل کے پاس چارہ ہی کیا بچتا ہے؟ فی الوقت عوام روحانی کے گرد جمع ہوئے ہیں کہ اور کوئی متبادل ہی دستیاب نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اب لوگوں کو اصلاح پسندی کے اسکول سے سبق حاصل کرنے ہیں۔
روحانی عوام کا نہیں، بازار نجی سرمائے اور لبرل سرمائے کا نمائندہ ہے۔ اس کا تانا بانا ایران کی بوسیدہ حکمرانی سے مرتب شدہ جس کا عوام سے کسی طور کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ چاہتے تو بھی صورت حال کو نہیں بدل سکتا۔ ایران پر عائد پابندیاں جن کے ختم ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے، ان کی وجہ سے ایرانی حکمران اب بیتابی سے چین کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن چین کی اپنی معاشی ترقی سستی اور پسپائی کی کیفیت میں جاری ہے۔ روحانی کے لیے سب سے بہتر راستہ یہی ہوسکتا ہے کہ روحانی ایک''قومی مفاہمت'' کی حامل حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے جس کے ذریعے مغرب کے ساتھ تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے کسی حد تک ایران میں جمہوری حقوق بحال کیے جاسکتے ہیں۔ ایسا کرکے روحانی کچھ وقت تو اپنے لیے حاصل کرلے گا لیکن اس سے کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہوگا۔
ایران کے تیل کے ذخائر پر حکمرانوں کی لوٹ مار اور اس پر جھگڑے برقرار رہیں گے۔ عوام کا جہاں تک تعلق ہے، شاید انھیں سانس لینے کو کچھ کھلا ماحول میسر آئے جس دوران انقلابی تحریک خود کو ازسرنو منظم اور مرتکز کرلے۔ لیکن جلد یا بدیر، شاید جلد ہی، روحانی نوجوانوں سے غداری کرے گا اور انھیں اپنا مخالف کرلے گا۔ ایران کا محنت کش طبقہ ایک شدید کربناک صورتحال سے دوچار ہے۔ افراط زر 100 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ جب کہ عمومی اجرتوں میں صرف 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 40 فیصد آبادی تو روزگار سے ہی باہر ہے اور اگر یہاں کوئی روزگار میسر بھی آجائے تو اس کو مہینوں کیا سالوں بھی اجرتیں ملنے کے آثار نہیں ہوتے۔
عالمی معیشت کی موجودہ بحرانی کیفیت میں کہ جب سبھی مرکزی صنعتوں کو زائد پیداواری صلاحیت کے بحران اور حقیقی سرمایہ کاری میں شدید گراوٹ کا سامنا ہے، روحانی کس طرح سے معاملات سے نمٹ یا ان کو سنبھال پائے گا۔ ایسا ہی تضاد روحانی کو اس وقت اپنی لپیٹ میں لے گا جب وہ جمہوری حقوق پر توجہ دے گا۔ آخری تجربے میں جمہوریت کا سوال روٹی کا ہی سوال ہے۔ جب لوگوں کو روٹی اور روزگار ہی میسر نہیں آئے گا۔ تب کیسے روحانی محنت کشوں، نوجوانوں اور غریبوں کو منظم ہونے اور احتجاج کرنے کا حق دے گا کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کریں اور جمہوری حق کو عوام، حکومت کے خلاف استعمال کریں گے۔چنانچہ یہ بات ناگزیر ہے کہ ایک مرحلے پر پہنچ کر تحریک خود نظام کو اپنا ہدف بنائے گی۔ الیکشن کے نتائج نے حکمران طبقات کی بنیادیں ہلا کے رکھ دی ہیں۔ عوام کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے اور اس کی وجہ سے اپنے پر اعتماد بھی ہے اور یہی وہ واحد اہم ترین عنصر ہے جو آنے والے وقت میں کام دکھائے گا۔ تمام تر کمزوری کے باوجود اس کیفیت نے خامنائی کو اس قدر گھائل کردیا ہے کہ جس کا باآسانی مداوا نہیں ہوسکے گا۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عوام کو سوائے اپنی طاقت کے کسی اور طاقت پر بھروسہ نہیں ہے۔ انھیں لامحالہ پرعزم و منظم رہنا ہوگا اور مستقبل کی جانب پیش قدمی کرنی ہوگی۔ سبھی علاقوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں میں الیکشن کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئیں اور ان سب کو مقامی اور علاقائی سطح پر باہم منسلک و مربوط ہونا چاہیے تاکہ تحریک کے اگلے مراحل کی طرف بڑھا جاسکے۔ ایران کے عوام طویل اور شاندار انقلابی روایات کے امین ہیں۔ اس ہفتے عوا م کی تحریک ملک کے انقلابی مستقبل کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جس کے اثرات مشرق وسطیٰ میں دور تک محسوس کیے جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ یہ ساری دنیا کو متاثر کرے گا۔ یہ ترک عوام کی مزاحمت کو بھی قوت فراہم کرے گا اور اس کی وجہ سے عرب انقلاب میں آیا ہوا جمود بھی ٹوٹ جائے گا جس سے یہاں روشن خیالی کی جدوجہد آگے بڑھے گی۔
کمیونسٹوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ واقعات پر گہری نظر رکھیں اور محنت کشوں، نوجوانوں کے شانہ بشانہ ان کی جدوجہد میں شریک ہوں۔ ہمیں ہر حالت میں نوجوانوں کو سننا چاہیے اور بہت ہی صبروتحمل کے ساتھ ان پر واضح کرنا چاہیے کہ اس متروک اور گلے سڑے نظام کو اکھاڑ کر ہی انھیں آزادی مل سکتی ہے جس کے لیے وہ نجانے کب سے جستجو اور جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایران میں وہ دن بہت جلد آنے والا ہے۔