حکومت کی پانی کے معاہدے پر کام کرنے کی نیت ہے نہ قابلیت چیف جسٹس
سپریم کورٹ کا وفاقی اور صوبائی حکومتوں زیرزمین پانی سے متعلق لاء کمیشن کی سفارشات پر جواب کرانے کا حکم
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے زیر زمین پانی کی قیمت سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے کہ حکومت کی پانی کے معاہدہ پر کام کرنے کی نہ نیت ہے نہ قابلیت ہے۔
سپریم کورٹ میں زیر زمین پانی کی قیمت اور انتظام سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پانی نایاب ہونا شروع ہو گیا ہے، بعد میں سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، عدالت نے منرل واٹر اور مشروبات پر زیر زمین پانی کی قیمت کا تعین کیا، لاء کمیشن نے بھی محنت سے منصوبہ بنا کردیا، تاہم حکومت کی جانب سے تا حال کوئی عملدرآمد نظر نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی پانی کے معاہدہ پر کام کرنے کی نہ نیت ہے اور نہ ہی قابلیت ہے، لاء کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، معاملہ وزیراعلی یا چیف سیکرٹری کے پاس چلا جاتا ہے، پھر معاملے پر ذیلی کمیٹی بن جاتی ہے، اسی طرح یہ سارا کام کاغذوں کی نذر ہو جائے گا، کیا لوگوں کو پیاسا مار دینا ہے؟، کچھ کہہ دو تو کہا جاتا ہے کہ سوال اٹھا دئیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گوادر میں پانی نہیں مل رہا، مصروفیات کے باعث وہاں نہیں جاسکا، حکومتیں بنیادی حقوق کی عملدراری کے لیے کیا کر رہی ہیں، ہمیں ٹھوس اقدامات چاہیے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ بڑی بدقستی ہے کہ لاء کمیشن کی سفارشات پر مثبت جواب نہیں آیا، اب تک کے اقدامات محض دکھاوا ہیں اور ملک میں پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے حوصلہ افزا نہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں سفارشات پر شق وار 2 ہفتوں میں جواب دیں۔
سپریم کورٹ میں زیر زمین پانی کی قیمت اور انتظام سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پانی نایاب ہونا شروع ہو گیا ہے، بعد میں سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، عدالت نے منرل واٹر اور مشروبات پر زیر زمین پانی کی قیمت کا تعین کیا، لاء کمیشن نے بھی محنت سے منصوبہ بنا کردیا، تاہم حکومت کی جانب سے تا حال کوئی عملدرآمد نظر نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی پانی کے معاہدہ پر کام کرنے کی نہ نیت ہے اور نہ ہی قابلیت ہے، لاء کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، معاملہ وزیراعلی یا چیف سیکرٹری کے پاس چلا جاتا ہے، پھر معاملے پر ذیلی کمیٹی بن جاتی ہے، اسی طرح یہ سارا کام کاغذوں کی نذر ہو جائے گا، کیا لوگوں کو پیاسا مار دینا ہے؟، کچھ کہہ دو تو کہا جاتا ہے کہ سوال اٹھا دئیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گوادر میں پانی نہیں مل رہا، مصروفیات کے باعث وہاں نہیں جاسکا، حکومتیں بنیادی حقوق کی عملدراری کے لیے کیا کر رہی ہیں، ہمیں ٹھوس اقدامات چاہیے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ بڑی بدقستی ہے کہ لاء کمیشن کی سفارشات پر مثبت جواب نہیں آیا، اب تک کے اقدامات محض دکھاوا ہیں اور ملک میں پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے حوصلہ افزا نہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں سفارشات پر شق وار 2 ہفتوں میں جواب دیں۔