کراچی جائے اماں سے بے اماں تک
نیوز چینل آن کرتے ہی جو سب سے پہلی خبر سنائی دی اس کے مطابق کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں میں شامل ہے...
نیوز چینل آن کرتے ہی جو سب سے پہلی خبر سنائی دی اس کے مطابق کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں میں شامل ہے۔ کراچی کے کسی بھی باسی کے لیے جو اس شہر کے خوف میں لپٹے شب وروز میں جیتا ہو یہ خبر نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ چوں کہ کراچی میں رہنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ وہ کن حالات میں جی رہا ہے، مگر اس کے لیے بھی یہ آگاہی کہ اس کا شہر دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں شامل ہے، ایک بھیانک سچ ہے۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے اس شہر میں نہ جانے کتنے خاندان آباد ہیں جنھیں میری ہی طرح اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کھائے جاتی ہے اور ان کی آنکھوں میں اپنے بچوں کے لیے ست رنگے سپنے سجے ہیں، لیکن اس شہر کے تلخ سے تلخ ہوتے ایام نے ان کے خوابوں کو ڈر کے تاریک سائے میں ڈھال دیا ہے۔
یہ شہر برسوں سے خوں ریزی اور تباہی وبربادی کے مناظر دیکھ رہا ہے۔ زبان کے نام پر ہونے والے فسادات کتنے ہی گھر اجاڑ چکے ہیں۔ کتنی ہی بار یہ ہوا ہے کہ اس شہر کے مختلف علاقوں میں آباد لوگوں کو اپنے آبائی مکانات اور برسوں پرانی رہائش گاہیں چھوڑ کر کسی اور بستی میں بسنا پڑا۔ کچھ عرصہ قبل اورنگی ٹاؤن سے نقلی مکانی کے واقعات ہوئے اور اب لیاری کی سرزمین پر ہجرتوں کی دردناک کہانیاں لکھی جارہی ہیں۔ میں یہ سوچ کر لرزاٹھتی ہوں کہ کہیں ایسا وقت نہ آجائے کہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑے۔
ہمارے ایک ساتھی صحافی، جو عراق کی جنگ میں صحافتی فرائض انجام دے چکے تھے، کراچی کے موجودہ حالات کے بارے میں ان کا تجزیہ کچھ یوں ہے،''کراچی کے حالات کسی بھی ایسے ملک کے جیسے ہی ہیں جہاں جنگ ہورہی ہو۔'' قتل وغارت گری کے واقعات کی سنگینی، وحشت اور درندگی کے مظاہرے اور ان میں استعمال ہونے والا اسلحہ اس تجزیے کو صحیح ثابت کرتا ہے۔ کچھ روز پہلے اخبار میں ایک تصویر شایع ہوئی، جس میں اسپتال میں زیرعلاج کچھ زخمی افراد دکھائے گئے تھے۔ اس تصویر کا کیپشن تھا کہ لیاری میں ''راکٹ لانچر'' سے زخمی ہونے والے افراد اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
یہ ہے میرا شہر، جہاں کلاشنکوف ہی ڈر نہیں بانٹتی۔ راکٹ لانچر اور بم بھی لوگوں کے دلوں پر ہیبت طاری کیے ہوئے ہیں، جہاں کے پچانوے فی صد باسی اسٹریٹ کرائم کا شکار ہوچکے ہیں۔ بوری، جو بھوک مٹاتے اناج سے بھری، زندگی کی علامت ہے، اس بدنصیب شہر میں موت کی نشانی بن چکی ہے۔
یہ سب کیوں ہوا اور ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ان عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جنھوں نے کراچی کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ ان عوامل میں سرفہرست آبادی کا دباؤ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت چند لاکھ نفوس پر مشتمل اس چھوٹے سے شہر کی آبادی لاکھوں افراد کی ہجرت کے نتیجے میں راتوں رات کہیں سے کہیں جاپہنچی۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے صنعتی وتجارتی شہر کی طرف ملک بھر سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا۔ یہی نہیں، دیگر ممالک کے تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد نے بھی اس شہر کو اپنا مسکن بنایا، جن میں افغانی اور بنگلہ دیشی سرفہرست ہیں۔ آبادی میں یہ بے ہنگم اور تیزی سے ہونے والا اضافہ گنجان اور غیرمنظم بستیوں کی آبادکاری کے ساتھ دیگر بہت سے مسائل کا سبب بھی بنا ہے۔ آبادی بڑھنے کے باعث وسائل کم ہورہے ہیں اور مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ملک کے دوسرے شہروں اور دیہات سے کراچی آنے والوں کے روزگار، رہائش اور دیگر متعلقہ مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے؟ یہ ذمے داری کوئی ادارہ قبول نہیں کرتا۔لہذااس صورت حال نے رہائش کے مسئلے کو سنگین کردیا ہے، اور لاکھوں خاندان دڑبے جیسے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آبادی بڑھنے اور وسائل گھٹنے کے عمل نے جو سب سے بڑا مسئلہ پیدا کیا وہ ہے بے روزگاری۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ کراچی کو آبادی کے لحاظ سے روزگار کے مواقعے فراہم کیے جاتے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ نجی شعبہ روزگار کی فراہمی کا فریضہ کسی نہ کسی طور ادا کرتا رہا ہے، لیکن بجلی کے بحران کی وجہ سے کتنے ہی کارخانوں پر تالے پڑ چکے ہیں۔ پھر لیاری جیسے علاقے میں حالات خراب ہوں تو اس بستی کے افراد روزگار کے لیے شہر کے مرکزی علاقوں میں کس طرح جائیں؟
چناںچہ ان کا روزگار چھن جاتا ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو جرائم کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ بے روزگاری، رہائش کے نامناسب حالات، بدامنی کے باعث ہونے والے مصائب، ان سب نے شہریوں کو مجموعی طور پر اور یہاں بسنے والے مختلف طبقات کو نفسیاتی امراض اور احساس کم تری میں مبتلا کردیا ہے۔ خاص کر جوش وجذبات سے بھرے نوجوانوں کو احساس کمتری جرائم کی طرف مائل کرتا ہے، یوں جرائم پیشہ گروہوں کو نیا خون ملتا رہتا ہے۔
سندھ اور اربن علاقوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں چاہتیں تو ان مسائل پر قابو پاکر کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہتر بناسکتی تھیں، مگر ان کے رہ نماؤں کی ''سیاسی حکمت عملی'' تو یہ ہوتی ہے کہ درجنوں معصوم جانیں ضایع ہونے کے بعد یہ رہنما مذاکرات کے نام پہ شہر کی ایک فوڈ اسٹریٹ پر نہاری کھاتے نظر آتے ہیں۔ پھر ان خاندانوںکا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا جن کواپنی جماعت سے وفاداری کے باعث مخالفین سے موت کے تحفہ ملتے ہیں۔
گمبھیر ہوتے ان مسائل کا سادہ سا حل یہ تھا کہ صوبائی حکومتیں ملک بھر سے کراچی کی طرف آبادی کے انخلاء کو پیش نظر رکھتے ہوئے کراچی کی بڑھتی آبادی کے لیے روزگار سمیت وسائل بڑھانے کی منصوبہ بندی کرتیں، لیکن اس معاملے پر کوئی توجہ نہ دی گئی اور اس عدم توجہی کے بھیانک نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔
اہل سیاست کی اس روش کے باعث یوں تو پورا شہر ہی ہر قسم کے جرائم پیشہ افراد کی زد میں ہے اور شہریوں کے لیے کوئی جائے امان نہیں، مگر کراچی کا قدیم علاقہ لیاری تو بدامنی اور خوف ودہشت کی مثال بن چکا ہے۔لیاری کو پچھلے سات سالوں سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس طرح کے حالات اور اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی کراچی کے شائد ہی کسی علاقے سے ہوئی ہو۔لیاری میں دہشت گردی اور بد امنی سے تنگ آ کر بدین پہنچنے والے بچوں کی تعلیم بھی تباہی کے دہانے پہنچ گئی ہے ۔ اس حوالے سے کچھی برادری کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے بلوچوںسے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں بلوچ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ہمارے لوگوں کو شہید کیا گیااور سیکڑوں کی تعداد میں ہمارے لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔
ایسے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے لیاری میں گینگ وار کے باعث ہونے والی ہجرت کا نوٹس لیے جانا امیدافزاء خبر ہے۔ ہفتہ 13جولائی کو شایع ہونے والی اس خبر کے مطابق وزیراعظم نے وفاقی سیکریٹری داخلہ اور آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل کو فوری طور پر کراچی پہنچنے کی ہدایت کرتے ہوئے ان سے کہا ہے کہ وہ صوبائی حکام اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کرکے مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ دونوں افسران کو لیاری گینگ وار کے اصل حقائق وفاقی حکومت کے سامنے لانے، نقل مکانی روکنے اور مسئلے کے حل کے لیے سفارشات دینے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
جناب نواز شریف! آپ کے نوٹس لینے سے اتنا تو احساس ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی حکومت قائم ہے۔ اب یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ اپنی ہدایات پر عمل کروائیں اور لیاری سمیت پورے کراچی کو امن کی سوغات دے دیں، یہ اس شہر پر آپ کا احسان ہوگا۔