پاکستان میں نئے افغان سفیر توقعات کیا ہیں
وہ ’’افغانستان کرکٹ بورڈ‘‘ کے چیئرمین تھے کہ یکایک اُن سے استعفیٰ لے لیا گیا
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی صاحب نے چھیالیس سالہ شکر اللہ عاطف مشعل کو پاکستان میں اپنا نیا سفیر متعین کیا ہے۔ مشعل صاحب کیریئر ڈپلومیٹ نہیں ہیں۔ پِیا مگر جسے چاہیں ۔ وہ ''افغانستان کرکٹ بورڈ'' کے چیئرمین تھے کہ یکایک اُن سے استعفیٰ لیا گیا، حالانکہ ابھی اُن کی چیئرمینی کے ساڑھے تین سال باقی رہتے تھے۔
استعفیٰ ہاتھ میں آتے ہی افغان صدر نے انھیں پاکستان کے لیے سفیر نامزد کر دیا۔ پاکستان اور افغانستان جن حالات سے گزر رہے ہیں، ایسے میں چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان میں نیا آنے والا افغان سفیر کوئی تجربہ کار کیریئر ڈپلومیٹ ہوتا ایسا کرنے سے مگر گریز کیا گیا ہے۔
مشعل صاحب نے عمر ذخیل وال( جنہوں نے بڑی محنت سے پاکستان کے اعلیٰ حلقوں میں اپنا اعتماد اور تشخص بنایا تھا) کی جگہ سنبھالی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اُن کی آمد سے پاکستان کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں میں کئی سوال اُٹھے ہیں ۔ پچھلے سال اِنہی ایام میں افغانستان کے تین اہم سرکاری افراد نے اپنے اپنے عہدوں سے اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہُوئے صدرِ افغانستان سے درخواست کی تھی کہ انھیں اب سبکدوش کر دیا جائے۔
ان میں سے ایک تو تھے عمر ذخیل وال ۔ پاکستان میں افغان سفیر ۔ کینیڈین شہریت کے حامل عمر ذخیل وال ، جو کبھی سابق افغان صدر(حامد کرزئی) کے وزیر خزانہ بھی رہے تھے، نے صدرِ افغانستان (ڈاکٹر اشرف غنی) سے درخواست کی تھی کہ پاکستان میں اُن کی سفارتکاری کے دو سال مکمل ہو گئے ہیں ، اب وہ مزید یہ خدمات جاری نہیں رکھنا چاہتے ؛ چنانچہ انھیں فارغ خطی دے دی جائے ۔ مستعفی ہونے کے بعد عمر ذخیل وال صاحب افغان صدر کی خواہش پر بھی اسلام آباد میں فرائض انجام دیتے رہے تھے، تاآنکہ شکر اللہ عاطف مشعل نہیں مل گئے۔
دوسرے تھے ڈاکٹر شیدا محمد ابدالی ۔ بھارت میں افغانستان کے سفیر ۔ انھوں نے بھی ازخود اپنے عہدے سے فراغت کی عرضی گزار دی تھی ۔ اور تیسرے تھے حنیف اتمر ۔ افغانستان کی طاقتور نیشنل سیکیورٹی کے ایڈوائزر اور افغان صدر کے معتمدِ خاص۔ انھوں نے افغان حکومت کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کی بنیاد پر اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ بعد ازاں عیاں ہُوا کہ یہ تینوں افراد دراصل رواں برس ، 2019ء کے دوران ، افغان صدارتی الیکشن میں حصہ لے کر افغان صدر بننے کے متمنی ہیں ۔گویا دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں مستعفی افراد اب ڈاکٹر اشرف غنی کے سیاسی حریف بھی بن چکے ہیں ۔ ان میں دو (حنیف اتمر اور عمر ذخیل وال) تو افغانستان کے سیاسی حلقوں اور اسٹیبلشمنٹ میں گہرا رسوخ رکھتے ہیں ۔
افغانستان کے صوبہ ننگر ہار سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عمر ذخیل وال پشتون النسل ہیں ، اس لیے افغان صدارت کے مضبوط اُمیدوار بھی قرار دیے جا رہے ہیں ۔ اگر وہ صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں تو یہ جیت پاک ، افغان تعلقات کے لیے مناسب اور مستحسن ہو گی (افغانستان کے صدارتی انتخابات پہلے 20اپریل2019ء کو ہونے تھے لیکن اب نئے حالات کے تحت یہ تین ماہ بعد20جولائی کو ہوں گے )انھوں نے اسلام آباد میں چنیدہ صحافیوں سے گہرے تعلقات استوار کررکھے تھے جن کی بنیاد پر کچھ شکوے اور شکوک و شبہات بھی پیدا ہُوئے لیکن کوئی شکر رنجی پیدا نہ ہُوئی ۔اُن کے دَور میں کئی بار کئی افغان صحافیوں نے پاکستان کے دَورے کیے۔ ہر دَورہ خوشگوار تجربہ رہا۔ سبھی افغان صحافیوں کو آئی ایس پی آر کے ہیڈ کوارٹرز بھی لے جایا گیا۔
عمر ذخیل وال نے دورانِ سفارتکاری کئی بار چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ ، سے بھی ملاقاتیں کی تھیں جو خاصی ثمر آور ثابت ہُوئیں۔ جنرل باجوہ نے جب کابل کا کامیاب دَورہ کیا تو کہا جاتا ہے کہ اِس کامیابی میں عمر ذخیل وال کی بھی کوششیں شامل تھیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے کامیاب دَورۂ کابل پر خوشی میں عمر ذخیل وال نے جو ٹویٹ کی تھی ، وہ خاصے دنوں تک ہمارے میڈیا میں زیر بحث رہی۔اُردو زبان پر عبور رکھنے والے ذخیل وال کا پشتون ہونا بھی اُن کے لیے مفید ثابت ہوتا رہا۔
شکر اللہ عاطف مشعل بھی نسلاً پشتون ہیں ۔ کابل میں بروئے کار امریکی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ۔ سیاسیات اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے مضامین پڑھے ۔ افغان حکومت میں باقاعدہ ملازمت کا آغاز افغانستان کے اٹارنی جنرل کے نائب کی حیثیت میں کیا۔ اب جب کہ شکر اللہ عاطف مشعل باقاعدہ سفارتی اسناد صدرِ پاکستان، ڈاکٹر عارف علوی ، کو پیش کرکے سفارتی فرائض ادا کررہے ہیں ،پاکستان میں اُن سے متعلق کئی توقعات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے ۔
یہ توقعات متنوع ہیں ۔ اُن کے پیشرو نے اپنی محدودات میں رہ کر پاک ، افغان تعلقات کو بہتر بنانے کی کئی کوششیں کی تھیں ، اس لیے اُمید کی جا سکتی ہے کہ عمر ذخیل وال کے چھوڑے گئے نقوشِ قدم مشعل صاحب کے لیے مددگار ثابت ہوں گے ۔ افغانستان تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن واقعہ یہی ہے کہ پاکستان نے ہر قدم پر افغانستان کی مقدور بھر مدد کی ہے ۔
پاکستان نے اپنا پیٹ کاٹ کر افغان بھائیوں کی دستگیری کے لاتعداد عملی اقدامات کیے ہیں۔ افغانستان کو لاکھوں ٹن گندم مفت فراہم کررہا ہے ۔افغان امن عمل کو شروع کرنے ، آگے بڑھانے اور منزلِ مقصود تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ اپنی بے پناہ مالی مشکلات کے باوصف چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو سنبھالا دیا ہُوا ہے ۔ پاک ، افغان سرحد پر افغان فورسز نے متعدد بار پاک فوج کے جوانوں کو جانی نقصانات پہنچائے ہیں لیکن وسیع تر اور برادرانہ اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت پاکستان نے برداشت اور در گزر کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔ جواب اگر دیا ہے تو انتہائی مجبوری اور ناگزیر حالت میں ۔یہ سب عوامل اور اقدامات یقینا نئے افغان سفیر مشعل صاحب کے علم میں ہوں گے ۔
افغانستان کے لیے پاکستان کی بھرپور اعانتوں اور حمایتوں کے باوجود پاک، افغان ٹرید میں واضح کمی آئی ہے ۔ وجہ افغان ، بھارت تعلقات ہیں ۔ افغانستان کا پلڑا بوجوہ بھارت کی جانب جھکا ہُوا ہے ۔ نئے سفیر کی آمد کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ پاک ، افغان ٹریڈ کا گراف اوپر اُٹھے گا ۔ چند دن پہلے ہی افغان صدر ، ڈاکٹر اشرف غنی ، نے بدلے حالات میں افغان حکام میں جوہری تبدیلیاں کی ہیں ۔ افغانستان میں ''نیویارک ٹائمز'' کے نمایندہ خصوصی ، مجیب مشال، نے اپنی حالیہ تفصیلی رپورٹ میں جو تصویر کشی کی ہے ، وہ خاصی ہیجان خیز ہے ۔ افغان وزیر دفاع( اسداللہ خالد) بھی نئے لائے گئے ہیں اور وزیر داخلہ( امراللہ صالح) بھی نئے ہیں۔ ماضی قریب میں یہ دونوں صاحبان افغانستان کے خفیہ ادارے (این ڈی ایس) کے سربراہ بھی رہے ہیں ۔
پاکستان کے حوالے سے ان کے اقدامات ، فیصلے اور پالیسیاں نامناسب اور غیر مستحسن رہی ہیں ۔ یہ دونوں اصحاب ڈاکٹر اشرف غنی کے سخت ناقدرہے ہیں۔ دونوں ہی اُن کی پالیسیوں کو ''مِس مینجمنٹ آف وار'' کہہ چکے ہیں۔ افغان طالبان کے بھی دونوں سخت مخالف ہیں لیکن بدلے وقت اور دباؤ کے تحت افغان صدر کو اِنہیں ہی حکومت کے سب سے اہم اور قوی عہدے دینے پڑے ہیں۔ یہ جوہری تبدیلیاں عین اُس وقت معرضِ عمل میں لائی گئی ہیں جب افغان طالبان ، امریکا اور افغان حکومت کے مابین ( جنگ کے خاتمے اورقیامِ امن کے لیے)مذاکرات ہو رہے ہیں ۔
جب امریکا نے افغانستان سے (جزوی طور پر ہی سہی) اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ جب افغان صدر صاحب کے نئے خصوصی ایلچی ، عمر داؤد زئی ، نے یہ کہا ہے کہ 2019ء پاک افغان تعلقات کے لیے بہتر سال ثابت ہوگا۔ جب پاک افغان بارڈر پر پاکستان نے 500کلومیٹر باڑ اور233قلعوں کی تعمیر کا ترجیحی مرحلہ مکمل کرلیا ہے۔
ان اقدامات اور فیصلوں کے باعث پاکستان میں بھی ایک نئے احساس نے جنم لیا ہے ۔ ہمارے اداروں نے یقیناً ان پر نظر رکھی ہوگی ۔ اُمید کی جاتی ہے کہ پاکستان میں نئے افغان سفیر(جنہوں نے 11جنوری 2019ء کو سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی ہے)نئے حالات میںدونوں برادر ملکوں کے لیے فائدہ رساں ثابت ہوں گے۔