بالی وڈ فلموں کے ناقابلِ فراموش کریکٹرایکٹرز

جن کے بغیر فلم پھیکی محسوس ہوتی ہے

فوٹو : فائل

فلم میں ہیرو ، ہیروئن ، ولن اور کامیڈین کے علاوہ کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بغیر فلم یعنی کہانی کا تانا بانا ہی نہیں بن سکتا ہے۔

عام طور پر تو انھیں کریکٹر آرٹسٹ کہا جاتا ہے جن کی پرفارمنس اور کردار کی اہمیت مرکزی کرداروں سے کم نہیں ہوتی بلکہ بعض تو ایسے فنکار ہیں جنہوں نے ساری زندگی کریکٹر رول ہی کئے اور یہی ان کی پہچان بن گئی ۔بالی وڈ میں ایسے بہت سے کریکٹر رول کرنے والوں کی لمبی فہرست ہے جن میں سے چند کو ملک گیر شہرت ملی جن کے ذکر کے بغیر بالی وڈ کی فلمی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ۔

نروپا رائے:-'میرے پاس ماں ہے۔۔۔' فلم دیوار کا یہ مکالمہ ہندی سنیما کے مشہور ترین مکالموں میں سے ایک ہے۔ فلم میں امیتابھ بچن کے سوال میں ششی کپور یہ بات اپنی فلمی ماں نروپا رائے کے لیے کہتے ہیں۔نروپا رائے ہندی فلموں کی سب سے مشہور ماؤں میں سے ایک ہیں۔ 70 اور 80 کی دہائی میں وہ اکثر امیتابھ بچن کی فلموں میں دکھیاری ماں کے کردار کرتے نظر آتی تھیں۔



یہاں تک کہ 1999 میں بھی فلم 'لال بادشاہ 'میں بھی وہ امیتابھ کی ماں بنیں۔کہا جاتا ہے کہ 40 کی دہائی میں نروپا رائے اور ان کے شوہر ایک اشتہار دیکھنے کے بعد فلم آڈیشن میں گئے۔ شوہر کو تو کردار نہیں ملا، لیکن نروپا رائے فلم سازوں کی نظروں میں آگئیں ۔ 40 اور 50 کی دہائی میں انھوں نے کئی مذہبی فلموں میں اہم کردار ادا کیے اور بعد میں وہ ماں کے کردار میں نظر آنے لگیں۔ ''دو بیگھہ زمین'' میں ان کا رول یادگار رہا۔ نروپا رائے کا 2004ء میں انتقال ہوا۔

افتخار:- 60، 70 یا 80 کی دہائی کی ہندی فلموں میں پولیس افسر کے رول کا تصور کریں تو آنکھ بند کرتے ہی اداکار افتخار کا چہرہ ذہن میں آتا ہے۔ 30 کی دہائی میں اپنے کیریئر کی شروعات کرنے والے افتخار نے پہلے کئی مرکزی کردار کیے لیکن لوگ ان کے بعد کے دور میں کیریکٹر آرٹسٹ کے طور پر ہی انھیں زیادہ جانتے ہیں جن میں ''ڈان'' کا ڈی ایس پی ڈی سلوا یا زنجیر کے پولیس کمشنر کو فورا پہچان لیتے ہیں ۔ افتخار بارعب شخصیت ، بھاری آواز اور ہاتھ میں سگار لئے فلمی پردے پر ایک الگ انداز سے جلوہ گر ہوتے تھے۔ جب وہ فلم میں پولیس کی وردی میں نہیں ہوتے تھے تو اکثر سیاہ کوٹ پہنے وکیل یا جج کی کرسی پر نظر آتے تھے۔ کچھ فلموں میں انھوں نے منفی کردار بھی کئے مگر اصل شناخت کریکٹر رول ہی رہے ۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اچھے مصور بھی تھے۔

ڈیوڈ:-'ننھے منے بچے تیری مٹھی میں کیا ہے۔ ' اگر آپ کو یہ گانا یاد ہے تو اداکار ڈیوڈ ابراہم کو ضرور پہچان لیں گے۔ 1954 میں فلم ''بوٹ پالش'' میں جان چچا کے کردار کے لیے انھیں فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا اور یہ فلم کانز فسٹیول میں نامزد ہوئی تھی۔ وہ ہندی فلموں میں کام کرنے والے چند یہودی اداکاروں میں شامل ہیں۔چار دہائیوں پر مشتمل کیریئر میں انھوں نے کئی یادگار فلموں میں کام کیا جن میں ''چپکے چپکے ''کا ہرپد بھیا ہو یا پھر ڈاکٹر کیدار یہ کردار ڈیوڈ نے ہی کئے ۔

ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ پہلے فلم فیئر ایوارڈ کی تقریب کے میزبان ڈیوڈ ہی تھے اور اس کے بعد شاید ہی کوئی بڑا پروگرام ہوتا تھا جس کے میزبان ڈیوڈ نہ ہوتے ہوں۔ان کی ہستی کا ایک پہلو اور بھی تھا۔ ڈیوڈ بین الاقوامی سطح پر کشتی کے کھیل میں ریفری بھی تھے اور اولمپکس میں بطور ریفری بھی گئے ۔ ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوا تھا۔ان کی اہم فلموں میں ''باتوں باتوں میں''، ''بوٹ پالش''، ''غیرت''، ''اپکار'' ، ''کھٹی میٹھی''، ''امر دیپ '' شامل ہیں۔

للتا پوار:-آپ شاید ہی یقین کریں کہ للتا پوار خاموش فلموں کے دور کی مقبول ہیروئن تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ 40 کی دہائی میں ایک فلم کی شوٹنگ میں شریک اداکار بھگوان دادا نے ان کے چہرے پر اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ ان کا چہرہ اور آنکھ خراب ہو گئی۔ لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی اور کریکٹر رول کرنے لگیں ۔ انھوں نے اپنے چہرے اور آنکھ کی خرابی کو بھی اپنی اداکاری کا حصہ بناتے ہوئے نیگٹو اور پازیٹو دونوں طرز کے کردار انتہائی خوبصورتی سے ادا کئے ۔راج کپور کے ساتھ فلم ''اناڑی ''اور ''مسٹر 420'' میں شوٹنگ کے کچھ مناظر کو ان کے بہترین انداز میں شمار کیا جاتا ہے۔ ''اناڑی'' کے لیے انھیں بہترین کیریکٹر آرٹسٹ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔ فلم ''پروفیسر'' میں تو ان کے لیے رومانی ٹریک بھی تھا۔ان کی یادگار فلموں میں سجاتا، ہم دونوں، پروفیسر، شری 420، میم دیدی، اناڑی، جنگلی وغیرہ شامل ہیں۔




اے کے ہنگل:-'اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی۔۔۔' یہ ڈائیلاگ سنتے ہی شعلے کے رحیم چاچا یعنی اداکار اے کے ہنگل کا چہرہ ابھر آتا ہے۔بوڑھے مہربان انسان کا رول، گاؤں کے اسکول کے ماسٹر جی ، گھر کا وفادار نوکر یا مسجد کے خدا ترس امام یہ سب کردار جیسے اے کے ہنگل کے لیے ہی بنے تھے۔ لوگوں نے انھیں ہمیشہ بزرگ کے رول میں ہی دیکھا کیونکہ پہلا کردار انھوں نے 50 سال کی عمر میں کیا تھا ۔ 1966 میں ''تیسری قسم'' سے وہ فلمی پردے پر آئے۔ اس کے بعد انھوں نے کئی فلموں میں کیریکٹر اداکار کی حیثیت سے کام کیا۔ان کی یادگار فلموں میں شعلے، نمک حرام، شوقین، چتچور، شیف، گڈی ، لگان، پہیلی وغیرہ شامل ہیں۔

اوم پرکاش:-اوم پرکاش نے 50 سے لے کر 80 کی دہائی تک بہت بہترین کریکٹر رول نبھائے۔ وہ اپنی کامک ٹائمنگ کے لیے خاص طور پر جانے جاتے تھے۔ رشی کیش مکھر جی کی 'چپکے چپکے' تو ایک طرح سے ان کے اردگرد گھومتی ہے جس میں وہ شرمیلا ٹیگور کے جیجا جی کا کردار ادا کرتے ہیں۔شرابی میں منشی پھول چند، چنبیلی کی شادی میں مست رام پہلوان یا شراب کی خالی بوتل لے کر گھومتا زنجیر کا سلوا ان کے یادگار کرداروں میں سے ہیں۔ انھوں نے راج کپور اور دلیپ کمار جیسے بڑے اداکاروں کے ساتھ بھی کام کیا۔ ان کی معروف فلموں میں ہاوڑا برج، پڑوسن، جولی، نمک حلال، بڈھا مل گیا، شرابی، زنجیر، دس لاکھ، وغیرہ شامل ہیں۔

 

انوپم کھیر:- 80 اور 90 کی دہائی آتے آتے انوپم کھیر کیریکٹر اداکار کے طور پر چھا گئے۔ اگرچہ ان کی پہلی فلم سارانش میں وہ اہم کردار میں تھے لیکن بعد میں کئی فلموں میں انھوں نے کم اہم کردار کیے۔ منفی کرداروں میں فلم 'کرما' کا ڈاکٹر ڈینگ سب کو یاد ہے۔اپنی اداکاری سے انھوں نے کریکٹر رول کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ تیزاب، پرندہ، لمحے، چاندنی، ہم آپ کے ہیں کون، دل والے دلہنیا لے جائیں گے، غرض وہ ایک سے ایک ہٹ فلموں کا حصہ بنتے رہے ۔وہ اپنے ورسٹائل کردارنگاری کے ذریعے وہ جب کسی فلم میں نمودار ہوتے ہیں تو دیکھنے والوں کے چہرے دمک اٹھتے ہیں۔



پاریش راول:- 90 کی دہائی میں 'وہ چھوکری اور سر' کے لیے جب پاریش راول نے قومی ایوارڈ جیتا تو سب کی نظروں میں آ گئے۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے پاریش راول نے شروع میں زیادہ تر منفی کردار کیے۔ 90 کی دہائی کی ساری بڑی فلموں کی کاسٹ میں پاریش راول کا نام شامل ہوتا تھا۔پاریش راول نے کیرئیر کا آغاز 1984ء میں فلم ''ہولی'' سے کیا مگر اصل پہچان فلم ''نام'' سے ملی۔ ولن کے کردار میں آئے تو چھا گئے تو دوسری طرف ''تمنا'' میں ایک ہیجڑے کا رول تو دوسری طرف ''راجہ '' میں برجو پتنگ والا رول کس کو یاد نہیں ۔ یہ چھوڑیں ''ہیرا پھیری'' کا بابو بھیا میں تو کمال کردیا ۔ ''بابو بھیا'' کے کردار نے ان کی شہرت میں مزید چار چاند لگا دئیے ۔نئی صدی میں بھی ان کا جلوہ کم نہیں ہوا ہے۔ 'او مائی گاڈ'، چینی کم، اوئے لکی لکی اوئے اس کی مثال ہیں۔

بومن ایرانی:-21 ویں صدی میں اگر کسی ہندی اداکار نے کیرکٹر ایکٹنگ پر راج کیا ہے تو وہ ہیں بومن ایرانی۔ بومن پہلے فوٹو گرافر تھے اور بعد میں تھیٹر سے منسلک ہو گئے۔ 2003 میں ڈاکٹر استھانہ کے کردار سے وہ شہ سرخیوں میں آئے۔ اس کے بعد میں ہوں نا، لگے رہو منا بھائی، تھری ایڈیٹس اور ڈان میں ان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔

ان کے علاوہ اوم پوری ، قادر خان ، شمی کپور ، ششی کپور ، وحیدہ رحمان ، امریش پوری سمیت دیگر کئی نامور فنکار ہیں جنہوں نے کریکٹر رول کرکے بھی اپنی حیثیت منوائی ہے ۔
Load Next Story