اپنے تقسیم اسکوائر کی تلاش میں
دنیائے اسلام کے دو چوک ان دنوں بہت ابھر کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ چوک تو ہم نے اپنی سہولت کے لیے...
دنیائے اسلام کے دو چوک ان دنوں بہت ابھر کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ چوک تو ہم نے اپنی سہولت کے لیے کہا ہے ورنہ وہ تو اسکوائر کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ تقسیم اسکوائر اور التحریر اسکوائر۔ ایک ترکی کے شہر استنبول میں ہے۔ دوسرا مصر کے مرکزی شہر قاہرہ میں۔ التحریر اسکوائر شاید زیادہ ہنگامہ پرور ہے۔ تھوڑے عرصے میں اس نے دو انقلاب کر دکھائے۔ آگے وہ کونسا رنگ دکھاتا ہے۔ جو فارغ ہوئے ہیں وہ فارغ ہو کر بیٹھنے والے تو نہیں۔
مگر ہمیں تقسیم اسکوائر کا نقشہ زیادہ دلچسپ نظر آ رہا ہے۔ شروع ہی سے اس چوک نے اپنے انفرادی رنگ کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ خالص انسانی ہنگامہ نہیں ہے۔ اس میں درخت بھی تو شامل ہیں۔ بلکہ جو تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے وہ درختوں ہی سے وابستہ ہے۔ اور اب پھر ایک درخت کا حوالہ درمیان میں آ گیا۔ نوبل انعام یافتہ ترک ناول نگار اوران پامک کو اس حوالے سے ایک اور درخت یاد آ گیا۔ انھوں نے اس ذیل میں جو بیان جاری کیا ہے اس میں انھوں نے اپنے آبائی مکان کا ذکر کیا ہے۔ کہیں تقسیم اسکوائر کے آس پاس ہی وہ اپارٹمنٹ ہیں جو پامک اپارٹمنٹ کہلاتے ہیں۔
بتاتے ہیں کہ ان اپارٹمنٹ کے سامنے ایک بلند و بالا شاہ بلوط کا درخت کھڑا تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ارباب شہر نے اس نواح کے درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا جب اس درخت کی باری آئی تو پامک اپارٹمنٹس کے سارے مکین باہر نکل آئے۔ پوری رات انھوں نے اس درخت کی چوکسی میں گزری۔ اس طرح وہ اپنے درخت کو بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی یاد ہی ہمارے خاندان کے اتحاد کی ضامن بنی ہوئی ہے۔ پھر انھوں نے ٹکڑا لگایا کہ تقسیم اسکوائر بھی اپنی جگہ شاہ بلوط کا درخت ہے۔ استنبول کے سب ہی باسی اس سے بہت پیوست ہیں۔ وہ اس درخت کو آسانی سے کٹنے نہیں دیں گے۔ اسے بچانے کی کوشش میں وہ اپنی جانوں پر کھیل جائیں گے۔
اس پر ہمیں ہندوستان کی چپکو تحریک یاد آ گئی۔ آپ جانیں کہ کسی ایک ملک کی تخصیص نہیں یہ پورا صنعتی عہد جس میں ہم سانس لے رہے ہیں درخت دشمن ہے۔ تو ملک ملک یہ مسئلہ پیدا ہو رہا ہے کہ درختوں کو درخت دشمنوں کی دستبرد سے کیسے بچایا جائے تو ہندوستان میں بھی ایک وقت میں ایک علاقے میں ایسا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ وہاں کے باسیوں نے مزاحمت اس طرح کی کہ درختوں سے چپک کر کھڑے ہو گئے۔ درخت کاٹتے ہو تو لو ان کے ساتھ ہم پر بھی آرا چلا دو۔ اس طرح انھوں نے اپنے درختوں کو بچایا۔
خیر درختوں کی بات تو ہوتی رہے گی۔ ہم ادھر اس سوچ میں ہیں کہ کیا پوری اسلامی دنیا میں یہ دو ہی اسکوائر ہیں۔ سعودی عرب میں بھی کوئی التحریر اسکوائر یا تقسیم اسکوائر ہے۔ ہوتا تو اس کی کچھ سن گن تو ملتی۔ اور کسی عرب ملک میں، شاید نہیں۔
ہم نے جب اپنی پچھلی تاریخ پر نظر دوڑائی تو اچانک شاہجہانی مسجد کی سیڑھیاں ہمارے دھیان میں آئیں۔کیا خوب سیڑھیاں تھیں۔ ہماری مراد ہے سن ستاون سے پہلے۔ وہ زمانہ سیاسی جلسوں جلوسوں' نعروں' مزاحمتی تحریکوں' احتجاجی ہڑتالوں سے یکسر نا آشنا تھا مگر تہذیبی سرگرمیاں بہت تھیں۔ تفریحی مشاغل اور ایسے کتنے مشاغل کا چرچا تھا۔ ان سیڑھیوں پر شعر و شاعری کا چلن بھی اچھا خاصا تھا۔ داستان گو تو بڑے اہتمام سے یہاں محفل آراستہ کر کے داستانیں سناتے تھے۔ پھر لعل پدڑی کے پنجرے' کبوتر' طوطے غرض قسم قسم کے پرندے' ان کا کاروبار پھر کھانے پینے کا مشغلہ ارے جس نے ان سیڑھیوں پر سیخ کباب نہیں کھائے اور حلیم نہیں چکھا، اس نے کیا خاک کھایا اور چکھا۔ اور پھر انھیں سیڑھیوں پر بولے جانے والے روزمرہ سے میرؔ نے اپنے شعر میں ایک لفظ پر سند لی تھی اور معترضین کا منہ بند کیا تھا۔
مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی چوک' کوئی ٹھیا' کوئی نکڑ' کوئی پارک ایک ترقی یافتہ شہر کی ضرورت ہوتا ہے۔ شہر کی روح کو گنجان گلیوں اور بھرے بازاروں سے گزر کر کسی کشادہ جگہ پر کھلی فضا میں سانس لینے کو جی چاہتا ہے۔ اس سے اندر جمع ہونے والے انجرات کی نکاسی ہوتی رہتی ہے۔ ہاں اور یہ مت سمجھئے کہ شاہجہانی مسجد کی سیڑھیوں پر یہی کچھ ہوتا تھا جس کا ذکر ہوا۔ ارے بھائی سن ستاون میں جب انگریزی فوجیں فتحیاب ہو کر دندناتی ہوئی شہر میں داخل ہوئی تھیں تو سب سے بڑھ کر خونیں معرکہ انھیں سیڑھیوں کے سامنے پڑا تھا۔ واقعہ یوں ہے کہ جب فرنگی فوج فتح کا نقارہ بجاتی اس مسجد کے قریب پہنچی تو یکایک مسجد کا بلند و بالا پھاٹک کھلا اور جیالوں کا ایک دستہ تلواریں سونتے سیڑھیوں سے تیزی سے اترا اور اس فاتح فوج پر پل پڑا۔ کہتے ہیں کہ پھر یہاں ایسا رن پڑا کہ فاتحین کو تھوڑے وقت کے لیے تو لینے کے دینے پڑ گئے۔ مگر مغل شہسوار اور بخت خاں کے نمازی تو پہلے ہی میدان ہار چکے تھے۔ جامع مسجد کے یہ شمشیر زن تو بس اتنا ہی کر سکتے تھے کہ اس مسجد اور اس کی سیڑھیوں کی آبرو کو اور خود دلی کی روح کو مفتوح ہونے سے بچا لیتے۔
مگر یہ تو ماضی کا قصہ ہے۔ ارے ہمارے زمانے میں کوئی ایسا نکڑ کوئی ایسا چوک ہے کہ ہم اسے تقسیم اسکوائر کے مقابل پیش کر کے سرخرو ہو سکیں۔ ہاں کسی زمانے میں لاہور میں ایک موچی دروازہ ہوا کرتا تھا۔ سنتے ہیں اب بھی ہے مگر اب تو وہ حیثیت اس کی نہیں رہی۔ پہلے تو اس شہر میں مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز یہی مقام ہوا کرتا تھا۔ موچی دروازے میں برپا ہونے والے جلسوں اور بلند ہونے والے نعروں ہی سے شہر کے سیاسی درجہ حرارت کا پتہ چلا کرتا تھا۔
مگر جب پاکستان بننے کے بعد نئی زندگی نے مال روڈ اور اس کے نواح کو اپنا گہوارہ بنایا تو کیا موچی دروازہ' کیا ریلوے روڈ' کیا اسلامیہ کالج اور انجمن حمایت الاسلام اور عرب ہوٹل سب ماضی کی یادگار بن کر رہ گئے۔
مال روڈ نے بہت زور دکھایا۔ اس پر ہونے والے مظاہروں نے آنسو گیس' لاٹھی چارج' اینٹ کھڑکا' فائرنگ قسم کے سارے رنج کھینچے مگر مال روڈ مال روڈ ہی رہی' ہاں گول باغ کے درختوں نے بھی اپنی لڑائی لڑ کر دیکھ لی۔ ایک وقت میں شہر کی انتظامیہ کے دماغ میں یہ سمائی کہ بلند و بالا درختوں کا صفایا کر کے یہاں جاپان کے ایجاد کردہ بالشت بالشت بھر کے درخت کھڑے کیے جائیں اس پر لاہوریوں کے کچھ جیالوں نے تائو کھایا اور مزاحمتی تحریک شروع کر دی۔ خیر درخت تو جیسے تیسے بچ گئے۔ گول باغ بڑھ کر ناصر باغ بھی بن گیا۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ تقسیم اسکوائر والی شان پیدا نہ کر سکا۔
اس پر ہمارے ایک دوست نے ٹکڑا لگایا کہ ہمارا تقسیم اسکوائر تو شہر سے دور واہگہ بورڈر پر ہی اپنی نمود کر سکتا ہے۔ ہم نے پوچھا' وہ کیسے۔ کہا کہ دیکھتے نہیں سال کے سال یوم آزادی کے موقع پر کچھ دانشور اٍدھر سے اور کچھ دانشور ہندوستان کی طرف سے واہگہ کے قریب آ کر امن کے نام پر چراغ جلاتے ہیں۔ دور دور سے امن کے پیام سلام کرتے ہیں اور رخصت ہو جاتے ہیں۔ آگے چل کر کیا پتہ ہے کہ ایسی صورت بن جائے کہ وہ تقسیم اسکوائر کی شکل اختیار کر لے۔
ہم نے کہا کہ یہ عجیب تقسیم اسکوائر ہو گا کہ آدھا اِدھر' آدھا اُدھر۔ وہ بولا کہ تب ہی تو وہ صحیح معنوں میں تقسیم اسکوائر کہلانے کا حقدار بنے گا۔