برصغیر میں صوفی شاعری اورموسیقی کی روایت
کسی نوجوان نے ایک بزرگ سے پوچھا۔’’صوفی شاعری کی ندرت کیاہے؟‘‘بزرگ نے جواب دیا۔’’انسان کادل بنجر مٹی کی...
کسی نوجوان نے ایک بزرگ سے پوچھا۔''صوفی شاعری کی ندرت کیاہے؟''بزرگ نے جواب دیا۔''انسان کادل بنجر مٹی کی طرح سخت ہوتاہے،جس پر کوئی موسم اثر انداز نہیں ہوتا،اسی طرح انسان کے دل پر بھی کوئی بات اثر نہیں کرتی۔صوفی شاعری دل کونرم کرتی ہے اوراثر قبول کرنے والا بناتی ہے۔جب صوفیانہ شاعری کے حروف سماعتوں سے ٹکراتے ہیں اوردل انھیں محسوس کرتاہے،تو پھر سخت مٹی نرم ہوناشروع ہوجایاکرتی ہے،بشرطیکہ یہ عارفانہ کلام سمجھ میں آجائے۔دل جب نرم مٹی کی طرح ہوجائے ،تو پھر اس میں اللہ تعالیٰ اپنی محبت کابیج ڈالتاہے۔لہٰذا خدا سے عشق کی طرف جانے والے راستے کاسنگ میل''تصوف''ہی ہے۔ایک ایساراستہ،جس میں ذات کی نفی ہوتی ہے ۔عاجزی وانکساری شخصیت کااثاثہ ہوتے ہیں۔''
صوفی شاعری کی اساس یہی ہے۔یہ محبت کے وہ خوب صورت حروف ہیں،جو صرف ایمان کوتازہ ہی نہیں کرتے،بلکہ آدمی کوانسان بھی بناتے ہیں۔برصغیر پاک وہند میں اسلام کے فروغ میں صوفیائے کرام کابنیادی کردار رہاہے۔تاریخ کے اوراق پلٹیں،تو بزرگانِ دین کی تعلیمات کاجامع سلسلہ دکھائی دیتاہے۔اس خطے میں بزرگوں کی آمد داتاگنج بخش علی ہجویریؒ سے شروع ہوئی،پھر مغل دور،انگریز کے تسلط کازمانہ اورتقسیم ہندکے مرحلے سے ہوتے ہوئے موجودہ عہد تک ،صوفیوں کاایک مربوط نظام قائم رہا۔
تصوف کے کئی ادوار ہیں،جن میںصوفی بزرگوں نے اپنے عمل اوراخلاق سے سیکڑوں لوگوں کومسلمان کیا۔ان میں شاہ محمدیوسف گردیزیؒ،عبدالقادرگیلانی ؒ،معین الدین چشتیؒ،بہاؤالدین زکریا ؒ،قطب الدین بختیارکاکیؒ،لال شہباز قلندرؒ،بابافریدالدین گنج شکرؒ،شرف الدین بوعلی قلندرؒ،میاں میرؒ،سلطان باہوؒ،بری امامؒ،عبداللہ شاہ غازیؒ،مہرعلی شاہؒ اورکئی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔انھوں نے دین کی تعلیمات کوآسان کرکے بتایا اوراپنی عملی زندگی سے دلوں کو تسخیر کیا۔ تصوف کے منظر نامے پر صوفی شاعری کی بھی اپنی جداگانہ اہمیت بھی ہے۔اس کے ذریعے انسانیت کاپیغام پھیلااورلوگو ں میں حق سچ بات کرنے کی صلاحیت پیداہوئی۔
یہ شاعری ہر دور میں پُراثر رہی ۔تان سین اورامیر خسرو نے کلاسیکی موسیقی کے فروغ کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔نت نئے راگ اورراگنیاں تخلیق کیں۔یہی راگ صوفی شاعری کی مقبولیت کی ایک وجہ بھی بنے اوریہ شاعری ہرزمانے کے لحاظ سے موسیقی کے توسط سے ہم آہنگ ہوئی۔صوفی شاعری کو صحیح معنوں میں موسیقی کی ایک صنف''قوالی''کے ذریعے مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ برصغیر کے لوگوں کی طرزِ زندگی میں موسیقی شامل تھی۔اس لیے ان کو متوجہ کرنے کے لیے صوفی شعرا نے موسیقی کوایک ابلاغی ذریعے کے طورپر استعمال کیا۔محفل سماع کے نام پر منعقد ہونے والی اس سرگرمی کوجدید دور میں ''قوالی ''کانام دیاگیا۔اس صنف کے لیے کلاسیکی موسیقی کے بہت سے گھرانوں کی خدمات شامل ہیں۔ان کے علاوہ انفرادی حیثیت میں بہت سے گلوکاروں نے صوفی شاعری کو کلاسیکی،نیم کلاسیکی اورلوک موسیقی میں ڈھال کر گایا۔
برصغیر کے معروف صوفی شعرا میں سرفہرست نام،جن کی شاعری آج بھی دلوں کوچھولیتی ہے اورانھیں عہد حاضر کے گلوکاربھی گارہے ہیں۔ان صوفی شاعروںمیں ،سندھ سے شاہ عبدالطیف بھٹائی، بلوچستان سے مست توکلی، خیبرپختون خواہ سے خوشحال خان خٹک اورپنجاب سے بابابلھے شاہ،شاہ حسین،بابافرید،میاں محمد بخش جیسے زرخیز شعرائے کرام کاکلام دلوں پر منقش ہے۔خانقاہوں اورمزاروں پرمنعقد ہونے والے میلوں میں قوالیوں کی صورت ،صوفیوں کے کلامِ محبت کو اورآگے پہنچایاگیا۔
پاکستا ن میں قوالی کے منظر نامے پر جن فنکاروں کی نمایاں خدمات ہیں،ان میں عالمی شہرت یافتہ نصرت فتح علی خان سرفہرست ہیں،جب کہ ان کے علاوہ عزیز میاں ،صابری برادران،بدرمیاں داد،بہاؤالدین قطب اورمنشی رضی الدین جیسے منجھے ہوئے قوال شامل تھے،ان کا تعلق 80اور90کی دہائی سے تھا۔اس کے بعد آنے والی نسل نے اس صنف کو سنبھالا۔موجودہ دور میں صوفی شاعری کو گائے جانے کا دائرہ وسیع ہوا۔یہ کلاسیکی موسیقی سے شروع ہوکر، قوالی کے دائرے سے نکل کر نیم کلاسیکی،لوک اورپوپ موسیقی میں منتقل ہوئی۔پاکستان کے تقریباً تمام گلوکار صوفی شاعری گاچکے ہیں۔ان میں عابدہ پروین کو خاص شہرت حاصل ہے۔پچھلی نسل میں سائیں مرنا،مائی بھاگی،طفیل نیازی،پٹھانے خان،عالم لوہار،علن فقیر اورشوکت علی نے اس فن میں خود کوامر کردیا۔موجودہ نسل کے گلوکاروں میں عارف لوہار،سائیں ظہور،اختر چنال زہری جیسے گلوکاروں نے جدید موسیقی کی سنگت میں صوفی شاعری سے اپنی آواز کاجادو جگایا۔
جدید موسیقی کے منظر نامے پر جن میوزیکل بینڈز نے صوفی شاعری کواپنایا،ان میں سب سے اہم دوبینڈزہیں،جن کے نام''جنون بینڈ''اور''میکال حسن بینڈ''ہیں۔انھوں نے صوفی شاعری کے حوالے سے کافی نمایاں کام کیا۔جنون بینڈ نے بابابلھے شاہ کے کلام پر پوری ایک البم ریلیز کی اورعلامہ اقبال کے صوفی کلام پر بھی ایک البم تخلیق کیا۔ان کودنیا بھر میں صوفی بینڈ کے نام سے شہرت ملی۔پوپ موسیقی کی دنیا میں مقبول گیت نگارصابر ظفر کاکہناہے کہ جنون بینڈ کوصوفی موسیقی کی ترغیب انھوں نے دی۔
پوپ میوزک میں دوسرا اہم تخلیقی کام''میکال حسن بینڈ''کاہے۔اس بینڈ کاآغاز ہواتو میکال کے ساتھ شام چوراسی گھرانے کے منجھے ہوئے گلوکار ''ریاض علی خان''تھے۔بہرحال یہ اس بینڈ کے سفر کی ابتدا میں ہی الگ ہوگئے اور ان کی جگہ جاوید بشیر نے پُر کی۔جاوید بشیر کاپس منظر قوالی کاہے۔کلاسیکی موسیقی پر بھی دسترس ہے،اس لیے یہ کامیاب ہوئے،انھوں نے میکال حسن کے ساتھ مل کر دو میوزک البم میں اپنی آواز کاامرت گھولا۔یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے،نصرت فتح علی خان کے بعدجدید موسیقی سے صوفی شاعری کوکسی نے ہم آہنگ کیاہے،تووہ صرف میکال حسن بینڈ ہی ہے،جس کی دونوں البم''سمپورن''اور''سپتک'' اس بات کی علامت ہیں۔میکال حسن کی جدید موسیقی پردسترس اورجاوید بشیر کی کلاسیکی موسیقی پر گرفت نے اس حسین موسیقی کوجنم دیا۔یہ دونو ںبھی اب اپنے راستے جداکرچکے ہیں اوراس میں نقصان صرف اورصرف لطیف موسیقی کاہواہے۔
میکال حسن بینڈ کے یہ دونوں البم خالص صوفی شاعری پر مشتمل البم ہیں۔ان میں بابابلھے شاہ،شاہ حسین، مولانا رومی، امیر خسرو کاکلام گایاگیاہے۔ان دھنوں کو سن کریہ اندازہ ہوتاہے،اگر درست رُخ پر کام کیاجائے توکوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔مغربی سازوں کو شور سمجھنے والوں کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف ہے کہ ان دونوں البم میں اتنی مٹھاس اورشیرنی ہے۔لگتاہے،صوفی شاعری کے لیے ان جدید سازوں سے بڑھ کر کوئی اورساز ہی نہیں ہے۔
جدید موسیقی میں یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہا،بلکہ موسیقی کے اس تصور کو اپناتے ہوئے پاکستان میں بڑے پیمانے پر صوفی شاعری کو بنیاد بناکر موسیقی کاایک پروگرام''کوک اسٹوڈیو''شروع کیاگیا۔گزشتہ پانچ برس سے اس میں تمام اصنافِ موسیقی کے نمائندہ گلوکار اپنے فن کامظاہرہ کررہے ہیں۔علی ظفر جیساپوپ گلوکارپٹھانے خان کا''یارڈاھڈی عشق آتش لائی ہے''گاتے ہوئے اس میں ڈوب گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے،جب وہ اس گیت کی ریکارڈنگ کروا رہا تھا،توگاتے گاتے رونے لگ گیااوراس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔یہ صوفی کلام کااثر تھا،پھر یہ اثر علی ظفر کی گائیکی میںسنائی بھی دیا۔اس نے کوک اسٹوڈیو میں باکمال گائیکی کامظاہرہ کیا۔سندھی کے لوک فنکارسائیں طفیل کے ساتھ مل کر علی ظفر نے ''الف چنبے دی بوٹی''گایاتوسماعتوں کے راستے ان کی آوازیں روح میں اترتی محسوس ہوئیں۔
اس میں پنجابی،سندھی،بلوچی،پشتو،فارسی زبانوں میں صوفیائے کرام کاکلام شامل کیاگیا۔علی ظفر اورسائیں طفیل کے علاوہ عاطف اسلم اورریاض علی خان، زیب ہانیہ اورجاوید بشیر،علی عظمت اورراحت فتح علی خان،بلال مقصود،فیصل کپاڈیااورحسین بخش گلو،نوری اورسائیں ظہور کے ملاپ نے صوفی گائیکی میں فیوژن میوزک کاایک نیاباب رقم کیا۔
روحیل حیات اس تحریک کے روح رواں ہیں۔میں نے ان سے ایک مرتبہ پوچھاکہ موسیقی کایہ اسٹوڈیوتخلیق کرنے کاخیال کیسے آیا؟تووہ کہنے لگے۔''میں ذاتی طورپر مغربی موسیقی سے متاثر تھا،لیکن پھر مجھے اپنی ثقافت اوربالخصوص موسیقی میں دلچسپی ہوئی۔جب اس تجسس میں اپنے ورثے کو کھنگالا،تومجھے بہت کچھ ملا۔میں نے فلم''خداکے لیے''میں سائیں ظہور سے بابابلھے شاہ کاکلام''اللہ ہو''گوایا۔یہیں سے مجھے کوک اسٹوڈیوکاخیال آیا۔''
صوفی شاعری کے فلسفے اورنظریۂ عشق کے حوالے سے معروف ادیبہ اورشاعرہ ڈاکٹر صغراصدف لکھتی ہیں کہ''صوفی جمال کی راہ پر چلنے والا مسافر ہے۔جمال کی تحریک اس کے دل میں خوابیدہ عشق کوبیدار کرتی ہے۔صوفی کاعشق زبانی اظہار محبت پر نہیں بلکہ دیدار کامتقاضی ہے۔وہ عشق کے سمندر میں پوری طرح غرق ہوکر ایک ہونے کو اصل وصل گردانتاہے۔صوفی نفی ذات کے مختلف مراحل سے گزر تے ہوئے فنا کو بقا کی اعلیٰ شکل میں ڈھالتاہے۔''
رمضان المبارک کاپہلاعشرہ جاری ہے۔کم ازکم اس مہینے میں ہمیں اپنے آپ سے ضرورمکالمہ کرناچاہیے۔ہم کچھ برسوں سے اس مہینے کی تقدس کی پرواہ نہیں کررہے۔صبر اوربرداشت زیادہ ہونے کی بجائے کم ہونے لگتا ہے۔ ہمارا رویہ روزے کے تقاضے پورے نہیں کررہاہوتا۔اس کا مظہر افطار سے کچھ دیرپہلے سڑکوں پر رونماہونے والے واقعات ہیں۔
دنیا بھر میں امن کاپیغام پہنچانے کے لیے ضروری ہے، ہم بھی اس امن کو مکمل طورپر اختیار کریں۔ہمارے پاس امن کی سب سے روشن علامت ''تصوف''ہے۔صوفی شاعری انسانیت سے محبت کادرس ہے۔خدا سے عشق کااظہار ہے۔ امن اورمحبت کواپنا لینے سے ظاہروباطن کے مراحل طے ہوا کرتے ہیں،اگر یہ بات سمجھے کوئی تو...
صوفی شاعری کی اساس یہی ہے۔یہ محبت کے وہ خوب صورت حروف ہیں،جو صرف ایمان کوتازہ ہی نہیں کرتے،بلکہ آدمی کوانسان بھی بناتے ہیں۔برصغیر پاک وہند میں اسلام کے فروغ میں صوفیائے کرام کابنیادی کردار رہاہے۔تاریخ کے اوراق پلٹیں،تو بزرگانِ دین کی تعلیمات کاجامع سلسلہ دکھائی دیتاہے۔اس خطے میں بزرگوں کی آمد داتاگنج بخش علی ہجویریؒ سے شروع ہوئی،پھر مغل دور،انگریز کے تسلط کازمانہ اورتقسیم ہندکے مرحلے سے ہوتے ہوئے موجودہ عہد تک ،صوفیوں کاایک مربوط نظام قائم رہا۔
تصوف کے کئی ادوار ہیں،جن میںصوفی بزرگوں نے اپنے عمل اوراخلاق سے سیکڑوں لوگوں کومسلمان کیا۔ان میں شاہ محمدیوسف گردیزیؒ،عبدالقادرگیلانی ؒ،معین الدین چشتیؒ،بہاؤالدین زکریا ؒ،قطب الدین بختیارکاکیؒ،لال شہباز قلندرؒ،بابافریدالدین گنج شکرؒ،شرف الدین بوعلی قلندرؒ،میاں میرؒ،سلطان باہوؒ،بری امامؒ،عبداللہ شاہ غازیؒ،مہرعلی شاہؒ اورکئی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔انھوں نے دین کی تعلیمات کوآسان کرکے بتایا اوراپنی عملی زندگی سے دلوں کو تسخیر کیا۔ تصوف کے منظر نامے پر صوفی شاعری کی بھی اپنی جداگانہ اہمیت بھی ہے۔اس کے ذریعے انسانیت کاپیغام پھیلااورلوگو ں میں حق سچ بات کرنے کی صلاحیت پیداہوئی۔
یہ شاعری ہر دور میں پُراثر رہی ۔تان سین اورامیر خسرو نے کلاسیکی موسیقی کے فروغ کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔نت نئے راگ اورراگنیاں تخلیق کیں۔یہی راگ صوفی شاعری کی مقبولیت کی ایک وجہ بھی بنے اوریہ شاعری ہرزمانے کے لحاظ سے موسیقی کے توسط سے ہم آہنگ ہوئی۔صوفی شاعری کو صحیح معنوں میں موسیقی کی ایک صنف''قوالی''کے ذریعے مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ برصغیر کے لوگوں کی طرزِ زندگی میں موسیقی شامل تھی۔اس لیے ان کو متوجہ کرنے کے لیے صوفی شعرا نے موسیقی کوایک ابلاغی ذریعے کے طورپر استعمال کیا۔محفل سماع کے نام پر منعقد ہونے والی اس سرگرمی کوجدید دور میں ''قوالی ''کانام دیاگیا۔اس صنف کے لیے کلاسیکی موسیقی کے بہت سے گھرانوں کی خدمات شامل ہیں۔ان کے علاوہ انفرادی حیثیت میں بہت سے گلوکاروں نے صوفی شاعری کو کلاسیکی،نیم کلاسیکی اورلوک موسیقی میں ڈھال کر گایا۔
برصغیر کے معروف صوفی شعرا میں سرفہرست نام،جن کی شاعری آج بھی دلوں کوچھولیتی ہے اورانھیں عہد حاضر کے گلوکاربھی گارہے ہیں۔ان صوفی شاعروںمیں ،سندھ سے شاہ عبدالطیف بھٹائی، بلوچستان سے مست توکلی، خیبرپختون خواہ سے خوشحال خان خٹک اورپنجاب سے بابابلھے شاہ،شاہ حسین،بابافرید،میاں محمد بخش جیسے زرخیز شعرائے کرام کاکلام دلوں پر منقش ہے۔خانقاہوں اورمزاروں پرمنعقد ہونے والے میلوں میں قوالیوں کی صورت ،صوفیوں کے کلامِ محبت کو اورآگے پہنچایاگیا۔
پاکستا ن میں قوالی کے منظر نامے پر جن فنکاروں کی نمایاں خدمات ہیں،ان میں عالمی شہرت یافتہ نصرت فتح علی خان سرفہرست ہیں،جب کہ ان کے علاوہ عزیز میاں ،صابری برادران،بدرمیاں داد،بہاؤالدین قطب اورمنشی رضی الدین جیسے منجھے ہوئے قوال شامل تھے،ان کا تعلق 80اور90کی دہائی سے تھا۔اس کے بعد آنے والی نسل نے اس صنف کو سنبھالا۔موجودہ دور میں صوفی شاعری کو گائے جانے کا دائرہ وسیع ہوا۔یہ کلاسیکی موسیقی سے شروع ہوکر، قوالی کے دائرے سے نکل کر نیم کلاسیکی،لوک اورپوپ موسیقی میں منتقل ہوئی۔پاکستان کے تقریباً تمام گلوکار صوفی شاعری گاچکے ہیں۔ان میں عابدہ پروین کو خاص شہرت حاصل ہے۔پچھلی نسل میں سائیں مرنا،مائی بھاگی،طفیل نیازی،پٹھانے خان،عالم لوہار،علن فقیر اورشوکت علی نے اس فن میں خود کوامر کردیا۔موجودہ نسل کے گلوکاروں میں عارف لوہار،سائیں ظہور،اختر چنال زہری جیسے گلوکاروں نے جدید موسیقی کی سنگت میں صوفی شاعری سے اپنی آواز کاجادو جگایا۔
جدید موسیقی کے منظر نامے پر جن میوزیکل بینڈز نے صوفی شاعری کواپنایا،ان میں سب سے اہم دوبینڈزہیں،جن کے نام''جنون بینڈ''اور''میکال حسن بینڈ''ہیں۔انھوں نے صوفی شاعری کے حوالے سے کافی نمایاں کام کیا۔جنون بینڈ نے بابابلھے شاہ کے کلام پر پوری ایک البم ریلیز کی اورعلامہ اقبال کے صوفی کلام پر بھی ایک البم تخلیق کیا۔ان کودنیا بھر میں صوفی بینڈ کے نام سے شہرت ملی۔پوپ موسیقی کی دنیا میں مقبول گیت نگارصابر ظفر کاکہناہے کہ جنون بینڈ کوصوفی موسیقی کی ترغیب انھوں نے دی۔
پوپ میوزک میں دوسرا اہم تخلیقی کام''میکال حسن بینڈ''کاہے۔اس بینڈ کاآغاز ہواتو میکال کے ساتھ شام چوراسی گھرانے کے منجھے ہوئے گلوکار ''ریاض علی خان''تھے۔بہرحال یہ اس بینڈ کے سفر کی ابتدا میں ہی الگ ہوگئے اور ان کی جگہ جاوید بشیر نے پُر کی۔جاوید بشیر کاپس منظر قوالی کاہے۔کلاسیکی موسیقی پر بھی دسترس ہے،اس لیے یہ کامیاب ہوئے،انھوں نے میکال حسن کے ساتھ مل کر دو میوزک البم میں اپنی آواز کاامرت گھولا۔یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے،نصرت فتح علی خان کے بعدجدید موسیقی سے صوفی شاعری کوکسی نے ہم آہنگ کیاہے،تووہ صرف میکال حسن بینڈ ہی ہے،جس کی دونوں البم''سمپورن''اور''سپتک'' اس بات کی علامت ہیں۔میکال حسن کی جدید موسیقی پردسترس اورجاوید بشیر کی کلاسیکی موسیقی پر گرفت نے اس حسین موسیقی کوجنم دیا۔یہ دونو ںبھی اب اپنے راستے جداکرچکے ہیں اوراس میں نقصان صرف اورصرف لطیف موسیقی کاہواہے۔
میکال حسن بینڈ کے یہ دونوں البم خالص صوفی شاعری پر مشتمل البم ہیں۔ان میں بابابلھے شاہ،شاہ حسین، مولانا رومی، امیر خسرو کاکلام گایاگیاہے۔ان دھنوں کو سن کریہ اندازہ ہوتاہے،اگر درست رُخ پر کام کیاجائے توکوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔مغربی سازوں کو شور سمجھنے والوں کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف ہے کہ ان دونوں البم میں اتنی مٹھاس اورشیرنی ہے۔لگتاہے،صوفی شاعری کے لیے ان جدید سازوں سے بڑھ کر کوئی اورساز ہی نہیں ہے۔
جدید موسیقی میں یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہا،بلکہ موسیقی کے اس تصور کو اپناتے ہوئے پاکستان میں بڑے پیمانے پر صوفی شاعری کو بنیاد بناکر موسیقی کاایک پروگرام''کوک اسٹوڈیو''شروع کیاگیا۔گزشتہ پانچ برس سے اس میں تمام اصنافِ موسیقی کے نمائندہ گلوکار اپنے فن کامظاہرہ کررہے ہیں۔علی ظفر جیساپوپ گلوکارپٹھانے خان کا''یارڈاھڈی عشق آتش لائی ہے''گاتے ہوئے اس میں ڈوب گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے،جب وہ اس گیت کی ریکارڈنگ کروا رہا تھا،توگاتے گاتے رونے لگ گیااوراس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔یہ صوفی کلام کااثر تھا،پھر یہ اثر علی ظفر کی گائیکی میںسنائی بھی دیا۔اس نے کوک اسٹوڈیو میں باکمال گائیکی کامظاہرہ کیا۔سندھی کے لوک فنکارسائیں طفیل کے ساتھ مل کر علی ظفر نے ''الف چنبے دی بوٹی''گایاتوسماعتوں کے راستے ان کی آوازیں روح میں اترتی محسوس ہوئیں۔
اس میں پنجابی،سندھی،بلوچی،پشتو،فارسی زبانوں میں صوفیائے کرام کاکلام شامل کیاگیا۔علی ظفر اورسائیں طفیل کے علاوہ عاطف اسلم اورریاض علی خان، زیب ہانیہ اورجاوید بشیر،علی عظمت اورراحت فتح علی خان،بلال مقصود،فیصل کپاڈیااورحسین بخش گلو،نوری اورسائیں ظہور کے ملاپ نے صوفی گائیکی میں فیوژن میوزک کاایک نیاباب رقم کیا۔
روحیل حیات اس تحریک کے روح رواں ہیں۔میں نے ان سے ایک مرتبہ پوچھاکہ موسیقی کایہ اسٹوڈیوتخلیق کرنے کاخیال کیسے آیا؟تووہ کہنے لگے۔''میں ذاتی طورپر مغربی موسیقی سے متاثر تھا،لیکن پھر مجھے اپنی ثقافت اوربالخصوص موسیقی میں دلچسپی ہوئی۔جب اس تجسس میں اپنے ورثے کو کھنگالا،تومجھے بہت کچھ ملا۔میں نے فلم''خداکے لیے''میں سائیں ظہور سے بابابلھے شاہ کاکلام''اللہ ہو''گوایا۔یہیں سے مجھے کوک اسٹوڈیوکاخیال آیا۔''
صوفی شاعری کے فلسفے اورنظریۂ عشق کے حوالے سے معروف ادیبہ اورشاعرہ ڈاکٹر صغراصدف لکھتی ہیں کہ''صوفی جمال کی راہ پر چلنے والا مسافر ہے۔جمال کی تحریک اس کے دل میں خوابیدہ عشق کوبیدار کرتی ہے۔صوفی کاعشق زبانی اظہار محبت پر نہیں بلکہ دیدار کامتقاضی ہے۔وہ عشق کے سمندر میں پوری طرح غرق ہوکر ایک ہونے کو اصل وصل گردانتاہے۔صوفی نفی ذات کے مختلف مراحل سے گزر تے ہوئے فنا کو بقا کی اعلیٰ شکل میں ڈھالتاہے۔''
رمضان المبارک کاپہلاعشرہ جاری ہے۔کم ازکم اس مہینے میں ہمیں اپنے آپ سے ضرورمکالمہ کرناچاہیے۔ہم کچھ برسوں سے اس مہینے کی تقدس کی پرواہ نہیں کررہے۔صبر اوربرداشت زیادہ ہونے کی بجائے کم ہونے لگتا ہے۔ ہمارا رویہ روزے کے تقاضے پورے نہیں کررہاہوتا۔اس کا مظہر افطار سے کچھ دیرپہلے سڑکوں پر رونماہونے والے واقعات ہیں۔
دنیا بھر میں امن کاپیغام پہنچانے کے لیے ضروری ہے، ہم بھی اس امن کو مکمل طورپر اختیار کریں۔ہمارے پاس امن کی سب سے روشن علامت ''تصوف''ہے۔صوفی شاعری انسانیت سے محبت کادرس ہے۔خدا سے عشق کااظہار ہے۔ امن اورمحبت کواپنا لینے سے ظاہروباطن کے مراحل طے ہوا کرتے ہیں،اگر یہ بات سمجھے کوئی تو...