ایک اندھیری رات ڈراؤنا خواب اور حقیقت
ان بچوں پر تجربے کرنے والے ماہر ڈاکٹر تھے۔ نومولود بچوں کو اذیت دے کر مارنے والی خواتین انتہائی پڑھی لکھی نرسز تھیں
www.facebook.com/draffanqaiser
ہٹلر تہذیب سے عاری، شدت پسند اور اذیت پسند انسان تھا، ہٹلر نے اپنی سرپرستی میں نازی جرمن فوج کے ظالم ترین دستے تیار کیے۔ ہٹلر یہودیوں کا صرف جانی دشمن نہیں تھا بلکہ Xenophobia کا شکار تھا۔
اس مرض میں انسان کو ایک خاص انسانی نسل، رنگ ، جنس، عمر یا طبقے سے نفرت ہوجاتی ہے اور انھیں کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچا کر اسے راحت ملتی ہے۔ ہٹلر نے تاریخ میں ' ہولوکاسٹ ' کو جنم دیا۔ اس میں یہودیوں کے ساتھ وہ ہوا کہ پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے۔ ہٹلر نے انھی ظالم ترین دستوں کے چند مفکروں پر ایک گروہ کو صرف اس بات کا پابند کیا کہ وہ نئے نئے تجربات کے ذریعے انسان کو اذیت ناک موت دینے کے طریقے دریافت کریں۔
Stella نامی ایک لاچار ماں نے Guido and Ina نامی اپنے دو بچوں کو Morphine دے کر مار ڈالا۔ ان بچوں کو انکل منگلی کے نام سے مشہور' نازی جرمن فوج' کے ایک ڈاکٹر نے ' موت کے خیموں' کے نام سے جانے جانے والے Extermination camps میں سے ایک کیمپ میں ٹانکوں سے بری طرح سی دیا تھا۔ وہ یہ تجربہ کرنا چاہتا تھا کہ اگر جڑواں بچے سی دئے جائیں تو ان کی جلد آپس میں جڑسکتی ہے کہ نہیں۔
ان بچوں کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے اور ان میں سے پیپ بہتی اوروہ ہر وقت چلایا کرتے تھے اور منگلی انھیں دیکھ کر کہا کرتا تھا یہ بدتمیز اسی قابل ہیں۔ یہ صرف ایک مثال تھی۔نازی جرمنی کی فوج میں موجود ڈاکٹروں نے ' نازی میڈیکل تجربات' کے نام سے یہودیوں کے ساتھ وہ ظلم کیا جو تحریر کرتے ہوئے بھی میرے ہاتھ کانپ جائیں گے۔ان کو جلایا گیا، تیل نکالنے کی غرض سے پکایا گیا، زندہ کھالیں نوچیں گئیں، منفی درجہ حرارت پر جما دیا گیا، پیوندکاری کی غرض سے ان کے جسم کے محتلف اعضاء نکال لیے گئے۔
ان تجربات کا سب سے بڑا نشانہ یہودی بچے بنے۔ان تجربات سے ہٹ کر یہودیوں کو گیس کے چیمبر میں ہزاروں کی تعداد میں بند کر کے آگ سے 100 گنا زیادہ درجہ حرارت پر بھسم کردیا گیا۔اسی ظلم سے تقریبا نوے لاکھ یہودی مار دئے گئے۔ہٹلر بے شک ایک بدتہذیب،ظالم شخص تھا مگر اس کے ظلم نے دنیا بدل دی۔
اڈولف ہٹلر کے زمانے میں سب سے بدنام ِ زمانہ کیمپ auschwitz تھا جہاں پندرہ لاکھ سے زائد لوگوں کو قتل کیا گیا۔ محققین اس بات پر متفق ہیں کہ اڈولف ہٹلر نے گریٹر جرمنی کے خواب کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی بہت پہلے سے شروع کردی تھی، اس لیے جب اس نے پولینڈ کو فتح کیا اور یہاں اذیت خانوں کی بنیاد رکھی تو ان میں پوری دنیا سے ڈاکٹر ،انجینئر اور ملٹری کے وہ لوگ اکٹھے کیے گئے،جو ان تجربات کا مرکز تھے،جن کا مقصد ان اذیت خانوں میں لائے افراد پر نازی فوج کے لیے بہتر دوائیاں، علاج، اور دیگر سہولیات کے حصول کے لیے تجربے کرنا تھا۔ ان مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والا ایک اسکول کا پرنسپل یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
سقوطِ برلن، ہٹلر کی خودکشی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس نے کتاب لکھی۔ کتاب کا نام تھا A Train Near Magdeburg۔ اس کتاب میں اذیت ناک تجربوں کا آنکھوں دیکھا حال درج تھا۔ مصنف لکھتا ہے، کہ میں نے جو دیکھا ، میری دعا ہے کہ وہ کوئی اور آنکھ نہ دیکھے۔ لاکھوں افراد کو اکٹھے بھون دینے والے گیس چیمبرز انتہائی قابل اور پڑھے لکھے انجینئرز نے بنائے تھے۔
ان بچوں پر تجربے کرنے والے ماہر ڈاکٹر تھے۔ نومولود بچوں کو اذیت دے کر مارنے والی خواتین انتہائی پڑھی لکھی نرسز تھیں۔ عورتوں اور بچوں پر گولیاں چلانے والے افراد ہائی اسکول یا کالج کے طالب علم تھے۔ شاید ان کی تعلیم ، انسانیت کے لیے اذیت بن گئی تھی۔ یہ ہٹلر کا وہ تعلیمی نظام تھا کہ جو اس نے پولینڈ پر حملے سے چند سال پہلے نصاب کا حصہ بنا کر ان افراد کے ذہنوں میں گریٹر جرمنی کے روپ میں داخل کیا تھا اور یہ سب انسان کے روپ میں بھیڑیے تھے۔
کتاب پڑھتے ہوئے میرا ذہن ، اس ہجوم کی طرف جارہا تھا ، جسے جاگیرداری، وڈیرانہ اور آمرانہ نظام نے کئی دہائیوں پر وہ نصاب پڑھا کر اس معاشرہ کا حصہ بنایا ہے کہ جہاں تعلیم کا مقصد صرف اور صرف ، پیسہ کمانا ہے۔ کب ، کیوں،کیسے ؟ انسانیت کے درجے کیا ہیں؟ ان کی تعریف اس رات کی اندھیری چادر میں گم ہوگئی ہے۔