ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ
الجزیرہ نیوز چینل کے تحقیقاتی یونٹ کی جانب سے اس ماہ کی آٹھ تاریخ کو افشاء کی جانےوالی ایبٹ آبادکمیشن رپورٹ کےبارے...
الجزیرہ نیوز چینل کے تحقیقاتی یونٹ کی جانب سے اس ماہ کی آٹھ تاریخ کو افشاء کی جانے والی ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ یہ معلومات کمیشن کے کسی ایک رکن کی رائے پر مبنی ہیں۔ حتمی رپورٹ تمام ارکان کی رائے سے اخذ کی گئی ہے اور اس کا منظرعام پر آنا ابھی باقی ہے۔ غالباً یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ حتمی اور حقیقی رپورٹ کے مندرجات الجزیرہ سے سامنے آنے والی معلومات کے بالکل برعکس ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حتمی رپورٹ میں کچھ ایسی باتیں شامل ہوں جن کو عوام کے سامنے لانا ''ملکی مفاد'' میں نہ ہو' پھر بھی اُمید کی جانی چاہیے کہ حتمی رپورٹ عوام وخواص پر مثبت تاثر چھوڑے گی۔ حالانکہ پاک امریکا تعلقات کی موجودہ نوعیت میں ایسی رپورٹوں کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ ہی ضرورت۔
2 مئی 2011ء کو امریکا کی ایلیٹ چھاپہ مار فورس کے سیلز کانڈوز اپنے ہیلی کاپٹروں پر سوار ہو کر پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے اور ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی مبینہ خفیہ رہائش گاہ پر حملہ کر کے القاعدہ کے سربراہ کو ہلاک کر دیا۔ جیسا کہ ہمارے ہاں ہوا کرتا ہے پاکستانی عوام اس واقعے پر شرمندہ بھی تھے اور دُکھی بھی۔ سیاسی سطح پر شُور مچا۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز رویہ اس وقت کی حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی طرف سے سامنے آیا۔ اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس حملے کو پہلے تو عظیم فتح قرار دے دیا۔
ایک ایسا حملہ جو پاکستان کے اندر کیا گیا اور جس کے بارے میں بظاہر ہمارے متعلقہ اداروں کو کوئی اطلاع نہ تھی، لیکن وزیراعظم نے بہتری اس میں سمجھی کہ اس حملے کی مذمت کے بجائے اس کی کامیابی میں حصہ دار بنا جائے۔ پھر کسی نے بتایا ہو گا کہ ایسا کہنا ٹھیک نہیں ہوتا تو انھوں نے اس سے بالکل الٹ مؤقف اختیار کر لیا حتیٰ کہ سیاسی دباؤ پر جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا گیا جس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور اس سے پہلے کہ اس رپورٹ کو لوگوں کے سامنے لانے یا نہ لانے یا پھر ایک ممکنہ حد تک سامنے لانے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا تھا کہ الجزیرہ نے اس رپورٹ کے اہم نکات افشاء کر دیے ہیں۔
یہ رپورٹ کہتی ہے ''پاکستان کے حکمرانوں نے شاید ہی کبھی عوام کے ساتھ امریکا سے تعلقات کے حوالے سے دیانت داری کا مظاہرہ کیا ہو۔ یہ روش بحرانی کیفیت' مایوسی اور منفی نتائج کا موجب بنی۔ رپورٹ
کے مطابق پاکستان کی جانب سے امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر ہونے کا تاثر درست نہیں۔ پاک امریکا تعلقات امریکا سے ملنے والی اقتصادی اور دفاعی امداد پر ہمارے انحصار اور امریکا کی پاکستان سے وابستہ وقتی ضرورتوں پر استوار ہیں۔ یہ تعلقات مشروط ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امریکا نے جس ملک کو خود اپنا اسٹریٹجک پارٹنر چُنا ہے وہ بھارت ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود کی مسلسل خلاف ورزیوں اور سول نیوکلیئر تعاون میں بھارت کے مقابلے میں امتیازی رویہ اختیار کرنے پر پاکستان کے لوگوں کی اکثریت امریکا کو سب بڑا بیرونی خطرہ تصور کرتی ہے۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی نئی باتیں نہیں، ہم جو امریکا کے قریبی دوست کہلائے جانے پر بضد ہیں تو اس کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ ہی نہیں... اگر ہم امریکا کی دوستی سے معذرت کر کے جان خلاصی کی کوشش کریں گے تو دوسری حیثیت دشمن کی ہو گی پھر ہم چاہیں نہ چاہیں ہمیں امریکا کے دشمنوں ہی میں شمار کیا جائے گا۔
کچھ دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملہ ناکام بنا دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اپنی مغربی سرحدوں کو پُرامن اور دوست سرحد سمجھتے ہوئے ہم نے فضائی نگرانی کے نظام کو چالو حالت میں نہیں رکھا تھا تو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہمارے ریڈار اپنا کام کر رہے تھے۔ جیسے ہی امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے' پاک فضائیہ کے طیاروں نے انھیں جا لیا۔ امریکیوں کی کچھ فورس تباہ ہو ئی اور کچھ مرتے مارتے اپنے ہدف تک پہنچ گئی، لیکن اسامہ نشانہ نہ بن سکے۔ اس کے بعد کیا ہوتا؟ امریکی حکومت فوراً مذکورہ گھر کی 'جسے مسمار کیا جا چکا ہے' تصاویر اور تمام شواہد منظرعام پر لے آتا اور ہرطرف شور مچ جاتا کہ پاکستان نے اسامہ کو پناہ دے رکھی ہے اور اسے ہلاک کرنے کی کوشش کو بزور طاقت ناکام بنا دیا گیا ہے۔ یوں ہم نے برسوں خود کو جو اینٹی القاعدہ اور اینٹی طالبان منوایا ہے یہ تصور بھک سے ہوا میں تحلیل ہو جاتا اور افغانستان میں اتحادی افواج کے ساتھ جو بھی بُرا ہوا اس کے ذمے دار ہم قرار پاتے۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ امریکا اُسامہ کی رہائش کے بارے میں تمام اطلاعات اور شواہد پاکستان کوفراہم کر دیتا۔ یوں اگر پاکستان خود کارروائی کر کے اُسامہ کی موت اپنے سر لیتا یا اسے گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کر دیتا تو افغانستان اور قبائلی علاقوں میں پاکستان کے لیے حالات بدترین شکل اختیار کر جاتے۔ پھر امریکا یہ اطلا ع ایک ایسے ملک کے حکام کو کیسے دے سکتا تھا جہاں فوجی تنصیبات پر حملہ کروانے میں اندر کے لوگ ملوث پائے گئے ہیں۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں دونوں طرف ہماری ہی مات تھی۔ امریکا کے ساتھ ہمارا تعلق اب ایسی صورت اختیار کر چکا ہے کہ ہم امریکا کے لیے ہرگز قابل اعتبار نہیں لیکن وہ ہمیں تبدیل بھی نہیں کر سکتا۔ کوئی اور ہماری جگہ لے ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا انھیں ہم سے ہی کام لینا ہے اور یہ بھی دھیان رکھنا ہے کہ کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ میرے خیال میں اُسامہ کی ہلاکت پر تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ امریکا کو ہم کیا سمجھتے ہیں ''دوست یا دشمن''؟ ہم سے میری مراد حکومت اور مقتدر قوتیں ہیں۔
سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہو یا اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی' ہماری جانب سے ردعمل میں امریکی فوجوں کی سپلائی میں تعطل تو دیکھا گیا ہے لیکن امریکی امداد کی قسطوں سے منہ موڑنے کا کوئی ایک بھی واقعہ ہمارے علم میں نہیں۔ ایسی بندش ہمیشہ امریکا ہی کی جانب سے لگائی جاتی رہی جس کا مقصد ہمیں ''راہ راست'' پر لانا ہوتا ہے۔ ڈرون حملے ہو رہے ہوں' اسامہ کو نشانہ بنایا جائے' امریکی ایما پر افغان لشکری ہماری پوسٹوں پر حملہ آور ہوں یا سلالہ چیک پوسٹ کو امریکی ہیلی کاپٹر نشانہ بنائیں، پاک امریکا تعلقات میں ہمیشہ یکساں رہنے والا فیکٹر امریکا کے آگے پھیلا ہوا ہمارا ہاتھ ہے۔ ایسے میں کوئی تحقیقاتی رپورٹ محض ایک وقتی ضرورت پوری کرنے سے بڑھ کر کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتی۔
اس رپورٹ کے بارے میں سب سے دلچسپ ردعمل امریکا میں سابق پاکستانی سفیر (حالانکہ اگر وہ پاکستان میں امریکی سفیر تعینات ہوتے تو شاید تاریخ کے بہترین امریکی سفیروں کی صف شامل ہوتے) جناب حسین حقانی صاحب کا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایبٹ آباد کمیشن نے امریکا دشمن جذبات کو ہوا دی ہے۔ 40 ارب ڈالر اور ایف 16 طیارے لینے کے بعد آپ کسی امریکی کا ویزا کیسے روک سکتے ہیں۔ سب سے دلچسپ پاکستان میں امریکیوں کی موجودگی کے بارے میں سابق سفیر کا استدلال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں 10 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں لیکن پاکستان کو 6 ہزار امریکی برداشت نہیں ہو رہے۔ ذرا اندازہ لگائیں اگر امریکا میں مقیم دس لاکھ پاکستانی وہی کام شروع کر دیں جو 6 ہزار امریکی پاکستان میں کر رہے ہیں تو کیا ہو گا؟