بلٹ ٹرین
اردوکامحاورہ ہےکہ’’گھرمیں نہیں دانے،اماں چلیں بھنانے‘یہ محاورہ ہمارےحکمرانوں اورسیاسی قیادتوں پرپوری طرح صادق آتاہے۔
اردوکا محاورہ ہے کہ '' گھر میں نہیں دانے، اماں چلیں بھنانے۔'' یہ محاورہ ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ جوآنکھیں بند کرکے بڑے بڑے دعوے کرتے رہتے ہیں۔حالانکہ ملک کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ پچھلے قرضے کی قسط کی ادائیگی کے لیے اگلا قرض لینا پڑتا ہے۔ منفعت بخش ادارے تباہی کے دہانے تک جاپہنچے ہیںاور اربوں روپے کے بوجھ تلے دبے آخری سسکیاں لے رہے ہیں۔خاص طورپر ریلوے جس کا پورا انفرا اسٹرکچر فرسودگی اور خستگی کی منہ بولتی تصویربنا ہوا ہے اورجوگزشتہ ایک دہائی سے نزاع کے عالم میں ہے۔
وہ محکمہ جس کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہوچکی ہوکہ مال گاڑیاں تو مدت ہوئی بند ہو چکی ہیں،جب کہ مسافر ٹرینیں چلانا بھی مشکل ہورہاہے اور جو قومی خزانے کوفائدہ تو درکنار 10 کروڑ روپے یومیہ کا نقصان پہنچارہاہو ۔ اس کی بوسیدہ اور کارازرفتہ پٹریوں پر ہمارے ملک کے تیسری باروزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کراچی سے لاہور تک بلٹ ٹرین چلانے کے بلندوبانگ دعوے فرمارہے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ اس پہلو پر غور کرنا شاید بھول گئے کہ جس ملک کی قیادتیں 66برس میں لودھراں سے پشاور تک ڈبل ٹریک نہیں کرسکیں،کراچی سے پشاور تک اس فرسودہ ٹریک کووہ پانچ برسوں میں کس طرح جدید ٹریک میںتبدیل کردیں گے کہ اس پر بلٹ ٹرین چل سکے؟
دراصل ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوںمیں مختلف ریاستی محکموں اور شعبہ جات کے بارے میں اپنے طورپرتحقیق کرنے اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کاکوئی تصور نہیں ہے۔یہی سبب ہے کہ اقتدار میں آنے والی ہرسیاسی جماعت بیوروکریسی کی رپورٹس پر تکیہ کرنے پر مجبورہوتی ہے۔جس کی وجہ سے اسے اس محکمہ یا شعبے کے تنظیمی میکنزم اورکارکردگی کے بارے میں صحیح صورتحال کا انداز نہیں ہوپاتا۔باقی شعبہ جات کو چھوڑئیے آج صرف ریلوے پر ہی بات کیے لیتے ہیں۔ہماری کتنی سیاسی جماعتیں ہیں، جو ریلوے کے بارے میں مکمل معلومات رکھتی ہیں؟
کیا کسی سیاسی جماعت نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کراچی سے پشاور تک بچھی پٹریاں اور ندی، نالوںاور دریائوں پر بنے پل کتنے پرانے اور فرسودہ ہیں؟کیا انھیں علم ہے کہ بلٹ ٹرین تو دور کی بات ، دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں عام ٹرین سروس کے لیے اس وقت 120 پونڈفی مکعب فٹ استعداد کی ریلوے پٹری استعمال کی جارہی ہے، جب کہ پورے پاکستان میں آج بھی 80برس پہلے استعمال ہونے والی 80 پونڈ فی مکعب فٹ کی پٹریاںبچھی ہوئی ہیں۔ریلوے میں کتنے ملازمین کی گنجائش ہے اور کتنے لوگ کام کررہے ہیں؟سیاسی اور سفارشی بنیادی پر کتنی اضافی بھرتیاں کی گئی ہیں اوران اضافی بھرتیوں کے محکمہ کی مجموعی کارکردگی اور مالی حالت پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
آج بھی ریلوے سفر اور مال برداری کا سب سے سستا اور سہل ذریعہ ہے۔فوجوں کی نقل حمل اور بھاری اسلحے کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی میں ریلوے سب سے زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے۔1853ء میں جب برٹش انڈیا میں ریلوے لائن بچھانے کا سلسلہ شروع ہوا،تو بیشک انگریز حکمرانوں نے اس کے ذریعے اپنی تجارت کو بے پناہ فروغ دیا اور اس کی وجہ سے اس کی فوجوں کی نقل وحمل میں آسانیاں پیداہوئیں۔ مگر سب سے زیادہ فائدہ مقامی آبادی کو پہنچا، جنھیں سستا ، سہل اور آرام دہ سفر میسرآیااور آج تک میسرہے۔اس کے علاوہ کاروباری طبقے کو ریلوے کی وجہ سے بے پناہ سہولیات حاصل ہوئیں،انھیں اپنا مال انتہائی کم کرایہ پر حفاظت کے ساتھ با آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا موقع ملا،جس سے ان کے منافعے میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
1947ء میں جس وقت انگریز نے برصغیر کو چھوڑا ہے تو اس وقت تک 70ہزار کلومیٹر ریلوے لائن بچھائی جاچکی تھی۔اس کا60فیصد بھارت اور 40 فیصد پاکستان (دونوں بازو)کے حصے میں آیا ۔ آزادی کے بعد1951ء میںبھارت نے سب سے پہلاکام یہ کیا کہ ریلوے کو قومی ملکیت میں لے کر اس کوایک انتظامی یونٹ کی شکل دی۔ اس کے حصے میں1947ء میں 45ہزارکلومیٹرطویل ریلوے لائن آئی تھی، جس میں اس نے مسلسل اضافہ کیا اور دسمبر2012ء کے سروے کے مطابق اس وقت اس کے ٹریک کی مجموعی طوالت ایک لاکھ15ہزارکلومیٹر تک جا پہنچی ہے۔اسٹیشنوں کی کل تعدادساڑھے سات ہزار ہے۔ یوں بھارتی ریلوے اس وقت دنیا کا سب سے وسیع ریلوے نیٹ ورک ہے،جواپنے قومی خزانے میں روزانہ 12کروڑروپے منافع جمع کراتاہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں سوائے حیدرآباد، میرپورخاص سیکٹر کوچھوٹی پٹری(Narrow Guage)سے بڑی پٹری(Broad Guage)کرنے کوئی بڑا کام نہیں کیاگیا۔ بلکہ بعض اہم ٹریکس کواکھاڑدیا گیا۔یوں ورثے میں ملنے والے ٹریک کی لمبائی میں اضافے کی بجائے کمی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو1947ء میںلودھراں سے رائے ونڈ تک اور شاہدرہ سے پشاور تک سنگل ٹریک ملا تھا، مگر کسی بھی حکومت نے اس حصے میں ٹریک کو ڈبل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ایوب خان نے خطیر رقم سے خانیوال سے لاہور تک ریلوے کی الیکٹری فیکیشن کی، جو سنگل ٹریک ہونے کی وجہ سے ناکام ہوگئی اور کروڑوں روپے ڈوب گئے۔ پاکستان میںریلوے کی تباہی کے دیگربھی کئی اسباب ہیں۔
ایک اہم سبب سیاسی بنیادوں پر مطلوبہ تعداد سے زیادہ اور غیر متعلقہ افراد کی تقرریاں ہے، جس کی وجہ سے اس محکمے میں پیشہ ورانہ اہلیت کا فقدان پیداہوا۔دوسرا سبب اندرونی کرپشن اور بدعنوانیاں ہیں۔وزراء سے انتظامی عہدیداروں تک اور اسٹیشن ماسٹروں سے نچلے عملہ تک ہر ایک ریلوے کو شیرِ مادر سمجھتاہے اورجی بھرکر لوٹتاہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نقل وحمل کا یہ سستااور آرام دہ ذریعہ قومی خزانے کو روزانہ10کروڑروپے کا نقصان پہنچارہاہے۔حکمرانوںکی نااہلی ،غفلت اور کوتاہیوں کے سبب تباہی کے اس دہانے تک جاپہنچا ہے کہ کسی بھی وقت بند ہوسکتا ہے۔لہٰذااگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ریلوے شدیدنوعیت کیMismanagementکا شکار ہے، تو غلط نہ ہوگا۔
اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے میں مغلپورہ لاہورکی کیرج فیکٹری آئی تھی۔لیکن اس فیکٹری کی استعداد میں کسی قسم کا اضافہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی،البتہ بھٹو دور میں اسلام آباد میں ایک مزید کیرج فیکٹری قائم کی گئی،جس سے کسی حد تک ملکی ضروریات پوری ہونے لگیں۔جب کہ بھارت کو جمشید پور میں انجن سازی کی ایک فیکٹری ورثے میں ملی تھی۔ اس نے 66 برسوں کے دوران انجن سازی کی مزید چار فیکٹریاں لگالیں۔ جمشیدپورکی فیکٹری جو انگریزوں کے دور میںلوکوموٹو انجن بناتی تھی ،اندرا گاندھی کے دور میں ڈیزل انجن اور راجیو گاندھی کے دور میں الیکٹرک انجن بنانے لگی۔ یہی سبب ہے کہ آج بھارت دنیا کے کئی ممالک کوصرف ریلوے انجن فروخت ہی نہیں کرتا،بلکہ کرائے پر بھی دیتا ہے۔
بے شک موٹر وے، بلٹ ٹرین اور ان جیسے جدید میگا منصوبے قومی ترقی کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت بلٹ ٹرین اس ملک کے90فیصد عوام کا مسئلہ نہیں ہے۔ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ریلوے کے موجودہ ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے۔ٹرینیں وقت پر چلیں اور وقت پر اپنی منزل پر پہنچیں۔یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے پشاور تک ٹریک ڈبل کردیا جائے اور کم از کم120پونڈ فی مکعب فٹ استعداد کی پٹریاں بچائی جائیں۔ندیوں، نالوں اور دریائوں پر بنے پلوں کی مرمت کی جائے جو انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔اس طرح ٹرینوں کی رفتار تیز ہوسکے گی اور ان کے بر وقت منزل پرپہنچنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔اس کے علاوہ انجنوں کی دیکھ بھال اورریل کی بوگیوں میں صفائی ستھرائی اور روشنی کامناسب انتظام بھی ضروری ہے۔سب سے بڑھ کر ریلوے میں ہونے والی کرپشن اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوںپر کنٹرول اور ضرورت سے زیادہ عملے میں تخفیف بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس لیے اگر میاں صاحب بلٹ ٹرین کی نرگسیت سے نکل کر ریلوے کے موجودہ نظام کی درستگی پر تو جہ دیں،توعوام کے 80فیصدکے قریب سفری مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
آج ہمیں جن مسائل کا سامناہے، ان میںسب سے زیادہ اولیت کا حامل مسئلہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے،جس نے پوری قوم کو سولی پرلٹکایا ہواہے۔ دوسرا مسئلہ بجلی کی پیداوار میں مناسب اضافہ ہے، تاکہ ملکی معیشت اپنے پائونوں پر کھڑی ہوسکے اور کم از کم قرضوں سے کسی حد تک نجات مل سکے ۔تیسرا مسئلہ خواندگی کی شرح میں اضافہ اورپورے ملک کے تمام طبقات کے لیے یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کرنے کاہے۔ چوتھا مسئلہ شہروں، قصبوں سمیت دور دراز دیہاتوں تک طبی سہولیات کی فراہمی ہے۔اس لیے میاں صاحب برائے مہربانی بلٹ ٹرین کے سبز باغ دکھانے کی بجائے ملک وقوم کو درپیش اصل مسائل پر توجہ دیں،تاکہ ان سے چھٹکارہ مل سکے۔ وقت آنے پر بلٹ ٹرین تو کیا چاند تک شٹل سروس بھی شروع کی جاسکتی ہے۔
وہ محکمہ جس کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہوچکی ہوکہ مال گاڑیاں تو مدت ہوئی بند ہو چکی ہیں،جب کہ مسافر ٹرینیں چلانا بھی مشکل ہورہاہے اور جو قومی خزانے کوفائدہ تو درکنار 10 کروڑ روپے یومیہ کا نقصان پہنچارہاہو ۔ اس کی بوسیدہ اور کارازرفتہ پٹریوں پر ہمارے ملک کے تیسری باروزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کراچی سے لاہور تک بلٹ ٹرین چلانے کے بلندوبانگ دعوے فرمارہے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ اس پہلو پر غور کرنا شاید بھول گئے کہ جس ملک کی قیادتیں 66برس میں لودھراں سے پشاور تک ڈبل ٹریک نہیں کرسکیں،کراچی سے پشاور تک اس فرسودہ ٹریک کووہ پانچ برسوں میں کس طرح جدید ٹریک میںتبدیل کردیں گے کہ اس پر بلٹ ٹرین چل سکے؟
دراصل ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوںمیں مختلف ریاستی محکموں اور شعبہ جات کے بارے میں اپنے طورپرتحقیق کرنے اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کاکوئی تصور نہیں ہے۔یہی سبب ہے کہ اقتدار میں آنے والی ہرسیاسی جماعت بیوروکریسی کی رپورٹس پر تکیہ کرنے پر مجبورہوتی ہے۔جس کی وجہ سے اسے اس محکمہ یا شعبے کے تنظیمی میکنزم اورکارکردگی کے بارے میں صحیح صورتحال کا انداز نہیں ہوپاتا۔باقی شعبہ جات کو چھوڑئیے آج صرف ریلوے پر ہی بات کیے لیتے ہیں۔ہماری کتنی سیاسی جماعتیں ہیں، جو ریلوے کے بارے میں مکمل معلومات رکھتی ہیں؟
کیا کسی سیاسی جماعت نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کراچی سے پشاور تک بچھی پٹریاں اور ندی، نالوںاور دریائوں پر بنے پل کتنے پرانے اور فرسودہ ہیں؟کیا انھیں علم ہے کہ بلٹ ٹرین تو دور کی بات ، دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں عام ٹرین سروس کے لیے اس وقت 120 پونڈفی مکعب فٹ استعداد کی ریلوے پٹری استعمال کی جارہی ہے، جب کہ پورے پاکستان میں آج بھی 80برس پہلے استعمال ہونے والی 80 پونڈ فی مکعب فٹ کی پٹریاںبچھی ہوئی ہیں۔ریلوے میں کتنے ملازمین کی گنجائش ہے اور کتنے لوگ کام کررہے ہیں؟سیاسی اور سفارشی بنیادی پر کتنی اضافی بھرتیاں کی گئی ہیں اوران اضافی بھرتیوں کے محکمہ کی مجموعی کارکردگی اور مالی حالت پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
آج بھی ریلوے سفر اور مال برداری کا سب سے سستا اور سہل ذریعہ ہے۔فوجوں کی نقل حمل اور بھاری اسلحے کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی میں ریلوے سب سے زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے۔1853ء میں جب برٹش انڈیا میں ریلوے لائن بچھانے کا سلسلہ شروع ہوا،تو بیشک انگریز حکمرانوں نے اس کے ذریعے اپنی تجارت کو بے پناہ فروغ دیا اور اس کی وجہ سے اس کی فوجوں کی نقل وحمل میں آسانیاں پیداہوئیں۔ مگر سب سے زیادہ فائدہ مقامی آبادی کو پہنچا، جنھیں سستا ، سہل اور آرام دہ سفر میسرآیااور آج تک میسرہے۔اس کے علاوہ کاروباری طبقے کو ریلوے کی وجہ سے بے پناہ سہولیات حاصل ہوئیں،انھیں اپنا مال انتہائی کم کرایہ پر حفاظت کے ساتھ با آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا موقع ملا،جس سے ان کے منافعے میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
1947ء میں جس وقت انگریز نے برصغیر کو چھوڑا ہے تو اس وقت تک 70ہزار کلومیٹر ریلوے لائن بچھائی جاچکی تھی۔اس کا60فیصد بھارت اور 40 فیصد پاکستان (دونوں بازو)کے حصے میں آیا ۔ آزادی کے بعد1951ء میںبھارت نے سب سے پہلاکام یہ کیا کہ ریلوے کو قومی ملکیت میں لے کر اس کوایک انتظامی یونٹ کی شکل دی۔ اس کے حصے میں1947ء میں 45ہزارکلومیٹرطویل ریلوے لائن آئی تھی، جس میں اس نے مسلسل اضافہ کیا اور دسمبر2012ء کے سروے کے مطابق اس وقت اس کے ٹریک کی مجموعی طوالت ایک لاکھ15ہزارکلومیٹر تک جا پہنچی ہے۔اسٹیشنوں کی کل تعدادساڑھے سات ہزار ہے۔ یوں بھارتی ریلوے اس وقت دنیا کا سب سے وسیع ریلوے نیٹ ورک ہے،جواپنے قومی خزانے میں روزانہ 12کروڑروپے منافع جمع کراتاہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں سوائے حیدرآباد، میرپورخاص سیکٹر کوچھوٹی پٹری(Narrow Guage)سے بڑی پٹری(Broad Guage)کرنے کوئی بڑا کام نہیں کیاگیا۔ بلکہ بعض اہم ٹریکس کواکھاڑدیا گیا۔یوں ورثے میں ملنے والے ٹریک کی لمبائی میں اضافے کی بجائے کمی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو1947ء میںلودھراں سے رائے ونڈ تک اور شاہدرہ سے پشاور تک سنگل ٹریک ملا تھا، مگر کسی بھی حکومت نے اس حصے میں ٹریک کو ڈبل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ایوب خان نے خطیر رقم سے خانیوال سے لاہور تک ریلوے کی الیکٹری فیکیشن کی، جو سنگل ٹریک ہونے کی وجہ سے ناکام ہوگئی اور کروڑوں روپے ڈوب گئے۔ پاکستان میںریلوے کی تباہی کے دیگربھی کئی اسباب ہیں۔
ایک اہم سبب سیاسی بنیادوں پر مطلوبہ تعداد سے زیادہ اور غیر متعلقہ افراد کی تقرریاں ہے، جس کی وجہ سے اس محکمے میں پیشہ ورانہ اہلیت کا فقدان پیداہوا۔دوسرا سبب اندرونی کرپشن اور بدعنوانیاں ہیں۔وزراء سے انتظامی عہدیداروں تک اور اسٹیشن ماسٹروں سے نچلے عملہ تک ہر ایک ریلوے کو شیرِ مادر سمجھتاہے اورجی بھرکر لوٹتاہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نقل وحمل کا یہ سستااور آرام دہ ذریعہ قومی خزانے کو روزانہ10کروڑروپے کا نقصان پہنچارہاہے۔حکمرانوںکی نااہلی ،غفلت اور کوتاہیوں کے سبب تباہی کے اس دہانے تک جاپہنچا ہے کہ کسی بھی وقت بند ہوسکتا ہے۔لہٰذااگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ریلوے شدیدنوعیت کیMismanagementکا شکار ہے، تو غلط نہ ہوگا۔
اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے میں مغلپورہ لاہورکی کیرج فیکٹری آئی تھی۔لیکن اس فیکٹری کی استعداد میں کسی قسم کا اضافہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی،البتہ بھٹو دور میں اسلام آباد میں ایک مزید کیرج فیکٹری قائم کی گئی،جس سے کسی حد تک ملکی ضروریات پوری ہونے لگیں۔جب کہ بھارت کو جمشید پور میں انجن سازی کی ایک فیکٹری ورثے میں ملی تھی۔ اس نے 66 برسوں کے دوران انجن سازی کی مزید چار فیکٹریاں لگالیں۔ جمشیدپورکی فیکٹری جو انگریزوں کے دور میںلوکوموٹو انجن بناتی تھی ،اندرا گاندھی کے دور میں ڈیزل انجن اور راجیو گاندھی کے دور میں الیکٹرک انجن بنانے لگی۔ یہی سبب ہے کہ آج بھارت دنیا کے کئی ممالک کوصرف ریلوے انجن فروخت ہی نہیں کرتا،بلکہ کرائے پر بھی دیتا ہے۔
بے شک موٹر وے، بلٹ ٹرین اور ان جیسے جدید میگا منصوبے قومی ترقی کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت بلٹ ٹرین اس ملک کے90فیصد عوام کا مسئلہ نہیں ہے۔ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ریلوے کے موجودہ ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے۔ٹرینیں وقت پر چلیں اور وقت پر اپنی منزل پر پہنچیں۔یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے پشاور تک ٹریک ڈبل کردیا جائے اور کم از کم120پونڈ فی مکعب فٹ استعداد کی پٹریاں بچائی جائیں۔ندیوں، نالوں اور دریائوں پر بنے پلوں کی مرمت کی جائے جو انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔اس طرح ٹرینوں کی رفتار تیز ہوسکے گی اور ان کے بر وقت منزل پرپہنچنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔اس کے علاوہ انجنوں کی دیکھ بھال اورریل کی بوگیوں میں صفائی ستھرائی اور روشنی کامناسب انتظام بھی ضروری ہے۔سب سے بڑھ کر ریلوے میں ہونے والی کرپشن اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوںپر کنٹرول اور ضرورت سے زیادہ عملے میں تخفیف بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس لیے اگر میاں صاحب بلٹ ٹرین کی نرگسیت سے نکل کر ریلوے کے موجودہ نظام کی درستگی پر تو جہ دیں،توعوام کے 80فیصدکے قریب سفری مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
آج ہمیں جن مسائل کا سامناہے، ان میںسب سے زیادہ اولیت کا حامل مسئلہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے،جس نے پوری قوم کو سولی پرلٹکایا ہواہے۔ دوسرا مسئلہ بجلی کی پیداوار میں مناسب اضافہ ہے، تاکہ ملکی معیشت اپنے پائونوں پر کھڑی ہوسکے اور کم از کم قرضوں سے کسی حد تک نجات مل سکے ۔تیسرا مسئلہ خواندگی کی شرح میں اضافہ اورپورے ملک کے تمام طبقات کے لیے یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کرنے کاہے۔ چوتھا مسئلہ شہروں، قصبوں سمیت دور دراز دیہاتوں تک طبی سہولیات کی فراہمی ہے۔اس لیے میاں صاحب برائے مہربانی بلٹ ٹرین کے سبز باغ دکھانے کی بجائے ملک وقوم کو درپیش اصل مسائل پر توجہ دیں،تاکہ ان سے چھٹکارہ مل سکے۔ وقت آنے پر بلٹ ٹرین تو کیا چاند تک شٹل سروس بھی شروع کی جاسکتی ہے۔