بیل اور بکری

عمردین گاؤں کا سب سے زیادہ سمجھ دار، ہوشیار،ذہین اورمعاملہ فہم آدمی تھا ۔ مشکل اور پیچیدہ معاملات میں...

s_nayyar55@yahoo.com

PESHAWAR:
عمردین گاؤں کا سب سے زیادہ سمجھ دار، ہوشیار،ذہین اورمعاملہ فہم آدمی تھا ۔ مشکل اور پیچیدہ معاملات میں گاؤں کے لوگ اسی سے مشورہ کیا کرتے، لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ عمر دین ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ عیار بھی تھا ۔ طلسم ہوشربا کے معروف کردار عمروعیار(اس کو پڑھتے ''امر عیار'' ہیں لکھنے میں عمرو آتا ہے) کی طرح اس کی نادیدہ زنبیل میں بھی دنیا کے ہر پیچیدہ مسئلے کا حل موجود تھا ۔ ایک مرتبہ اس کی وہ بکری گم ہوگئی جو سب بکریوں سے زیادہ دودھ دیا کرتی تھی ۔ عمر دین نے پورے دن اسے تلاش کیا ،گاؤں کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن بکری کا سراغ نہ ملا ۔ آخر وہ گاؤں کے چیدہ چیدہ سیانوں کو ساتھ لے کر پہاڑی پر موجود گاؤں کے واحد مزار پیر صاحب کی قبر پر حاضر ہوا۔ پیر صاحب کی قبر برصغیر کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود ہے ۔ ان پیر صاحب کی قبر کی لمبائی بہت زیادہ ہے ۔ان کی سب سے بڑی کرامت تو یہی ہے کہ ان کے بے شمار مزارات موجود ہیں ۔

بہرحال عمر دین پیر صاحب کے مزار پر حاضر ہوا اور منت مانی '' پیر صاحب ! اگر میری گمشدہ بکری آپکی دعا سے مجھے واپس مل گئی تو میں آپکی خدمت میں ایک نوجوان اور صحت مند بیل نذر کروں گا '' منت مان کر عمر دین جیسے ہی پہاڑی سے نیچے اترا تو گاؤں کے سیانوں نے اسے کہا '' بے وقوف یہ کیسی منت مان لی تو نے ؟ ایک بکری ملنے کے عوض ایک بیل پیر صاحب کی نذر کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟'' عمر دین مسکرایا اور دبی دبی آواز میں بولا '' یاروں تم بکری تو مل جانے دو '' ۔ منت ماننے کے تیسرے روز ہی عمر دین کی بکری برابر والے گاؤں سے بازیاب ہوگئی ۔ وہ دوسرے گاؤں کی بکریوں کے ریوڑ میں شامل ہوکر غلطی سے وہاں پہنچ گئی تھی ۔ عمر دین اور اس کی بکری اب اتنی بھی غیر معروف نہ تھی کہ پڑوس کے گاؤں والے اسے نہ پہچانتے ۔

لہذا وہ خود بکری کو عمر دین کے حوالے کر گئے ۔ اس دوران گاؤں کا بچہ بچہ عمر دین کی منت سے واقف ہوچکا تھا ۔ بکری کے ملتے ہی ''رائے عامہ '' کا دباؤ عمردین پر مسلسل بڑھنے لگا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق اب پیر صاحب کی خدمت میں بیل نذر کرے ۔ عمر دین نے جواب دیا '' بھائیو ! میں اپنا وعدہ ہرگز نہیں بھولا ہوں، لیکن بیل دینے کے لیے میں نے پیر صاحب سے کسی مدت کا تعین نہیں کیا تھا ۔ جیسے ہی میرے مالی حالات بہتر ہوں گے میں منڈی جا کر بیل خرید لاؤں گا اور پیر صاحب کی نذر کر دوں گا ۔ فی الحال تو میری پوزیشن یہ ہے کہ بکری نہ ہونے کے باعث میرے بچے دودھ کے لیے دو دن سے بلک رہے تھے ۔ گھر میں آٹا اور چاول موجود نہیں ہے ۔ میرے جوتوں کے تلے میں تین تین سوراخ موجود ہیں اور میرا لباس تو تم دیکھ ہی رہے ہو کہ اس میں کتنے پیوند لگے ہوئے ہیں ۔ آپ لوگ اور پیر صاحب خاطر جمع رکھیں میں بیل ضرورنذر کروں گا ، لیکن کب ؟ اس کا حتمی وعدہ کرنے کی پوزیشن میں ، فی الحال میں نہیں ہوں ۔ آپ لوگوں سے میری درخواست ہے کہ براہ کرم آپ صبر سے کام لیں ، بیل بھی آجائے گا ۔''


اگر آپ سیاستدانوں کو عمر دین ۔ خود کو یعنی عوام کو پیر ، کیونکہ عوام بھی اس ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر ، قصبے اور گاؤں میں موجود ہیں ۔ بکری کو اقتدار اور بیل کو عوامی خوشحالی کے وعدے سمجھ لیں تو 2013 کے انتخابات کا پس منظر اور انتخابات کے بعد کا یعنی بکری مل جانے کے بعد کا موجودہ منظر بڑی آسانی سے آپ کی سمجھ میں آجائے گا ۔ اور آپ یہ بھی سمجھ جائیں گے کہ الیکشن جیتنے کے بعد ہمارے حکمران بیل دینے کے بجائے آئی ایم ایف سے 5 ارب 30 کروڑ ڈالر کا '' بیل آوٹ پیکیج '' کیوں مانگ رہے ہیں ؟ یہ درست ہے کہ نئی حکومت کو سو دن سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے پروگرام پر اطمینان کے ساتھ عمل درآمد کرسکے ۔ اور سو دن میں نئی حکومت کے اقدامات کا نتیجہ ، حکومت کے خدوخال ابھار کر سامنے لے آتا ہے ۔

لیکن یہاں تو نئی حکومت کے ابتدائی ایام ہی عوام پر قیامت ڈھا گئے ہیں ۔ اور سو دن کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ پی پی پی حکومت کا دور عوام کو سنہری اور پرویز مشرف کا دور حکومت سنہری ترین لگنے لگے گا ۔ کہاں تو کشکول توڑنے کے وعدے تھے اور بکری یعنی اقتدار ملتے ہی بقول بابر اعوان '' اسٹیل '' کا کشکول لے کر وزیر خزانہ صاحب آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں ۔ اس پر انداز تفاخر بلا خطہ فرمائیے ''اپنی شرائط پر قرضہ لیں گے '' کبھی بھیک بھی کسی فقیر کو اس کی شرائط پر ملی ہے ؟ خدا کے لیے عوام کو بے وقوف بنانا چھوڑیں اور ان لوگوں سے ٹیکس وصول کریں ، جن کے بچے امریکا اور یورپ کی مہنگی ترین درسگاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ان لوگوں کی آمدنی کا سراغ لگائیے ، جن کے پاس گھر کے ہر فرد کے لیے جدید ترین ماڈل کی کار موجود ہے ۔ ان لوگوں کی آمدنی معلوم کیجیے جن کے پاس ہزار گز کے مکانات ملک کے تقریباً ہر بڑے شہر میں موجود ہیں ۔

ان لوگوں کی سراغ رسانی کیجیے ، جو صبح کا ناشتہ کراچی میں کرتے ہیں اور پھر بزنس کلاس میں سفر کر کے دوپہر کا کھانا لاہور یا اسلام آباد کے کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں تناول فرماتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہوگا ۔ یہ لوگ اپنے بچوں کی یورپی درسگاہوں میں موجودگی چھپا نہیں سکتے ۔ یہ اپنے سفر کی تفصیلات حکومت کی نظر سے اوجھل نہیں رکھ سکتے ۔ گاڑیاں اور مکانات بے نامی ہوسکتی ہیں، لیکن طرز زندگی تو چھپائے نہیں چھپتا ۔ ایف بی آر کے ان ملازمین کا سراغ لگائیے جو ان لوگوں سے ٹیکس لے کر اپنی ذاتی الماری میں کیش کی گڈیاں سجاتے ہیں اور ان لوگوں کو کلین چٹ جاری کردیتے ہیں ۔

ایسے لوگوں کے لیے مہنگی بجلی ، گیس اور موبائل فون کی کال میں اضافہ کیا معنی رکھتا ہے ؟ یہ لوگ گرمیوں کی چھٹیاں مع اہل و اعیال سوئٹزرلینڈ میں کیسے گزار آتے ہیں ؟ اور حکومت کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ہے ۔ حبیب اللہ کہتے ہیں '' کون کہتا ہے کہ حکومت کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔ حکمرانوں کی تو خود ان ٹھنڈے ملکوں میں ان لوگوں سے '' آنکھوں آنکھ '' ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ ان میں سابق اور حاضر سروس حکمرانوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔'' اب تو سپریم کورٹ نے بھی این آئی سی ایل اسکینڈل کیس میں کہہ دیا ہے کہ سابق اور موجودہ حکومت کے طور طریقے یکساں ہی نظر آتے ہیں ۔ قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی اپنا کر دنیا کا کوئی ملک آج تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکا ہے ۔ میاں صاحب عوام نے آپکو بکری دے دی ہے اور اب بیل کے منتظر ہیں ۔ بیل دیجیے ۔ عمر دین کی طرح تاویلات نہ پیش کیجیے ۔
Load Next Story