آلات اور آیات

عروج پر تھی۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کے عمل نے سرمایہ داروں کو خوفزدہ کردیا تھا...


[email protected]

اس کالم کا عنوان یوں بھی ہوسکتا تھا ''پاکستانی اشرافیہ نئی صدی میں'' عوام کے لیے بھوک تخلیق کردینے والا طبقہ خوف کی زد میں آگیا ہے۔ جوں جوں اہل زر سے واسطہ پڑتا ہے ویسے ویسے علم ہوتا ہے کہ اب ان کی گفتگو کے موضوعات بدل گئے ہیں۔ پہلے بنگلوں گاڑیوں اور فیکٹریوں کی بات ہوتی اور پھر ہیرے جواہرات، سرمایہ کاری اور پوش علاقوں میں زمینوں کی قیمت ان کا موضوع گفتگو ہوتی۔ امرا کی بستیوں میں خواتین کی بے باکیوں، غیرملکی دوروں سے ہوتے ہوئے بچوں کے امریکی تعلیمی اداروں میں مسائل زیربحث ہوتے۔ اب کراچی میں ان کی گفتگو کا رخ بدل گیا ہے۔

ایک عزیزہ کے انتقال پر قبرستان جانے کا موقع ملا۔ بدقسمتی ہے کہ اب ہماری رہائشی بستیوں کی طرح تدفین کے مقامات میں بھی طبقاتی فرق پیدا ہوگیا ہے۔ علاج کے لیے اسپتال، پینے کے لیے پانی، بچوں کے لیے اسکول اسی طرح بدل گئے ہیں جس طرح بازار اورمارکیٹیں امرا وغربا کے لیے الگ الگ ہوتی ہیں۔ ایک مزاح نگار نے لکھا تھا کہ ''غریب نوجوان اس وقت امیروں کے شاپنگ سینٹر پر جاتا ہے جب وہ اپنی محبوبہ کو خریداری کروا رہا ہوتا ہے جب کہ امیر آدمی غریبوں کی مارکیٹ میں اس وقت آتا ہے جب اسے اپنے غریب رشتے دار یا ملازم کی بیٹی کی شادی کے لیے شاپنگ کرنا ہوتی ہے۔''

بچپن میں جب برادری کی عید ملن یا کسی پروگرام میں شرکت کا موقع ملتا تو جگ اور گلاس لیے ایک شخص پیاسوں کو پانی پلاتا۔نلکے کا پانی سب پیتے اورکسی کوکچھ نہ ہوتا۔ ان میں بڑے بڑے سرمایہ دار بھی ہوتے اور عام کلرک و مزدور بھی۔ ایک ہی صف میں محمود وایازکھڑے نظر آتے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں معاشرتی فرق کس طرح آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اورآج بھوک وخوف کی الگ الگ بستیوں کے مناظر پیش کر رہا ہے۔

ایوب خان کا دور پاکستان کی معاشی ترقی کا دور تھا۔اس دور تک امیروں کی بستیاں اس طرح نہ بسی تھیں اور گاڑیاں بھی اکا دکا ہوا کرتی تھیں۔ سرمایہ دار کا لباس ایسا ہوتا تھا کہ پتہ نہ چلتا کہ اس کا کتنا بینک بیلنس ہے۔ اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی ہو تو پک رہی ہو لیکن باہر اتنا زیادہ محسوس نہ ہوتا تھا۔ یہ ضرور تھا کہ اسپورٹس بائیک پر مستیاں کرتا اورگاڑیوںمیں نظر آتا پاسپورٹ رکھنا چھچھورے امیروں کی عادت ہوتی لیکن اکثریت دکھاوے سے گریز کرتی۔بنگالیوں کی سادگی کا دباؤ تھا ہم ایک حد میں رہتے تھے۔ بھٹو کے دور میں سرمایہ دار اور غریب کی طبقاتی کشمکش عروج پر تھی۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کے عمل نے سرمایہ داروں کو خوفزدہ کردیا تھا۔ ان کی اکثریت انڈسٹری سے بزنس میں آگئی۔

پھر روسی کمیونزم کی شکست اور چین کی ملی جلی معیشت کی پالیسی نے سرمایہ داروں کو حوصلہ بخشا۔ یوں ان کی اکثریت سادگی سے نکل کر دکھاوے کی سڑک پر آگئی۔ شوبازی کے اس منہ زورگھوڑے نے سرپٹ دوڑنا شروع کردیا۔ ایک بار پھر ان کی گفتگو کے موضوعات بدل گئے ہیں۔ صدی کے آخری پندرہ بیس برسوں میں ان کے وہ موضوعات ہوتے تھے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ اب گفتگو کیسی ہوتی ہے؟ یہ دلچسپ بھی ہے اور عبرتناک بھی۔ آج یہ کراچی کی صورت حال ہے لیکن اگر ہوش کا دامن نہ تھاما گیا تو کل ایسی ہی گفتگو لاہور، پشاور ، اسلام آباد اور فیصل آباد کے بنگلوں، کلبوں، فیکٹریوں حتیٰ کہ قبرستانوں میں بھی ہوا کرے گی۔ وہ گفتگو جو راقم نے اپنی ایک رشتے دار کے انتقال پر امرا کے منہ سے سنی۔

دیواروں کی اونچائی، سیکیورٹی گارڈز کا تقرر، گلیوں میں لوہے کے جنگلے میں آج جابجا نظر آتے ہیں۔ واک کے لیے جائیں یا فیکٹری و کلب سے گھر واپس آئیں تو ڈر کے کہیں کوئی گاڑی تو پیچھا نہیں کررہی۔ ماحول کتنا بدل گیا ہے۔ اس کا اندازہ کراچی میں پارسیوں کی کالونی کو دیکھ کر ہوسکتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اس بستی کے بنگلوں کی دیواریں ڈھائی تین فٹ اونچی ہوا کرتی تھیں۔ اجڑے مکانات میں آج بھی یہی ہے جب کہ زندہ لوگ اپنی زندگی میں اضافے کی خاطر دیواروں کی اونچائی میں اضافہ کروا رہے ہیں۔ ایوب، بھٹو اور ضیا ادوار سے ہوتا یہ معاشرتی فرق صدی کے آخری عشرے میں انتہا تک پہنچ گیا۔ بھوک تخلیق کرنے والے طبقے کو خوف کی چادر کیوں کر اوڑھنی پڑی؟ اب ان کی گفتگو کن موضوعات پر ہوتی ہے؟

''فرزانہ کی کہانی استانی کی زبانی''اشفاق احمد کا شاہکار ڈراما تھا۔ایک اسکول ٹیچر اپنی نوجوان بیٹی کے ساتھ ایک بنگلے کے کوارٹر میں رہنے آتی ہیں۔ایک طرف غریب استانی تنکا تنکا جمع کرکے اپنی بیٹی کے لیے جہیز جمع کر رہی ہوتی ہے۔کبھی وہ استری لے آتی تو کبھی کوئی چادر،کبھی کانوں کے بندے تو کبھی کپڑے کا جوڑا۔ دوسری طرف بنگلے میں شادی کے ٹھاٹھ باٹھ وہ نوجوان لڑکی دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اسے یہ طبقاتی فرق نظر آرہا ہوتا ہے۔ ماں جہیز کا سامان چوروں سے چھپا چھپا کر رکھتی ہے۔فرزانہ اپنی ماں سے کہتی ہے کہ ''نہ تیری بیٹی کی قدر ہے اور نہ پیٹی کی'' بنگلے کے سربراہ کی ماں اسے سمجھاتی ہے کہ غریبوں کو نہ جلا۔ وہ کہتا ہے کہ میں تو کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ وہ لڑکی دماغ کی نس پھٹ جانے سے مرجاتی ہے۔ استانی بنگلے والوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروانے تھانے جاتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں تعزیرات پاکستان کی کتاب ہوتی ہے۔ پولیس افسر ایک غم زدہ ماں کو سمجھاتا ہے کہ قانون اس طرح اہل زر پر لاگو نہیں ہوتاکہ ان کی دولت کی نمائش سے کوئی غریب مرجائے۔ وہ مقدمہ درج کروائے ۔ احمد مرحوم ایک دانشور تھے جو ہمیں صدی کے آخری عشروں میں سمجھا گئے تھے کہ یوں نہ کرو۔ ہم نہ مانے اور دولت کی نمائش سے نہ رکے۔ آج نتیجہ دیکھیے کہ موضوعات کے ساتھ انداز زندگی کس طرح بدل گیا ہے۔

خوفزدہ سرمایہ دار ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ان کے بچے دبئی، لندن، کینیڈا میں تو وہ خود جائیداد وکاروبار کی دیکھ بھال کے لیے پاکستان میں رہتے ہیں۔ اب مجبوراً گھروں کی بیرونی تعمیرات میں سادگی، چھوٹی گاڑیوں کا استعمال تو مہنگے کے ساتھ سستے موبائل فون۔گفتگو قبرستان کی ہورہی تھی کہ اب اشرافیہ اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ پڑھنے نہیں جاسکتے کہ اغواء ہونے کا ڈر ہے۔ ہزاروں امرا چند گھنٹوں کے اغواء کے بعد چند لاکھ دے کر آجاتے ہیں، اس طرح کہ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو۔کئی دن اغواء کی اذیت سہہ کر اورکروڑوں کا تاوان ادا کرنے والوں کی الگ کہانی ہے۔ وہ چند ہزارکا اشتہار دیتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں کہ ان کا نام کہیں اغواء کاروں کی فہرست میں نہ آجائے۔ اب گفتگو کے موضوعات تحفظ کے گرد گھومتے ہیں۔ قرآن نے چودہ صدیوں قبل سورہ قریش اور کئی مقامات پر خوف اور بھوک کے اصول سمجھا دیے ہیں۔آج کا سرمایہ دار سادگی اختیار کر رہا ہے تو اسلحے کے آلات دیکھ کر۔کاش! یہی کچھ وہ کرلیتے قرآن کی آیات دیکھ کر۔ وہ غریبوں کے لیے رمضان اور تہواروں پر مہنگائی کرکے بھوک تخلیق نہ کرتے تو ان کے لیے خوف تخلیق نہ ہوتا۔ اسے المیہ ہی کہیں گے۔ المیہ پاکستانی اشرافیہ کا۔ آلات کو سمجھنے اور آیات کو نہ سمجھنے کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں