2018ء کا سورج پولیس ناکامیوں کا رونا روتا ڈوب گیا
شرح کرائم میں اضافہ، چور، ڈاکو بے لگام، شہری بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے
ISLAMABAD:
2018ء بھی فیصل آبادکے باسیوں پربھاری رہا۔ جرائم پیشہ عناصر قتل وغارت گری اورلوٹ مار جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے رہے جبکہ حکام کے سخت احکامات کے باوجود پولیس بیشتر واقعات میں مجرموںکی سرکوبی کے لئے بروقت اور موثر ایکشن دکھانے میں ناکام نظرآئی۔ لوٹ مارکی بہت سی وارداتوں کی پیش رفت مقدمات کے اندراج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ متاثرین کی بڑی تعداد زبانی تسلی و تشفی پرخاموشی اختیارکرنے پرمجبورگئی۔ ''اکادکا'' کامیابیوں پرمیڈیا کانفرنسز بلانے والے پولیس افسران جرائم پیشہ عناصرکے علاوہ نواحی علاقوں سے محنت مزدوری کے لئے آنے والے پردیسیوں کوقابوکرکے انہیں بھی منظم گروہوں کے ارکان ظاہر کرتے رہے، ایسے افراد پر مقدمات بنائے جانے کے باوجودبھی ضلع کی حدودمیں جرائم کاگراف نیچے نہ آسکا اور راہزنی، ڈکیتی، چوری کی درجنوں وارداتیں معمول رہیں۔
بڑھتے ہوئے جرائم کے باوجود پولیس کا انوسٹی گیٹنگ ریسرچ ورک کہیںنظرنہ آیاکہ جس سے پتہ چلتا کہ یہاں کے سٹریٹ کرائمز میں سرگرم عناصرکون ہیں؟ ان کی تعدادکیا اور وابستگی کن گروہوں سے ہے؟ گرفت میں آنے والے ڈاکووں، چوروں سے بازپرس کرنے والی متعلقہ چوکی تھانوں کی پولیس انفرادی تفتیش کے نتائج اخذ کرتی رہی، ایسے جرائم کے نیٹ ورک کاپتہ چلانے کے بجائے زیرحراست افرادکو برائے نام تفتیش کے بعد جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔ جیلوں میں بندش کے دوران اہل خانہ کے علاوہ کون کون عناصران کی ملاقاتوں کے لئے جاتے رہے؟ ضمانت پر رہائی پانے کے بعد ایسے عناصرکی سرگرمیاں کیا رہیں؟ ان عناصرنے کیا کیا گل کھلائے؟ اس بارے میں بھی ضلعی پولیس کے افسران جامع منصوبہ بندی سے کام نہ لے سکے۔
سنگین جرائم میں ملوث عناصرکی بیخ کنی پر مامور سی آئی اے سٹاف پولیس کی ٹیمیں بھی اصل مقصد سے ہٹ کر پرچی جوا اور معمولی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے آگے پیچھے رہیں۔ سٹی پولیس آفیسر اشفاق احمدخان کی طرف سے ''ایس ایچ اوشپ''کے خواب دیکھنے والوںکو بھی حقیقی مواقع فراہم کئے گئے مگر افسوس کہ ان میں سے بھی بیشترخاطرخواہ نتائج فراہم نہ کر پائے۔ اس بارے میں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگاکہ جرائم پیشہ عناصرکی سرکوبی کے مواقع میسرآنے کے باوجود بھی کئی تھانیدار'' کرائم فائٹرز''کے روپ میں خطرناک مجرموں کی کمین گاہوں کارخ نہ کرسکے ۔سٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لئے متعارف کرائی گئی ڈولفن فورس بھی خاطرخواہ نتائج فراہم نہ کرسکی۔
گزشتہ برس کے دوران ضلع کے 41 تھانوں میں 34 ہزار 58 مقدمات کا اندراج عمل میں لایاگیا۔کرائم فگرکنٹرول میں رکھنے کی فکر میں مبتلا تھانیداروں کی طرف سے بہت سی شکایات بوگس قرار دے کرمتاثرین کوخاموشی اختیارکرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ دیرینہ عداوت اور معمولی تنازعات پرانسانی قتل کے 348مقدمات کااندراج عمل میں لایا گیا۔ لوٹ مارکی 14مسلح وارداتوں میں جانوں کا ضیاع بھی دیکھنے میں آیا۔ قاتلانہ حملوں کے 351 واقعات میں شہری تیزدھار آلات اورآتشیں اسلحے سے زخمی ہوئے۔ خواتین کے اغواکے 1061جبکہ عصمت دری کے 315واقعات رپورٹ ہوئے، ایسے میں ہواکی 11بیٹیاں گینگ ریپ کاشکار بھی ہوئیں۔ کمسن اور نوعمربچوں کوجنسی تشددکانشانہ بنائے جانے پر 232مقدمات کااندراج بھی کیا گیا۔
اینٹی وہیکل لفٹنگ سکواڈکی موجودگی کے باوجود چوروں کے گروہ 267کاریں اور1137موٹرسائیکل اڑانے میں کامیاب رہے ۔رجسٹرڈکرائم کے مطابق ڈاکوؤں، راہزنوں، چوروں کی جانب سے مجموعی طور پر 85 کروڑ 19 لاکھ مالیت کے زیور،ملکی وغیرملکی کرنسی، پرائزبانڈز،گاڑیوں اور دیگرسامان کی لوٹ مارکی گئی جبکہ دوسری طرف ضلعی پولیس تمام ترکوششوں کے باوجود22کروڑکا مسروقہ مال برآمدکر پائی۔ شعبہ تفتیش کے افسران 34 ہزارمقدمات میں سے 24ہزار597کے چالان مرتب کرپائی۔3678 مقدمات بے بنیاداوردیگرخامیوں کے پیش نظرخارج کر دیئے گئے ۔ٹریس نہ ہونے والے 1744 مقدمات عدم پتہ قراردے دیئے گئے۔ رجسٹرڈکرائم میں ملوث 56 ہزار 361 ملزمان میں 35 ہزار 843کی گرفتاریاں عمل مین لائی جاسکیں۔ 20 ہزار 518 ملزمان قابو نہ کئے جا سکے۔
پولیس کی گرفت سے بچنے والے ملزمان میں سے 500 قتل کے مقدمات جبکہ 33قتل ڈکیتی کے کیسزمیں مطلوب ہیں۔ اقدام قتل کے 641 ملزمان کی گرفتاریوں کے لئے بھی پولیس کوکامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ خواتین کے اغوامیں ملوث681ملزمان بھی قانون کی گرفت میں نہ آسکے ،زیادتی کے واقعات میںملوث174ملزمان کے علاوہ کمسن بچوں کوجنسی تشدد کانشانہ بنانے والے 42ملزمان بھی تاحال قابونہ کئے جاسکے۔ پولیس مقابلوں میں مطلوب 58جرائم پیشہ عناصرکی گرفتاریاں بھی مقامی تھانیداروں کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔
منظم گروہوں سے تعلق رکھنے والے 215کارلفٹرزاور603موٹرسائیکل چوروں کی گرفتاریاں ہونا بھی باقی ہیں۔دوسری جانب مطلوب اشتہاریوںکی بڑی تعدادبھی فیصل آباد پولیس اوریہاں کے افسران کے لئے مسلہ بنی ہوئی ہے ۔پولیس کی گرفت میں نہ آنے والے ایسے عناصرجہاں معمول کے جرائم میںاضافہ وہاں اعلیٰ حکام کی ناراضگی کاسبب بھی بنتے ہیں۔ 2017ء ضلعی پولیس کے کھاتے میں 7660مطلوب اشتہاری چھوڑکرگیا۔حکام کے دیئے گئے ٹاسک پرسال 2018 ء میں یہاں کی پولیس کوموثراقدامات کے ذریعے ایسے عناصرکی تعدادمیں خاطرخواہ کمی لاناتھی، لیکن یہ بوجھ 2018ء میں 9079 اشتہاریوں تک پہنچ چکا ہے۔
ایسی صورت حال میں سنگین جرائم میں ملوث عناصرکوگرفت میں لانے اور منطقی انجام کوپہنچانے کے لئے فیصل آبادپولیس کوجامع منصوبہ بندی سے کام لیناہوگا۔جرائم پیشہ عناصرکے ساتھ ساتھ ان کی پشت پناہی کرنے والے نام نہاد شرفا کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا۔ ڈاکووں ،چوروں سے مسروقہ مال خریدنے والوں سے پنچایتی معاملات طے کرنے کے بجائے انہی مقدمات میں نامزد کرنا ہوگا۔ ویجیلنس اورریسرچ سیل فعال کرکے جرائم پیشہ عناصرسے تعلقات رکھنے،اختیارات سے تجاوز کرنے، کرپشن اورناقص کارکردگی کے مرتکب پولیس افسروں اوراہلکاروں کوایک سے دوسرے تھانہ تبدیل کرنے کی بجائے''کھڈے لائن ''لگانے کے ساتھ ساتھ محکمہ سے بھی نکال باہرکرناہوگا۔
نئے سال کے آغاز پر پنجاب پولیس کے سربراہ امجدجاوید سلیمی کی طرف سے عوام اور پولیس کے مابین خلیج کم کرنے اورخوشگوار تعلقات کی بحالی کے لئے افسروں اوراہلکارون کواپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔اس سلسلہ میں محکمہ کی سطح پرورکشاپس کااہتمام کرنے اور'' فیڈبیک ''کے ذریعے معاملات کی بہتری کے لئے مناسب لائحہ عمل وضع کرنے کاپیغام بھی دیاگیا۔ شہری حلقوں کی طر ف سے آئی جی پنجاب کے اس اقدام کوسراہاجارہاہے۔اسی تناظرمیں ریجنل پولیس آفیسر فیصل آبادغلام محمودڈوگرکی طرف سے بھی ماتحت عملہ کوشہریوں سے اچھاسلوک روارکھنے اوررویہ میں تبدیلی لانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔
ریجنل پولیس آفیسر نے آئی جی پنجاب کے اس پیغام کوآگے بڑھاتے ہوئے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے حالیہ نشست کے دوران بعض افسران کے رویہ کے متعلق ان کے گلے شکوے دورکرتے ہوئے بھرپورتعاون کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ دریں اثنا رویہ میں تبدیلی کے حوالہ سے کرائی جانے والی ورکشاپس میں کے دوران پولیس ملازمین کی طر ف سے بعض تلخ حقائق کاذکربھی کیاگیا۔ ادنیٰ عملے کے مطابق فرض کی بجاآوری کے باوجود انہیں سینئرافسران کے نامناسب حتیٰ کی تحقیر آمیزرویہ کاسامنا رہتا ہے۔دیکھاجائے تویہ طریقہ کاربھی مناسب نہیں ۔آئی جی پنجاب امجدجاوید سلیمی کوچاہیئے کہ تبدیلی کاعمل ہرسوہو، لیکن سینئرافسران ادنیٰ ملازمین کی عزت نفس کاخیال رکھیں تومحکمہ میں ہرسطح پرمثبت تبدیلی آسکتی ہے۔
2018ء بھی فیصل آبادکے باسیوں پربھاری رہا۔ جرائم پیشہ عناصر قتل وغارت گری اورلوٹ مار جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے رہے جبکہ حکام کے سخت احکامات کے باوجود پولیس بیشتر واقعات میں مجرموںکی سرکوبی کے لئے بروقت اور موثر ایکشن دکھانے میں ناکام نظرآئی۔ لوٹ مارکی بہت سی وارداتوں کی پیش رفت مقدمات کے اندراج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ متاثرین کی بڑی تعداد زبانی تسلی و تشفی پرخاموشی اختیارکرنے پرمجبورگئی۔ ''اکادکا'' کامیابیوں پرمیڈیا کانفرنسز بلانے والے پولیس افسران جرائم پیشہ عناصرکے علاوہ نواحی علاقوں سے محنت مزدوری کے لئے آنے والے پردیسیوں کوقابوکرکے انہیں بھی منظم گروہوں کے ارکان ظاہر کرتے رہے، ایسے افراد پر مقدمات بنائے جانے کے باوجودبھی ضلع کی حدودمیں جرائم کاگراف نیچے نہ آسکا اور راہزنی، ڈکیتی، چوری کی درجنوں وارداتیں معمول رہیں۔
بڑھتے ہوئے جرائم کے باوجود پولیس کا انوسٹی گیٹنگ ریسرچ ورک کہیںنظرنہ آیاکہ جس سے پتہ چلتا کہ یہاں کے سٹریٹ کرائمز میں سرگرم عناصرکون ہیں؟ ان کی تعدادکیا اور وابستگی کن گروہوں سے ہے؟ گرفت میں آنے والے ڈاکووں، چوروں سے بازپرس کرنے والی متعلقہ چوکی تھانوں کی پولیس انفرادی تفتیش کے نتائج اخذ کرتی رہی، ایسے جرائم کے نیٹ ورک کاپتہ چلانے کے بجائے زیرحراست افرادکو برائے نام تفتیش کے بعد جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔ جیلوں میں بندش کے دوران اہل خانہ کے علاوہ کون کون عناصران کی ملاقاتوں کے لئے جاتے رہے؟ ضمانت پر رہائی پانے کے بعد ایسے عناصرکی سرگرمیاں کیا رہیں؟ ان عناصرنے کیا کیا گل کھلائے؟ اس بارے میں بھی ضلعی پولیس کے افسران جامع منصوبہ بندی سے کام نہ لے سکے۔
سنگین جرائم میں ملوث عناصرکی بیخ کنی پر مامور سی آئی اے سٹاف پولیس کی ٹیمیں بھی اصل مقصد سے ہٹ کر پرچی جوا اور معمولی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے آگے پیچھے رہیں۔ سٹی پولیس آفیسر اشفاق احمدخان کی طرف سے ''ایس ایچ اوشپ''کے خواب دیکھنے والوںکو بھی حقیقی مواقع فراہم کئے گئے مگر افسوس کہ ان میں سے بھی بیشترخاطرخواہ نتائج فراہم نہ کر پائے۔ اس بارے میں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگاکہ جرائم پیشہ عناصرکی سرکوبی کے مواقع میسرآنے کے باوجود بھی کئی تھانیدار'' کرائم فائٹرز''کے روپ میں خطرناک مجرموں کی کمین گاہوں کارخ نہ کرسکے ۔سٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لئے متعارف کرائی گئی ڈولفن فورس بھی خاطرخواہ نتائج فراہم نہ کرسکی۔
گزشتہ برس کے دوران ضلع کے 41 تھانوں میں 34 ہزار 58 مقدمات کا اندراج عمل میں لایاگیا۔کرائم فگرکنٹرول میں رکھنے کی فکر میں مبتلا تھانیداروں کی طرف سے بہت سی شکایات بوگس قرار دے کرمتاثرین کوخاموشی اختیارکرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ دیرینہ عداوت اور معمولی تنازعات پرانسانی قتل کے 348مقدمات کااندراج عمل میں لایا گیا۔ لوٹ مارکی 14مسلح وارداتوں میں جانوں کا ضیاع بھی دیکھنے میں آیا۔ قاتلانہ حملوں کے 351 واقعات میں شہری تیزدھار آلات اورآتشیں اسلحے سے زخمی ہوئے۔ خواتین کے اغواکے 1061جبکہ عصمت دری کے 315واقعات رپورٹ ہوئے، ایسے میں ہواکی 11بیٹیاں گینگ ریپ کاشکار بھی ہوئیں۔ کمسن اور نوعمربچوں کوجنسی تشددکانشانہ بنائے جانے پر 232مقدمات کااندراج بھی کیا گیا۔
اینٹی وہیکل لفٹنگ سکواڈکی موجودگی کے باوجود چوروں کے گروہ 267کاریں اور1137موٹرسائیکل اڑانے میں کامیاب رہے ۔رجسٹرڈکرائم کے مطابق ڈاکوؤں، راہزنوں، چوروں کی جانب سے مجموعی طور پر 85 کروڑ 19 لاکھ مالیت کے زیور،ملکی وغیرملکی کرنسی، پرائزبانڈز،گاڑیوں اور دیگرسامان کی لوٹ مارکی گئی جبکہ دوسری طرف ضلعی پولیس تمام ترکوششوں کے باوجود22کروڑکا مسروقہ مال برآمدکر پائی۔ شعبہ تفتیش کے افسران 34 ہزارمقدمات میں سے 24ہزار597کے چالان مرتب کرپائی۔3678 مقدمات بے بنیاداوردیگرخامیوں کے پیش نظرخارج کر دیئے گئے ۔ٹریس نہ ہونے والے 1744 مقدمات عدم پتہ قراردے دیئے گئے۔ رجسٹرڈکرائم میں ملوث 56 ہزار 361 ملزمان میں 35 ہزار 843کی گرفتاریاں عمل مین لائی جاسکیں۔ 20 ہزار 518 ملزمان قابو نہ کئے جا سکے۔
پولیس کی گرفت سے بچنے والے ملزمان میں سے 500 قتل کے مقدمات جبکہ 33قتل ڈکیتی کے کیسزمیں مطلوب ہیں۔ اقدام قتل کے 641 ملزمان کی گرفتاریوں کے لئے بھی پولیس کوکامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ خواتین کے اغوامیں ملوث681ملزمان بھی قانون کی گرفت میں نہ آسکے ،زیادتی کے واقعات میںملوث174ملزمان کے علاوہ کمسن بچوں کوجنسی تشدد کانشانہ بنانے والے 42ملزمان بھی تاحال قابونہ کئے جاسکے۔ پولیس مقابلوں میں مطلوب 58جرائم پیشہ عناصرکی گرفتاریاں بھی مقامی تھانیداروں کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔
منظم گروہوں سے تعلق رکھنے والے 215کارلفٹرزاور603موٹرسائیکل چوروں کی گرفتاریاں ہونا بھی باقی ہیں۔دوسری جانب مطلوب اشتہاریوںکی بڑی تعدادبھی فیصل آباد پولیس اوریہاں کے افسران کے لئے مسلہ بنی ہوئی ہے ۔پولیس کی گرفت میں نہ آنے والے ایسے عناصرجہاں معمول کے جرائم میںاضافہ وہاں اعلیٰ حکام کی ناراضگی کاسبب بھی بنتے ہیں۔ 2017ء ضلعی پولیس کے کھاتے میں 7660مطلوب اشتہاری چھوڑکرگیا۔حکام کے دیئے گئے ٹاسک پرسال 2018 ء میں یہاں کی پولیس کوموثراقدامات کے ذریعے ایسے عناصرکی تعدادمیں خاطرخواہ کمی لاناتھی، لیکن یہ بوجھ 2018ء میں 9079 اشتہاریوں تک پہنچ چکا ہے۔
ایسی صورت حال میں سنگین جرائم میں ملوث عناصرکوگرفت میں لانے اور منطقی انجام کوپہنچانے کے لئے فیصل آبادپولیس کوجامع منصوبہ بندی سے کام لیناہوگا۔جرائم پیشہ عناصرکے ساتھ ساتھ ان کی پشت پناہی کرنے والے نام نہاد شرفا کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا۔ ڈاکووں ،چوروں سے مسروقہ مال خریدنے والوں سے پنچایتی معاملات طے کرنے کے بجائے انہی مقدمات میں نامزد کرنا ہوگا۔ ویجیلنس اورریسرچ سیل فعال کرکے جرائم پیشہ عناصرسے تعلقات رکھنے،اختیارات سے تجاوز کرنے، کرپشن اورناقص کارکردگی کے مرتکب پولیس افسروں اوراہلکاروں کوایک سے دوسرے تھانہ تبدیل کرنے کی بجائے''کھڈے لائن ''لگانے کے ساتھ ساتھ محکمہ سے بھی نکال باہرکرناہوگا۔
نئے سال کے آغاز پر پنجاب پولیس کے سربراہ امجدجاوید سلیمی کی طرف سے عوام اور پولیس کے مابین خلیج کم کرنے اورخوشگوار تعلقات کی بحالی کے لئے افسروں اوراہلکارون کواپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔اس سلسلہ میں محکمہ کی سطح پرورکشاپس کااہتمام کرنے اور'' فیڈبیک ''کے ذریعے معاملات کی بہتری کے لئے مناسب لائحہ عمل وضع کرنے کاپیغام بھی دیاگیا۔ شہری حلقوں کی طر ف سے آئی جی پنجاب کے اس اقدام کوسراہاجارہاہے۔اسی تناظرمیں ریجنل پولیس آفیسر فیصل آبادغلام محمودڈوگرکی طرف سے بھی ماتحت عملہ کوشہریوں سے اچھاسلوک روارکھنے اوررویہ میں تبدیلی لانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔
ریجنل پولیس آفیسر نے آئی جی پنجاب کے اس پیغام کوآگے بڑھاتے ہوئے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے حالیہ نشست کے دوران بعض افسران کے رویہ کے متعلق ان کے گلے شکوے دورکرتے ہوئے بھرپورتعاون کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ دریں اثنا رویہ میں تبدیلی کے حوالہ سے کرائی جانے والی ورکشاپس میں کے دوران پولیس ملازمین کی طر ف سے بعض تلخ حقائق کاذکربھی کیاگیا۔ ادنیٰ عملے کے مطابق فرض کی بجاآوری کے باوجود انہیں سینئرافسران کے نامناسب حتیٰ کی تحقیر آمیزرویہ کاسامنا رہتا ہے۔دیکھاجائے تویہ طریقہ کاربھی مناسب نہیں ۔آئی جی پنجاب امجدجاوید سلیمی کوچاہیئے کہ تبدیلی کاعمل ہرسوہو، لیکن سینئرافسران ادنیٰ ملازمین کی عزت نفس کاخیال رکھیں تومحکمہ میں ہرسطح پرمثبت تبدیلی آسکتی ہے۔