کیا مصر خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے
عرب بہارکے دوران تیونس اورلیبیا کے ساتھ جس ملک میں خونریز تبدیلی آئی وہ مصر تھا۔
عرب بہارکے دوران تیونس اورلیبیا کے ساتھ جس ملک میں خونریز تبدیلی آئی وہ مصر تھا۔ مصر کا التحریر اسکوائر مصرکے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف لاکھوں مصریوں سے بھر گیا اور حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ مشرق وسطیٰ میں طویل ترین حکمرانی کا ریکارڈ قائم کرنے والااور سیکیورٹی اسکواڈ کی جھرمٹ میں ایوان صدر سے نکلنے والا یہ صدر لوہے کے پنجرے میں بند جیل سے عدالت کے درمیان رل رہا ہے۔ 2012 میں مصر میں انتخابات منعقد ہوئے اور اخوان المسلمین کے رہنما مرسی 51 فیصد ووٹ لے کر مصر کے صدر منتخب ہوگئے۔ مرسی کے مخالف امیدوار کو بھی 48 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔
یوں ایک طویل عرصے بعد مصر کے عوام کو ایسی حکومت ملی جسے انھوں نے خودمنتخب کیا تھا اگرچہ یہ تبدیلی بادی النظر میں بڑی امید افزا نظر آئی لیکن صدر مرسی نے عوام کی امیدوں کے برخلاف عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ملک کے تمام اہم قومی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا سلسلہ شروع کیا یا ان اداروں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔مصر کے عوام جو اپنی زندگی میں اقتصادی خوشحالی دیکھنا چاہتے تھے، وہ مرسی کی اس مخصوص مذہبی آمریت سے سخت مایوس ہوگئے اور لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کا وہ ناراض طبقہ جس نے مصر میں مثبت تبدیلی کے لیے مرسی کی مخالف لبرل جماعت کو 48فیصد ووٹ سے نوازا تھا، التحریر اسکوائر پر جمع ہوگیا۔اور مصر کے تمام بڑے شہر التحریر اسکوائر میں بدل گئے، حالات اس قدر سنگین ہوگئے کہ فوج نے مرسی کو 24 گھنٹوں کا الٹی میٹم دے دیا۔ مرسی نے فوج کا الٹی میٹم ماننے سے انکار کردیا، یوں فوج نے منتخب صدر مرسی کو صدارت سے معزول کرکے ان کے بعض ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا۔
اخوان المسلمین مصر کی ایک ایسی مذہبی جماعت ہے جو اسپین سے انڈونیشیا تک ایک ایسی ریاست قائم کرنے کا خواب دیکھتی رہی تھی جہاں وہ بزور طاقت اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرسکتیں، اس خواہش کی تکمیل کی جدوجہد میں اخوان کے رہنما حسن البنا پھانسی پر چڑھ گئے۔ اخوان المسلمین اپنے اس شدت پسند نظریات کی وجہ سے ہر دور میں زیرعتاب رہی۔ لیکن اس کی سرگرمیاں انڈرگراؤنڈ جاری رہیں۔ دوسری کٹر مذہبی جماعتوں کی طرح اخوان بھی ایک منظم اور اپنے نظریات میں سخت اور بے لچک جماعت ہے جس کے پاس نظریاتی کارکنوں کی ایک بھارتی تعداد موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کی قیادت کرنے والے رہنما مرسی کو اب بھی مصر کا آئینی صدر تسلیم کرتے ہیں اور مرسی کو معزول کرنے والی فوجی جنتا کے خلاف لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ مصر کے تحریر اسکوائر سمیت کئی شہروں میں اخوان فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے، مرسی کے آبائی علاقے زیگاریگ میں جھڑپوں کے دوران 3 مظاہرین ہلاک اور 80 سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں یہی حال ملک کے دوسرے شہروں کا ہے۔ مصر کی فوج کے چیف آف اسٹاف کی طرف سے مرسی کو مذاکرات کی دعوت کو اخوان المسلمین نے مسترد کردیا ہے اور فوجی حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، اب تک مخالف جماعتوں میں ہونے والی جھڑپوں میں 60 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، اس بات کا خدشہ ہے کہ مصر کہیں خانہ جنگی کی طرف نہ چلا جائے۔
آج عراق سے لے کر پاکستان تک دہشت گردی کی جو خطرناک لہر جاری ہے اس کا بنیادی مقصد بھی اپنی مرضی کا قانون نافذ کرنا بتایا جارہا ہے، خاص طور پر افغانستان اور پاکستان میں قتل و غارت گری کا جو بازار گرم ہے اس کی وجہ سے خود مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ مغربی ملکوں کا خیال ہے کہ القاعدہ اور طالبان اخوان المسلمین سے آگے جاتے ہوئے ساری دنیا پر اپنے نظریات نافذ کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ جسے مغرب قبول کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ یہ ایجنڈا جدید مغربی تہذیب کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
پاکستان کے دہشت گردوں کا منصوبہ یہ ہے کہ اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے کے لیے پاکستان پر قبضہ کرلیں۔ مصر میں جس طرح اخوان مصر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنا چاہتے تھے اسی طرح پاکستان کے شدت پسند بھی دنیاپر اپنا نظام مسلط کرنے کے لیے پاکستان پر اپنا قبضہ ضروری سمجھتے ہیں، اس حوالے سے پیش رفت کے لیے یہ طاقتیں کراچی پر اپنا قبضہ ضروری سمجھتی ہیں۔ کراچی میں روز کی ٹارگٹ کلنگ کو اس ایجنڈے کا حصہ سمجھا جارہا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین اپنے نظریات کے حوالے سے افغانستان اور پاکستان کے مذہبی شدت پسندوں سے مختلف ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اخوان جمہوریت کی آڑ میں اپنا نظریہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی بھی انتہا پسند نظریہ اپنے اندر فاشسٹ ذہنیت چھپائے رکھتا ہے جو جلد یا بدیر باہر نکل آتا ہے۔
مصر میں مرسی حکومت اگرچہ عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئی لیکن مرسی نے بلاتاخیر مصر کے اہم قومی اداروں پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کی مہم شروع کی۔ ہوسکتا ہے اخوان المسلمین کے ایجنڈے کے مطابق مصر کے قومی اداروں جن میں عدلیہ انتظامیہ وغیرہ شامل ہیں قبضہ کرنا ضروری ہو لیکن مصر کے 51 فیصد عوام نے مرسی حکومت کو اپنی اقتصادی زندگی بہتر بنانے کے لیے جو ووٹ دیے تھے، اس کا غلط استعمال انھیں پسند نہ آیا اور وہ 48 فیصد اپوزیشن کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک منظم جماعت ہونے اور نظریاتی کارکنوں کی بھاری تعداد رکھنے کی وجہ سے اخوان مصر میں انتشار پیدا کرسکتی ہے لیکن عوام کی بھاری اکثریت کی مخالفت کی وجہ سے خدشہ یہی نظر آتا ہے کہ اخوان نے صبر اور برداشت سے کام نہ لیا تو ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوجائے گی اور فوج کو یہ موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ انتخابات کی طرف بڑھنے کے بجائے مارشل لاء کی طرف پیش رفت کرے اگر ایسا ہوا تو کیا اخوان المسلمین کوکوئی سیاسی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے جب کہ امکان یہ نظر آتا ہے کہ اگر ملک خون خرابے کی طرف جاتا ہے تو مصری عوام اخوان المسلمین کی حکومت پر فوجی حکومت کو ترجیح دینے پر مجبور ہوجائیں گے، ان امکانات پر اخوان قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
مستقبل میں مذہبی شدت پسندی کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کا کسی حد تک انحصار افغانستان سے امریکا کی واپسی کے بعد کے افغانستان پر ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد افغان عوام کی جنگ آزادی آہستہ آہستہ شدت پسندی میں بدلتی چلی گئی اور اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا، پاکستان تو اس کی زد میں ہے ہی لیکن پاکستان کے علاوہ شدت پسندی کا دائرہ ایک طرف افریقی ملکوں اور خلیج کے ملکوں تک بڑھتا چلا گیا تو دوسری طرف چین دوستی سمیت کئی مغربی ملک بھی جزوی طور پر شدت پسندانہ سرگرمیوں کی زد میں آرہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے مزاج کے مطابق اس تحریک میں سرمایہ بھی بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اب تو بھارت میں بھی شدت پسندانہ کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔
افغانستان سے 2014 میں امریکی انخلاء کے بعد افغان طالبان کی پالیسی افغانستان کی تعمیر نو اور افغان عوام کی سماجی اور معاشرتی ترقی کی طرف مرکوز رہتی ہے یا وہ ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی پالیسی پر چل پڑتے ہیں، اس سیاست کا پورے خطے اور دنیا بھر میں امن کے قیام پر مثبت یا منفی اثر پڑسکتا ہے لیکن یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ اگر شدت پسندی مغرب کے امن اور جدید تہذیب کے لیے خطرہ بنتی ہے تو مغرب شدت پسندی کے خلاف سخت ترین پالیسی اپنائے گا اور اس پالیسی میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی تکلف نہیں کرے گا کیونکہ چین روس بھارت سمیت ساری دنیا اس کی پشت پر ہوگی۔ کیا اس قسم کی ممکنہ صورت حال شدت پسندی کے حق میں جائے گی؟ اس پر مصر کے اخوان اور افغانستان کے طالبان کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔