کیا ماں مافوق الفطرت ہستی ہے…
ماں کے کردار کی ادائیگی بذاتِ خود تربیت کی متقاضی ہوتی ہے
معاشروں کی صورت گری مائوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔اگر معاشرے میں اقدار کے خدوخال مسخ ہونا شروع ہوجائیں تو یہ دراصل مائوں کی غفلت اور عدم اہلیت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
غور کیا جائے تو کسی مخصوص سوچ یا شعور کو پروان چڑھانے میں اس قدر افراط اور غلو کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ زمینی حقائق سے تصادم اور تضاد کی صورتِ حال بپا ہونے لگتی ہے۔ اسی رجحان کا شکار 'ماں' کا کردار بھی ہے جس کی عزت و عظمت کو راسخ کرنے کی جہد میں انسانی جذبات میں سے ماں کے مقام اور مرتبے کے لیے ایسا احترام کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماں کوئی ''مافوق الفطرت'' ہستی معلوم ہونے لگتی ہے اور جب اس مصنوعی تصور پر حقیقی دنیا سے کسی کراہیت آمیز واقعے کی دھپ پڑتی ہے تو ہم کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اسے قیامت کی نشانی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ عظمت قدرتی طور پر ماں کے کردار کو ودیعت کی جاتی ہے اور کوئی بھی عورت ماں بنتے ہی عظمت کے اس معیار کی حامل ہوجاتی ہے جب کہ سچّائی بھری حقیقت یہ ہے کہ ماں کے کردار کی عظمت کا حصول عورت کی شخصیت کی ایک خاص نہج پر تربیت سازی پر منحصر ہوتا ہے۔ ایسی تربیت جو پہلے خود عورت کو ایک راست انسان بناتی ہے، جس کے بعد وہ نئی نسل کی ذمے داری کا بیڑا اٹھانے کے قابل ہوپاتی ہے۔ یعنی ماں کے کردار کی ادائیگی بذاتِ خود تربیت کی متقاضی ہوتی ہے۔
تعجب خیز امر یہ ہے کہ شادی، شوہر اور سسرال کے حوالے سے تو کئی سلسلے لڑکی کے شعور کا حصّہ بنادیے جاتے ہیں، لیکن ماں بننے کے حوالے سے اس کی ذہنی تربیت بالکل کوری رکھی جاتی ہے جب کہ قدرت اپنے اس اہم ترین نظام کے تسلسل میں سہولت کی خاطر کچھ معاون خصوصیات ضرور عورت کی فطرت میں داخل کرتی ہے مثلاً نرمی، محبت، برداشت اور ایثار وغیرہ! یہ خصوصیات پرورش کی ذمے داری کو فطری تقاضے میں ڈھال دیتی ہیں اور مائوں کے لیے اس عظیم فریضے کی ادائیگی میں ان کی اپنی ذات کی شمولیت سے خوش گواریت اور جبلی تشفی کا احساس بھی شامل ہوجاتا ہے۔
مگر تربیت ایک مختلف چیز ہے، ایک بچّے پر جتنے مرضی شفقت کے جام لنڈھائے جاتے رہیں اور جتنا چاہے محبت کا تڑکا لگایا جاتا رہے اگر تربیت کا خانہ خالی رہے گا تو یہ لاڈ پیار الٹا آستین کا سانپ بن کر ماں کے منصب عظمت کو ڈس لے گا۔ تربیت کا مطلب لازمی طور پر اولاد کا کسی مقام و منصب کا حصول نہیں، نہ تربیت، اعتماد اور حوصلے کے نام پر بدلحاظی اور بے باکی پیدا کرنے کا نام ہے بلکہ تربیت کا سادہ اور آسان مفہوم انسان میں نیکی اور ایمان کی روح کا پھونکنا اور کردار کی کجروی کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
صنفی امتیاز کے خاتمے کی کھوکھلی لڑائی اور انفرادی آزادی کے تصور نے معاشرے کو جن زاویوں سے نقصان پہنچایا ہے ان میں سب سے کاری ضرب ماں کے کردار پر لگائی گئی ہے کیونکہ جب عورت ان محاذوں پر مزاحمت کی جنگ کا آغاز کرتی ہے تو اس کا حوصلہ اور اعتماد محض خودنمائی کے شوق یا اپنی انفرادیت کی تسکین کے میدانوں میں لہراتا رہتا ہے اور اس غیر فطری خواہش یا کوشش میں وہ اپنے دائرۂ کار کو پھلانگ کر بداعتدالیوں کی عادی ہوجاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عورت کی تعلیم، کردار اور قابلیت کا مرکز اس کی اپنی ذات اور کیریئر کو بنا کر سمت ہی مخالف کردی گئی ہے وگرنہ یہ مہارتیں تو اس کے اس بنیادی کردار کا لازمہ ہیں جو قدرت کی طرف سے اسے سونپا گیا ہے۔ بچّوں کی پیدایش، پرورش اور تربیت کا تکون عورت کی تمام تر لیاقت، اعتماد اور طاقت کا مظہر ہوتا ہے۔
ان معاشروں کی صورت حال پر غور کریں جہاں عورت کی ترقی اور آزادی کے تمام شوق پورے کرلیے گئے ہیں اور صلاحیتوں کے استعمال کے نام پر صنفی امتیاز کا وقار معدوم ہوچکا ہے۔ جدّت اور روشن خیالی کی وبا میں خدائی تفریق کو پاٹنے کے تباہ کن چکر کی گردش عروج پر ہے۔ وہاں تہذیب، اخلاقیات اور اقدار کا نفاذ ماسوائے قانون کی جبروسختی کے ممکن نہیں اور اس میں بھی بے لگام نفسانی خواہشوں کے انصرام میں ناکامی کے امکان کے پیش نظر غیر اخلاقی اور واہیات کارروائیوں کو قانونی شکل دے دی گئی ہے۔
قدرت کا اٹل قانون عمل ردعمل ہے۔ جب آپ بے بی ڈے کیئر سینٹر بنائیں گے تو وہیں مکافاتِ عمل کے قانون کے تحت اولڈ ہومز بھی وجود میں آئیں گے۔ ایثار کا وہ بیج جو ماں اپنا وقت دان کرکے اولاد میں بوتی ہے، جب تربیت کا یہ پہلو ہی ماں اپنے کردار سے حذف کردے گی تو پھر وہ کیسے اپنے اردگرد خاندان کی رونق دیکھ پائے گی؟
قصّہ مختصر یہ ہے کہ ماں بچّے کی ذمے داری اور تربیت کا وقت اپنی ذات پر لگا کر خودغرضی اور مفاد پرستی کی جو بنیاد ڈالتی ہے، وہ بالآخر معاشرے کو اکائیوں میں منقسم کردیتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ خواتین وہ ہے جن کی مرکزی ذمے داری ہی گھر بار اور بچّوں کی پرورش ہے، یہ طبقہ اپنے خصائل کی پس ماندگی اور ابتری کی وجہ سے معاشرے کی بنیادوں کو کس بھیانک انداز میں کھوکھلا اور تباہ کررہا ہے، ان پر اگر غور کیا جائے تو بظاہر مظلومیت اور سادگی میں لتھڑے اس کردار کے چہرے سے گِھن آنے لگتی ہے۔ رویوں کی پس ماندگی شخصیت کو قابلِ مذمت بناتی ہے لیکن اس وقت قدرت سے اپنی حالت پر رحم کی دعا کرنی چاہیے جب ان رویوں کے اسباب معاشرتی عوامل سے تلاش کرکے اصل وجوہات پر مٹی ڈال دی جائے۔
ہر ماں اپنے بچّوں کی خوش حالی اور کامیابی کے خواب دیکھتی ہے لیکن فکری تنزلی کے سبب اس منصب کے تقاضے بشری (نفسانی) خواہشات کے دھندلکوں میں گم ہوجاتے ہیں اور زندگی کے ریگستان میں ان کی دعا کے بگولے محض مادّی سطح تک ہی اڑان بھرپاتے ہیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ دنیاوی اعتبار سے اعلیٰ سطح تک پہنچ جانے والے بھی اخلاقی زبوں حالی اور شعوری سطحیت سے بلند ہو کر حمیدہ اوصاف کے حامل نہیں ہوپاتے، کیونکہ یہ مائوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہوتا۔ عورت کا اپنی اس بنیادی ذمے داری سے انحراف معاشرے میں ہر سطح پر عمل پذیر دیکھا جاسکتا ہے۔ عام طور پر فرد کی اچھائی، برائی کی ذمے داری اس کی ذات سے منسوب کی جاتی ہے لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے۔ بنیادی اور اصولی بات طرزِ فکر کے اس قطعۂ اراضی کی بھی ہے کہ جس پر فرد کی شخصیت اور کردار کی نمو کی جاتی ہے۔
کائناتی نظام میں عورت مرد کا حصار ہوتی ہے۔ مرد اپنی پوری زندگی میں ان حدوں کا پابند رہتا ہے جو عورت کی پرورش اور ارادی و غیر ارادی تربیت سے اس کی شخصیت کے گرد قائم ہوجاتی ہیں۔ اگر معاشرہ تباہی اور ناکامی کا شکار نظر آرہا ہے تو یہ دراصل مائوں کی ناکامی ہے۔ جنّت کی منزل جسے ماں کے قدموں کی دھول بتایا گیا ہے، وہ خود عورت کو بھی ایثار اور شعوری کوشش سے حاصل ہوتی ہے، کیونکہ ماں کی فضیلت اور بڑائی اس فریضے کی تکمیل میں ہے جو خالقِ کائنات کے تخلیقی پروگرام میں معاونت کے ضمن میں عورت پر عاید ہوتا ہے۔