بہت سے پاکستانی چین میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں
پاکستانی چین میں بہت فعال ہیں اور اپنی ملازمت اور کاروبار کے ساتھ چینی سماج کو بھی اپنی خدمات سے مستفید کر رہے ہیں
چینی میں مقیم پاکستانیوں نے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ سے اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں،
قسط نمبر : 12
چین میں تین سالہ قیام کے دوران بہت سے پاکستانیوں سے ملنے کا موقع ملا جو مختلف سماجی شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ بیجنگ میں جشن آزادی کی تقریب وہ پہلا موقع تھا جہاں کئی پاکستانی احباب سے ملاقات ہوئی۔ کئی شخصیات کا تعلق سفارتی حلقوں سے تھااور بعض افراد مختلف شعبوں سے منسلک تھے جبکہ کچھ کاروبار سے وابستہ تھے۔ بعض نجی تعلیمی اداروں کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ہم حیران ہوئے کہ ہم تو سرکار ی طور پر یہاں آئے تھے۔
یہاں چین میں اتنی تعداد میں غیر سرکاری افراد کیسے آگئے۔ رفتہ رفتہ ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو پھر ان کی مہارتیں اور ان کا دائرہ کار بھی سامنے آتا چلا گیا۔ معلوم ہوا کہ پاکستانی یہاں بہت فعال ہیں اور اپنی ملازمت اور کاروبار کے ساتھ ساتھ چینی سماج کو بھی اپنی خدمات سے مستفید کر رہے ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے پاکستان ایمبیسی کالج کے بارے میں جان کر بڑی خوشی ہوئی۔ پاکستان ایمبیسی کالج کے پروفیسر ملتان کے مرزا عاطف نے بتایا کہ یہ چین کا پہلا انٹرنیشنل کالج ہے جو چینی حکومت کی درخواست پر کھولا گیا۔
اِس وقت کالج میں باسٹھ مختلف قومیتوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں فیڈرل بورڈ کے سلیبس کے مطابق میڑک اور ایف ایس سی جبکہ کیمبرج یونیورسٹی کے تحت او اور اے لیولز بھی کروایا جاتا ہے۔چین،مشرق وسطی، امریکہ ، یورپ، نیوزی لینڈ، آسڑیلیا، جنوبی امریکا، روس سے تعلق رکھنے والے بچے یہاں زیر تعلیم ہیں۔سفارتی حلقوں کے لیے یہ کالج ایک غنیمت ہے کیونکہ بیجنگ میں بہت سے غیر ملکی سفارتخانے ہیں۔ وہاں تعینات عملے کے بچوں کی تعلیمی ضروریات یہ کالج بخوبی پوری کر رہا ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے چینی طلباء لندن اسکول آف اکنامکس، ٹوکیو یونیورسٹی، ہارورڈاور دیگر امریکی نمایاں تعلیمی اداروں میں داخلہ آسانی سے حاصل کر لیتے ہیں۔
پورے چین میں یہ سب سے کم فیس چارج کرنیوالا کالج ہے۔ تعلیمی شعبے میں چینی سماج کی خدمت کا سلسلہ اس کالج تک ہی نہیں موقوف بلکہ بہت سے پاکستانی اساتذہ چین میں مختلف صف اول کے انٹرنیشنل سکولز میں پڑھا رہے ہیں۔ سفارتخانے کی ہی ایک تقریب میں ہماری ملاقات کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک پاکستانی ٹیچر انیلہ خان سے ہوئی جو 2011ء سے بیجنگ میں ایک انٹرنیشنل تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں۔انیلہ خان انفارمیشن ٹیکنالوجی پڑھاتی ہیں اور انہیں بہترین استاد کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں چینی طلباء کے والدین کی جانب سے غیر ملکی اساتذہ کو بہت عزت و تکریم دی جاتی ہے۔
کسی عوامی مقام پر اگر کوئی چینی شاگرد مل جائے تو وہ انتہائی احترام سے پیش آتا ہے۔ انیلہ خان کا کہنا تھا کہ جب وہ یہاں آئیں تو دیگر ممالک کے اساتذہ کو پاکستان کے حوالے سے تحفظات تھے جن کو انہوں نے اپنے مثبت رویے سے دور کیا۔ انیلہ خان کو بہترین کارکردگی پر ان کے ادارے کی جانب سے منگ یوان (Ming Yuan Award) سمیت کئی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا جا چکا ہے ۔ یہ ایوارڈ انہوں نے چین کے عظیم عوامی ہال میں وصول کیا ۔ اس ہال میں ایوارڈ پانا کسی بھی مقامی یا غیر ملکی کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے،کیونکہ یہاں صرف اعلیٰ سطح کی حکومتی تقریبات ہی منعقد ہوتی ہیں۔ تدریس کے ساتھ وہ تین ایسے چینی بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کر رہی ہیں جن کے والدین انہیں سکول بھیجنے سے قاصر ہیں۔
چینی سماج میں خدمات انجام دینے والے ایک اور پاکستانی ڈاکٹرساجد خورشید ہیں۔ ان کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور گزشتہ پندرہ برس سے بیجنگ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ساجد خورشید بیجنگ کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ ان سے بھی ملاقات پاکستانی سفارتخانے میں جشنِ آزادی کی تقریب میں ہوئی تھی۔ جب ہم نے ان سے سی آر آئی کے حوالے سے تعارف کروایا تو انہوں نے بڑی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا ۔ ہم اس پر قدرے حیران ہوئے ۔ وہ تو بعد میں عقدہ کھلاکہ موصوف سی آر آئی کی اردو سروس کا ایک پروگرام کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے ہمارے ساتھ اپنی سی آر آئی کی یادوں کو تازہ کیا۔ ڈاکٹر ساجد خورشید شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں ۔ پاکستان ایمبیسی کالج کے پرنسپل بھی رہے اور اب ایک انٹرنیشنل تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں۔ تدریس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب چین کے سرکاری ٹی وی سی سی ٹی وی پر بھی مختلف پروگرامز کرتے ہیںا ور بیجنگ کے ایک مقامی ایف ایم سے مستقل بنیادوں پر پروگرام بھی کررہے ہیں۔ ا س کے علاوہ ڈاکٹر ساجد خورشید چین کی صفِ اول کی یونیورسٹی شنخواہ یونیورسٹی میں بھی پڑھاتے ہیں۔انہوں نے پاکستان میں پانچواں کنفیوشس سنٹر کھلوانے میں بڑا مثبت اور متحرک کردار ادا کیا ہے۔یہ کنفیوشس سنٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں کھولا جائے گا۔اس حوالے سے مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔اس سنٹر کے قیام سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلیمی و ثقافتی شعبوں میں تعاون بڑھے گا اور بہت سے طلباء کو چین جانے کا موقع میسر آئے گا۔
چین میں پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی کے دوران ہمیں ایک مرتبہ شنگھائی جانے کا اتفاق ہوا۔ اگرچہ یہ انتہائی مختصر دورہ تھا مگر اس میں بھی وہاں مقیم ایک پاکستانی سے ملاقات ہو ہی گئی۔ پاکستان کے شہر چیچہ وطنی کے چک نمبر 50/12-L سے تعلق رکھنے والے زاہد اقبال سندھو ایک انتہائی ملنسار اورمہمان نواز شخصیت ہیں۔
ہمارے مختصر دورہ شنگھائی میں بھی انہوں نے ہمیں کھانا کھلائے بغیر واپس جانے نہ دیا۔ اگرچہ ہمارے ہوٹل اور ان کی رہائش گا ہ میں بہت فاصلہ تھا مگر وہ اس طویل فاصلے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملاقات پر زوردیتے رہے۔ سو ہم بھی اپنے چینی ساتھیوں کو مطلع کر کے اپنے ہوٹل سے اکیلے ہی ان سے ملنے ٹیکسی میں روانہ ہو گئے۔ اگرچہ شنگھائی ہمارے لیے بالکل ایک نیا شہر تھا مگر ہم بے دھڑک ٹیکسی میں سوار ہو گئے اور ہمارا ٹیلیفون پر ان سے رابطہ رہا اور پیپلز سکوائرکے قریب ایک چوراہے پر زاہد اقبال سندھو کے پاس پہنچ گئے۔یہ الگ بات ہے کہ موصوف بھی ہمیں ملنے اپنی رہائش گاہ سے کافی دورآئے اور یوں ہم دونوں کے لیے ایک درمیانی منزل کا تعین ہو گیا۔
زاہد اقبال سندھو 2002ء سے چین میں مقیم ہیں اور ایک انٹرنیشنل تعلیمی ادارے سے بطور استاد وابستہ ہیں ۔ انہوں نے ہمیں شنگھائی میں مشہور عالم بند کی سیر بھی کروائی۔اس وقت موسم گر م تھا اور لوگ دریا کنارے بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دریا کے اطراف بلند و بالا عمارتوں کی روشنیوں کا عکس دریا کے پانی میں انتہائی دلفریب دکھائی دیتا۔ دریا کنارے ایک دلچسپ نظارہ نئے شادی شدہ جوڑوںکی فو ٹو گرافی تھا۔ ہم یہ دیکھ کر حیران تھے جس پر زاہداقبال نے بتایا کہ یہ یہاں کا کلچر ہے اورلوگ اپنی شادی کو یاد گار بنانے کے لیے اس مقام کا انتخاب کرتے ہیں۔زاہد اقبال سندھو ہمیں شنگھائی کے ایک مشہور مسلم ریسٹورنٹ بھی لے گئے جہاں سے ہم نے ایک پرتکلف کھانا تناول کیا۔اس مختصر ملاقات میں بھی انہوں نے ہمیں شنگھائی کی ایک مشہور سڑیٹ کی سیر کروائی۔ چین کی آزادی سے پہلے شنگھائی کے مختلف حصوں پر مختلف غیر ملکی طاقتوں کا کنڑول تھا جس کا اظہار یورپی طرز عمارتوں سے ہوتا ہے۔
شنگھائی بیجنگ کے مقابلے میں زیادہ پُر ہجوم ہے۔ یہاں کے لوگ بیجنگ کے مقابلے میں فربہی مائل تھے۔وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ یہاں کے لوگ میٹھا کھانے کے شوقین ہیں۔ تدریس کے ساتھ ساتھ زاہد اقبال سندھو پاکستان کمیونٹی شنگھائی کے صدر بھی ہیں۔وہ شنگھائی میں پاکستانی قونصلیٹ کے تعاون سے پاکستان کے اہم دنوں کے حوالے سے مختلف سماجی تقریبات کا اہتمام بھی کرتے ہیں جن میں پاکستانی اورچائینز مل کر حصہ لیتے ہیں۔ پاکستانی بچوں نے یہاں کرکٹ کھیلنا شروع کی اور اپنے ہم عمر چینی بچوں کو بھی کرکٹ سکھا دی ہے۔ انہوں نے وسطی چین سے تعلق رکھنے والے ایک بچے کی ہارٹ سرجری کے لیے عطیہ بھی دیا۔ سماجی طور پر متحرک زاہد اقبال سندھو ا پنی پیشہ ورانہ قابلیت کے لیے بھی مشہور ہیں ۔انہیں ان کے ادارے کی جانب سے مختلف ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔
چین میں موجود پاکستانی شعبہ تعلیم کے علاوہ تجارت اور کاروبارمیں بھی بہت فعال ہیں۔ایسی ہی ایک کاروبار ی شخصیت سے ہماری ملاقات بیجنگ میں ہوئی ۔ ویسے تو ان کا چین میں سسرالی شہر صوبہ شانسی Shanxi کا شہر جنگ چھینگ ہے (JingCheng) ہے مگر وہ کاروباری تقاضوں کے پیش نظر بیجنگ میں مقیم ہیں۔
پاکستان کے شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے شیدا محمد ذوالقرنین گزشتہ بائیس برس سے چین میں مقیم ہیں اور چین کی ترقی کے عینی شاہد ہیں۔ لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی سے میکنیکل انجینئرنگ کرنے والے شیدا محمد ذوالقرنین سب سے پہلے 1993ء کے اواخر میںواپڈا کی جانب سے تھرمل پاور کی تربیت کے لیے چین کے شہر ہاربن گئے۔ چین سے واپسی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے واپڈاکو خیر بادکہہ دیا اور ایک امریکن کمپنی کو جوائن کرلیا۔ اس کمپنی نے پھر انہیں چین بھیج دیا۔ یوں وہ 1998ء کی ابتداء میں ایک مرتبہ پھر چین آ گئے اور اب تک یہیں ہیں۔ یہاں انہوں نے پاورسیکٹر میںانٹرنیشنل کمپنی میں ملازمتکی اور بعد ازاں کاروبار بھی کیا ۔ وہ پاور پلانٹ ایکوئپمینٹ، سی این جی سٹیشن سے متعلقہ سازوسامان کی برآمد کے کاروبار سے منسلک ہیں۔وہ چین سے پاکستان میں سی این جی سٹیشن ایکسپورٹ کرتے رہے ہیں۔
شیدا محمد ذوالقرنین کی چینی خاتون سے ہونے والی شادی کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔وہ کمپنی کی جانب سے جس شہر میں تعینات تھے وہاں مسلمان بھی کافی تعداد میں آباد ہیں۔وہیں ایک Match Maker کے توسط سے ان کی شادی ایک چینی لڑکی سے ہوئی۔ شیدا محمد ذوالقرنین کی اہلیہ اپنے علاقے میں پہلی چینی لڑکی تھیں جنہوں نے کسی غیرملکی سے شادی کی ۔ یوں اس جوڑے کو بہت مقبولیت ملی۔ شیدا محمد ذوالقرنین بتاتے ہیں کہ ان کی اہلیہ کا شادی سے پہلے مقامی مسلمان گھرانوں میں کافی آنا جانا تھا۔یوں ان کی اہلیہ مسلمانوں اورمسلم کلچر سے آگاہ تھیں۔ شادی سے قبل انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ان کی شادی میں مقامی حکومت کے نمائندے، کمپنی کے لوگ اور مقامی مسلمان بڑی تعدادمیں شریک ہوئے۔شیدا محمد ذوالقرنین بتاتے ہیں کہ ان کی شادی کی ویڈیو بعد میں مقامی ٹی وی چینل پر نشر بھی ہوئی۔
شادی کے ابتدائی سالوں میں ہر سال شادی کی سالگر ہ کے موقع پر مقامی ٹی وی چینل ان کا انٹرویو کیا کرتا تھا۔ اپنے سسرالی شہر کے پہلے غیر ملکی داماد ہونے پر انہیں بہت خوشی ہے اور ایک مرتبہ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ان کے شادی کے موقع پر پاکستان میں اس موقع پر ہونے والی تمام رسمیں جوتا چھپائی، دودھ پلائی وغیرہ یہاں بھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ جب وہ 1993ء میں پہلی مرتبہ چین آئے تو اس وقت چین میں دو کرنسیاں ہوا کرتی تھیں۔ ایک آر ایم بی (RMB) اور دوسری چینی یوان۔ غیر ملکیوں کے لیے آر ایم بی (RMB) جبکہ چینی شہریوںکے لیے چینی یوان تھا۔ اس دور میں چین میں غیر ملکیوں کے لیے فرینڈشپ سٹورز (Friendship Stores)ہوا کرتے تھے جہاں سے وہ خریداری کیا کرتے تھے۔
شیدا کے بقول 1993ء میں کرنسی کے شرح تبادلہ میں پاکستانی ڈھائی سے تین روپے میں ایک یوان مل جاتا تھا۔ اب بیس روپے سے زیادہ میں ایک یوان آتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ میں ساری ترقی 2000ء کے اولمپکس کے بعد ہوئی کیونکہ اس اولمپکس میں اعلان کیا گیا تھا کہ 2008ء کے اولمپکس بیجنگ میں ہوں گے۔ اس کے لیے پھر تیز ترین ترقی کا عمل شروع ہوا۔ اور بیجنگ کے پورے ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیاگیا۔شیدا محمد ذوالقرنین بتاتے ہیں کہ 2000ء تک چین میں ایک شہری کو مختلف ناموں سے بینک اکاونٹ کھلوانے کی اجازت ہو ا کرتی تھی۔ چین کی سماجی ترقی اور مشترکہ کلچر کے حوالے سے اپنے مشاہدات شیئر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 90 کی دہائی میں چین میں بعض معاملات میں قدامت پسندی کا رجحان تھا اور وہاں کے بزرگ مرد وخواتین نوجوان نسل کے کسی مقامی معاشرتی روایت کے برعکس جدید رجحان کا سخت برا مناتے تھے۔
ایک قابلِ تحسین معاشرتی روایت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چین میں سکولوں میں امتحانات کے دنوں (جون کے آخری ہفتے سے جولائی کے وسط تک)میں یہ روایت ہے کہ وہاں لوگ اپنی گاڑی کے سائیڈ مررز پر زرد یا سرخ رنگ کا ربن باندھ دیتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ مذکورہ گاڑی کا مالک یا مالکن رضاکارانہ ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے تیار ہے۔وہ ڈیوٹی یہ ہے کہ اگر کوئی بھی بچہ اس گاڑی کو ہاتھ دے گا تووہ اس کو امتحانی سنٹر چھوڑ کر آئیں گے۔ اسی طرح پیپر کے ختم ہونے کے بعد وہ کسی بھی طالب علم کو اس کے گھر تک چھوڑ کرآتے ہیں۔
شیدا محمد ذوالقرنین کی اہلیہ ہر سال اپنے شوہر کی معیت میں یہ رضاکارانہ ڈیوٹی سرانجام دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے شہر Jingcheng کی مقامی حکومت کا قانون ہے کہ وہاں امتحانات کے دنوں میں ہارن بجانا، بلاوجہ گلیوں میں کھڑے ہونا یا شور مچانے پر پابندی ہے۔اس کا مقصد بچوں کو پڑھائی کے لیے مناسب وقت دینا اور ان کو بیرونی خلل سے بچانا ہے ۔وہاں کی پاکستانیوں کے لیے حیران کن معاشرتی چلن یا روایت کے متعلق ان کاکہنا تھا کہ وہاں قربانی کے موقع پر دنبے کی کھال خواتین اتارتی ہیں۔ راقم کو بیجنگ کی مختلف مارکیٹس میں خواتین قصاب کو دیکھنے کا تو اتفاق ہوا مگریہ علم نہیں تھا کہ چینی خواتین بکرے کی کھال بھی بآسانی اتار لیتی ہیں۔ ان کی سب سے خوشگوار یاد 1993ء میں چین کے شہر ہاربن میں چاچا شفیع سے تکے کباب اور نان کھانا ہے۔ چاچا شفیع کا تعلق سنکیانگ سے تھا اور تمام پاکستانیوں نے ان کو چاچا شفیع کہنا شروع کیا تو وہ مقامی کمیونٹی میں بھی چاچا شفیع کے نام سے شہرت پا گئے۔
چین کی تیررفتار ترقی کے حوالے سے شیدا محمد ذوالقرنین کا کہنا ہے کہ چین میں 2000ء سے تمام نظام ڈیجیٹل ہونا شروع ہوا۔ان کے پاس 1999ء میں جاری ہونے والا مینوئل (Manual) ویزہ بھی ہے۔ نظام کو ڈیجیٹل کرنے سے چین میں روز مرہ کے امور نمٹانے میں بہت تیزی آئی اور وقت کی بچت ہوئی۔ ترقی کی ایسی ہی ایک داستان پاکستانی صنعتکار محمد صابر جان نے بھی سنائی۔ محمد صابرجان چین میں سرجیکل اور دندان سازی کے آلات کی صنعت سے وابستہ ہیں۔یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چین میں مقیم ہیں۔
یہ واحد پاکستانی صنعتکار ہیں جن کی کمپنی کو متعلقہ چینی ادارے کی جانب سے منظوری دی گئی ہے۔ یہ چین بھر میں ہونے والی سرجیکل اورڈینٹل آلات کی نمائش میں شریک ہوتے ہیں اور پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔چین میںکاروبار کرتے ہوئے انہوں نے امریکا تک اپنے کاروبار کو تو سیع دی۔ چین کے بیس شہروں میں انہوں نے ڈیلرشپ دی ہوئی ہے۔یہ پاکستان میںسیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے ساتھ ساتھ پاک، چائنہ چیمبر آف کامرس کے بھی ممبر ہیں۔
پاکستان کا شہر فیصل آباد ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے مشہور ہے اسی طرح چین میں شنگھائی کے قریب ایک چھوٹا سے ٹائون ہے کھیچیائو (Keqiao) یہ چین بھر میں ٹیکسٹائل کے لیے مشہور ہے۔اس کے علاوہ اس کی وجہ شہرت وہاں پاکستانی کمیونٹی کا ہونا ہے۔ وہاں تک پہنچنے والے پہلے پاکستانی وغیر ملکی رفیق آفریدی تھے ۔ اب وہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا خیبر پختوانخواہ آبا د ہے۔وہاں موجود پاکستانی ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہیں اور کاروباری شخصیات ہیں۔ اپنے اپنے دفاتر اور کمپنیاں ہیںجہاں سے وہ دنیا بھر میں ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتے ہیں۔اس کے علاوہ یہی پاکستانی پاکستان سے دھاگہ اور پلاسٹک کا ری سائیکل دانہ بھی درآمد کرتے ہیں۔کھیچیائو (Keqiao) میں پاکستانی کمیونٹی کے متعلق معلومات ہمیں وہاں کی انتہائی متحرک شخصیت اور پاکستانی کمیونٹی کے سربراہ عبداللہ آفریدی نے دیں۔
عبدا للہ آفریدی کا تعلق باڑہ خیبرایجنسی سے ہے اور وہ 2003ء سے کاروبار کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں۔معروف ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کھیچیائو (Keqiao) میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت کاروبار سے وابستہ ہے ۔چین کے باقی شہروں میں مقیم پاکستانی یا تو ملازمت کرتے ہیں یا پھر طالب علم ہیں۔عبداللہ آفریدی یہاں پاکستانیوں کی آمد اورابتدا ء میں انہیں درپیش مسائل سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ ایک چھوٹا سا ٹائون ہے ۔یہاں بڑے شہروں کی طرح سہولیات نہیں تھیں۔
پاکستانی شنگھائی سے یا قریب ہی واقع ایک بڑے شہر ای وو Yiwu سے آتے اور کاروباری سود ے کر کے واپس چلے جاتے ۔یہاں ٹھہرتے نہیں تھے۔آغاز میں انہیں سب سے زیادہ کھانے پینے کے مسائل تھے۔ پاکستانی حضرات شنگھائی یا ای وو سے اپنے ساتھ نا ن لاتے تھے اور وہی استعمال کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہاں مسلمانوں نے اپنے ریسٹورنٹس کھولنے شروع کیے۔اس کے لیے چینی حکومت نے بہت تعاون کیا اور قواعد میں نرمی کر کے ان ریسٹورنٹس کو کام کرنے کی اجاز ت دی۔ پھر ابتداء میں مسلمانوں کے لیے کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی۔مسلمانوں نے اس حوالے سے کوشش کی اور اب یہاں پر پانچ مساجد ہیں۔ تین میں امام مسجد پاکستانی ہیں جبکہ ایک عرب بھائیوں اور ایک مقامی چینی مسلمانوں کے لیے مسجد ہے۔ عبداللہ آفرید ی نے بتایا کہ یہاں زمین کے اوپر مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس لیے مساجد کسی بھی بلڈنگ کے دوسرے یا تیسرے فلور پر بنی ہوئی ہیں اور ان کی باقاعدہ اجازت لی گئی ہے۔ پاکستانی یہاں بہت تعداد میں مقیم ہیں ۔ یہاںکھیچیائو (Keqiao)میں تین ہزار پاکستانی باقاعدہ طور پر مقیم ہیں اورتجارت سے وابستہ ہیں۔قریبی شہر ای وو میں دو سے ڈھائی ہزار آباد ہیں۔اس کے علاوہ سنگل ویزے پرآنے والوں کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہے۔یہاں کے صاحبِ ثروت پاکستانی سماجی خدمات میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں۔ یہاں کی پاکستانی کمیونٹی سال میں دو مرتبہ بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد کرتی ہے ۔ (راقم نے بھی چین میں تین سالہ قیام کے دوران بیجنگ میں تین مرتبہ خون کا عطیہ دیا) ا س کے علاوہ وہ یہاں اولڈ ایج ہومز کا باقاعدگی سے دورہ کرتے ہیں اور وہاں موجود افراد میں کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے اوردیگر تحائف تقسیم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ خاکروبوں کی موسمی ضروریات کے مطابق گرم پانی کی بوتل، مفلر ، تولیہ فراہم کرکے یا دیگر کئی حوالوں سے امداد کرتے ہیں عبداللہ آفریدی چونکہ سماجی طور پر بہت سرگرم ہیں اس لیے انہوں نے عوامی سطح پر پاکستان کا جشنِ آزادی منانے کے لیے باضابطہ اجازت لی اور 2016ء میں پہلی مرتبہ یہاں کی پاکستانی کمیونٹی نے بھر پور انداز میں جشنِ آزادی منایا۔ عبداللہ آفریدی کی سماجی خدمات ، معاملہ فہم مزاج اور پاکستانیوں میں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کھیچیائو (Keqiao) کی مقامی عدالت کا انہیں ممبر بنایا گیا ہے۔
جہاں کسی بھی پاکستانی اورچینی شخص کے درمیان کسی بھی نوعیت کے تنازعے کی صورت میں معاملہ پہلے ان کے پاس بھیجاجاتا ہے تاکہ عدالتی کاروائی سے پہلے معاملہ باہمی افہام و تفہیم سے حل ہو جائے۔چین بھرمیں کسی بھی پاکستانی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تووہ کھیچیائو (Keqiao)کی پاکستانی کمیونٹی سے ضررو رابطہ کرتا ہے۔ عبدا للہ آفریدی بتا تے ہیں کہ یہاںکے مقامی سماج میں رہنے سے جو مسائل پیش آئے وہ تو وقت کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طرح حل ہوتے چلے گئے مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جس پر چینی اور پاکستانی حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے اور وہ ہے نومولود بچوں کی تدفین کا مسئلہ۔ یہاں مسلمانو ں کو تدفین کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی بالغ فرد فوت ہو جائے تو اس کی تدفین اور اس کو پاکستان بھجوانے کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ مگر کوئی نومولود بچہ فوت ہوجائے تو پھر اس کی تدفین میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے ۔اس حوالے سے وہ حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔
کاروبار اور ملازمت کے ساتھ ساتھ پاکستانی چین میں میڈیا سے بھی وابستہ ہیں۔سی آر آئی میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے ہوئے پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے بیجنگ میں تعینات نمائندہ خصوصی محمد اصغر سے بھی ملاقاتیں رہیں جو بیجنگ اور چین میں ہونے والی تقاریب میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ چین کے ایک موقر صحافتی ادارے چائنہ اکنامک نیٹ سے ایک پاکستانی خاتون زون احمد خان بطور انگلش اینکر وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ وہ چین کی ایک صف اول کی یونیورسٹی شنخواہ کے بیلٹ اینڈ روڈ سڑیٹیجی انسٹی ٹیوٹ (Belt and Road Strategy Institute) کے ساتھ بطور ریسرچ سکالر بھی وابستہ ہیں۔ زون احمد خان پاکستان چین، مسلمان ممالک،بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے حوالے سے چین کی فارن سٹرٹیجی کے معاملات کو دیکھتی ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ ممالک سے منسلک سفارتکاروں اور سکالرز کے لیے ایونٹس کی میزبانی بھی کرتی ہیں۔زون احمد خان ایس سی او یوتھ لیگ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔میڈیا کے ساتھ ساتھ کئی پاکستانی چین میں شوبز سے بھی وابستہ ہیں۔ راقم کو ایک مرتبہ پاکستانی دوستوں کی دعوت پر چین کے شہر شنیانگ جانے کا موقع ملا۔ وہاں بھی پاکستانی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ زیادہ تر طالب علم ہیں مگر کچھ وہاں شادی کے بعد مقیم ہیںاور کاروبارو تجارت سے وابستہ ہیں۔میرے وہاں میزبان پاکستان کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نوجوان ثاقب بیگ حمید تھے۔ انتہائی مہمان نواز اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک ثاقب نے انجینئرنگ کی تعلیم شنیانگ کی ایک یونیورسٹی سے حاصل کی ہے اور اب یہیں مقیم ہیں۔ثاقب بیگ حمید نے حال ہی میں چین میں ریلیز ہونے والی ایک فلم میں وِلن کا کردار ادا کیا ہے۔
شینانگ ہی میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سید صابر حسین شاہ بھی گزشتہ پندرہ سالوں سے زائدعرصے سے مقیم ہیں۔ انہوں نے شنییانگ کی ایک یونیورسٹی سے سافٹ انجینئرنگ میں گریجویشن کی ۔صابر شاہ بھی شنیانگ میں فنون لطیفہ سے وابستہ ہیں۔ وہ شینیانگ کے مقامی ٹی وی چینلز کے مختلف پروگرامز میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خود بھی چینی زبان میں گائیکی کرتے ہیں۔ان کاایک میوزک بینڈ ہے جس میں چینی شہری ان کے ساتھ شامل ہیں ۔یہ بینڈ چین بھر میں اپنے شوز پیش کرتا رہتا ہے۔ شینیانگ میں ہی پاکستان کے شہر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سید صدا حسین شاہ بھی گزشتہ بیس سے زائد سالوں سے مقیم ہیں۔ انہوں نے چین ہی سے طب کی تعلیم حاصل کی اور یہیں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ انہوں نے شینانگ میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کا کلینک بھی بنایا ہوا ہے ۔
طویل قامت وخوبرو صدا حسین شاہ شنیانگ ٹی وی، سی سی ٹی وی پر مختلف پروگرامز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فیشن شوز، شنیانگ میں ماڈلز کی ریکروٹمنٹ کے معاملات بھی صدا حسین شاہ ہی دیکھتے ہیں۔ صدا حسین شاہ کمرشل اشتہارات میں بھی جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر مزاحیہ پروگرام کی میزبانی بھی کی ہے۔ شاہ جی تو طبیب ہو کر بھی زیادہ عرصہ مسیحا ئی کاعمل جاری نہ رکھ سکے اور شوبز کی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔مگر چین میں ایک ایسے پاکستانی ڈاکٹر بھی ہیں جنہوں نے چین میں پریکٹس کے لیے چینی زبان کا امتحان پاس کیا ہوا ہے۔
ان کا نا م ڈاکٹر بلال شمسی ہے اورٹوبہ ٹیک سنگھ سے ان کا تعلق ہے۔ ڈاکٹر بلال شمسی واحد پاکستانی و شاید غیر ملکی ہیں جنہوں نے چین میں میڈیکل کی پریکٹس کے لیے باقاعدہ چینی زبان کا امتحان پاس کیا ہواہے وہ جب اس امتحا ن میں شریک ہوئے تو متعلقہ چینی اتھارٹی کو ایک خصوصی کمیٹی بنانا پڑی ۔ اس وقت وہ چین کے صوبہ شانشی Shaanxi کے شہر یولِن Yulin)) میں بطور ماہر امراضِ بچگان اپنی پریکٹس کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر بلال شمسی نے راولپنڈی میڈیکل کالج سے گریجویشن کی ہے اور پی ایچ ڈی شیان جیاوتنگ یونیورسٹی (Xian Jiaotong University)سے کی ہوئی ہے۔ چین میںرہنے والے پاکستانی اپنی محنت،لگن اور صلاحیتوں سے چینی سماج کی خدمت کر رہے ہیں۔چین میں زیر تعلیم بہت سے پاکستانی طلباء کو چینی حکومت کی جانب سے بہترین ریسرچ کا ایوارڈ بھی مل چکاہے۔ان طلباء کی اکثریت نے چینی سماج کے کسی نہ کسی علمی یا سماجی موضوع پر ہی تحقیق کی ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں موجود تیزی سے ترقی کرتا ہوا چین پاکستانیوںکے لیے اپنے در وا کیے ہوئے ہے۔ اس کی ترقی کے ثمرات پاکستان کوتعلیمی و سماجی میدان میں تو حاصل ہو ہی رہے ہیں مگر سی پیک کی تکمیل کے بعد اس میںمزید اضافہ ہو جائے گا۔ (جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس، بیجنگ