تاریک راہیں
اسی طرح سے دنیا بھر کے عوام کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں
بلوچستان میں مزدور، ماہی گیر اور تعلیم یافتہ نوجوان تیزی سے بیروزگار ہورہے ہیں۔ سی پیک کے تحت گوادر میں ہونے والی ترقی کا شور تو ہر جانب سننے میں آ رہا ہے، لیکن یہاں کی مقامی آبادی کے لیے نہ اسپتال، نہ کارخانے اور نہ ہی تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں، جب کہ معدنیات سے مالامال صوبہ بھوک سے تڑپ رہا ہے۔
یہاں صرف ایک لیبرکالونی تعمیر ہوئی ہے وہ بھی صرف چینی مزدوروں کے لیے۔ ساحل سمندرکے باسیوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔خواہ وہ اونیکس، سنگ مر مر، تانبے، سونے، سلفر یا کوئلے کے کان کن کیوں نہ ہوں ۔ انھیں کام کی جگہ، مقررہ اوقات کار، رہائش اورغذائی سہولتیں میسر نہیں۔انھیں بہت کم تنخواہیں دی جا تی ہیں۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی جان کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔
جنوری 2018ء سے جنوری 2019ء تک درجنوں کوئلے کے کانکن کام کے اوقات کار میں جان سے جاتے رہے۔اس کی بنیادی وجہ کانکنوں کے لیے حکومت کی جانب سے تحفظات کا نہ ہونا ہے، لیبر قوانین پر عمل کا فقدان ہے۔ ان کان کنان کی تحفظ کے لیے موثر قانونی سہولتیں مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔
آئیے! ذرا بنگلہ دیش کی جانب ایک نظر ڈالتے ہیں ۔حال ہی میں وہاں عام انتخابات ہوئے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت چھ بڑی پارٹیاں ہیں۔ جن میں عوامی لیگ، خالدہ ضیا کی بی این پی، جنرل ارشادکی نیشنل پارٹی، ورکرز پارٹی اورکمیونسٹ پارٹی ہیں۔ عوامی لیگ سے قبل جب خالدہ ضیا وزیر اعظم تھیں تو انھوں نے عوامی لیگ اورکمیونسٹ پارٹی کے کارکنان پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے۔ پھر جب عوامی لیگ اقتدار میں آئی تو اس نے جماعت اسلامی پر 2012ء میں پابندی لگا دی ۔
عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان پر فوج کشی ہوئی تو جماعت اسلامی نے فوج کشی کا ساتھ دیا اور عوام الناس کے قتل عام میں شریک رہی، اس لیے اس پر پابندی لگائی اور جماعت اسلا می کے معروف رہنماؤں کو پھانسی دی ۔اس وقت عوامی لیگ کی حکو مت کے ساتھ بائیں بازوکی ورکرز پارٹی شریک ہے، جب کہ کمیونسٹ پارٹی نے بائیں بازوکا ''جمہوری اتحاد '' بناکر 70 نشستوں پر انتخابات میں مقا بلہ کیا۔
انتخابات کے بعدکمیونسٹ پارٹی نے ان انتخابات کودھاندلی زدہ قرار دے کر اس کے نتائج کو مسترد کر دیا، جوکام خالدہ ضیا نے اپنے اقتدار میں رہتے ہو ئے کیا وہی کام عوامی لیگ بھی اب کر رہی ہے۔ خالدہ ضیا کو سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش نے کرپشن کے الزام میں 17سال کی سزا دی ہے ۔انتخابات میں عوامی لیگ نے بھی تشدد،گرفتاریاں، بوگس پولنگ اور عوام کا قتل عام کیا ہے۔ حکومت بنگلہ دیش کے مزدوروں اورکسانوں کا خون نچوڑ کرگار منٹ کی ایکسپورٹ میں اضافہ کر رہی ہے۔
اب ذرا 2018ء کی مہنگائی پر ایک نظر ۔ 2018-19ء کے مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران گیس 42.66 فیصد، پیٹرول 26.41 فیصد مہنگا، تعلیم 12.61 فیصد مہنگی ہوئی جب کہ رواں مالی سال 2018-19ء کی پہلی ششماہی کے دوران ملک میں مجموعی طور پر مہنگائی 6. 5 فیصد جب کہ گزشتہ ماہ ( دسمبر) میں مہنگائی کی شرح میں 6.17 فیصد اضافہ ہوا۔
وفاقی وزارت شماریات کے حکام کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی میں 6.5 فیصد جب کہ گزشتہ ماہ دسمبرمیں مہنگائی کی شرح 6.17 فیصد اضافہ ہوا۔ اعداد وشمارکے مطابق گیس کی قیمت میں42. 66 فیصد ، سونا 5. 7 فیصد اور ایل پی جی 6.69 فیصد مہنگی ہوئی، مٹی کا تیل 32. 60 فیصد اور موٹر فیول26. 41 فیصد مہنگا ہوا، دال مونگ 4 فیصد اور چائے کی پتی 3.48 مہنگی ہوئی۔ دسمبر میں ریل کے کرایے میں19.30فیصد اضافہ ہوا۔
یہ تو رہے سرکاری اعداد وشمار ۔ اب ذرا عوامی اعداد وشمار پر ایک نظر۔کون سی ایسی اشیائے ضرورت ہیں، جن کی قیمت میں اضا فہ نہیں ہوا۔ سب سے پہلے توگیس،کھاد ، بجلی اور پیٹرول میں بار بار اضافے سے روزمرہ کی ضرورت اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ دال، چاول،آٹا،گھی، چینی، تیل، چائے، دودھ، مکھن، دہی،کرایہ،کتاب اور بچوں کی فیسیں وغیرہ وغیرہ۔ ڈالرکی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کرنے سے برآمدات بڑھ جانے کے تصور پر عمل درآمد کیا گیا، مگر نتیجہ الٹا نکلا۔ برآمدات میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی ہوگئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے سمجھ لیا تھا کہ مختلف دوست ملکوں سے قرضے اور امداد لینے سے ریزرو منی میں اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں معیشت بہتر ہوگی جب کہ ایسا ہوا نہیں۔ ادھر، ادھر سے ملا کر جو رقوم حاصل ہوئی ہیں وہ آٹھ ارب ڈالر ہیں، ہوسکتا ہے کہ تین چار ارب ڈالر مزید مل جائیں، مگراس سے بھی کام نہیں چلے گا۔کسی ملک کی ترقی کے لیے تین بنیادی صنعتوں کی ضرورت ہے اور وہ ہیں میٹالوجیکل،کیمیکل اورالیکٹرو نیکل۔ ہم ان تینوں شعبوں کی بنیادی صنعتوں میں صفر ہیں۔ہم صرف مینوفیکچرنگ، اسمبلنگ اور درآمداد پر انحصارکرتے ہیں۔
صرف ان چیزوں پر اگر ہمارا زور ہوکہ کارخانوں کا جال بچھائیں اور جاگیرداری ختم کرکے زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں، تمام اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر مزدوروں اورکسانوں کی کمیٹیوں کے حوالے کردیں تو سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں ۔ جہاں تک توانائی کی ضرورت کی بات ہے تو شمسی، آبی اور ہوا سے حاصل ہوسکتی ہے، بشرطیکہ ہم دفاعی اخراجات کو 50 فیصد کم کردیں ، قیمتی گاڑیاں، قیمتی الیکٹرانک کے سامان درآمد کرنا بند کردیں۔آرمی، فضائیہ اور نیوی کے تمام صنعتی اور زراعتی وسائل اور شعبوں کو حکومت براہ راست اپنی تحویل کے تحت چلائے۔
اسی طرح سے دنیا بھرکے عوام کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں، اگر دنیا بھر میں اسلحے کی پیداوار میں 50 فیصد کی کمی کر دی جائے، ناسا کے تحقیقاتی اخراجات کو فی الفور بندکر دیا جائے، دنیا بھر میں چین سمیت خلائی تحقیق بندکر کے روزانہ بھوک، افلاس، بیماری،حادثات اورغذائی قلت سے مرنے والے لاکھوں انسانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
یہاں صرف ایک لیبرکالونی تعمیر ہوئی ہے وہ بھی صرف چینی مزدوروں کے لیے۔ ساحل سمندرکے باسیوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔خواہ وہ اونیکس، سنگ مر مر، تانبے، سونے، سلفر یا کوئلے کے کان کن کیوں نہ ہوں ۔ انھیں کام کی جگہ، مقررہ اوقات کار، رہائش اورغذائی سہولتیں میسر نہیں۔انھیں بہت کم تنخواہیں دی جا تی ہیں۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی جان کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔
جنوری 2018ء سے جنوری 2019ء تک درجنوں کوئلے کے کانکن کام کے اوقات کار میں جان سے جاتے رہے۔اس کی بنیادی وجہ کانکنوں کے لیے حکومت کی جانب سے تحفظات کا نہ ہونا ہے، لیبر قوانین پر عمل کا فقدان ہے۔ ان کان کنان کی تحفظ کے لیے موثر قانونی سہولتیں مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔
آئیے! ذرا بنگلہ دیش کی جانب ایک نظر ڈالتے ہیں ۔حال ہی میں وہاں عام انتخابات ہوئے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت چھ بڑی پارٹیاں ہیں۔ جن میں عوامی لیگ، خالدہ ضیا کی بی این پی، جنرل ارشادکی نیشنل پارٹی، ورکرز پارٹی اورکمیونسٹ پارٹی ہیں۔ عوامی لیگ سے قبل جب خالدہ ضیا وزیر اعظم تھیں تو انھوں نے عوامی لیگ اورکمیونسٹ پارٹی کے کارکنان پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے۔ پھر جب عوامی لیگ اقتدار میں آئی تو اس نے جماعت اسلامی پر 2012ء میں پابندی لگا دی ۔
عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان پر فوج کشی ہوئی تو جماعت اسلامی نے فوج کشی کا ساتھ دیا اور عوام الناس کے قتل عام میں شریک رہی، اس لیے اس پر پابندی لگائی اور جماعت اسلا می کے معروف رہنماؤں کو پھانسی دی ۔اس وقت عوامی لیگ کی حکو مت کے ساتھ بائیں بازوکی ورکرز پارٹی شریک ہے، جب کہ کمیونسٹ پارٹی نے بائیں بازوکا ''جمہوری اتحاد '' بناکر 70 نشستوں پر انتخابات میں مقا بلہ کیا۔
انتخابات کے بعدکمیونسٹ پارٹی نے ان انتخابات کودھاندلی زدہ قرار دے کر اس کے نتائج کو مسترد کر دیا، جوکام خالدہ ضیا نے اپنے اقتدار میں رہتے ہو ئے کیا وہی کام عوامی لیگ بھی اب کر رہی ہے۔ خالدہ ضیا کو سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش نے کرپشن کے الزام میں 17سال کی سزا دی ہے ۔انتخابات میں عوامی لیگ نے بھی تشدد،گرفتاریاں، بوگس پولنگ اور عوام کا قتل عام کیا ہے۔ حکومت بنگلہ دیش کے مزدوروں اورکسانوں کا خون نچوڑ کرگار منٹ کی ایکسپورٹ میں اضافہ کر رہی ہے۔
اب ذرا 2018ء کی مہنگائی پر ایک نظر ۔ 2018-19ء کے مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران گیس 42.66 فیصد، پیٹرول 26.41 فیصد مہنگا، تعلیم 12.61 فیصد مہنگی ہوئی جب کہ رواں مالی سال 2018-19ء کی پہلی ششماہی کے دوران ملک میں مجموعی طور پر مہنگائی 6. 5 فیصد جب کہ گزشتہ ماہ ( دسمبر) میں مہنگائی کی شرح میں 6.17 فیصد اضافہ ہوا۔
وفاقی وزارت شماریات کے حکام کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی میں 6.5 فیصد جب کہ گزشتہ ماہ دسمبرمیں مہنگائی کی شرح 6.17 فیصد اضافہ ہوا۔ اعداد وشمارکے مطابق گیس کی قیمت میں42. 66 فیصد ، سونا 5. 7 فیصد اور ایل پی جی 6.69 فیصد مہنگی ہوئی، مٹی کا تیل 32. 60 فیصد اور موٹر فیول26. 41 فیصد مہنگا ہوا، دال مونگ 4 فیصد اور چائے کی پتی 3.48 مہنگی ہوئی۔ دسمبر میں ریل کے کرایے میں19.30فیصد اضافہ ہوا۔
یہ تو رہے سرکاری اعداد وشمار ۔ اب ذرا عوامی اعداد وشمار پر ایک نظر۔کون سی ایسی اشیائے ضرورت ہیں، جن کی قیمت میں اضا فہ نہیں ہوا۔ سب سے پہلے توگیس،کھاد ، بجلی اور پیٹرول میں بار بار اضافے سے روزمرہ کی ضرورت اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ دال، چاول،آٹا،گھی، چینی، تیل، چائے، دودھ، مکھن، دہی،کرایہ،کتاب اور بچوں کی فیسیں وغیرہ وغیرہ۔ ڈالرکی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کرنے سے برآمدات بڑھ جانے کے تصور پر عمل درآمد کیا گیا، مگر نتیجہ الٹا نکلا۔ برآمدات میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی ہوگئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے سمجھ لیا تھا کہ مختلف دوست ملکوں سے قرضے اور امداد لینے سے ریزرو منی میں اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں معیشت بہتر ہوگی جب کہ ایسا ہوا نہیں۔ ادھر، ادھر سے ملا کر جو رقوم حاصل ہوئی ہیں وہ آٹھ ارب ڈالر ہیں، ہوسکتا ہے کہ تین چار ارب ڈالر مزید مل جائیں، مگراس سے بھی کام نہیں چلے گا۔کسی ملک کی ترقی کے لیے تین بنیادی صنعتوں کی ضرورت ہے اور وہ ہیں میٹالوجیکل،کیمیکل اورالیکٹرو نیکل۔ ہم ان تینوں شعبوں کی بنیادی صنعتوں میں صفر ہیں۔ہم صرف مینوفیکچرنگ، اسمبلنگ اور درآمداد پر انحصارکرتے ہیں۔
صرف ان چیزوں پر اگر ہمارا زور ہوکہ کارخانوں کا جال بچھائیں اور جاگیرداری ختم کرکے زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں، تمام اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر مزدوروں اورکسانوں کی کمیٹیوں کے حوالے کردیں تو سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں ۔ جہاں تک توانائی کی ضرورت کی بات ہے تو شمسی، آبی اور ہوا سے حاصل ہوسکتی ہے، بشرطیکہ ہم دفاعی اخراجات کو 50 فیصد کم کردیں ، قیمتی گاڑیاں، قیمتی الیکٹرانک کے سامان درآمد کرنا بند کردیں۔آرمی، فضائیہ اور نیوی کے تمام صنعتی اور زراعتی وسائل اور شعبوں کو حکومت براہ راست اپنی تحویل کے تحت چلائے۔
اسی طرح سے دنیا بھرکے عوام کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں، اگر دنیا بھر میں اسلحے کی پیداوار میں 50 فیصد کی کمی کر دی جائے، ناسا کے تحقیقاتی اخراجات کو فی الفور بندکر دیا جائے، دنیا بھر میں چین سمیت خلائی تحقیق بندکر کے روزانہ بھوک، افلاس، بیماری،حادثات اورغذائی قلت سے مرنے والے لاکھوں انسانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔