چھٹی یلغار کا وقت ہوچکا ہے
یہ کائنات کا جو وسیع وعریض نہایت ہی بے عیب وبے خطاخودکار نظام جو وضع کیاگیاہے
لاہور:
غالباً دنیا کے تمام بڑے بڑے موضوعات میں سرفہرست موضوع اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آیا اس وقت چین کی طرف سے دنیا پر جو یلغار ہو رہی ہے اسے روکا جاسکتاہے؟ تو جواب ہوگا بالکل نہیں،ہرگز نہیں اور کبھی نہیں کیونکہ یہ یلغار کوئی اچانک غیرمتوقع یا ہنگامی نہیں ہے بلکہ اس کائنات کے مقررہ اور غیرمبدل اصولوں کے مطابق ہورہی ہے۔
یہ کائنات کا جو وسیع وعریض نہایت ہی بے عیب وبے خطاخودکار نظام جو وضع کیاگیاہے اس کی ابتدا یا بنانے والی ہستی سے آپ انکار کریں یا اسے اپنی مرضی کی شکل وصورت دیں یا کچھ بھی نام رکھیں وہ ادھورا ہی ہوگا کیونکہ کائنات ''کل'' ہے اور انسان اپنی تمام ذہانتوں اور علوم کے باوجود اس کا ''جزو''ہے اور کوئی''جزو'' کبھی ''کلُ'' کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ایک قطرہ کسی سمندر کا ،ایک ذرہ کسی ریگستان کا اور ایک بہت بڑے جنگل کے کسی پیڑ کی کسی شاخ کے پتے سے چمٹا ہوا کیڑا پورے جنگل کے بارے میں کیاجان سکتا ہے جس کی عمر بھی ''دنوں'' میں ہوں،ہستی بھی نہایت چھوٹی اور رسائی بھی اپنے پتے سے زیادہ نہ ہو،توپھر اس کے مالک اور لگانے والے کے بارے میں کیاجان پائے گا؟
انسان کچھ بھی کرے کچھ بھی بولے ارادے باندھے منصوبے بنائے تدابیر لڑائے پیش گوئیاں کرے ہوگا وہی جو اس سپراور نامعلوم طاقت نے اس کارخانے میں اسباب وعلل کی صورت میں رکھاہوا یا اس میں خودکار طریقے پر انجینئرڈ کیاہوا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک بے مثل قول ہے کہ''میں نے رب کو ''ارادوں'' کے ٹوٹنے سے پہچانا''
وہ جو ایک عام سی بات کہی جاتی ہے کہ اس کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا تو یہ عام سچ نہیں بلکہ گہرا سچ ہے، پتا ہوا سے ہلتا ہے ہوا آکسیجن وغیرہ سے بنی ہے اور حرارت سے متحرک ہوتی ہے اس لیے آج جو''پتا'' ہلتاہے اس کے ہلنے کے اسباب وعلل بھی بہت پہلے اس نظام کائنات میں رکھے ہوتے ہیں۔سائنسی اصطلاح میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیاد منفی مثبت اور علت ومعلول کے ذریعے بیس ارب سال پہلے ہی ہونے والے دھماکے بگ بینک میں رکھے گئے تھے،جو بچہ آج پیداہوتاہے اس کی پیدائش کے لیے اسباب وعلل بیس ارب سال پہلے ہی سے طے کیے گئے تھے۔
اس بے عیب،خودکار اور باریک ترین نظام کا اندازہ لگانے کے لیے صرف''پانی'' کے سفر کو دیکھیے۔بارش ہوتی ہے کہیں برف کہیں پانی۔کچھ بہہ جاتاہے کچھ زمین اور مخلوقات میں جذب ہوجاتا ہے لیکن ایک دن زمین اور ان مخلوقات کے وجود کا پانی نکل جاتاہے۔ زمین کے اندر پھر وہاں سے مختلف طریقوں سے نکالا جاتاہے ،کام آتا ہے اور گندہ ہوکر نالوں وغیرہ کے ذریعے دریا میں اور دریا سمندر میں مل جاتاہے، پھر دھوپ کی تمازت سے بخارات بادل اور پھر بارش گویا مسلسل ایک دائرے میں محوسفر رہتاہے۔ کہیں برف یا زمین یا مخلوقات کے اجسام میں تھوڑا سا ٹھہر بھی جاتاہے لیکن ہمیشہ کے لیے فنا یا ختم نہیں ہوتا چاہے زمین کی گہرائیوں میں چلاجائے بھاپ بن کر اڑ جائے۔یہ بحث بڑی طویل ہے اور صرف مذاہب ہی نہیں سائنس اور طبیعات بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ کوئی طاقت کوئی ہستی کوئی ذہن ہے جو اس حد درجہ بے عیب اور مربوط نظام کے پیچھے کارفرماہے۔ بحث اگرہے تو اس میں وہ کیاہے اور کیسا ہے کہاں اور یہ انسان کبھی نہیں جان پائے گا کہ وہی کلُ اور جزو کا مسئلہ ہے۔
چنانچہ اس خودکار نظام میں ہم دیکھتے ہیں کہ آبادی میں نقل وحمل خوراک کی کمی بیشی سے ہوتی ہے یا یوں کہیے کہ کثرت آبادی اور قلت خوراک انسانی نقل وحمل کی بنیادہے۔اور اس سلسلے میں ماہرین طبعیات،بشریات وارضیات کی آراء سے اخذکردہ ''فلپ ختی'' کا بیان نہایت توجہ طلب اور مبنی برحقیقت ہے۔اس نے اپنی کتاب تاریخ شام میں لکھاہے کہ وسطیٰ ایشیا یا اس پہاڑی سلسلے کا قرب وجوار ہمیشہ ہی انسانوں اور حیوانوں کا سرچشمہ رہاہے جو دریائے برہم پترا سے شروع ہوکر ایران میں ختم ہوتاہے اور اس کی کچھ شاخیں ہند چین اور وسطیٰ ایشیا میں بھی پھیلی ہوئی ہیں، حتی نے اس مقام کو زمین کا ''رحم'' یا کوکھ یا جوف الارض قرار دیاہے۔
بات کو مزید واضح کرنے کے لیے اس سلسلہ کوہ کی پیدائش پر بھی بات کی جائے تو بہترہوگا سائنس وطبعیات کے علماء کے مطابق چالیس کروڑ سال پہلے ایشیا اور ہند الگ الگ براعظم تھے درمیان میں کم گہرے سمندر ہوا کرتے تھے پھر ایک خوفناک ٹکنانک موومنٹ ہوئی جس کو طبعیات والے پہلی قیامت بھی کہتے ہیں۔ اس قیامت میں ہند کا براعظم پھٹ گیا کچھ حصے تو دور جاکر آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور کچھ جزائر میں بکھر گئے اور ایک بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر ایشیا سے ایسا ٹکرایا کہ نہ صرف پیوست ہوگیا بلکہ اس کے نتیجے میں ٹکراؤ کے مقام پر یہ ہلالی ابھار پیدا ہوا۔
غالباً دنیا کے تمام بڑے بڑے موضوعات میں سرفہرست موضوع اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آیا اس وقت چین کی طرف سے دنیا پر جو یلغار ہو رہی ہے اسے روکا جاسکتاہے؟ تو جواب ہوگا بالکل نہیں،ہرگز نہیں اور کبھی نہیں کیونکہ یہ یلغار کوئی اچانک غیرمتوقع یا ہنگامی نہیں ہے بلکہ اس کائنات کے مقررہ اور غیرمبدل اصولوں کے مطابق ہورہی ہے۔
یہ کائنات کا جو وسیع وعریض نہایت ہی بے عیب وبے خطاخودکار نظام جو وضع کیاگیاہے اس کی ابتدا یا بنانے والی ہستی سے آپ انکار کریں یا اسے اپنی مرضی کی شکل وصورت دیں یا کچھ بھی نام رکھیں وہ ادھورا ہی ہوگا کیونکہ کائنات ''کل'' ہے اور انسان اپنی تمام ذہانتوں اور علوم کے باوجود اس کا ''جزو''ہے اور کوئی''جزو'' کبھی ''کلُ'' کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ایک قطرہ کسی سمندر کا ،ایک ذرہ کسی ریگستان کا اور ایک بہت بڑے جنگل کے کسی پیڑ کی کسی شاخ کے پتے سے چمٹا ہوا کیڑا پورے جنگل کے بارے میں کیاجان سکتا ہے جس کی عمر بھی ''دنوں'' میں ہوں،ہستی بھی نہایت چھوٹی اور رسائی بھی اپنے پتے سے زیادہ نہ ہو،توپھر اس کے مالک اور لگانے والے کے بارے میں کیاجان پائے گا؟
انسان کچھ بھی کرے کچھ بھی بولے ارادے باندھے منصوبے بنائے تدابیر لڑائے پیش گوئیاں کرے ہوگا وہی جو اس سپراور نامعلوم طاقت نے اس کارخانے میں اسباب وعلل کی صورت میں رکھاہوا یا اس میں خودکار طریقے پر انجینئرڈ کیاہوا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک بے مثل قول ہے کہ''میں نے رب کو ''ارادوں'' کے ٹوٹنے سے پہچانا''
وہ جو ایک عام سی بات کہی جاتی ہے کہ اس کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا تو یہ عام سچ نہیں بلکہ گہرا سچ ہے، پتا ہوا سے ہلتا ہے ہوا آکسیجن وغیرہ سے بنی ہے اور حرارت سے متحرک ہوتی ہے اس لیے آج جو''پتا'' ہلتاہے اس کے ہلنے کے اسباب وعلل بھی بہت پہلے اس نظام کائنات میں رکھے ہوتے ہیں۔سائنسی اصطلاح میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیاد منفی مثبت اور علت ومعلول کے ذریعے بیس ارب سال پہلے ہی ہونے والے دھماکے بگ بینک میں رکھے گئے تھے،جو بچہ آج پیداہوتاہے اس کی پیدائش کے لیے اسباب وعلل بیس ارب سال پہلے ہی سے طے کیے گئے تھے۔
اس بے عیب،خودکار اور باریک ترین نظام کا اندازہ لگانے کے لیے صرف''پانی'' کے سفر کو دیکھیے۔بارش ہوتی ہے کہیں برف کہیں پانی۔کچھ بہہ جاتاہے کچھ زمین اور مخلوقات میں جذب ہوجاتا ہے لیکن ایک دن زمین اور ان مخلوقات کے وجود کا پانی نکل جاتاہے۔ زمین کے اندر پھر وہاں سے مختلف طریقوں سے نکالا جاتاہے ،کام آتا ہے اور گندہ ہوکر نالوں وغیرہ کے ذریعے دریا میں اور دریا سمندر میں مل جاتاہے، پھر دھوپ کی تمازت سے بخارات بادل اور پھر بارش گویا مسلسل ایک دائرے میں محوسفر رہتاہے۔ کہیں برف یا زمین یا مخلوقات کے اجسام میں تھوڑا سا ٹھہر بھی جاتاہے لیکن ہمیشہ کے لیے فنا یا ختم نہیں ہوتا چاہے زمین کی گہرائیوں میں چلاجائے بھاپ بن کر اڑ جائے۔یہ بحث بڑی طویل ہے اور صرف مذاہب ہی نہیں سائنس اور طبیعات بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ کوئی طاقت کوئی ہستی کوئی ذہن ہے جو اس حد درجہ بے عیب اور مربوط نظام کے پیچھے کارفرماہے۔ بحث اگرہے تو اس میں وہ کیاہے اور کیسا ہے کہاں اور یہ انسان کبھی نہیں جان پائے گا کہ وہی کلُ اور جزو کا مسئلہ ہے۔
چنانچہ اس خودکار نظام میں ہم دیکھتے ہیں کہ آبادی میں نقل وحمل خوراک کی کمی بیشی سے ہوتی ہے یا یوں کہیے کہ کثرت آبادی اور قلت خوراک انسانی نقل وحمل کی بنیادہے۔اور اس سلسلے میں ماہرین طبعیات،بشریات وارضیات کی آراء سے اخذکردہ ''فلپ ختی'' کا بیان نہایت توجہ طلب اور مبنی برحقیقت ہے۔اس نے اپنی کتاب تاریخ شام میں لکھاہے کہ وسطیٰ ایشیا یا اس پہاڑی سلسلے کا قرب وجوار ہمیشہ ہی انسانوں اور حیوانوں کا سرچشمہ رہاہے جو دریائے برہم پترا سے شروع ہوکر ایران میں ختم ہوتاہے اور اس کی کچھ شاخیں ہند چین اور وسطیٰ ایشیا میں بھی پھیلی ہوئی ہیں، حتی نے اس مقام کو زمین کا ''رحم'' یا کوکھ یا جوف الارض قرار دیاہے۔
بات کو مزید واضح کرنے کے لیے اس سلسلہ کوہ کی پیدائش پر بھی بات کی جائے تو بہترہوگا سائنس وطبعیات کے علماء کے مطابق چالیس کروڑ سال پہلے ایشیا اور ہند الگ الگ براعظم تھے درمیان میں کم گہرے سمندر ہوا کرتے تھے پھر ایک خوفناک ٹکنانک موومنٹ ہوئی جس کو طبعیات والے پہلی قیامت بھی کہتے ہیں۔ اس قیامت میں ہند کا براعظم پھٹ گیا کچھ حصے تو دور جاکر آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور کچھ جزائر میں بکھر گئے اور ایک بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر ایشیا سے ایسا ٹکرایا کہ نہ صرف پیوست ہوگیا بلکہ اس کے نتیجے میں ٹکراؤ کے مقام پر یہ ہلالی ابھار پیدا ہوا۔