انسان اور گدھا
گدھا جو ازل سے معصوم چلا آرہا تھا اور اس کی سادگی اور معصومیت ہی دراصل اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھاتی چلی آرہی ہے
عالمی ادارہ صحت اور محکمہ لائیو اسٹاک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں گدھوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے انقلاب آئے مگرگدھے کی فطرت میں کوئی انقلاب نہ آسکا۔
گدھے کی سادہ لوحی یا پھر بے وقوفی کا ایک بہت بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ اکیس ویں صدی میں چودہویں صدی کے نظام کی گدھا گاڑی کھینچنا کوئی آسان کام نہیں۔ گدھوں کے بارے میں اسی لیے ہر دور میں طرح طرح کی ناروا افواہیں پھیلائی جاتی رہی ہیں اور ان کے بارے میں ایک متفقہ نظریہ بالآخر یہی ہے کہ وہ احمق ہوتے ہیں، بے وقوف ہوتے ہیں اورگدھے ہوتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ تاریخ کا سب سے نامور گدھا ملا نصیرالدین کا تھا جو انسانوں سے زیادہ دانش رکھتا تھا۔ اگر گدھے کی یہی تاریخ ہے اور اس تاریخ کو کسی نے مسخ نہیں کیا ہے تو ہماری دانست میں گدھوں کو معاشرے میں ایک معزز مقام ضرور ملنا چاہیے۔ واضح رہے کہ یہاں ہم ان گدھوں کی بات نہیں کر رہے جو زندگی کے اکثر شعبوں میں معزز مقام حاصل کرچکے ہیں اور ان کے اعزاز میں اگر بین الاقوامی طور پر نہ سہی مقامی یا ملکی سطح پر ان کے احباب ایک آل پاکستان گدھا کانفرنس کا اہتمام بھی کرچکے ہوں گے۔
انسان کے نظام حیات میں گدھے کا کردار کتنا اہم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں چاہے کسی زبان میں بھی کوئی فلم بنی، کسی نہ کسی فلم میں گدھے کو ضرور فلمایا گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں اردو، بنگالی، گجراتی، مراٹھی، پشتو، پنجابی، ہندی، تامل اور دیگر کی زبانوں میں بننے والی فلموں میں گدھے کو ہائی لائٹ ضرور کیا گیا۔ غالباً 1967 کی دہائی میں فلم ساز و اداکار وحید مراد نے ہدایت کار پرویز ملک سے ایک خوبصورت اور دلچسپ فلم ''ہیرا اور پتھر'' کے نام سے بنوائی تھی
فلم میں وحید مراد کے مقابل زیبا نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا یہ فلم مکمل طور پر کراچی میں بنائی گئی تھی اور پاکستان میں پہلی بار کسی ہیرو کوگدھا گاڑی چلاتے دکھایا گیا تھا اور اس کی ریس بھی باقاعدہ پکچرائز کی گئی تھی جو فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئی اور اس کا شمار کامیاب ترین فلموں میں کیا جاتا ہے۔
تاہم گدھوں کے حوالے سے پاکستان کی سب سے بڑی، منفرد، جاندار اور شاہکار فلم ''انسان اور گدھا'' کے نام سے فلم ساز و ہدایت کار سید کمال نے بنائی تھی اور اب اس کا شمار پاکستانی سینما کی کلاسک فلموں میں کیا جاتا ہے۔ اس فلم کا مرکزی خیال کرشن چندرکی مشہور زمانہ کتاب ''گدھے کی سرگزشت'' سے لیا گیا تھا جس میں کمال نے انسان کا اور رنگیلا نے گدھے کا کردار ادا کرکے اسے فن اداکاری میں امر کردیا تھا۔
کمال کی ہدایت کارانہ خوبیوں کو دیکھیے کہ انھوں نے اپنی اس فلم میں گدھے کے کردار کو اس انداز میں پینٹ کیا کہ ہمارے ارباب اختیار (سیاستدانوں) کو یہ بہت ہی ناگوار گزرا اور انھوں نے اس فلم کی نمائش پر پابندی لگوادی ، بعدازاں بڑی تگ و دو اور کٹنگ کے بعد یہ فلم سینما پر دوبارہ لگی اور اسے پھر سے عوام وخواص نے پسندیدگی کی سند عطا کی۔
پاکستان کے متعدد شہروں میں گدھوں کی ریس کے باقاعدہ مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں اور شہ سوار گدھوں کے مالکان اور گدھوں کے نام بھی اس حوالے سے رجسٹر کرائے جاتے ہیں۔ شہ سوارگدھوں کے بڑے دلچسپ نام رکھے جاتے ہیں مثلاً ہرکولیس، ٹارزن، شیرو، تلوار، ایٹم بم، جگا، چنبیلی، ہیرا، حسینہ اور راکھا وغیرہ ۔یاد رہے مقابلہ جیتنے والے گدھوں کی قیمت لاکھوں روپے ہوتی ہے اور ان کا مالک خود کوکسی طور پر پیجارو یا کرولا کے مالک سے کم نہیں سمجھتا اور بعض تو اپنی گدھا گاڑی پر واضح طور پر'' کھوتا کرولا '' بھی لکھواتے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے ہاں گدھے سے صرف بوجھ اٹھانے کے اور کوئی خاص کام نہیں لیا گیا یا پھر دوسروں کی انسلٹ اس سادہ لوح چوپائے کا نام لے کر کرنے، اسے نیچا ثابت کرنے یا اسے احمق گرداننے یا پھر اسے ''مہذبانہ گالی'' دینے کے ہی کام آتا ہے۔ شادی پر بھی عام طور پر لوگ گھوڑوں پر ہی بیٹھتے ہیں،گدھے پر اس لیے نہیں بیٹھتے کہ لڑکی والوں کو دلہا پہچاننے میں دشواری نہ ہو۔
ہمارے ملک میں یوں تو ہر جگہ گدھوں نے بڑے بڑے کام کیے اور اپنے گدھے پن کے بین الاقوامی نوعیت کے ریکارڈ بھی قائم کیے۔ لیکن ہمارے شہر کراچی کی تعمیر میں ان کا سب سے بڑا ہاتھ اور پاؤں ہے۔ گدھوں کا یہ کارنامہ ہی ہے کہ کراچی والوں سے کہا جائے گا کہ گدھے اس وقت جب تعمیراتی سہولتیں ناپید تھیں تب گدھے باہر (دور دراز سے) ریت لاتے رہے اس کے ساتھ سیمنٹ، لوہا، بجری یا مٹی، پتھر، بلاک، چونا، گارا پہنچاتے رہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر دنیا کا بہت بڑا اور بین الاقوامی شہر بن گیا۔ پہاڑوں کے تنگ و دشوار گزار اور پر پیچ راستے جہاں کوئی ٹرک نہیں جاسکتا وہاں گدھا ہی پہنچ سکتا تھا۔
گدھے کے ساتھ گاڑی کے اضافے نے تو سونے پر سہاگے کا کام کیا اس طرح ایک گدھا تین چار گدھوں کا بوجھ اٹھانے لگا اور وہ کام جو گاڑی کے بغیر پورے ڈیڑھ سو برس میں ختم ہوتا پچاس برس میں ختم ہوگیا۔ سائنس بھی اتنا بڑا کمال شاید نہ کرسکتی جو اس ''گدھا گاڑی'' نے کردیا جسے آپ کراچی میں بالخصوص اور ملک کے دوسرے شہروں میں بالعموم ہر موڑ پر دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں آپ کو شاید گدھا گاڑی نظر نہیں آئے گی۔
یوں گدھے نے تاریخ میں اگر کوئی ترقی کی ہے تو وہ یہی کہ کراچی والوں نے اسے گاڑیوں میں استعمال کیا اور ایک گدھے نے بڑے عرصے تک تین چار گدھوں کا فریضہ ادا کیا۔ پھر کسی عقل مند نے دو گدھوں کو ایک گاڑی میں جوت کر اپنے تئیں گدھے کا لوڈ ڈیوائیڈ کردیا۔ عام طور پر اس گاڑی میں جتے دوسرے گدھے کو پہلے گدھے کی '' پخ '' کہا جاتا ہے، کہتے ہیں دونوں گدھے اس غلط فہمی میں دوڑتے رہتے ہیں کہ سارا بوجھ دوسرا گدھا اٹھائے ہوئے ہے۔
گدھے کی اہمیت یا اس سے مشفقانہ لگاؤکا اندازہ اس امر سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ اور ہم کبھی اپنے بچوں یا ان کے بچوں کی نالائقی یا شرارتوں پر انھیں گدھا کہنے سے نہیں رکتے اور بعض اوقات انھیں '' گدھے کا بچہ '' کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اس حوالے سے بھی گدھے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ آپس کی بات ہے اس لیے آپ سے شیئر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور وہ بات یہ ہے کہ گدھوں کے ساتھ ہماری دوستی بہت دیرینہ یا مراسم بہت طویل عرصہ رہے ہیں بلکہ عمر کا طویل حصہ انھی کے ساتھ بسر ہوا ہے۔ البتہ اب کچھ عرصے سے ان سے ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور اب تو سڑکوں پر بھی کوئی خال خال ہی گدھا دکھائی دیتا ہے۔
الغرض یا المختصر یہ کہ انسان اور گدھے کا ساتھ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ گدھا جو ازل سے معصوم چلا آرہا تھا اور اس کی سادگی اور معصومیت ہی دراصل اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھاتی چلی آرہی ہے۔ یہ زمانے سے بوجھ تو اٹھاتا ہی چلا آرہا ہے لیکن پھر مادہ پرستی کے دور میں انسانی وحشت کا شکار بھی ہوتا چلا گیا۔ اس بے زبان، سادہ لوح پر چھڑی کے بجائے ''چھری'' چلنے لگی اور زندہ اور مردہ گدھوں کا گوشت بیچنے والے افراد اسی ''سادہ لوح میڈیم'' سے کروڑ پتی بن گئے۔
گدھے کی سادہ لوحی یا پھر بے وقوفی کا ایک بہت بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ اکیس ویں صدی میں چودہویں صدی کے نظام کی گدھا گاڑی کھینچنا کوئی آسان کام نہیں۔ گدھوں کے بارے میں اسی لیے ہر دور میں طرح طرح کی ناروا افواہیں پھیلائی جاتی رہی ہیں اور ان کے بارے میں ایک متفقہ نظریہ بالآخر یہی ہے کہ وہ احمق ہوتے ہیں، بے وقوف ہوتے ہیں اورگدھے ہوتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ تاریخ کا سب سے نامور گدھا ملا نصیرالدین کا تھا جو انسانوں سے زیادہ دانش رکھتا تھا۔ اگر گدھے کی یہی تاریخ ہے اور اس تاریخ کو کسی نے مسخ نہیں کیا ہے تو ہماری دانست میں گدھوں کو معاشرے میں ایک معزز مقام ضرور ملنا چاہیے۔ واضح رہے کہ یہاں ہم ان گدھوں کی بات نہیں کر رہے جو زندگی کے اکثر شعبوں میں معزز مقام حاصل کرچکے ہیں اور ان کے اعزاز میں اگر بین الاقوامی طور پر نہ سہی مقامی یا ملکی سطح پر ان کے احباب ایک آل پاکستان گدھا کانفرنس کا اہتمام بھی کرچکے ہوں گے۔
انسان کے نظام حیات میں گدھے کا کردار کتنا اہم ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں چاہے کسی زبان میں بھی کوئی فلم بنی، کسی نہ کسی فلم میں گدھے کو ضرور فلمایا گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں اردو، بنگالی، گجراتی، مراٹھی، پشتو، پنجابی، ہندی، تامل اور دیگر کی زبانوں میں بننے والی فلموں میں گدھے کو ہائی لائٹ ضرور کیا گیا۔ غالباً 1967 کی دہائی میں فلم ساز و اداکار وحید مراد نے ہدایت کار پرویز ملک سے ایک خوبصورت اور دلچسپ فلم ''ہیرا اور پتھر'' کے نام سے بنوائی تھی
فلم میں وحید مراد کے مقابل زیبا نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا یہ فلم مکمل طور پر کراچی میں بنائی گئی تھی اور پاکستان میں پہلی بار کسی ہیرو کوگدھا گاڑی چلاتے دکھایا گیا تھا اور اس کی ریس بھی باقاعدہ پکچرائز کی گئی تھی جو فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوئی اور اس کا شمار کامیاب ترین فلموں میں کیا جاتا ہے۔
تاہم گدھوں کے حوالے سے پاکستان کی سب سے بڑی، منفرد، جاندار اور شاہکار فلم ''انسان اور گدھا'' کے نام سے فلم ساز و ہدایت کار سید کمال نے بنائی تھی اور اب اس کا شمار پاکستانی سینما کی کلاسک فلموں میں کیا جاتا ہے۔ اس فلم کا مرکزی خیال کرشن چندرکی مشہور زمانہ کتاب ''گدھے کی سرگزشت'' سے لیا گیا تھا جس میں کمال نے انسان کا اور رنگیلا نے گدھے کا کردار ادا کرکے اسے فن اداکاری میں امر کردیا تھا۔
کمال کی ہدایت کارانہ خوبیوں کو دیکھیے کہ انھوں نے اپنی اس فلم میں گدھے کے کردار کو اس انداز میں پینٹ کیا کہ ہمارے ارباب اختیار (سیاستدانوں) کو یہ بہت ہی ناگوار گزرا اور انھوں نے اس فلم کی نمائش پر پابندی لگوادی ، بعدازاں بڑی تگ و دو اور کٹنگ کے بعد یہ فلم سینما پر دوبارہ لگی اور اسے پھر سے عوام وخواص نے پسندیدگی کی سند عطا کی۔
پاکستان کے متعدد شہروں میں گدھوں کی ریس کے باقاعدہ مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں اور شہ سوار گدھوں کے مالکان اور گدھوں کے نام بھی اس حوالے سے رجسٹر کرائے جاتے ہیں۔ شہ سوارگدھوں کے بڑے دلچسپ نام رکھے جاتے ہیں مثلاً ہرکولیس، ٹارزن، شیرو، تلوار، ایٹم بم، جگا، چنبیلی، ہیرا، حسینہ اور راکھا وغیرہ ۔یاد رہے مقابلہ جیتنے والے گدھوں کی قیمت لاکھوں روپے ہوتی ہے اور ان کا مالک خود کوکسی طور پر پیجارو یا کرولا کے مالک سے کم نہیں سمجھتا اور بعض تو اپنی گدھا گاڑی پر واضح طور پر'' کھوتا کرولا '' بھی لکھواتے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے ہاں گدھے سے صرف بوجھ اٹھانے کے اور کوئی خاص کام نہیں لیا گیا یا پھر دوسروں کی انسلٹ اس سادہ لوح چوپائے کا نام لے کر کرنے، اسے نیچا ثابت کرنے یا اسے احمق گرداننے یا پھر اسے ''مہذبانہ گالی'' دینے کے ہی کام آتا ہے۔ شادی پر بھی عام طور پر لوگ گھوڑوں پر ہی بیٹھتے ہیں،گدھے پر اس لیے نہیں بیٹھتے کہ لڑکی والوں کو دلہا پہچاننے میں دشواری نہ ہو۔
ہمارے ملک میں یوں تو ہر جگہ گدھوں نے بڑے بڑے کام کیے اور اپنے گدھے پن کے بین الاقوامی نوعیت کے ریکارڈ بھی قائم کیے۔ لیکن ہمارے شہر کراچی کی تعمیر میں ان کا سب سے بڑا ہاتھ اور پاؤں ہے۔ گدھوں کا یہ کارنامہ ہی ہے کہ کراچی والوں سے کہا جائے گا کہ گدھے اس وقت جب تعمیراتی سہولتیں ناپید تھیں تب گدھے باہر (دور دراز سے) ریت لاتے رہے اس کے ساتھ سیمنٹ، لوہا، بجری یا مٹی، پتھر، بلاک، چونا، گارا پہنچاتے رہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر دنیا کا بہت بڑا اور بین الاقوامی شہر بن گیا۔ پہاڑوں کے تنگ و دشوار گزار اور پر پیچ راستے جہاں کوئی ٹرک نہیں جاسکتا وہاں گدھا ہی پہنچ سکتا تھا۔
گدھے کے ساتھ گاڑی کے اضافے نے تو سونے پر سہاگے کا کام کیا اس طرح ایک گدھا تین چار گدھوں کا بوجھ اٹھانے لگا اور وہ کام جو گاڑی کے بغیر پورے ڈیڑھ سو برس میں ختم ہوتا پچاس برس میں ختم ہوگیا۔ سائنس بھی اتنا بڑا کمال شاید نہ کرسکتی جو اس ''گدھا گاڑی'' نے کردیا جسے آپ کراچی میں بالخصوص اور ملک کے دوسرے شہروں میں بالعموم ہر موڑ پر دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں آپ کو شاید گدھا گاڑی نظر نہیں آئے گی۔
یوں گدھے نے تاریخ میں اگر کوئی ترقی کی ہے تو وہ یہی کہ کراچی والوں نے اسے گاڑیوں میں استعمال کیا اور ایک گدھے نے بڑے عرصے تک تین چار گدھوں کا فریضہ ادا کیا۔ پھر کسی عقل مند نے دو گدھوں کو ایک گاڑی میں جوت کر اپنے تئیں گدھے کا لوڈ ڈیوائیڈ کردیا۔ عام طور پر اس گاڑی میں جتے دوسرے گدھے کو پہلے گدھے کی '' پخ '' کہا جاتا ہے، کہتے ہیں دونوں گدھے اس غلط فہمی میں دوڑتے رہتے ہیں کہ سارا بوجھ دوسرا گدھا اٹھائے ہوئے ہے۔
گدھے کی اہمیت یا اس سے مشفقانہ لگاؤکا اندازہ اس امر سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ اور ہم کبھی اپنے بچوں یا ان کے بچوں کی نالائقی یا شرارتوں پر انھیں گدھا کہنے سے نہیں رکتے اور بعض اوقات انھیں '' گدھے کا بچہ '' کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اس حوالے سے بھی گدھے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ آپس کی بات ہے اس لیے آپ سے شیئر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور وہ بات یہ ہے کہ گدھوں کے ساتھ ہماری دوستی بہت دیرینہ یا مراسم بہت طویل عرصہ رہے ہیں بلکہ عمر کا طویل حصہ انھی کے ساتھ بسر ہوا ہے۔ البتہ اب کچھ عرصے سے ان سے ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور اب تو سڑکوں پر بھی کوئی خال خال ہی گدھا دکھائی دیتا ہے۔
الغرض یا المختصر یہ کہ انسان اور گدھے کا ساتھ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ گدھا جو ازل سے معصوم چلا آرہا تھا اور اس کی سادگی اور معصومیت ہی دراصل اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھاتی چلی آرہی ہے۔ یہ زمانے سے بوجھ تو اٹھاتا ہی چلا آرہا ہے لیکن پھر مادہ پرستی کے دور میں انسانی وحشت کا شکار بھی ہوتا چلا گیا۔ اس بے زبان، سادہ لوح پر چھڑی کے بجائے ''چھری'' چلنے لگی اور زندہ اور مردہ گدھوں کا گوشت بیچنے والے افراد اسی ''سادہ لوح میڈیم'' سے کروڑ پتی بن گئے۔