نیپ کی بحالی کا خواب

یوں تو جوڑ توڑکو سیاسی عمل کا ناگزیر حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ہر تعلق کی طرح اس میں بھی توڑنا آسان ہے...

khanabadosh81@gmail.com

SWAT:
یوں تو جوڑ توڑکو سیاسی عمل کا ناگزیر حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ہر تعلق کی طرح اس میں بھی توڑنا آسان ہے، جوڑناذرا مشکل ۔ سماجی ڈھانچے میں بھی تخریب سہل ہے، تعمیر کارِدراز۔اسی لیے سماجی ڈھانچے میں تعمیر کے خواہاں اکثر افراد اپنی عمریں لگا کر بھی اس کی بنیاد تک نہیں ڈال پاتے اور چونکہ تخریبی عوامل ان کی نسبت زیادہ ہیں، اس لیے یہ برس ہا برس لگا کر جو تعمیر کرتے ہیں، تخریبی عناصر پل بھر میں اسے زمیں بوس کر دیتے ہیں۔ یہی دیکھ لیجیے کہ ایک پُل بنانے کے لیے کس قدر سرمایہ، افرادی قوت،وقت اورتوانائی خرچ ہوتے ہیں ،جب کہ اسے گرانے کے لیے محض ایک بم پھوڑ دینا کافی ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں، ہماری نسل کی پیدائش سے بھی پہلے، آج سے کوئی چار دہائی قبل سنتے ہیں کہ نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے ایسی ہی ایک تعمیر کی کوشش ہوئی تھی، جسے تخریبی قوتوں نے مل کر ڈھا دیا۔ رجعت پسند اور بنیاد پرست قوتوں کے مقابلے میں پاکستان میں نیپ نے ایک نئے طرز سیاست کی بنیاد رکھی جو انسانوں کی شناخت ان کی لسانی،گروہی، نسلی اور مسلکی وابستگیوں کی بجائے ظالم اور مظلوم کے طور پر کرتی تھی، استحصال کردہ اور استحصال زدہ کے طور پر کرتی تھی، اور ظالم و استحصالی قوتیں کیونکہ ہمیشہ اقلیت میں رہی ہیں، اس لیے انھیں خوب اندازہ تھا کہ اس بنیاد پر بننے والا کوئی بھی اتحاد اس قدر طاقت ور ہو سکتا ہے کہ ان کے استحصالی نظام کو بہا لے جائے۔ اس لیے اپنی پوری قوت لگا کر انھوں نے اس اتحاد کی بنیادیں مضبوط ہونے سے قبل ہی اسے پارہ پارہ کر دیا۔

اور یوں پاکستان میں عوامی سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔ قومیت کی بنیادیں مضبوط کی گئیں۔ این اے پی سے ہی اے این پی کا ظہور ہوا، جو پشتونوں کی نمائندہ بن بیٹھی، پیپلز پارٹی نے سندھ میں ڈیرے ڈال دیے، پنجاب سے پیپلز پارٹی کو دیس نکالا دینے کے لیے ن لیگ کی داغ بیل ڈالی گئی، بلوچستان قبائلی سرداروں اور نوابوں کے حوالے ہوا۔ عوام کی آنکھوں سے ان کے خواب ہی چھین لیے گئے۔ اس طویل عرصے میں سیاسی بیانیہ اس قدر تبدیل کر دیا گیا کہ اب عوام خواب بھی وہی دیکھتے ہیں جو ان کا استحصال کرنے والی قوتیں انھیں دکھانا چاہئیں۔

ایک ناقابلِ تردید حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ عوامی سیاست کا نعم البدل عوامی سیاست ہی ہے۔ سو، کسی زمانے میں نیپ کو ناکامی سے دوچار کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے والے ہی آج اسی سیاسی فکر کے پرچارک ہیں۔ بالخصوص بلوچستان میں خود کو قوم پرست کہلوانے اور سینٹرلیفٹ کی جانب جھکاؤ رکھنے والی جماعتوں نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے حکومتی اتحاد نے انھیں اسی راہ کا مسافر بنا دیا ہے ، جس کا راستہ آج سے پچیس، تیس برس قبل ترک کردیا گیا تھا۔

وقت نے ہر دو بلوچ، پشتون قوم پرست جماعتوں کو ایک ہی راہ پہ لا کر اس اتحاد کا ایک ایسا سنہری موقع دیا ہے، جس کا زیاں ہر دو اقوام کے عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔جب کہ تخریبی عناصر نے ان کی قربت کا اندازہ لگاتے ہوئے تخریب کے بیج ابھی سے بونا شروع کر دیے ہیں۔ کوئٹہ میں بلوچ پشتون طلبا کے درمیان تصادم اس سلسلے کی اولین کڑی ہے، اس معاملے میں اگر بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو اس کا تباہ کن نتیجہ کوئٹہ کی لسانی تفریق کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے، جس کا نقصان بہرحال عوام کو ہی اٹھانا ہو گا۔


نیپ کی بحالی کی جانب ایک قدم پونم کی صورت میں بھی اٹھایا گیا تھا، لیکن اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس کی بنیاد عوامی اتحاد پر نہیں بلکہ نسلی اتحاد پر تھی۔ عوام کا اتحاد استحصال کے سوا جس بھی بنیاد پر ہو گا نہ عوامی ہو گا نہ دیرپا ہو گا۔ فیصلہ کن اتحاد طبقاتی ہے، جس میں ظالم اور مظلوم قوتوں کی واضح نشان دہی موجود ہو۔ پونم میں شامل جماعتوں نے اپنا نسلی تشخص بھی بحال رکھا اور مظلوم قومیتوں کے اتحاد کا نعرہ لگایا۔ حالانکہ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ کوئی بھی گروہ من حیث القوم نہ تو ظالم ہوتا ہے نہ مظلوم۔ ہر ظالم قوم میں بھی مظلوم لوگ ہوتے ہیں اور ہر مظلوم قوم میں ظالم افراد بھی۔ اس لیے قومیت کی بنیاد پر بننے والا اتحاد ایسی کئی برائیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے جس سے عوامی جدوجہد کی راہ کھوٹی ہوتی ہے۔

پونم کے ناکام تجربے کے بعد اب جب کہ بلوچستان میںوقت اور حالات نے بلوچ پشتون نمائندہ جماعتوںکو اقتدار کے کھیل میں شریک بنا دیا ہے تو یہ اس خطے کے عوام کو قریب لانے میں تاریخی کردار ادا کر سکتے ہیں۔سیاسی بلوغت کا تقاضا ہے کہ اقتدار کی حتمی منزل پالینے کے بعد اب وقتی نعروں سے نکل کر مستقبل کی مضبوط عوامی سیاست کی بنیاد ڈالی جائے۔ رجعت پسند اور بنیاد پرست قوتوں کو دیوار سے لگانے کا یہ سنہری موقع ہے۔ اس سلسلے میں ان تمام قوتوں کو شامل کیا جا سکتا ہے جو بنیاد پرستی کی نظریاتی مخالفت میں ساتھ دینے کو تیار ہوں۔

نیپ کی بحالی سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ اسی نام سے دوبارہ کوئی سیاسی جماعت تشکیل دی جائے، بلکہ اس سے مراد اُس طرزِ سیاست کا احیا ہے جس کا دامن چھوڑ دینے کے باعث ہی یہ خطہ ایک نہ ختم ہونے والے تعصبات کی زد میں چلا گیا ہے۔ ان تعصبات کا خاتمہ اسی عوامی طرزِ سیاست کے ذریعے ہی ممکن ہے، جس کی بنیاد یوسف عزیز مگسی نے 1920ء کی دہائی میں ڈالی تھی، جس کا تسلسل قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی اور پھر عوامی نیشنل پارٹی کی صورت میں جاری رہا۔ تصور کیجیے کیا منظر ہو گا کہ پہلی آل انڈیا بلوچ کانفرنس ہو رہی ہو جیکب آباد میں، اور اُس کی صدارت کر رہے ہوں جناب عبدالصمد اچکزئی۔ اخبار شایع ہو رہا ہے، البلوچ اور اس کی تکنیکی معاونت میں پیش پیش ہیں جناب اچکزئی۔ ان اکابرین کی تعمیری سیاسی فراست ہی تھی جس نے خطے میں عوام کوہر سطح پہ جوڑے رکھا اور عوام دشمن قوتوں کو ہر سطح پر پسپا کیا۔ جب سے ہم نے اس طرزِ سیاست سے منہ موڑا، عوام ہر سطح پر کمزور ہوئے، عوام دشمن قوتیں ہر سطح پر مضبوط ہوئیں۔

محض اقتدار کے حصول کے لیے عوام میں تخریب کاری کرنا نہایت سہل ہے۔ عوام کو نسلی اور گروہی بنیاد وں پر تقسیم کرنا بھی نہایت آسان ہے،لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وہ آگ ہے جس سے اسے بھڑکانے والوں کا دامن بھی محفوظ نہیں رہتا۔ اس خطے کے عوام خواہ کسی بھی نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، کسی قسم کی جغرافیائی تقسیم تک ان کے مستقل مفادات اسی سرزمین سے جڑے ہیں، اس لیے ان کا آپس میں بیر کسی صورت میں ان کے حق میں نہیں۔ جس جس نے اس تقسیم میں اپنا حصہ ڈالا، کل وہ اُس کی آگ سے اپنا دامن نہیں بچا پائے گا۔سماج کو اس مجموعی تخریب سے بچانے کا واحد حل عوام کا وسیع بنیادوں پرقائم ہونے والا اتحاد ہی ہے۔ نسلی ،لسانی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کرعوامی مفادات کی پاسداری کیے بنا کسی قسم کی سیاست نہ کسی کے حق میں مفید ہو گی ، نہ ہی دیرپا ثابت ہو گی۔

موجودہ سیاسی قیادت کے پاس اس عوامی طرزِ سیاست کی بحالی کا ایک نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔ اگر انھوں نے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تاریخی کارنامہ انجام دے دیا تو نہ صرف خطے کی سیاست پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے بلکہ خود اس قیادت کی بھی نیک نامی ہو گی،کہ بہرحال تاریخ ، تعمیر کرنے والوں کا نام ہی سب سے اونچی سطح پر رکھتی ہے۔
Load Next Story