افغانستان سے امریکا کی واپسی
شام سے امریکی فوج کے انخلا کا فیصلہ شاید اتنی جلدی عملی صورت اختیار نہ کرسکے
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر مقرر ہونے کے بعد امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں اس وقت موڑ آیا جب انھوں نے ہماری حکومت سے امداد کا حساب مانگا ۔ اُس وقت بھارت اور امریکا کے تعلقات انتہائی تیزی سے بڑھ رہے تھے ، خطے کی سیاسی صورت حال میں تبدیلی آ رہی تھی اور پاک روس تعلقات بھی نئے دور میں داخل ہو رہے تھے ، ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی معاہدے ہو رہے تھے، دونوں ممالک کی افواج مل کر مشقیں کر رہی تھیں اور داخلی وخارجی سطح پر یہ تاثر بھی زائل ہو رہا تھا کہ پاکستان کے انتہائی قریب واقع روس کے بجائے ہم سات سمندر پار بسنے والے امریکا کے زیادہ قریب ہیں۔
حکومت نے پرانے تعلقات پر تکیے کے بجائے نئے راستوں کی تلاش شروع کردی اور ہم امریکا کے نئے دشمن چین کے ساتھ اُس کے روایتی دشمن روس کے بھی زیادہ قریب آگئے۔ امریکا سے تعلقات کی مخالفت کرنے والوں کا ایک بہت بڑا حلقہ قیام پاکستان کے فورا بعد سے ہی یہاں موجود تھا ،جس سے اختلاف رکھنے والے دائیں بازو کی سیاست دان اور دانشور اسے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے چلے آ رہے تھے ۔ جب حالات نے کروٹ بدلی تو امریکا سے دوستی کا دم بھرنے والا یہ حلقہ بھی اسی مقام پر پایا گیا جس سے پیچھے ہٹنا چند سال قبل اُس کے لیے ناممکن تھا اور بدلتی ہوئی صورت حال میں ہماری خارجہ پالیسی کے لیے بھی ضروری ٹھہرا کہ نہ صرف روس اور چین سے اپنے تعلقات برقرار رکھے جائیں بلکہ امریکا سے بھی تعلقات میں اتنی دوری پیدا نہ ہوکہ بعد میں کم نہ کی جا سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی قیادت سے ملنے کی خواہش کا اظہار توکیا مگر اس کے ساتھ ایک دفعہ پھر اُس امداد کا بھی ذکر کیا ہے جو اُن کے بقول پانی کی طرح استعمال کی گئی ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی پالیسیاں جارج بش سینیئر اور جونیئر جیسی ہیں اور نہ ہی کلنٹن اور اوباما جیسی، ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے سابق صدور سے جتنے مختلف ہیں ، اپنے ملک کے لیے ان کی پالیسیاں بھی اتنی ہی مختلف اور حیرت ناک ہیں۔وہ جہاں دوسرے ممالک میں بھیجی گئی اپنی فوجوںکے فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں وہاں روایتی جنگ کے بجائے تجارتی جنگ کو بھی اہمیت دینے لگے ہیں لیکن اس میدان میں چین ان کا سب سے بڑا حریف بن کر سامنے آیا جس کی ابتدا چینی درآمدات پر ٹیرف میں اضافے کے بعد ہوئی یہاں تک کہ دونوں ممالک کے تعلقات سرد جنگ سے بھی زیادہ خطرناک موڑ تک جا پہنچے ۔ اس صورتحال میں اگر امریکا کی طرف سے پاکستان کے حق میں ایک سرسری سا نرم بیان سامنے آتا ہے تو اس پر زیادہ خوش ہونے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ افغانستان سے باہر نکلنے کے لیے امریکا کو جن ممالک کی سب سے زیادہ ضرورت پڑسکتی ہے ان میں پاکستان کا نام سر فہرست ہے ۔
شام سے امریکی فوج کے انخلا کا فیصلہ شاید اتنی جلدی عملی صورت اختیار نہ کرسکے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے موجودہ بیانات سے اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ انھیں افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کی کتنی جلدی ہے۔ اس خطے میں لڑی جانے والی جنگ کو اب تک امریکا نظریاتی جنگ کا نام دے کر روس ، افغانستان اور پاکستان کوکافی نقصان پہنچا چکا ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ ایسے کاروباری شخص کی صورت میں سامنے آئے جو نظریات سے زیادہ کاروبارکو اہمیت دیتے ہیں ۔ وہ روز اول سے ہی یہ حساب کر رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجی جانے والی امریکی فوجوں کی وجہ سے ان کے ملک کو کس قدر مالی خسارہ ہوا اور اگر یہ فوجیں دور دراز ممالک سے واپس بلا لی جائیں تو اس سے کتنا فائدہ ہوگا ۔ نتیجے میں جہاں اُن کی مقبولیت کا گراف گرا ہے ، وہاں ان کے تین اہم عہدے دار مستعفیٰ بھی ہو چکے ہیں۔
اس خطے کے بہت سارے غیر جانب دار تجزیہ کار اور خود امریکا کے کئی سیاسی وسماجی کارکن طویل مدت سے یہ سوال کر رہے تھے کہ سات سمندر پار بیٹھے امریکا کو ایسی کیا تکلیف ہے جو وہ افغانستان، مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیاء اور دنیا کے دوسرے ممالک میں مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی افواج بھیج رہا ہے یا دفاعی اڈے بنا رہا ہے۔ جب دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی اور معاشی صورت حال میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو ان کی زبان پر بھی پہلی دفعہ یہی سوال آیا کہ چھ ہزار میل کی دوری پر بیٹھ کر ہمیں کسی ملک کے حالات ٹھیک کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں موڑ آنے کے بعد ہماری خارجہ پالیسی کو ایک نیا راستہ تو دکھائی دیا ، مگر اس راستے میں موجود غیر سرکاری تنظیموں کے ایسے سماجی اور ترقیاتی پروجیکٹ بھی بند ہوگئے جو طویل مدت سے امریکا کی فنڈنگ سے کام کر رہے تھے اور ان اداروں کے سربراہان کے دوروں میں بھی کمی آئی جو اکثر ہمارے مہمان بنتے تھے۔ امریکا کو ماضی میں ہونے والی تباہی کا ملبہ ٹھکانے لگانے سے قبل ہی یہاں سے راہ فرار حاصل کرنے کی جلدی تو ہے، مگراس سلسلے میں وہ جن ممالک کی امداد چاہتا ہے ، ان میں سے کچھ کے تعلقات اس سطح پر نہیں کہ ایک دوسرے پر اعتماد کر سکیں اور اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ افغانستان سے جانے کے بعد امریکا اپنے وعدوں پر پورا اترے ۔
بھارت اور امریکا میں تعلقات کا نیا دور شروع ہوا تو وہاں کی حکومت نے یہ ثابت کردیا کہ وقت پڑنے پر پون صدی پرانے دوستوں کو چھوڑ کر نئے ممالک سے بھی دوستی کی جاسکتی ہے، مگر اُس کے نئے دوست نے بھارتی وزیر اعظم کی لائیبریری اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کا مذاق ا ڑا یا تو حزب اختلاف اور حزب اقتدار پہلی بار اس مخالفت کی صورت میں ایک پیج پر نظر آئے اور یہ بات بھی عیاں ہوئی کہ امریکا کسی بھی ملک میں اسلحہ بیچنے کی دکان توکھول سکتا ہے، مگرکتابوں کی دکانیںاور سماجی وثقافتی تعلقات اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔ ماضی میں پاک امریکا دوستی بھی اسی دائرے تک محدود رہی اور آدھی صدی گزرنے کے باوجود عام پاکستانی یا امریکی ایک دوسرے سے اتنے ہی دور رہے جتنی دوری کا ذکر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا ۔
امریکا افغانستان سے واپس جانا چاہتا ہے لیکن دوستی کے نام پر بھارت میں اُس کی موجودگی کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس حوالے سے افغانستان میں اُس کا اثر رسوخ کم ہوگا۔ واپسی سے پہلے امریکا طالبان ، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ بھی رابطے میں رہا ۔اس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد طالبان سے تین ملاقاتیں کرچکے ہیں مگر چوتھی ملاقات سے قبل طالبان نے مذاکرات کے ایجنڈے پر اختلاف کرتے ہوئے مذاکرات سے انکارکردیا ۔اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان سے امریکا کے انخلا کی صورت میں طالبان کے مختلف دھڑے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو پائیں گے ؟مستقبل میں اس بدنصیب ملک میں امن و امان کی فضاء قائم ہو پائے گی اور پچھلی دو دہائیوںکے دوران افغان معاشرے کے بہت زیادہ قریب آنے والے ملک بھارت کا یہاں کیا کردار ہوگا؟