پانی کے وسیع ذخائر کے باوجود حکومت مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور
تھرمل بجلی 18 روپے فی یونٹ پڑتا ہے، حکومت سبسڈی دیکر 8روپے میں فر وخت کرتی ہے
دنیا بھرہائیڈل اورتھرمل بجلی کا فارمولہ کا تناسب 70 اور 30 فیصد ہیں لیکن قوم کی بدقسمتی اورحکمرانوں کی عدم توجہ کی وجہ سے خیبرپختونخوا اور ملک بھر میں وافر مقدار میں پانی موجود ہونے کے باجود حکومت نے عوام کومہنگے تھرمل یعنی بجلی اور گیس کے ذریعے بجلی کی خریداری پر مجبورکیاہے اور یہ بجلی واپڈا کو فی یونٹ18روپے پر پڑتی ہے جس پر حکومت 10 روپے سبسڈی دے کر عوام کو آٹھ روپے پر دے رہی ہے۔
نجی تھرمل بجلی گھروں کی پیداوای صلاحیت 6 ہزارمیگاواٹ ہے اور حکومت نجی کمپنیوں سے12سو میگاواٹ واٹ بجلی خریدرہی ہے۔ کالا باغ ڈیم متنازعہ ہے لیکن حکومت نے بھاشاڈیم کیلیے418.5 ملین ڈالر ریلیز نہ کئے جس کی وجہ سے ڈیم پر کام ٹھپ ہے تاہم اس کی کالونی پر کام جاری ہے۔ واپڈا فاٹا میں فرنیٹرورکس آرگنائزیشن کے ذریعے یوایس ایڈ اور حکومت کے سات ارب35 کروڑ کے فنڈ سے جنوبی وزیرستان میں گومل زام ڈیم پر کام آخری مراحل میں ہے جس سے19میگاواٹ بجلی پیداکرنے کے ساتھ ایک لاکھ63ہزار ایکٹر اراضی قابل کاشت ہو جائے گی جس کے بعد واپڈا شمالی وزیرستان میں کرم تنگی ڈیم پر ایف ڈبلیواوکے ذریعے22 ارب 48کروڑ کی لاگت سے تعمیر کرے گا جس سے 83.4میگاواٹ بجلی پیداہونے کے ساتھ دولاکھ78ہزارایکٹر اراضی قابل کاشت بن جائے گی۔
جبکہ واپڈا چترال میں دریائے چترال پر گولن گول رن آف دی ریورڈیم بنارہاہے جس سے106 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جس پر کام آخری مراحل میں ہے۔ واپڈا ترجمان شجاعت بابرکا کہناہے کہ صوبے میں ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے وسیع ذخائر موجود ہے اور اگر کالا باغ ڈیم متنازعہ ہے تو جن ڈیموں کے فزیبلٹی رپورٹ تیار ہے ان کے لیے فنڈ ریلیزکرکے عوام کو تھرمل کی مہنگی اوربجلی لوڈشیڈنگ سے حکومت چھٹکارا دلائیں۔
انہوں نے کہاکہ واپڈا نے ہائیڈل سے بجلی بنانے کے تمام منصوبوں کی رپورٹ اور لاگت کی رپورٹس تیارکی ہے لیکن حکومت کی ڈیموں بنانے میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ہائیڈل منصوبوں پر کام التواء کا شکار ہے اور تاحال بھاشاڈیم کا فنڈ ریلیز نہیں کیاگیاہے۔انہوں نے کہاکہ اگر مرکز بڑے منصوبوں کے لیے فنڈ ریلیز نہیں کرتاہے تو صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے بعد چھوٹے ڈیم بنانے کی اجازت مل گئی ہے اور اب صوبے آگے آکر بجلی پیدابنانے کے منصوبے شروع کریں۔
نجی تھرمل بجلی گھروں کی پیداوای صلاحیت 6 ہزارمیگاواٹ ہے اور حکومت نجی کمپنیوں سے12سو میگاواٹ واٹ بجلی خریدرہی ہے۔ کالا باغ ڈیم متنازعہ ہے لیکن حکومت نے بھاشاڈیم کیلیے418.5 ملین ڈالر ریلیز نہ کئے جس کی وجہ سے ڈیم پر کام ٹھپ ہے تاہم اس کی کالونی پر کام جاری ہے۔ واپڈا فاٹا میں فرنیٹرورکس آرگنائزیشن کے ذریعے یوایس ایڈ اور حکومت کے سات ارب35 کروڑ کے فنڈ سے جنوبی وزیرستان میں گومل زام ڈیم پر کام آخری مراحل میں ہے جس سے19میگاواٹ بجلی پیداکرنے کے ساتھ ایک لاکھ63ہزار ایکٹر اراضی قابل کاشت ہو جائے گی جس کے بعد واپڈا شمالی وزیرستان میں کرم تنگی ڈیم پر ایف ڈبلیواوکے ذریعے22 ارب 48کروڑ کی لاگت سے تعمیر کرے گا جس سے 83.4میگاواٹ بجلی پیداہونے کے ساتھ دولاکھ78ہزارایکٹر اراضی قابل کاشت بن جائے گی۔
جبکہ واپڈا چترال میں دریائے چترال پر گولن گول رن آف دی ریورڈیم بنارہاہے جس سے106 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جس پر کام آخری مراحل میں ہے۔ واپڈا ترجمان شجاعت بابرکا کہناہے کہ صوبے میں ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے وسیع ذخائر موجود ہے اور اگر کالا باغ ڈیم متنازعہ ہے تو جن ڈیموں کے فزیبلٹی رپورٹ تیار ہے ان کے لیے فنڈ ریلیزکرکے عوام کو تھرمل کی مہنگی اوربجلی لوڈشیڈنگ سے حکومت چھٹکارا دلائیں۔
انہوں نے کہاکہ واپڈا نے ہائیڈل سے بجلی بنانے کے تمام منصوبوں کی رپورٹ اور لاگت کی رپورٹس تیارکی ہے لیکن حکومت کی ڈیموں بنانے میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ہائیڈل منصوبوں پر کام التواء کا شکار ہے اور تاحال بھاشاڈیم کا فنڈ ریلیز نہیں کیاگیاہے۔انہوں نے کہاکہ اگر مرکز بڑے منصوبوں کے لیے فنڈ ریلیز نہیں کرتاہے تو صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے بعد چھوٹے ڈیم بنانے کی اجازت مل گئی ہے اور اب صوبے آگے آکر بجلی پیدابنانے کے منصوبے شروع کریں۔