سنہری موقع
پاکستان کی سرزمین خطے کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز بننے کے لیے تیار ہے
وسطی ایشیاء کی ابھرتی ہوئی منڈیوں کو اپنے پھیلاؤ کے لیے شمال جنوبی محور تک رسائی درکار ہے، بصورت دیگر بغیر کسی منصوبہ بندی کے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے باعث ترقی کی سبھی راہیں مسدود ہو سکتی ہیں۔
اس طویل ساحلی پٹی پر دل فریب ساحل ہیں جن سے ملحق خالی اراضی کے کاروباری استعمال کے لیے جامع منصوبہ بندی درکار ہو گی۔ ذاتی طور پر مجھے خوشی ہے کہ تین دہائی قبل ان ساحلی علاقوں سے متعلق جو تجاویز اپنے مضامین میں پیش کی تھیں، آج ان پر عمل درآمد ہو رہا ہے، دیر آید درست آید!
خلیج میں تیل کے ذخائر کی دریافت سے پاکستان نے دور اندیشی پر مبنی منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث اپنی بندرگاہوں کو ایشیا کے لیے کارآمد بنانے کا سنہرا موقع گنوا دیا تھا۔ چین کے ساتھ پورے وسطی و جنوبی ایشیاء تک زمینی رسائی (قراقرم کے علاوہ) نسبتاً آسانی سے بڑھائی جا سکتی ہے جس کے لیے مواصلاتی انفرااسٹرکچر ہی میں کچھ بہتری لانا ہو گی اور یہ انتہائی قابل عمل تجویز ہے۔ پاکستانی ساحلوں کے ساتھ چھوٹی کشتیوں پر خلیج سے تیل لا کر انھیں بڑے ٹینکرز کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے ، جو بالخصوص اس تجویز پر عمل کی صورت میں حاصل ہونے والا کاروباری فائدہ ہو گا۔ سپر ٹینکر کی مد میں ہونے والے اخراجات کی بچت ہی غیر معمولی ہو گی۔
دبئی سے ہم آہنگی رکھنے والے گوادر کو اگر ایک بڑی بندرگاہ کے طور پر ترقی دی جائے تو یہ با آسانی دبئی کی کاروباری کام یابی کے ہم پلہ ثابت ہو سکتی ہے۔ خلیجی بندرگاہوں کے مقابلے میں گوادر کو کئی پہلوؤں سے فطری برتری حاصل ہے، بالخصوص ایشیائی سرزمین تک اس کی رسائی کہیں زیادہ ہے۔ جنوب کی طرف خلیج تک نقل و حرکت کشتیوں کے ذریعے کی جاتی ہے ، اس میں مختلف ذرایع، وقت اور سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ اگر وسیع و عریض اراضی کا موازنہ کیا جائے تو یہاں وسعت پذیری کی بے پناہ گنجائش ہے جب کہ خلیج میں اس کی دستیابی کم ہے۔
تصور کریں شمسی توانائی کے پینلز کی میلوں لمبی قطاریں اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی ٹربائینز کیسے وہاں سما سکتی ہیں؟ پاکستانی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ چلنے والی سڑک ایرانی بندر گاہ چاہ بہار سے جا ملتی ہے (اس سے آگے ایران میں سڑکوں کا جال ہے)۔ یہ آرسی ڈی ہائی وے نہ صرف کرغزستان، ازبکستان، قزاقستان، تاجکستان اور ترکمانستان سمیت پورے وسطی ایشیا سے مربوط ہے بلکہ چینی صوبے سنکیانگ کے لیے بھی پاکستانی ساحلی پٹی کی بندرگاہیں اہم اور کارآمد ہیں۔ زاہدان اور کوئٹہ کے مابین موجود ریل کی پٹڑی کو اگر اس میں شامل کر لیں تو پورے وسطی ایشیا تک رسائی مزید بڑھ جاتی ہے۔
قراقرم ہائی وے سی پیک منصوبے کا مرکز ہے، کاشغر کو گوادر کے ذریعے اس راستے سے با سہولت زمینی رسائی حاصل ہے۔ یہ وہ بنیادی محرکات ہیں جو خطے کی معاشی اور عسکری سمت کا تعین کریں گے۔ مقامی سطح پر ان بندرگاہوں سے نئی منڈیاں بنیں گی، خدمات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی آمدن میں اضافہ اور پاکستانی آبادی کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی، ہم عالمی تجارت کے مرکز کی حیثیت حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے ہمسایہ ممالک کی معاشی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں خطے کو بھی استحکام حاصل ہو گا۔ ملک کی وسیع بنجر زمینیں بڑے شہروں میں تبدیلی ہو سکتی ہیں، جہاں رہایش بھی ہو گی اور صنعتیں بھی۔
اس کے بعد ساحل نہ صرف صنعتی و تجارتی مراکز بن جائیں گے بلکہ وسیع ساحلی علاقوں میں سیاحت کے مواقعے بھی پیدا ہوں گے۔ اس روٹ کے ساتھ بسنے والے غریب و پسماندہ علاقوں کے لیے یہ کسی غیبی امداد سے کم نہیں۔ پسماندہ علاقوں کی وسیع اراضی کو مچھلی اور جھینگے کی فارمنگ، کھجور ، ناریل اور پھلوں کی کاشت جیسے منافع بخش کاموں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بندرگاہوں میں گوداموں اور کولڈ اسٹوریج، کارگو ہینڈلنگ اور ٹرکنگ یارڈز، کاروباری و رہایشی منصوبوں کی تعمیر، ہوٹل، موٹلز، اسپتال، کالج اور اسکول، وسیع و عریض ساحلوں پر سیاحتی مراکز کا قیام، شپ یارڈز اور ڈاکز، ایندھن کے سمندری ذخائر، تیل کے بڑے ذخائر اور ریفائنریز، دبئی اور جبل علی کی طرز پر ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کی تعمیر اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے پیدا ہوں گے۔
ہمیں اپنی ساحلی پٹی کی تعمیر و ترقی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا، ہمارے معاشی منصوبہ ساز شاید کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔ پاکستانی ساحلوں پر پائے جانے والے معاشی مواقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں بے باکی کے ساتھ اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ ہم بڑھتی ہوئی آبادی اور بے روزگاری کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔ دوراندیشی کے ساتھ کی گئی منصوبہ بندی اور اس پر فوری عمل درآمد کے آغاز سے آیندہ تیس چالیس برسوں میں روزگار کے حیرت انگیز مواقعے پیدا ہو سکتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ممکن ہے ہمیں باہر سے افرادی قوت لانا پڑے۔ نوکر شاہی کے جنجالوں سے محفوظ رہنے کے لیے یہ سارے کام کسی ایک ادارے کے ماتحت ہونے چاہیں۔ کیوں نہ وزارت بحری امور کو اس کے لیے بااختیار کر دیا جائے۔ نوجوان اور پُرجوش علی زیدی کو متعلقہ ماہرین کی معاونت حاصل ہو جائے اور وہ بے لوث ہو کر کام کریں تو ایسے آئیڈیاز پر کام ہو سکتا ہے جو عمران خان کے ''نیا پاکستان'' کے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔
پاکستان کی سرزمین خطے کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز بننے کے لیے تیار ہے۔ ہمیں سخت مقابلے کی اس فضا میں اپنے تزویراتی اثاثوں کا بھرپور تحفظ کرنا ہو گا۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اس ساحل سے وابستہ ہے، کیا تحریک انصاف کی حکومت اس چلنج کا مقابلہ کرنے کی بصیرت اور عزم رکھتی ہے؟
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)
اس طویل ساحلی پٹی پر دل فریب ساحل ہیں جن سے ملحق خالی اراضی کے کاروباری استعمال کے لیے جامع منصوبہ بندی درکار ہو گی۔ ذاتی طور پر مجھے خوشی ہے کہ تین دہائی قبل ان ساحلی علاقوں سے متعلق جو تجاویز اپنے مضامین میں پیش کی تھیں، آج ان پر عمل درآمد ہو رہا ہے، دیر آید درست آید!
خلیج میں تیل کے ذخائر کی دریافت سے پاکستان نے دور اندیشی پر مبنی منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث اپنی بندرگاہوں کو ایشیا کے لیے کارآمد بنانے کا سنہرا موقع گنوا دیا تھا۔ چین کے ساتھ پورے وسطی و جنوبی ایشیاء تک زمینی رسائی (قراقرم کے علاوہ) نسبتاً آسانی سے بڑھائی جا سکتی ہے جس کے لیے مواصلاتی انفرااسٹرکچر ہی میں کچھ بہتری لانا ہو گی اور یہ انتہائی قابل عمل تجویز ہے۔ پاکستانی ساحلوں کے ساتھ چھوٹی کشتیوں پر خلیج سے تیل لا کر انھیں بڑے ٹینکرز کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے ، جو بالخصوص اس تجویز پر عمل کی صورت میں حاصل ہونے والا کاروباری فائدہ ہو گا۔ سپر ٹینکر کی مد میں ہونے والے اخراجات کی بچت ہی غیر معمولی ہو گی۔
دبئی سے ہم آہنگی رکھنے والے گوادر کو اگر ایک بڑی بندرگاہ کے طور پر ترقی دی جائے تو یہ با آسانی دبئی کی کاروباری کام یابی کے ہم پلہ ثابت ہو سکتی ہے۔ خلیجی بندرگاہوں کے مقابلے میں گوادر کو کئی پہلوؤں سے فطری برتری حاصل ہے، بالخصوص ایشیائی سرزمین تک اس کی رسائی کہیں زیادہ ہے۔ جنوب کی طرف خلیج تک نقل و حرکت کشتیوں کے ذریعے کی جاتی ہے ، اس میں مختلف ذرایع، وقت اور سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ اگر وسیع و عریض اراضی کا موازنہ کیا جائے تو یہاں وسعت پذیری کی بے پناہ گنجائش ہے جب کہ خلیج میں اس کی دستیابی کم ہے۔
تصور کریں شمسی توانائی کے پینلز کی میلوں لمبی قطاریں اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی ٹربائینز کیسے وہاں سما سکتی ہیں؟ پاکستانی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ چلنے والی سڑک ایرانی بندر گاہ چاہ بہار سے جا ملتی ہے (اس سے آگے ایران میں سڑکوں کا جال ہے)۔ یہ آرسی ڈی ہائی وے نہ صرف کرغزستان، ازبکستان، قزاقستان، تاجکستان اور ترکمانستان سمیت پورے وسطی ایشیا سے مربوط ہے بلکہ چینی صوبے سنکیانگ کے لیے بھی پاکستانی ساحلی پٹی کی بندرگاہیں اہم اور کارآمد ہیں۔ زاہدان اور کوئٹہ کے مابین موجود ریل کی پٹڑی کو اگر اس میں شامل کر لیں تو پورے وسطی ایشیا تک رسائی مزید بڑھ جاتی ہے۔
قراقرم ہائی وے سی پیک منصوبے کا مرکز ہے، کاشغر کو گوادر کے ذریعے اس راستے سے با سہولت زمینی رسائی حاصل ہے۔ یہ وہ بنیادی محرکات ہیں جو خطے کی معاشی اور عسکری سمت کا تعین کریں گے۔ مقامی سطح پر ان بندرگاہوں سے نئی منڈیاں بنیں گی، خدمات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی آمدن میں اضافہ اور پاکستانی آبادی کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی، ہم عالمی تجارت کے مرکز کی حیثیت حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے ہمسایہ ممالک کی معاشی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں خطے کو بھی استحکام حاصل ہو گا۔ ملک کی وسیع بنجر زمینیں بڑے شہروں میں تبدیلی ہو سکتی ہیں، جہاں رہایش بھی ہو گی اور صنعتیں بھی۔
اس کے بعد ساحل نہ صرف صنعتی و تجارتی مراکز بن جائیں گے بلکہ وسیع ساحلی علاقوں میں سیاحت کے مواقعے بھی پیدا ہوں گے۔ اس روٹ کے ساتھ بسنے والے غریب و پسماندہ علاقوں کے لیے یہ کسی غیبی امداد سے کم نہیں۔ پسماندہ علاقوں کی وسیع اراضی کو مچھلی اور جھینگے کی فارمنگ، کھجور ، ناریل اور پھلوں کی کاشت جیسے منافع بخش کاموں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بندرگاہوں میں گوداموں اور کولڈ اسٹوریج، کارگو ہینڈلنگ اور ٹرکنگ یارڈز، کاروباری و رہایشی منصوبوں کی تعمیر، ہوٹل، موٹلز، اسپتال، کالج اور اسکول، وسیع و عریض ساحلوں پر سیاحتی مراکز کا قیام، شپ یارڈز اور ڈاکز، ایندھن کے سمندری ذخائر، تیل کے بڑے ذخائر اور ریفائنریز، دبئی اور جبل علی کی طرز پر ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کی تعمیر اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعے پیدا ہوں گے۔
ہمیں اپنی ساحلی پٹی کی تعمیر و ترقی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا، ہمارے معاشی منصوبہ ساز شاید کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔ پاکستانی ساحلوں پر پائے جانے والے معاشی مواقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں بے باکی کے ساتھ اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ ہم بڑھتی ہوئی آبادی اور بے روزگاری کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔ دوراندیشی کے ساتھ کی گئی منصوبہ بندی اور اس پر فوری عمل درآمد کے آغاز سے آیندہ تیس چالیس برسوں میں روزگار کے حیرت انگیز مواقعے پیدا ہو سکتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ممکن ہے ہمیں باہر سے افرادی قوت لانا پڑے۔ نوکر شاہی کے جنجالوں سے محفوظ رہنے کے لیے یہ سارے کام کسی ایک ادارے کے ماتحت ہونے چاہیں۔ کیوں نہ وزارت بحری امور کو اس کے لیے بااختیار کر دیا جائے۔ نوجوان اور پُرجوش علی زیدی کو متعلقہ ماہرین کی معاونت حاصل ہو جائے اور وہ بے لوث ہو کر کام کریں تو ایسے آئیڈیاز پر کام ہو سکتا ہے جو عمران خان کے ''نیا پاکستان'' کے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔
پاکستان کی سرزمین خطے کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز بننے کے لیے تیار ہے۔ ہمیں سخت مقابلے کی اس فضا میں اپنے تزویراتی اثاثوں کا بھرپور تحفظ کرنا ہو گا۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اس ساحل سے وابستہ ہے، کیا تحریک انصاف کی حکومت اس چلنج کا مقابلہ کرنے کی بصیرت اور عزم رکھتی ہے؟
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)