عمران خان کا مقام نوازشریف والی صف میں یا پچھلی صف میں
خان صاحب کی سیاست کو دیکھنے والے جان لیں کہ ان کی بڑھکیں نہیں رکیں گی اور ان کے کھلاڑی بھی مصطفیٰ قریشی بنے رہیں گے
ان دنوں ڈریسنگ روم سے مکی اور سرفراز کے اختلافات اور تلخ کلامیوں کی خبریں آرہی ہیں۔ ڈریسنگ رومز سے ہمیشہ ہی خبریں آتی رہتی ہیں۔ چند عشرے پیچھے چلے جائیں تو خان صاحب کی کئی خبریں بھی آیا کرتی تھیں۔ کبھی کسی سے اختلاف کی، کبھی تلخ کلامی کی تو کبھی بات دشنام طرازیوں تک بھی پہنچ جایا کرتی تھی۔ خان صاحب اپنی بڑھکوں کے حوالے سے ہمیشہ سے مشہور ہیں۔ اکثر کھلاڑی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کھلاڑی ڈپلومیٹ نہیں ہوتے۔ کھلاڑی قانون دان نہیں ہوتے۔ کھلاڑی مدبر یا مفکر نہیں ہوتے۔ کھلاڑی سوچ سمجھ کر اور تکڑی میں تول کر نہیں بولتے۔ وہ محمدعلی جناحؒ نہیں ہوتے۔ کھلاڑی اچھلتے ہیں، لپکتے ہیں، پھدکتے ہیں، مچلتے ہیں، لہکتے ہیں، پھڑکتے ہیں مگر فکر نہیں کرتے۔ یہ ان کی فیلڈ نہیں ہوتی۔ آپ ایسا ہونے پر یا ویسا نہ ہونے پر انہیں برا بھلا بھی نہیں کہہ سکتے۔ اگر وہ گیند کے زاویوں پر سوچنے لگیں تو چند فٹ کے فاصلے سے میلوں کی اسپیڈ سے آتی گیند ان کی وکٹوں کے پار ہوجائے۔ اگر وہ گیند پھینکتے وقت اپنا اور بلے باز کا تقابلی جائزہ اور پچ اور فیلڈ کے مسائل پر غور شروع کردیں تو شاید اگلے ہی لمحے بلے باز ان کے تخیل کی اڑان کو پر لگا کر میدان کی اختتامی رسی کے اس پار پہنچادے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کھلاڑٰی کو سیاستدان نہیں بننا چاہیے۔ نووجوت سنگھ سدھو، سچن ٹنڈولکر، رانا ٹنگا، آرنلڈ شوارزنیگر، انجلینا جولی اور دیگر کئی ممالک کے بے شمار کھلاڑی، فنکار، ڈاکٹر، انجینئر، حتیٰ کہ سائنسدان تک سیاست اور سفارتکاری کر رہے ہیں۔ کوئی بھی درد دل رکھنے والا شخص، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے ہو، سیاست کر سکتا ہے۔ اپنے جسٹن ٹروڈو بھی سیاست میں آنے سے قبل باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں اور اداکاری بھی کیا کرتے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سالہاسال ٹی وی چینل پر ایک رئیلٹی شو ہوسٹ کرتے رہے ہیں اور ایک ممتاز کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ وہ مس یونیورس اور مس امریکا کے مقابلے نہ صرف پروڈیوس کرچکے ہیں بلکہ اپنی ان خدمات کے بدلے ہالی ووڈ واک آف فیم کا اسٹار بھی وصول کرچکے ہیں۔
سرکار دو عالمﷺ کا فرمان ہے کہ اگر تم مجھ سے یہ کہو کہ احد کا پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو میں مان لوں گا لیکن اگر یہ کہو کہ کسی شخص نے اپنی فطرت بدل لی تو میں نہیں مانوں گا۔
چنانچہ برسوں سے خان صاحب کی سیاست کو دیکھنے والے جان لیں کہ ان کی بڑھکیں نہیں رکیں گی۔ اور اس سے پاکستانی سیاست کے پرانے طالب علم یہ نتیجہ بھی بہ آسانی نکال سکتے ہیں کہ اگر خان صاحب سلطان راہی بنے رہیں گے تو پھر ان کے کھلاڑی بھی لازماً مصطفیٰ قریشی بنے رہیں گے۔
لیکن، اس کے باوجود، خان صاحب میں ایک زبردست کوالٹی ہے۔ وہ ضد تو کرتے ہیں لیکن پھر منہ کی کھانے کے بعد سہولت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ نوازشریف کی طرح قیامت تک برقرار رہنے والی ضد نہیں کرتے۔ آپ اسے یوٹرن کہیے یا کوئی اور منفی نام دے لیجیے لیکن بعید از فہم نہیں کہ مؤرخ اسے سیاسی لچک یا پولیٹیکل اکیومین قرار دے ڈالے، اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ کل زمانہ خان صاحب کے اس طریقے کو قول و فعل کے شدید تضاد یا زبان سے پھرنے یا جھوٹے وعدے کرنے جیسے عنوانات کے تحت یاد کرے۔ تاہم، زمانے نے جو بھی لائن پکڑی، اب اس کی ساری کی ساری ذمہ داری صرف اور صرف خان صاحب ہی پر عائد ہوگی کیونکہ آج عمران خان اور ان کی جماعت جس مقام پر ہیں، وہاں پہنچ کر رائے عامہ کو مثبت رکھنے یا منفی ہونے کی اجازت دینے کا فارمولا بہت سادہ ہو جاتا ہے۔
اگر انہوں نے بہت کچھ کے وعدوں کو نہ بھی نبھایا مگر کچھ نہ کچھ بہرحال کر دیا تو جان لیجیے کہ بھولے پاکستانی ان کے کئی غلط کاموں کی بھی ازخود صفائیاں دینا شروع کردیں گے اور انہیں عظیم رہنما قرار دے ڈالیں گے۔ لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو پھر یہی بھولی عوام ان کے سچ کو بھی جھوٹ جانے گی اور ان کے سیدھے کو بھی الٹا کہے گی۔ کم از کم ابھی تک تو آخری فیصلہ بہرحال عمران خان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
تاہم، ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ شاید انہیں اتنی ڈھیل یا وقت نہ مل سکے جتنے گزشتہ دو حکومتوں کو ملے، کیونکہ ان کے پاس قومی اسمبلی میں اپنی معقول قوت موجود تھی لیکن خان صاحب کی صورتحال ان کی نسبت نہایت نازک ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ مزاج ساتویں آسمان پر ہے۔ یعنی ایک تو سادہ اکثریت بھی مانگے تانگے کی ہے اور دوسرا یہ کہ اپوزیشن تو دور کی بات، اتحادیوں حتیٰ کہ اپنی جماعت تک کے اراکین کو خوش نہیں رکھ پا رہے۔ اختر مینگل اسمبلی میں حکومت مخالف تقاریر کرچکے۔ خالد مقبول صدیقی حکومت مخالف بیانات داغ رہے ہیں۔ کراچی میں تحریک انصاف متحدہ کے میئر کے خلاف عدالت جانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی اور جہانگیر ترین کی چوہدری سرور کے خلاف گفتگو کی ویڈیو سامنے آچکی ہے۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید کی جھڑپ ہوچکی۔ شیخ رشید، عمران خان کے شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کے فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کرچکے۔ سردار یار محمد رند بھی جہانگیر ترین کی جانب سے جام کمال کو وزیر اعلیٰ بلوچستان تسلیم کرنے کا اعلان کرنے کے خلاف شدید احتجاج کرچکے۔ ایم این اے عامر لیاقت، وزیراعظم کے خلاف بیانات داغ چکے۔ بابر اعوان اور اعظم سواتی سے وزیراعظم استعفے لے چکے۔ ناصر درانی ناراض ہوکر پولیس ریفارمز کمیشن چھوڑ کر چلے گئے۔ ترجمان معاشی امور ڈاکٹر فرخ سلیم بھی حکومت مخالف بیانات کی پاداش میں برطرف ہوچکے۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
لیکن معدودے چند ماہ کے دوران حکومتی ایوانوں میں ہونے والی اس قدر ڈرامائی ہلچل کے باوجود ملک کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں بہ آسانی یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کی بڑھکیں اور یہ جھگڑے ان کے اقتدار کےلیے اتنا بڑا خطرہ ثابت نہیں ہوسکتے جتنا بڑا خطرہ ان کی عدم کارکردگی ان کےلیے بن چکی ہے۔
آپ دوسروں کے کندھوں پر بیٹھ کر، کٹھ پتلیاں بن کر یا امپائر کے مرہون منت اقتدار میں آ تو سکتے ہیں لیکن محض کچھ وقت کےلیے۔ طویل مدتی حکمرانی صرف ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جن کے اندر کوئی صلاحیت ہوتی ہے، جو کچھ نہ کچھ ڈیلیور کرنے اور پھر عوام کو اپنی کرشماتی شخصیت کے ذریعے اپنے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ان کا یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بھٹو، ایوب خان کی انگلی پکڑ کر اقتدار کے ایوانوں میں آئے اور پھر اپنی کرشماتی شخصیت اور کارکردگی کی بناء پر پاکستانی سیاست کی ایک دائمی حقیقت بن گئے۔ بی بی، بھٹو کی انگلی پکڑ کر آئیں اور پھر اپنی ذاتی صلاحیتوں کے سبب آج تک عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ زرداری، بی بی اور بھٹو کے نام پر حکومت میں آئے، بری کارکردگی پر اگلے الیکشن میں ناک آؤٹ ہوئے لیکن ان کی ذاتی صلاحیتوں کے سبب کوئی انہیں کھیل سے مکمل طور پر آؤٹ نہیں کرسکا۔ نواز شریف، ضیاء الحق کے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت میں آئے لیکن اپنی کارکردگی اور شخصیت کے سبب، آج ضیاء کے مشن کے بالکل مخالف سمت چلنے کے باوجود، پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ جونیجو، جمالی، چوہدری برادران اور شوکت عزیز بھی آمروں کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت میں آئے لیکن اپنے غیرسیاسی یا پھیکے سیٹھے طریقوں اور محدود کارکردگی اور اپنی جداگانہ شناخت بنانے میں یکسر ناکامی کے سبب اپنا وہ مقام نہ بناسکے جو نواز شریف اور بینظیر اور آصف زرداری بنانے میں کامیاب ہوئے۔
آج کے نوجوانوں میں سے بہت کم اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وہ مسلم لیگ جس نے مادر ملت کی سربراہی میں مطلق العنان آمر ایوب خان کو 55 ہزار کے مقابلے میں 45 ہزار ووٹ لے کر شدید ٹف ٹائم دیا تھا، اس کی باگ ڈور مس فاطمہ جناح جاتے وقت پیر صاحب پگاڑا شریف کے ہاتھ میں تھما گئی تھیں لیکن پیر صاحبان نے اپنے وقت کی اس بڑی سیاسی قوت کو بھی اپنی جاگیر اور گدی کی طرح سمجھا اور آج تک اندرون سندھ کی چند نشستوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
اگر عمران خان نے آنے والے چند مہینوں میں ڈیم کی تعمیر شروع کروا دی، تعلیم، صحت یا پولیس ریفارمز کے شعبے میں عوامی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی متعارف کروا دی، صنعتی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کروا دی، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کروا دیئے، لاپتا افراد کا مسئلہ حل کروا دیا، بلوچستان میں پانی کی عدم دستیابی اور پسماندگی کی دیگر وجوہ کا سدباب شروع کروا دیا، لوگوں کو ان کے شہر سرسبز و شاداب بنا کر دکھا دیئے اور غریبوں کےلیے کم قیمت مکانات کی تعمیر شروع کروا دی تو پھر تو شاید وہ پانچ سال بھی پورے کرجائیں اور آئندہ کےلیے بھی بغیر کسی بیساکھی کے اقتدار میں آںے کےلیے اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔
لیکن اگر وہ یہ سب یا ان میں سے کچھ نہ کچھ یا ان کے علاوہ کوئی اور واضح اور دور رس اقدامات نہ کرسکے تو پھر شاید ان کا نام بھی تاریخ میں جونیجو، جمالی، شوکت عزیز اور چوہدری برادران ہی کے ساتھ لکھا جائے گا، یعنی پچھلی صف میں۔
پہلی صف، جس میں ان کے حریف نوازشریف، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے ساتھ کھڑے ہیں، اس میں پھر شاید انہیں جگہ نہ ملے۔ فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کھلاڑٰی کو سیاستدان نہیں بننا چاہیے۔ نووجوت سنگھ سدھو، سچن ٹنڈولکر، رانا ٹنگا، آرنلڈ شوارزنیگر، انجلینا جولی اور دیگر کئی ممالک کے بے شمار کھلاڑی، فنکار، ڈاکٹر، انجینئر، حتیٰ کہ سائنسدان تک سیاست اور سفارتکاری کر رہے ہیں۔ کوئی بھی درد دل رکھنے والا شخص، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے ہو، سیاست کر سکتا ہے۔ اپنے جسٹن ٹروڈو بھی سیاست میں آنے سے قبل باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں اور اداکاری بھی کیا کرتے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سالہاسال ٹی وی چینل پر ایک رئیلٹی شو ہوسٹ کرتے رہے ہیں اور ایک ممتاز کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ وہ مس یونیورس اور مس امریکا کے مقابلے نہ صرف پروڈیوس کرچکے ہیں بلکہ اپنی ان خدمات کے بدلے ہالی ووڈ واک آف فیم کا اسٹار بھی وصول کرچکے ہیں۔
سرکار دو عالمﷺ کا فرمان ہے کہ اگر تم مجھ سے یہ کہو کہ احد کا پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو میں مان لوں گا لیکن اگر یہ کہو کہ کسی شخص نے اپنی فطرت بدل لی تو میں نہیں مانوں گا۔
چنانچہ برسوں سے خان صاحب کی سیاست کو دیکھنے والے جان لیں کہ ان کی بڑھکیں نہیں رکیں گی۔ اور اس سے پاکستانی سیاست کے پرانے طالب علم یہ نتیجہ بھی بہ آسانی نکال سکتے ہیں کہ اگر خان صاحب سلطان راہی بنے رہیں گے تو پھر ان کے کھلاڑی بھی لازماً مصطفیٰ قریشی بنے رہیں گے۔
لیکن، اس کے باوجود، خان صاحب میں ایک زبردست کوالٹی ہے۔ وہ ضد تو کرتے ہیں لیکن پھر منہ کی کھانے کے بعد سہولت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ نوازشریف کی طرح قیامت تک برقرار رہنے والی ضد نہیں کرتے۔ آپ اسے یوٹرن کہیے یا کوئی اور منفی نام دے لیجیے لیکن بعید از فہم نہیں کہ مؤرخ اسے سیاسی لچک یا پولیٹیکل اکیومین قرار دے ڈالے، اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ کل زمانہ خان صاحب کے اس طریقے کو قول و فعل کے شدید تضاد یا زبان سے پھرنے یا جھوٹے وعدے کرنے جیسے عنوانات کے تحت یاد کرے۔ تاہم، زمانے نے جو بھی لائن پکڑی، اب اس کی ساری کی ساری ذمہ داری صرف اور صرف خان صاحب ہی پر عائد ہوگی کیونکہ آج عمران خان اور ان کی جماعت جس مقام پر ہیں، وہاں پہنچ کر رائے عامہ کو مثبت رکھنے یا منفی ہونے کی اجازت دینے کا فارمولا بہت سادہ ہو جاتا ہے۔
اگر انہوں نے بہت کچھ کے وعدوں کو نہ بھی نبھایا مگر کچھ نہ کچھ بہرحال کر دیا تو جان لیجیے کہ بھولے پاکستانی ان کے کئی غلط کاموں کی بھی ازخود صفائیاں دینا شروع کردیں گے اور انہیں عظیم رہنما قرار دے ڈالیں گے۔ لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو پھر یہی بھولی عوام ان کے سچ کو بھی جھوٹ جانے گی اور ان کے سیدھے کو بھی الٹا کہے گی۔ کم از کم ابھی تک تو آخری فیصلہ بہرحال عمران خان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
تاہم، ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ شاید انہیں اتنی ڈھیل یا وقت نہ مل سکے جتنے گزشتہ دو حکومتوں کو ملے، کیونکہ ان کے پاس قومی اسمبلی میں اپنی معقول قوت موجود تھی لیکن خان صاحب کی صورتحال ان کی نسبت نہایت نازک ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ مزاج ساتویں آسمان پر ہے۔ یعنی ایک تو سادہ اکثریت بھی مانگے تانگے کی ہے اور دوسرا یہ کہ اپوزیشن تو دور کی بات، اتحادیوں حتیٰ کہ اپنی جماعت تک کے اراکین کو خوش نہیں رکھ پا رہے۔ اختر مینگل اسمبلی میں حکومت مخالف تقاریر کرچکے۔ خالد مقبول صدیقی حکومت مخالف بیانات داغ رہے ہیں۔ کراچی میں تحریک انصاف متحدہ کے میئر کے خلاف عدالت جانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی اور جہانگیر ترین کی چوہدری سرور کے خلاف گفتگو کی ویڈیو سامنے آچکی ہے۔ فواد چوہدری اور شیخ رشید کی جھڑپ ہوچکی۔ شیخ رشید، عمران خان کے شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کے فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کرچکے۔ سردار یار محمد رند بھی جہانگیر ترین کی جانب سے جام کمال کو وزیر اعلیٰ بلوچستان تسلیم کرنے کا اعلان کرنے کے خلاف شدید احتجاج کرچکے۔ ایم این اے عامر لیاقت، وزیراعظم کے خلاف بیانات داغ چکے۔ بابر اعوان اور اعظم سواتی سے وزیراعظم استعفے لے چکے۔ ناصر درانی ناراض ہوکر پولیس ریفارمز کمیشن چھوڑ کر چلے گئے۔ ترجمان معاشی امور ڈاکٹر فرخ سلیم بھی حکومت مخالف بیانات کی پاداش میں برطرف ہوچکے۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
لیکن معدودے چند ماہ کے دوران حکومتی ایوانوں میں ہونے والی اس قدر ڈرامائی ہلچل کے باوجود ملک کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں بہ آسانی یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کی بڑھکیں اور یہ جھگڑے ان کے اقتدار کےلیے اتنا بڑا خطرہ ثابت نہیں ہوسکتے جتنا بڑا خطرہ ان کی عدم کارکردگی ان کےلیے بن چکی ہے۔
آپ دوسروں کے کندھوں پر بیٹھ کر، کٹھ پتلیاں بن کر یا امپائر کے مرہون منت اقتدار میں آ تو سکتے ہیں لیکن محض کچھ وقت کےلیے۔ طویل مدتی حکمرانی صرف ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جن کے اندر کوئی صلاحیت ہوتی ہے، جو کچھ نہ کچھ ڈیلیور کرنے اور پھر عوام کو اپنی کرشماتی شخصیت کے ذریعے اپنے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ان کا یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بھٹو، ایوب خان کی انگلی پکڑ کر اقتدار کے ایوانوں میں آئے اور پھر اپنی کرشماتی شخصیت اور کارکردگی کی بناء پر پاکستانی سیاست کی ایک دائمی حقیقت بن گئے۔ بی بی، بھٹو کی انگلی پکڑ کر آئیں اور پھر اپنی ذاتی صلاحیتوں کے سبب آج تک عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ زرداری، بی بی اور بھٹو کے نام پر حکومت میں آئے، بری کارکردگی پر اگلے الیکشن میں ناک آؤٹ ہوئے لیکن ان کی ذاتی صلاحیتوں کے سبب کوئی انہیں کھیل سے مکمل طور پر آؤٹ نہیں کرسکا۔ نواز شریف، ضیاء الحق کے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت میں آئے لیکن اپنی کارکردگی اور شخصیت کے سبب، آج ضیاء کے مشن کے بالکل مخالف سمت چلنے کے باوجود، پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ جونیجو، جمالی، چوہدری برادران اور شوکت عزیز بھی آمروں کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت میں آئے لیکن اپنے غیرسیاسی یا پھیکے سیٹھے طریقوں اور محدود کارکردگی اور اپنی جداگانہ شناخت بنانے میں یکسر ناکامی کے سبب اپنا وہ مقام نہ بناسکے جو نواز شریف اور بینظیر اور آصف زرداری بنانے میں کامیاب ہوئے۔
آج کے نوجوانوں میں سے بہت کم اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وہ مسلم لیگ جس نے مادر ملت کی سربراہی میں مطلق العنان آمر ایوب خان کو 55 ہزار کے مقابلے میں 45 ہزار ووٹ لے کر شدید ٹف ٹائم دیا تھا، اس کی باگ ڈور مس فاطمہ جناح جاتے وقت پیر صاحب پگاڑا شریف کے ہاتھ میں تھما گئی تھیں لیکن پیر صاحبان نے اپنے وقت کی اس بڑی سیاسی قوت کو بھی اپنی جاگیر اور گدی کی طرح سمجھا اور آج تک اندرون سندھ کی چند نشستوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
اگر عمران خان نے آنے والے چند مہینوں میں ڈیم کی تعمیر شروع کروا دی، تعلیم، صحت یا پولیس ریفارمز کے شعبے میں عوامی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی متعارف کروا دی، صنعتی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کروا دی، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کروا دیئے، لاپتا افراد کا مسئلہ حل کروا دیا، بلوچستان میں پانی کی عدم دستیابی اور پسماندگی کی دیگر وجوہ کا سدباب شروع کروا دیا، لوگوں کو ان کے شہر سرسبز و شاداب بنا کر دکھا دیئے اور غریبوں کےلیے کم قیمت مکانات کی تعمیر شروع کروا دی تو پھر تو شاید وہ پانچ سال بھی پورے کرجائیں اور آئندہ کےلیے بھی بغیر کسی بیساکھی کے اقتدار میں آںے کےلیے اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔
لیکن اگر وہ یہ سب یا ان میں سے کچھ نہ کچھ یا ان کے علاوہ کوئی اور واضح اور دور رس اقدامات نہ کرسکے تو پھر شاید ان کا نام بھی تاریخ میں جونیجو، جمالی، شوکت عزیز اور چوہدری برادران ہی کے ساتھ لکھا جائے گا، یعنی پچھلی صف میں۔
پہلی صف، جس میں ان کے حریف نوازشریف، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے ساتھ کھڑے ہیں، اس میں پھر شاید انہیں جگہ نہ ملے۔ فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔