پیچیدہ پالیسی نئی ایئرلائنوں کی راہ میں رکاوٹ ہوا بازی کی صنعت بحران کے راستے پر
ایوی ایشن پالیسی میں غیرضروری قانونی پیچیدگیاں، لائسنس کے حصول میں مشکل ترین مراحل سرمایہ کاروں کی بددلی کا باعث
پاکستان میں ایئر لائنوں کی کم تعداد، بین الاقوامی سطح پر گرین پاسپورٹ کے حامل کمرشل پائلٹس کی بے توقیری ہوابازی کی صنعت کو بحران کی جانب دھکیل رہی ہے، سابقہ دور حکومت میں متعارف کروائی گئی ایوی ایشن پالیسی غیر ضروری قانونی پیچیدگیوں، نئی ایئر لائن کے لیے درکار لائسنس کے حصول میں مشکل ترین مراحل، غیر معمولی اور بھاری بھرکم ٹیکسوں جبکہ اجازت نامے کے پس منظر میں اعصاب شکن مراحل کے سبب ملکی سطح پر نئی ایئر لائنوں کے آغاز کا راستہ روک رہی ہے، جہازوں پر طلب و رسد کے درمیان فرق مسافروں کی جیبوں پر اضافی بوجھ بن رہا ہے۔
پاکستان کی سرکاری و نجی ایئر لائنوں جبکہ چارٹر کمپنیوں کے جہاز ملا کر بھی ایوی ایشن سیکٹر میں جہازوں کی تعداد صرف 70ہے ، شعبہ ہوابازی سے منسلک افراد کے روزگار پر موجودہ صورتحال کی وجہ سے خطرات کے ان دیکھے سائے منڈ لا رہے ہیں۔ ماہرین ہوا بازی کے مطابق پڑوسی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں ایئر لائنوں اور چارٹر جہاز آپریٹ کرنے والے نجی ادارے انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں، ماہرین کے مطابق پاکستانی ہوابازی کی پالیسی بہت زیادہ فرینڈلی (دوستانہ) نہیں ہے، سابقہ دور حکومت میں مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم کی نافذکردہ، ایوی ایشن پالیسی 2016 میں اتنی زیادہ پیچیدگیاں ہیں کہ مقامی سطح پر ایئر لائن کے حصول کے لیے مسلسل تگ ودو کرنے والے کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں۔
ذرائع کا کہناہے کہ نئی ایئرلائن کے لیے ایوی ایشن ڈویژن کے جاری کردہ لائسنس کے حصول میں 3 سے 4 سال لگ جاتے ہیں جبکہ اس دوران سائل کو جس قسم کی پیچیدگیوں اور قانونی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپ، دبئی اور ایران سمیت کئی دیگر پاکستان اپنی پروازیں لے کر آنا چاہتے ہیں مگر اس کے راستے میں ان گنت رکاوٹیں موجود ہیں، ماہرین کے مطابق جتنی زیادہ ایئر لائنیں ہوںگی اتنی ہی بڑی تعداد میں ملک میں نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، دوسری جانب سول ایوی ایشن کے خاموش تماشائی کے کردار کی وجہ سے مسافروں سے دھڑلے سے زائد کرایہ وصول کیا جا رہا ہے، خودکار نظام کے تحت پی آئی اے سمیت نجی ائیر لائنوں کے ایک ہفتے پہلے بک کروائے گئے ٹکٹ کی 12ہزار روپے یک طرفہ کی رقم پرواز سے عین ایک سے 2 روز پہلے کی بکنگ پر کئی گنابڑھ کر 36 ہزار تک پہنچ جاتی ہے، اس معاملے کے پیچھے مکمل طورپرسول ایوی ایشن کی لاپروائی اور غفلت ہے۔
حالیہ دنوں میں ملک کی دوسری بڑی ایئر لائن شاہین ایئر کا فضائی آپریشن بند ہونے کی وجہ سے 18 جہاز فضائی منظر نامے سے یکدم غائب ہو گئے اور ہزاروں افراد بے روزگار بھی ہوئے، شاہین ائیر لائن کی بندش سے مسافروں کی تعداد کے مقابلے میں فضائی ٹریفک پی آئی اے اور ملک کی 2 دیگر نجی ائر لائنوں پر منتقل ہوچکا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ان ائر لائنوں کے جہازوں کے ڈومیسٹک پروازوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، اس تمام معاملے کا سب سے خوفناک و تاریک پہلو بین الاقوامی سطح پر گرین پاسپورٹ کے حامل کپتانوں کی انتہائی کم مانگ ہے۔
پیشہ ورانہ کپتانوں کی نمائندہ تنظیم پی پی پی ایف (پاکستان پروفیشنل پائلٹ فورم) سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری ہوابازی اور ڈی جی سول ایوی ایشن کو ایک خط لکھ چکی ہے جس میں چینی حکومت سے پاکستانی کپتانوں کی خدمات کے حوالے سے درخواست کی گئی، ذرائع کا کہناہے کہ مذکورہ درخواست سی اے اے حکام کے پاس ہے، تاہم ابھی تک چین کی کسی ایئر لائن نے پاکستانی کپتانوں کو جاب کی پیش کش نہیں کی، ماہرین کا کہناہے کہ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے دوستانہ ایوی ایشن پالیسی اور پاکستانی شہریوں کی ملکی و غیر ملکی سفری ضروریات کے پیش نظر نئی ائیر لائنوں کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی سرکاری و نجی ایئر لائنوں جبکہ چارٹر کمپنیوں کے جہاز ملا کر بھی ایوی ایشن سیکٹر میں جہازوں کی تعداد صرف 70ہے ، شعبہ ہوابازی سے منسلک افراد کے روزگار پر موجودہ صورتحال کی وجہ سے خطرات کے ان دیکھے سائے منڈ لا رہے ہیں۔ ماہرین ہوا بازی کے مطابق پڑوسی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں ایئر لائنوں اور چارٹر جہاز آپریٹ کرنے والے نجی ادارے انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں، ماہرین کے مطابق پاکستانی ہوابازی کی پالیسی بہت زیادہ فرینڈلی (دوستانہ) نہیں ہے، سابقہ دور حکومت میں مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم کی نافذکردہ، ایوی ایشن پالیسی 2016 میں اتنی زیادہ پیچیدگیاں ہیں کہ مقامی سطح پر ایئر لائن کے حصول کے لیے مسلسل تگ ودو کرنے والے کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں۔
ذرائع کا کہناہے کہ نئی ایئرلائن کے لیے ایوی ایشن ڈویژن کے جاری کردہ لائسنس کے حصول میں 3 سے 4 سال لگ جاتے ہیں جبکہ اس دوران سائل کو جس قسم کی پیچیدگیوں اور قانونی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپ، دبئی اور ایران سمیت کئی دیگر پاکستان اپنی پروازیں لے کر آنا چاہتے ہیں مگر اس کے راستے میں ان گنت رکاوٹیں موجود ہیں، ماہرین کے مطابق جتنی زیادہ ایئر لائنیں ہوںگی اتنی ہی بڑی تعداد میں ملک میں نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، دوسری جانب سول ایوی ایشن کے خاموش تماشائی کے کردار کی وجہ سے مسافروں سے دھڑلے سے زائد کرایہ وصول کیا جا رہا ہے، خودکار نظام کے تحت پی آئی اے سمیت نجی ائیر لائنوں کے ایک ہفتے پہلے بک کروائے گئے ٹکٹ کی 12ہزار روپے یک طرفہ کی رقم پرواز سے عین ایک سے 2 روز پہلے کی بکنگ پر کئی گنابڑھ کر 36 ہزار تک پہنچ جاتی ہے، اس معاملے کے پیچھے مکمل طورپرسول ایوی ایشن کی لاپروائی اور غفلت ہے۔
حالیہ دنوں میں ملک کی دوسری بڑی ایئر لائن شاہین ایئر کا فضائی آپریشن بند ہونے کی وجہ سے 18 جہاز فضائی منظر نامے سے یکدم غائب ہو گئے اور ہزاروں افراد بے روزگار بھی ہوئے، شاہین ائیر لائن کی بندش سے مسافروں کی تعداد کے مقابلے میں فضائی ٹریفک پی آئی اے اور ملک کی 2 دیگر نجی ائر لائنوں پر منتقل ہوچکا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ان ائر لائنوں کے جہازوں کے ڈومیسٹک پروازوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، اس تمام معاملے کا سب سے خوفناک و تاریک پہلو بین الاقوامی سطح پر گرین پاسپورٹ کے حامل کپتانوں کی انتہائی کم مانگ ہے۔
پیشہ ورانہ کپتانوں کی نمائندہ تنظیم پی پی پی ایف (پاکستان پروفیشنل پائلٹ فورم) سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری ہوابازی اور ڈی جی سول ایوی ایشن کو ایک خط لکھ چکی ہے جس میں چینی حکومت سے پاکستانی کپتانوں کی خدمات کے حوالے سے درخواست کی گئی، ذرائع کا کہناہے کہ مذکورہ درخواست سی اے اے حکام کے پاس ہے، تاہم ابھی تک چین کی کسی ایئر لائن نے پاکستانی کپتانوں کو جاب کی پیش کش نہیں کی، ماہرین کا کہناہے کہ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے دوستانہ ایوی ایشن پالیسی اور پاکستانی شہریوں کی ملکی و غیر ملکی سفری ضروریات کے پیش نظر نئی ائیر لائنوں کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔