پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک نئی سازش

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو تمام اقلیتوں کے مکمل تحفظ کی سب سے ٹھوس ضمانت دیتا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان دشمن لابی جس کے بہت سے ہمنوا مسلمان پاکستانی شہریوں کی صورت میں ہمارے میڈیا اور حقوقِ انسانی کے خودساختہ علم برداروں کی صورت میں وطنِ عزیز میں موجود ہیں۔ پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ چنانچہ گزشتہ چند روز سے ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کے تحت اس مبینہ الزام تراشی کو خوب اچھالا جارہا ہے۔ پاکستانی ہندو نقل مکانی کرکے ہندوستان جارہے ہیں۔

اس پر ہمیں 1980 کی دہائی کا وہ زمانہ یاد آرہا ہے جب ہم نے پاکستان کی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے تقریباً 35 سرکردہ افراد سے ریڈیو پاکستان کے خصوصی پروگرام کے لیے چند انٹرویوز ریکارڈ کیے تھے۔ جن شخصیات سے یہ انٹرویوز کیے گئے تھے، ان کا تعلق صرف کراچی سے ہی نہیں بلکہ پورے اندرون سندھ بشمول سکھر، شکارپور اور جیکب آباد سے بھی تھا۔ انٹرویوز کے اس سلسلے میں ہمیں ان ہندو بھائیوں سے قریبی ملاقات کا ایک اچھا موقع میسر آیا جو زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں۔ ان میں کاروباری حضرات، ڈاکٹر، انجینئر، وکلا، اساتذہ، جج صاحبان اور عام ہندو شہری بھی شامل تھے۔

ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ پاکستان میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی نہایت آرام اور سکون کے ساتھ برابر کے شہریوں کی حیثیت سے نہایت خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اپنے لیے پیشے کے انتخاب اور اپنی عبادت گاہوں کے معاملے میں مکمل طور پر آزاد ہیں جو کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947 کے تاریخی خطاب کی روح کے عین مطابق ہے۔ شاید بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ کراچی اور اندرونِ سندھ ہمارے ہندو بھائیوں کے بڑے بڑے کاروبار ہیں جن میں اجناس کا کاروبار سرفہرست ہے۔

اس کے علاوہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں جن میں مجسٹریٹ، جج اور وکلا خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں۔ اس طویل فہرست میں جسٹس (ر) رانا بھگوان داس جیسے نامور لوگ بھی شامل ہیں۔ خود راقم الحروف کے حلقۂ احباب میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ شامل ہیں جو نہایت آرام کے ساتھ اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اور تو اور اسلامی بینکوں تک میں بھی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والوں کو ملازمتیں میسر ہیں۔

مگر یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو تمام اقلیتوں کے مکمل تحفظ کی سب سے ٹھوس ضمانت دیتا ہے جس کی مثال دنیا کے اور کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ اورنگ زیب عالمگیر جیسے حکمراں نے جسے ''ہندوکش، ظالم اور ستم گر'' کہہ کر بدنام کیا جاتا رہا ہے ہندوئوں کو ملازمتیں دی ہوئی تھیں اور مندروں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا خصوصی بندوبست کیا ہوا تھا اور ہندو بیوائوں کے لیے وظائف مقرر کیے ہوئے تھے۔

اﷲ کا شکر ہے وطنِ عزیز پاکستان میں تمام اقلیتیں اور ان کے کاروبار اور عبادت گاہیں قطعی محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ ایوب خان کے دور میں رانا چندر سنگھ سے لے کر آج تک ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران اور وزراء نہایت عزت و احترام کے ساتھ پوری آزادی کے ساتھ وطنِ عزیز میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور کسی مائی کے لعل کی یہ مجال نہیں کہ انھیں میلی آنکھ سے دیکھ سکے یا ذرا سی آنچ بھی پہنچاسکے۔


صرف یہی نہیں بلکہ ان کے خاص تہواروں مثلاً دیوالی کے موقعے پر میڈیا بالخصوص ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سے خصوصی پروگرام بھی نشر کیے جاتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے ہمارے ایک کرم فرما نے جن کا تعلق پاکستان کی پارسی کمیونٹی سے ہے اور جو مجلس شوریٰ (قومی اسمبلی) کے ایک نامور رکن بھی رہ چکے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام میں یہ کہا تھا کہ انھیں اقلیتی فرقہ نہ کہا کریں بلکہ خصوصی مراعات یافتہ طبقہ کہا کریں۔

کراچی کی ہندو برادری کے ایک اور فعال رکن آئر جو کراچی کے ایک کالج کے نامور سائنس کے پروفیسر اور پرنسپل بھی رہ چکے تھے، پاکستان کے سچّے عاشق تھے اور وہ 1947 میں قائدِاعظم کی شخصیت سے متاثر ہو کر نقل مکانی کرکے بنگلور سے کراچی آئے تھے۔ ایسی ہی ایک اور قد آور شخصیت پروفیسر میگھراج کی بھی ہے جن کا تعلق سجاول سندھ سے ہے اور جنھوں نے ٹیچرز ٹریننگ کے ایک معروف سرکاری ادارے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

اس کے علاوہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی ایسی بے شمار شخصیات ہیں جن کی وطنِ عزیز کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، جن میں عدلیہ کے مایہ ناز رکن آنجہانی جسٹس اے آر کارنیلئس اور پاک فضائیہ کے نامور شاہین سیسل چوہدری بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کسی بھی شخص کے منہ سے کبھی یہ گلہ یا شکوہ سننے کو نہیں ملا کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قارئین کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پشاور کے تاریخی گورکھ ناتھ مندر کے مقدمے میں پشاور ہائی کورٹ نے حال ہی میں یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ اس 160 سالہ پرانے تاریخی مندر کوکھول دیا جائے۔

اب ذرا اس مسئلے کا موازنہ ہندوستان کی صدیوں پرانی بابری مسجد سے کیجیے جسے کانگریسی وزیراعظم پی وی نرسمہا رائو کے دور میں ہندو انتہا پسندوں نے شہید کردیا تھا اور جو آج بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں کا رستا ہوا ناسور ہے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے مقبوضہ کشمیر اور آسام میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے بے تحاشا مظالم پر چپ کیوں سادھ رکھی ہے اور آنکھیں کیوں موند رکھی ہیں؟

سندھ کے صوبائی وزیر مکیش کمار چائولہ اور موہن لال کوہستانی نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ایک مخصوص میڈیا گروپ کی جانب سے پاکستان میں آباد اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے اور پاکستان سے جبری نقل مکانی کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ گزشتہ جمعہ 10 اگست کو کراچی پریس کلب میں ہندوئوں کی ہندوستان نقل مکانی کی بے بنیاد خبروں کی ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا عالمی دہشت گردی کے شکار پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں 40 سے 45 لاکھ ہندو آباد ہیں لہٰذا اگر ہر ہفتے 7 ہندو خاندانوں کی بھارت منتقلی کی خبریں درست ہوتیں تو آج سندھ میں ایک بھی ہندو موجود نہ ہوتا۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیکب آباد میں ہندو کل آبادی کا 20 فیصد ہیں جب کہ جیکب آباد کے کل کاروبار میں ہندوئوں کا حصّہ 70 فیصد ہے۔

بھارت کی حکمراں جماعت اور اپوزیشن جماعت بی جے پی کے معتبر رہنماؤں نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایسے حالات یا غیر معمولی صورت حال نہیں ہے کہ پاکستانی ہندو بھارت منتقل ہوجائیں۔ کانگریس کے مرکزی رہنما اور سابق سفارت کار مانی شنکرآئر نے جو کہ ایک زمانے میں پاکستان میں بھارت کے قونصل جنرل بھی رہ چکے ہیں، کھلے الفاظ میں پاکستان کے خلاف عاید کیے جانے والے جھوٹے الزام کی تردید کی ہے۔ یہ بات خوش آیند اور اطمینان بخش ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک اور صدر آصف علی زرداری نے اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے لیا ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اس معاملے کی پوری طرح چھان بین کے لیے ایک سہ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
Load Next Story