’’فریڈم آف پریس‘‘ اور جمہوری معاشرہ

نوم چومسکی کے بقول ’’ہمیں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے

ali.dhillon@ymail.com

مجھے آج فریڈیم آف پریس پر کالم لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ میں پاکستان کو ایک متمدن جمہوری ریاست کے روپ میں دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ فی الحال تو پاکستانی میڈیا ایشیائی ملکوں میں سب سے زیادہ آزاد ہے لیکن دھیمی دھمی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ اس کی آزادی کو محدود کرنے کی کوششیں ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے بعض لوگوں کی خواہش ہو کہ روس، چین کی طرح یہاں بھی کنٹرولڈ میڈیا ہونا چاہیے لیکن شاید ایسا نہ ہوسکے ۔ بہرحال آزاد صحافت کے انڈیکس میں 180ممالک میں پاکستان کا 158 نمبر ہے، اس لیے پاکستان اب بھی صحافیوں کے حوالے سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل میں شامل ہے۔ بھارت میں بھی صحافیوں کو کم خطرات نہیں ہیں۔

پاکستان میں آزادی صحافت کے سب سے بڑے حامی اس ملک کے بانی قائداعظم ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کے پہلے 30 سال آزادی صحافت کے تحفظ، خواتین کو مردوں کے برابر حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کی بالادستی کی جدوجہد میں گزارے۔

جناح صاحب نے مذہب، نسل اور قوم کے ہتھیار کے بغیر سیاسی جدوجہد کی۔ انھوں نے گزشتہ صدی کے پہلے عشرے کے اختتام پر قوم پرست کانگریسی رہنما تلک کے اخبار کیسری پر پابندی کے خلاف مقدمہ لڑا۔ پھر ایک انگریز صحافی ہیورمین کی آزادی صحافت کے لیے جدوجہد میں شریک ہوئے، یوں بمبئی کے اخبار بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مسٹر ہیورمین اور ان کے ساتھیوں کی برطرفی کے خلاف جدوجہد میں شرکت کی۔ جب بمبئی کرانیکل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تو سب سے پہلے مسٹر ہیورمین کو بمبئی کرانیکل کا دوبارہ ایڈیٹر مقرر کیا اور ایڈیٹر کی ادارتی آزادی کے حق کی مکمل تائید کی۔

نوم چومسکی کے بقول ''ہمیں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے۔ پریس کی آزادی خواہ دکھاوا ہی ہو لیکن آزادی اظہار کا دفاع کرنا بہت ضروری ہے۔''بقول جیمزایلس'' اخبار دنیا کی شکل کو منعکس کرنے والے آئینے ہوتے ہیں۔'' آ ج کل اخبارات اورالیکٹرونک میڈیا مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ہر جمہوری ملک میں آزادی اظہارکا تحفظ کیا جاتا ہے۔ ایک صحت مند جمہوریت کی فعالیت کے لیے میڈیا کا ایک اہم کردار شہریوں کو عوامی مسائل کے بارے میں سچائی سے آگاہ کرنا اور جمہوری فیصلہ سازی میں شہریوں کی شراکت کی حوصلہ افزائی کرنا اور لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے ملک کی حکومت کسی دوسرے ملک کی کمپنی یا حکومت سے کوئی معاہدہ کر رہی ہے تو میڈیا کا فرض ہوتا ہے کہ وہ عوام کو آگاہ کرے کہ عام آدمی کو اس معاہدے سے کیا فائدہ ہوگا۔

میڈیا کو کسی ریاست اور معاشرے میں طاقت ورگروہوں اور ان کے پوشیدہ مفادات کی بھی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت کا انتخاب شہری اپنے ووٹوں کے ذریعے کرتے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ برسراقتدار لوگ بہت آسانی سے اپنے اختیارات کا غلط یا ناجائز استعمال کرسکتے ہیں۔ بیوروکریسی بھی اسی میں شامل ہے۔ میڈیا مباحثے اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور رائے عامہ کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آزاد مارکیٹ عوامی مباحثے کو محدود کرتی ہے۔میڈیاعوامی آوازکی نمایندگی کرتا ہے اور لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے۔


آزادی صحافت کے لحاظ سے اگر ہم جنوبی ایشیائی ممالک پر نظر ڈالیں تو 1940 کے عشرے میں برطانوی نوآبادیاتی تسلط سے نجات پانے کے بعد یہاں جمہوریت کی تاریخ تغیروتبدل کا شکار رہی ہے، اس خطے میں خاصا سیاسی تنوع پایا جاتا ہے۔ نیپال میں کچھ عرصہ پہلے تک بادشاہت اور سری لنکا میں خانہ جنگی رہی۔بنگلہ دیش اور پاکستان میں باری باری فوجی اور سویلین حکومتیں آتی رہیں۔ جب کہ ہندوستان میں جمہوریت کو استحکام حاصل رہا ہے۔1980 کے عشرے سے جنوبی ایشیا میں جمہوری عمل پر زیادہ اصرارکیا جاتا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ آزادی صحافت پر بھی ایک بار پھر سے بحث کا آغاز ہوا۔ اور پھر لوگوں کو جس کتاب نے صحافیوں کی جدوجہد کے بارے میں یاد دلایا وہ احفاظ الرحمن کی کتاب ''سب سے بڑی جنگ'' تھی جو منہاج برنا کی قیادت میں چلنے والی 1977-78کی تحریک کے بارے میں تھی۔

کسی زمانے میں محض ایک ریاستی ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا، مگر اب نہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کو فروغ دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارتی نیوز چینلز پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہے تھے ، ان کا پاکستانی متبادل فراہم کرنے کے لیے یہ راستہ بہترین تھا۔ بہرحال پریس کی آزادی کا منبع و محور عوام کا وہ حق ہے جو اسے آئین کے تحت Right to Know یعنی ''جاننے کا حق'' دیتا ہے۔اس لیے پریس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کے اس حق کو سلب نہ ہونے دے۔

فریڈم آف پریس کو پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں خطرے کا سامنا رہا ہے۔ امریکا جیسے ملک کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ طویل عرصے سے صحافیوں پر برس رہا ہے۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان (جن کے ٹرمپ پرستار ہیں)میڈیا کو توڑنے اور اسے تحویل میںلینے کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال کر رہے ہیں۔ ترکی میں بھی 2016 میں تختہ پلٹنے کی ناکام کوشش کے بعد متعدد صحافیوںکو جیل میںڈالا گیا تھا۔ ان میںسے کئی ابھی تک جیلوں میں ہیں۔ سعودی صحافی جمال خشوگی کا کیس بھی سب کے سامنے ہے ۔

گزشتہ سال وینزویلا،کینیا، مصر اور فلپائن میںپریس کے خلاف سرکاری کارروائی ہوئی ہے۔ چین کا احوال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ روس میںدو چار بچے کھچے آزاد میڈیا کسی نہ کسی طرح اپنا وجود بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے جہاں میڈیا آزاد ہے وہاں اسٹنگ آپریشنز بھی کیے جاتے ہیں، یورپ میں پریس(اخبارات) زیادہ مضبوط ہیں جب کہ پاکستان میں زیادہ اثر پذیری الیکٹرانک میڈیا کی ہے۔ بلاشبہ صحافیوں اور اینکرز بھی خامیاں موجود ہیں۔

کئی صحافی کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ بعض سرکاری عہدے بھی قبول کرلیتے ہیں، سرکاری عہدے بھی لیتے ہیں اور سرکاری مراعات بھی لیتے ہیں۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔ بہرحال پاکستان کے نامور صحافیوں نے ہمیشہ آزادی صحافت کے لیے جدوجہد کی ہے اور باوجود پیشکشوں کے کبھی کوئی حکومتی عہدہ نہیں لیا اور نہ کبھی حکمرانوں کی قربت حاصل کرنے کے لیے آزادی صحافت اصولوں کے خلاف کوئی کام کیا۔ لہٰذا ہم اپنے آپ کو فریڈم آف پریس کے قابل بھی بنائیں تاکہ کوئی یہ سوچ بھی نہ سکے کہ ''فریڈم آف پریس'' کو ذاتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
Load Next Story