رئیس المہاجرین رئیس جان محمد جونیجو
جیسے جیسے تحریک زور پکڑتی گئی انھوں نے بھی تحریک کو پورے سندھ میں متحرک کرنے کے لیے دورہ شروع کیا
انگریزوں سے ہندوستان کو خالی کرانے اور پاکستان بنانے میں سندھ کے لوگوں کی بڑی قربانیاں اور خدمات ہیں۔ ان قربانیاں دینے والوں کا ذکر اردو اور انگریزی پریس میں کبھی آیا ہی نہیں اور اگر آیا ہے تو بہت ہی مختصر اور پھر اسے نئی نسل کے لیے کبھی شایع ہی نہیں کیا گیا۔ سندھ نے انگریزوں کے خلاف جو جدوجہد کی ہے وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے، اس تاریخ کو اردو اور انگریزی پڑھنے والوں تک پہنچایا نہیں گیا ہے جس کے لیے ہم سب ذمے دار ہیں۔
لاڑکانہ جو 5 سے 7 ہزار سال پرانی تہذیب رکھتا ہے، اس میں کئی ہیروز نے جنم لیا اور پوری دنیا میں نام پیدا کیا۔ میں ایک ایسے گمنام ہیروکا ذکرکر رہا ہوں جس نے خلافت تحریک میں متحرک اور بھرپور حصہ لیا جس کا نام ہے رئیس جان محمد جونیجو جسے رئیس المہاجرین کا خطاب دیا گیا، اس مرد مجاہد کا تعلق بھی لاڑکانہ سے تھا۔ وہ لاڑکانہ میں پیدا ہوئے گو ان کا تعلق ایک زمیندار خاندان سے تھا مگر بچپن ہی سے انھیں دین اسلام اور سندھ سے بہت پیار تھا۔
ان کی خواہش تھی کہ وہ علم حاصل کریں اور اسے عام آدمی تک پہنچائیں تاکہ عوام ناانصافی اور استحصال کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے وطن کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کراسکیں۔ میٹرک کا امتحان 1909 میں پاس کرکے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 1910 میں انگلینڈ چلے گئے ، بیرسٹرکی ڈگری 1913 میں حاصل کرنے کے بعد وہیں پرقانون کی پریکٹس کا آغاز کردیا۔ تین سال کے بعد وہ کراچی لوٹ آئے اور اس دوران قانون کی پریکٹس جاری رکھی ۔ جان محمد دوسرے شخص تھے جنھوں نے سندھ میں غلام محمد بھرگڑی کے بعد بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ کچھ عرصے کے بعد وہ لاڑکانہ چلے گئے اور وہاں پر پریکٹس کرنے لگے۔ عوامی خدمت کی غرض سے لوکل گورنمنٹ بورڈ لاڑکانہ میں ممبرکے لیے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ وہ دانش مند اور محنتی انسان تھے وہ عوام میں جلد مقبول ہوگئے۔ ان کی ایمانداری اور دیانت داری نے انگریزوں کو بہت متاثرکیا جس کے باعث انھیں آنریری میونسپل کمشنرکا عہدہ دیا گیا۔
وقت گزرتا گیا، ان کے انگریز حکومت کی پالیسی سے اختلافات بڑھتے گئے اور ان کے دل میں نفرت برٹش حکومت کے لیے بڑھنے لگی اور انھوں نے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف کام کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران جب 17 اکتوبر 1919 میں دھلی میں آل انڈیا خلافت تحریک کی شروعات ہوئی تو سندھ سے تاج محمد امروٹی، سیٹھ عبداللہ ہارون، پیر تراب علی شاہ، شیخ عبدالعزیز اور جان محمد جونیجو نے شرکت کی۔ سندھ واپس آتے ہی انھوں نے لاڑکانہ میں خلافت تحریک کا دن منانے کے لیے شہر میں ایک بڑا جلوس نکالا اور لوگوں کو تحریک کے بارے میں بتایا۔
جیسے جیسے تحریک زور پکڑتی گئی انھوں نے بھی تحریک کو پورے سندھ میں متحرک کرنے کے لیے دورہ شروع کیا، جلسے اور جلوس منعقد کیے اور لوگوں میں جوش و خروش پیدا کیا۔اس پوری تحریک میں انور علی شاہ اور سید تراب علی شاہ ساتھ رہے۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں لوگ انگریز سرکارکیخلاف اور خلافت تحریک کے حق میں کھڑے ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس تحریک کے دوران انھوں نے میونسپل کمیٹی کی ممبرشپ سے استعفیٰ دے دیا ، میونسپل کا آنریری دیا گیا اعزاز واپس کیا ، بار ایٹ لا کی ڈگری سے بھی مستعفی ہوئے اور کہا کہ وہ کسی سے بھی ریونیو ٹیکس وصول نہیں کریں گے۔
اس تحریک میں حصہ لینے پر برٹش حکومت نے انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں جسکی وجہ سے لوگوں کو کہا گیا کہ وہ ہجرت کرکے افغانستان چلے جائیں، جہاں پر افغانستان کے حاکم سے بات ہوگئی تھی۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا صدر انھیں بنایا گیا۔ ہجرت کمیٹی نے ان کی خدمات اور جذبے کو دیکھتے ہوئے انھیں رئیس المہاجرین کے خطاب سے نوازا ۔ اس عمل نے انگریز سرکارکو غصہ دلوایا جسکی وجہ سے ان کی زرعی زمین کو ضبط کیا گیا لیکن انھوں نے بھی اس تحریکی جذبے کو ابھارنے میں کوئی کسر اٹھا نہ چھوڑی۔ جان محمد جونیجو نے تحریک کے مرکزی آفس کو اپنی رہائش گاہ بنا لیا۔
افغانستان جانے کے لیے انھوں نے ایک ٹرین بک کروائی ، کرائے کی رقم پوری کرنے کے لیے انھوں نے پہلے ہی اپنی کچھ زرعی زمین بیچ ڈالی تھی اور اس کام میں باقی دوستوں نے بھی کچھ رقم دی تھی۔ یہ ٹرین 16 دن کے لیے بک کروائی گئی تھی جس میں لاڑکانہ سے 760 سندھی مہاجر بن کر افغانستان جا رہے تھے تاکہ وہاں پر ہجرت تحریک کوکامیاب بنانے کے لیے کام کرتے رہیں ۔ یہ ٹرین لاڑکانہ سے 9 جولائی 1920 کو افغانستان کے لیے روانہ ہوئی۔ افغانستان پہنچنے پر وہاں کے حاکم امیر امان اللہ نے مہاجرین کے لیے کھانے اور رہنے کا بندوبست کیا مگر جیسے جیسے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، ان کی مشکلات بھی بڑھنے لگیں جس کے لیے انھوں نے ایک انجمن مہاجرین قائم کی جسکے ذریعے پیسہ جمع کرنے کا کام شروع کیا تاکہ وہاں پر ہجرت کرکے آنے والوں کے اخراجات پورے کیے جائیں۔
یہ صورتحال اور زیادہ خراب ہوگئی جب برٹش سرکار نے سازش کے ذریعے افغان حکومت کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا کہ وہ سندھ سے آنے والے مہاجروں کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ اس معاہدے کے تحت افغان حکومت نے دی گئی ساری سہولتیں مہاجرین سے واپس لے لیں۔ نہ صرف یہ بلکہ آنے والے مہاجرین کے ساتھ سختی سے پیش آنے لگے۔ اس وجہ سے لوگ مشکلات میں پھنس گئے، انھیں بھوک، بیماریوں اور اموات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مہاجرین افغانستان کی گلیوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔
اس صورتحال میں جان محمد جونیجو لاڑکانہ واپس آئے اور پھر وہاں سے وہ مولانا محمد علی جوہر سے ملنے چلے گئے تاکہ کچھ رقم کا بندوبست کیا جائے۔ وہ انڈیا کے متعدد شہروں میں گئے اور وہاں سے کچھ رقم اکٹھی کرکے افغانستان میں موجود افراد کو بھیجی۔ آخرکار وہ خود بھی افغانستان جانے کے لیے روانہ ہوگئے مگر جب 1 جنوری 1921 کو پشاور پہنچے تو وہاں کے ڈپٹی کلیکٹر نے انھیں آگے جانے نہیں دیا کیونکہ پشاور میں انھوں نے خطاب کیا تھا اور تحریک کے بارے میں عوام الناس میں جذبہ پیدا کر رہے تھے، وہ لاہور واپس آگئے جہاں سے وہ لکھنو روانہ ہوگئے۔
مسلسل افغانستان میں جانے والے مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا دیکھ کر ان کے ذہن پر بڑا خراب اثر ہوا اور ان کے لیے دہرا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو واپس آسکتے اور نہ ہی وہاں رہ سکتے تھے کیونکہ جان محمد جونیجو کے افغانستان جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس صورتحال کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی ، جس کی وجہ سے انھیں انڈیا میں رہنا پڑا مگر پھر بھی انھوں نے وہاں پر رہنماؤں کے ساتھ ملنا جاری رکھا اور کام کرتے رہے۔ صحت دن بہ دن گرتی گئی اور آخر کار وہ 16 اپریل 1921 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے ، وصیت کے مطابق انھیں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر ساگر جھیل کے برابر دفن کیا گیا۔
میں ایک بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ خاص طور پر وہ جو صاحب اقتدار ہیں اپنی تاریخ، اپنے ہیروز اور اپنے ثقافتی اور تاریخی مقامات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو انھیں تاریخ اور نہ ہی قوم معاف کریگی، جو نمایندے عوامی خدمت کے بجائے صرف دولت جمع کر رہے ہیں، محلات پے محلات تعمیر کروا رہے ہیں انھیں مرنے کے بعد کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
لاڑکانہ جو 5 سے 7 ہزار سال پرانی تہذیب رکھتا ہے، اس میں کئی ہیروز نے جنم لیا اور پوری دنیا میں نام پیدا کیا۔ میں ایک ایسے گمنام ہیروکا ذکرکر رہا ہوں جس نے خلافت تحریک میں متحرک اور بھرپور حصہ لیا جس کا نام ہے رئیس جان محمد جونیجو جسے رئیس المہاجرین کا خطاب دیا گیا، اس مرد مجاہد کا تعلق بھی لاڑکانہ سے تھا۔ وہ لاڑکانہ میں پیدا ہوئے گو ان کا تعلق ایک زمیندار خاندان سے تھا مگر بچپن ہی سے انھیں دین اسلام اور سندھ سے بہت پیار تھا۔
ان کی خواہش تھی کہ وہ علم حاصل کریں اور اسے عام آدمی تک پہنچائیں تاکہ عوام ناانصافی اور استحصال کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے وطن کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کراسکیں۔ میٹرک کا امتحان 1909 میں پاس کرکے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 1910 میں انگلینڈ چلے گئے ، بیرسٹرکی ڈگری 1913 میں حاصل کرنے کے بعد وہیں پرقانون کی پریکٹس کا آغاز کردیا۔ تین سال کے بعد وہ کراچی لوٹ آئے اور اس دوران قانون کی پریکٹس جاری رکھی ۔ جان محمد دوسرے شخص تھے جنھوں نے سندھ میں غلام محمد بھرگڑی کے بعد بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ کچھ عرصے کے بعد وہ لاڑکانہ چلے گئے اور وہاں پر پریکٹس کرنے لگے۔ عوامی خدمت کی غرض سے لوکل گورنمنٹ بورڈ لاڑکانہ میں ممبرکے لیے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ وہ دانش مند اور محنتی انسان تھے وہ عوام میں جلد مقبول ہوگئے۔ ان کی ایمانداری اور دیانت داری نے انگریزوں کو بہت متاثرکیا جس کے باعث انھیں آنریری میونسپل کمشنرکا عہدہ دیا گیا۔
وقت گزرتا گیا، ان کے انگریز حکومت کی پالیسی سے اختلافات بڑھتے گئے اور ان کے دل میں نفرت برٹش حکومت کے لیے بڑھنے لگی اور انھوں نے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف کام کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران جب 17 اکتوبر 1919 میں دھلی میں آل انڈیا خلافت تحریک کی شروعات ہوئی تو سندھ سے تاج محمد امروٹی، سیٹھ عبداللہ ہارون، پیر تراب علی شاہ، شیخ عبدالعزیز اور جان محمد جونیجو نے شرکت کی۔ سندھ واپس آتے ہی انھوں نے لاڑکانہ میں خلافت تحریک کا دن منانے کے لیے شہر میں ایک بڑا جلوس نکالا اور لوگوں کو تحریک کے بارے میں بتایا۔
جیسے جیسے تحریک زور پکڑتی گئی انھوں نے بھی تحریک کو پورے سندھ میں متحرک کرنے کے لیے دورہ شروع کیا، جلسے اور جلوس منعقد کیے اور لوگوں میں جوش و خروش پیدا کیا۔اس پوری تحریک میں انور علی شاہ اور سید تراب علی شاہ ساتھ رہے۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں لوگ انگریز سرکارکیخلاف اور خلافت تحریک کے حق میں کھڑے ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس تحریک کے دوران انھوں نے میونسپل کمیٹی کی ممبرشپ سے استعفیٰ دے دیا ، میونسپل کا آنریری دیا گیا اعزاز واپس کیا ، بار ایٹ لا کی ڈگری سے بھی مستعفی ہوئے اور کہا کہ وہ کسی سے بھی ریونیو ٹیکس وصول نہیں کریں گے۔
اس تحریک میں حصہ لینے پر برٹش حکومت نے انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں جسکی وجہ سے لوگوں کو کہا گیا کہ وہ ہجرت کرکے افغانستان چلے جائیں، جہاں پر افغانستان کے حاکم سے بات ہوگئی تھی۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا صدر انھیں بنایا گیا۔ ہجرت کمیٹی نے ان کی خدمات اور جذبے کو دیکھتے ہوئے انھیں رئیس المہاجرین کے خطاب سے نوازا ۔ اس عمل نے انگریز سرکارکو غصہ دلوایا جسکی وجہ سے ان کی زرعی زمین کو ضبط کیا گیا لیکن انھوں نے بھی اس تحریکی جذبے کو ابھارنے میں کوئی کسر اٹھا نہ چھوڑی۔ جان محمد جونیجو نے تحریک کے مرکزی آفس کو اپنی رہائش گاہ بنا لیا۔
افغانستان جانے کے لیے انھوں نے ایک ٹرین بک کروائی ، کرائے کی رقم پوری کرنے کے لیے انھوں نے پہلے ہی اپنی کچھ زرعی زمین بیچ ڈالی تھی اور اس کام میں باقی دوستوں نے بھی کچھ رقم دی تھی۔ یہ ٹرین 16 دن کے لیے بک کروائی گئی تھی جس میں لاڑکانہ سے 760 سندھی مہاجر بن کر افغانستان جا رہے تھے تاکہ وہاں پر ہجرت تحریک کوکامیاب بنانے کے لیے کام کرتے رہیں ۔ یہ ٹرین لاڑکانہ سے 9 جولائی 1920 کو افغانستان کے لیے روانہ ہوئی۔ افغانستان پہنچنے پر وہاں کے حاکم امیر امان اللہ نے مہاجرین کے لیے کھانے اور رہنے کا بندوبست کیا مگر جیسے جیسے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، ان کی مشکلات بھی بڑھنے لگیں جس کے لیے انھوں نے ایک انجمن مہاجرین قائم کی جسکے ذریعے پیسہ جمع کرنے کا کام شروع کیا تاکہ وہاں پر ہجرت کرکے آنے والوں کے اخراجات پورے کیے جائیں۔
یہ صورتحال اور زیادہ خراب ہوگئی جب برٹش سرکار نے سازش کے ذریعے افغان حکومت کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا کہ وہ سندھ سے آنے والے مہاجروں کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ اس معاہدے کے تحت افغان حکومت نے دی گئی ساری سہولتیں مہاجرین سے واپس لے لیں۔ نہ صرف یہ بلکہ آنے والے مہاجرین کے ساتھ سختی سے پیش آنے لگے۔ اس وجہ سے لوگ مشکلات میں پھنس گئے، انھیں بھوک، بیماریوں اور اموات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مہاجرین افغانستان کی گلیوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔
اس صورتحال میں جان محمد جونیجو لاڑکانہ واپس آئے اور پھر وہاں سے وہ مولانا محمد علی جوہر سے ملنے چلے گئے تاکہ کچھ رقم کا بندوبست کیا جائے۔ وہ انڈیا کے متعدد شہروں میں گئے اور وہاں سے کچھ رقم اکٹھی کرکے افغانستان میں موجود افراد کو بھیجی۔ آخرکار وہ خود بھی افغانستان جانے کے لیے روانہ ہوگئے مگر جب 1 جنوری 1921 کو پشاور پہنچے تو وہاں کے ڈپٹی کلیکٹر نے انھیں آگے جانے نہیں دیا کیونکہ پشاور میں انھوں نے خطاب کیا تھا اور تحریک کے بارے میں عوام الناس میں جذبہ پیدا کر رہے تھے، وہ لاہور واپس آگئے جہاں سے وہ لکھنو روانہ ہوگئے۔
مسلسل افغانستان میں جانے والے مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا دیکھ کر ان کے ذہن پر بڑا خراب اثر ہوا اور ان کے لیے دہرا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو واپس آسکتے اور نہ ہی وہاں رہ سکتے تھے کیونکہ جان محمد جونیجو کے افغانستان جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس صورتحال کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب رہنے لگی ، جس کی وجہ سے انھیں انڈیا میں رہنا پڑا مگر پھر بھی انھوں نے وہاں پر رہنماؤں کے ساتھ ملنا جاری رکھا اور کام کرتے رہے۔ صحت دن بہ دن گرتی گئی اور آخر کار وہ 16 اپریل 1921 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے ، وصیت کے مطابق انھیں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر ساگر جھیل کے برابر دفن کیا گیا۔
میں ایک بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ خاص طور پر وہ جو صاحب اقتدار ہیں اپنی تاریخ، اپنے ہیروز اور اپنے ثقافتی اور تاریخی مقامات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو انھیں تاریخ اور نہ ہی قوم معاف کریگی، جو نمایندے عوامی خدمت کے بجائے صرف دولت جمع کر رہے ہیں، محلات پے محلات تعمیر کروا رہے ہیں انھیں مرنے کے بعد کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔