طلبہ کے لیے پہلی ٹرافی شیشے کے دو پیالوں کو پیندے سے جوڑ کر بنائی سید رضوان زیدی
پہلی نوکری اسنوکر کلب میں کی، ریڈیو پر ’خراب تلفظ‘ کہہ کر دو بار مسترد کیا گیا!
بہت سے لوگ نہایت خوب صورت تحریریں لکھتے ہیں۔۔۔ ہم ان کے تخلیق کیے الفاظ اخبارات ورسائل میں پڑھتے اور ریڈیو وٹی وی وغیرہ پر سنتے رہتے ہیں۔۔۔ لیکن چَھپے ہوئے یہ لفظ 'مشینی' ہوتے ہیں، جب کہ ریڈیو اور ٹی وی پر انہیں بولنے کا سلیقہ اکثر لکھنے والوں کا نہیں ہوتا۔۔۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اچھی تحریریں لکھنے والے بہت سے قلم کاروں کا 'خط' یعنی لکھائی اچھی نہیں ہوتی، پھر جن لفظوں کو سن کر ہم داد وتحسین کے ڈونگر برساتے ہیں، ان لفظوں کے خالق شاید وہ لفظ اس قدر سلیقے اور خوش الحانی سے ادا نہ کر سکتے ہوں۔۔۔
اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ جن کی لکھائی عمدہ ہو، تو وہ 'لکھاری' بھی ہوں، یا جن کی آواز عمدہ ہو، تو تلفظ بھی اچھا ہو اور وہ بہترین لفظ کات کر عمدہ جملے بھی تخلیق کر سکتے ہوں۔۔۔ لیکن اگر اچھے خط (لکھائی)، عمدہ تحریر (مندرجات)، بھلی آواز اور درست تلفظ یک جا ہوں تو یقیناً ایسا ذرا کم کم ہی ہوتا ہے۔
یہ ذکر ہے سید رضوان زیدی کا، جن کے لیے یہ تو ہمارے وہ لفظ ہیں، جو مختصر تعارف کے لیے ہم سے بن پڑے۔۔۔ اُن کے دیگر گُن جاننے کے لیے پوری 'تحریری ملاقات' کرنا ضروری ہے۔۔۔
رضوان زیدی بتاتے ہیں کہ اُن کے والدین کا تعلق 'یو پی' سے ہے، آبائی کاروبار 'پرنٹنگ پریس' کا تھا، والد نے ہجرت کے بعد 'پیر الٰہی بخش کالونی' کے اسکول میں تدریس کی، جہاں اصلاح الدین، اطہر شاہ خان اور احمد مقصود حمیدی وغیرہ اُن کے شاگرد ہوئے۔ وہ 16 دسمبر 1972ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، آٹھ بہن بھائی تھے، چھوٹی بہن کا انتقال ہو گیا۔ وہ ایس ایم پبلک اسکول میں چھٹی جماعت میں فیل ہوئے، تو اسکول بدل کر سال ضایع ہونے سے بچایا، پھر 'فیئر فیلڈ اسکول' سے 1988ء میں 'سی' گریڈ میں میٹرک اور سٹی کالج سے 'ڈی' گریڈ میں انٹر کیا، لیکن اساتذہ کی تربیت اور مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔
رضوان زیدی نے پہلی نوکری 800 روپے ماہ وار پر 1993-94ء میں اسنوکر کلب میں بطور 'مارکر' کی، جہاں ایک روپے فی منٹ کے نرخ سے حساب رکھتے۔ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سے ایک ڈپلومہ کیا، اور پھر 'کوالٹی کنٹرول انسپکٹر' کے تحت سندھ بھر میں ذمہ داریاں انجام دیں۔ اسی ملازمت کے دوران شام کے کالج سے بی اے اور 'پرائیوٹ' امیدوار کے طور پر ایم اے (اردو) کیا۔ کہتے ہیں کہ ہمیں نصابی کتب نہیں ملتی تھیں، تب پرائیوٹ طلبہ کے لیے اتوار یا شام کو جامعہ کراچی کا کتب خانہ کھولنے کی تجویز دی تھی۔
رضوان زیدی 1992-93ء سے 'پاکستان ڈیبٹ کونسل' سے منسلک ہیں، اس کی شروعات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ پہلے جنید اقبال، عامر لیاقت حسین کی 'ینگ ڈیبٹر سوسائٹی' سے منسلک تھے۔ پھر انہوں نے الگ 'پاکستان ڈیبٹ کونسل ' بنائی۔ جس میں وہ بھی شامل ہوگئے، ہم نے اُن کا عہدہ پوچھا تو رضوان زیدی بولے کہ ہمارا کوئی باقاعدہ دستور ہے اور نہ مالیاتی گوشوارہ، سب زبانی رکن ہیں، شاید ایک مرتبہ ہی کسی سے چار، پانچ سو لیے ہوں۔ اگر اسے کسی 'این جی او' کے طور پر چلاتے، تو جائز طور پر بھی بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ ہم نے جدید کیمرے کے بغیر صرف ذہنوں پر کام کیا، اس لیے کام نظر نہیں آتا۔ فنڈ کا کوئی کھاتا ہی نہ تھا، ہم اپنے جیب خرچ سے اخراجات نکالتے۔ ہم نے پہلی ٹرافی شیشے کے دو پیالوں کو پیندوں سے جوڑ کر تیار کی تھی۔ آزاد کشمیر میں ہمارے آرگنائزر تھے، جو اب آسٹریلیا چلے گئے، پنجاب میں شعیب عزیز اور کفیل ہمارے لیے کام کر رہے ہیں۔
ڈبیٹ کونسل کے کام کے حوالے سے رضوان زیدی کا کہنا ہے کہ یہ بلا معاوضہ کالج اور یونی ورسٹی کے باہر طلبہ کی تربیت کرتا ہے۔ تمام مقررین اپنے تعلیمی اداروں کی جانب سے حصہ لیتے ہیں، بہت سے کالج بھی ہمیں مدعو کرتے ہیں۔ آرٹس کونسل میں مباحثے کے حوالے سے 100سے زائد اسکول میں تربیت کرائی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میں قطعی مقرر نہ تھا، لیکن میں نے اساتذہ سے مباحثے کے بنیادی رموز اور اوزان سیکھے۔ جس کی بنیاد پر کل پاکستان کی سطح تک منصفی کے فرائض انجام دیے۔' یہ سن کر ہمارے ذہن میں آیا کہ جو کام خود نہ کیا اس کا معیار کا فیصلہ آپ کیسے کرتے ہیں تو وہ بولے کہ خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور سہیل رعنا وغیرہ بھی گائیک نہ تھے، لیکن ان کا کام سامنے ہے۔ تعلیم کے ساتھ اصل چیز شعور ہے، تب ہی میٹرک پاس سعادت منٹو پر 'پی ایچ ڈی' ہو رہی ہے۔
رضوان زیدی کہتے ہیں کہ خطابت یک طرفہ سلسلہ ہے، مباحثے میں دوطرفہ دلائل ہوتے ہیں جو ہمیں برداشت سکھاتے ہیں اور نئی فکر دیتے ہیں۔ مباحثہ ختم ہونے سے سماج میں برداشت کی جگہ ہیجان اور نفرت نے لے لی، اب ہم ہر چیز کو منفی انداز میں دیکھتے ہیں۔ رضوان زیدی کہتے ہیں کہ مباحثے کی تیاری کراتے ہوئے دونوں جانب کے نکات تیار کراتے ہیں، لیکن دلیل کے طور پر قرآن وحدیث کا حوالہ نہیں دیتے، کہ ہمارا علم اتنا نہیں، پھر ہم اسے کیسے رد کر سکتے ہیں! لیکن ایک مباحثے میں انیق احمد نے کہہ دیا کہ میں تو اس دلیل کو مانتا ہی نہیں، جس میں قرآن کا حوالہ نہ ہو، خوب تالیاں بج گئیں۔۔۔
مباحثے کی تیکنیک میں رضوان زیدی تلفظ، بدن بولی، مواد، انداز، لہجہ، موضوع سے مطابقت اور حوالے وغیرہ کو پیمانہ بناتے ہیں، کہتے ہیں کہ حاضرین کی داد کوئی معنی نہیں رکھتی، بعض 'مقرر' واہ واہ کرا کے چلے جاتے ہیں، لیکن معیار پر پورا نہیں اترتے۔ پہلے کسی شعر پر تالی پٹ جائے، تو بے عزتی تصور ہوتی، آج تو سب تالیاں ہی پٹوا رہے ہیں یہ مشاعروں کی تہذیب نہ تھی، لیکن آج روا ہے۔
'پاکستان ڈبیٹ کونسل' میں عابد علی امنگ کا کردار کلیدی قرار دیتے ہوئے رضوان زیدی کہتے ہیں کہ میڈم رخسانہ (عبداللہ گرلز کالج) فرحت عظیم (سرسید کالج)، پروفیسر ہارون رشید، میڈم سلمیٰ (پی ای سی ایچ ایس کالج) ادریس غازی اور صحافی ولی رضوی مرحوم وغیرہ کی بڑی راہ نمائی رہی۔ ٹی وی میزبان فیصل کریم، عبداللہ جمال، رمشہ کنول، ردا سیفی، ہم سے وابستہ رہے، متحدہ کے فیصل سبز واری، فیصل علی کے نام سے ہمارے مباحثوں میں حصہ لیتے، دیگر میں حافظ طارق محمود، عامر اسحق سہروردی، عدنان نقوی، ذیشان اقبال، ثوبان بیگ سمیت ایک طویل فہرست ہے۔ شہر کے لگ بھگ 99 فی صد مقررین 'ڈبیٹ کونسل' سے فیض اٹھا چکے۔
ہم نے پوچھا کہ اوروں اور 'ڈبیٹ کونسل' سے وابستہ رہنے والوں کے کام میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟ وہ بولے کہ ''مباحثہ اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے، ایک ہی منظر کا زاویہ بدل جاتا ہے۔''
مطالعے کی کمی کو مباحثے کی سب سے بڑی کم زوری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'انٹرنیٹ میں اِدھر اُدھر سے نکات اٹھا لیتے ہیں، لیکن ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ یہ مقرر نے خود تیار کیا ہے یا مستعار لیا ہے۔ طلبہ بھلے 'ای بک' پڑھیں، لیکن کتاب سے رشتہ جوڑیں، بنیادی اخلاقیات تھام کر ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے۔''
رضوان زیدی نے انکشاف کیا کہ انہیں ریڈیو پر 'خراب تلفظ' کہہ کر دو بار رد کیا گیا۔ پھر 'ہاٹ ایف ایم 105' پر اظہر حسین نے 'آڈیشن' لیا، یوں 26 نومبر 2006ء کو ان کا پہلا پروگرام نشر ہوا۔ وہ کہتے ہیں ریڈیو پر کسی بناوٹ کے بغیر عام انداز میں بات کرتا ہوں، ہماری ادائی پروگرام کے حساب سے ہوتی۔ ہفتے کے چھے پروگرام سے ایک پروگرام کر دیا، لیکن ریڈیو سے وابستگی برقرار رکھی۔ 'پاکستانیت' کے موضوع پر سارا سال جاری رہنے والا پروگرام 'تم ہو پاسباں اس کے' ہر جمعرات کی رات 10 تا 12 گزشتہ نو سال سے جاری ہے۔
رضوان زیدی کہتے ہیں کہ میں 'سیاسی سٹائر' لکھنے والا دوسرا لکھاری ہوں۔ 'اے آر وائے' کے مباحثے 'ہم اور آپ' میں حاضرین کے طور پر شریک ہوا، 12 برس پہلے 'شائستہ اینڈ یو' سے چینلوں کے لیے لکھنا شروع کیا، رمضان کی نشریات کے 'مباحثوں' کے لیے کام کیا، مختلف ٹیلی فلم، ساحر لودھی کا پروگرام 'یہ شام تیرے نام' اور فیصل قریشی کا 'مسکراتی مورننگ' لکھا، 2009ء سے 'اے آر وائے' میں ہیں، ان دنوں 'سینئر کونٹینٹ مینجر' کی مسند پر ہیں۔ ہم نے آج کے چینلوں کے 'چلن' کا پوچھا تو وہ بولے کہ میں تو مسیحا ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہا، میں تو کر ہی ڈراما رہا ہوں۔
رضوان زیدی کہتے ہیں کہ کوئی سیاسی وابستگی نہیں، لیکن ووٹ ضرور دیتے ہیں، گھر میں فرنیچر پالش سے بڑھئی کا سارا کام وہ خود کرتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کی عزت کو ترقی کا راز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ والدہ سے چپلوں اور جھاڑوں سے خوب پٹا۔ پہلے ایک کا خوف ہوتا تھا، کہ 'آنے دو شام کو ابو کو!' وہی نسل انسان بنی ہے، والدین بے شک جلاد نہ بنیں، لیکن بچوں کو جواب دہی کا احساس ضرور ہو۔ میرے ایک دوست کے والد ناخواندہ تھے، لیکن کاپیوں پر سرخ دائرے دیکھ کر پکڑتے کہ یہ کیوں؟ بی اماں جیسی ماں کے شوکت علی جیسے بچے تھے، آج 'پی ایچ ڈی' کرنے کے باوجود اولاد کیسی ہے؟
رضوان زیدی کے بقول اگر بچپن کا دوست مصحف نہ ہوتا، تو میں آج اس مقام پر نہ ہوتا، وہ اور میرے باس علی عمران بہن کی بیماری میں ساتھ کھڑے رہے، یہ لوگ زندگی کا حاصل ہیں۔ فیس بک پر رابطے کافی سمجھنے والے وہیں رہیں، زندگی میں نہ آئیں۔ میرا رجحان مزاح کی طرف ہے، لیکن بہن کے سانحہ ارتحال کے بعد زندگی کے 'جوکر' کا گلا گھونٹ دیا ہے!
خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی برابری کے حامی رضوان زیدی کہتے ہیں سب رشتے متوازی ہیں۔ 18 سال تک بچے کی کفالت کا ذمہ مرد کا ہے، تو وہ بھی کہیں نہ کہیں مقام رکھنا چاہیے۔ ہم اپنی بیٹیوں کو گھونٹ کر رکھتے ہیں، پھر جہاں تازہ ہوا کا جھونکا ملتا ہے وہ بہک جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیٹیوں کو محبت دی جائے۔
٭جب نول کشور کی 'چتا' کو آگ ہی نہ لگی
رضوان زیدی نے بتایا کہ اُن کے دادا 'مدرسہ دیو بند' کے فارغ التحصیل تھے۔ ان کی 1901ءمیں دستار بندی ہوئی، وہ دستار آج بھی گھر میں محفوظ ہے۔ ہندوستان میں وہ مشہور زمانہ نول کشور پرنٹنگ پریس میں 'شعبہ قرآن' کے انچارج تھے۔ نول کشور نے نہ صرف اپنے اس شعبے میں سارے مسلمان رکھے، بلکہ ان کی تاکید تھی کہ کوئی 'قرآن سیکشن' میں بغیر وضو کے داخل نہیں ہوگا۔ جب نول کشور صاحب اس دنیا سے گزر گئے تو ہندو مت کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں، اس دوران سارے جتن کر لیے گئے، لیکن ان کے چتا (جسد) کو آگ نہیں لگی، بالآخر انہیں دفنایا گیا! کہتے ہیں کہ یہ مستند ترین بات ہے ، یہ والد نے اُن کے دادا نے سنی اور انہوں نے اپنے والد سے سنی ہے۔
٭نئے کپڑوں اور جوتے دیکھنے میں چاند رات کٹ جاتی تھی!
"ابھی تک غیر شادی شدہ کیوں؟" اس سوال پر رضوان زیدی کچھ جھجکے اور پھر بولے کہ "جس کو ہم نے مناسب سمجھا، اُس نے ہم کو مناسب نہیں سمجھا!"
"پھر آپ نے کسی کو بھی مناسب نہیں سمجھا؟" ہم بے ساختہ پوچھ بیٹھے، تو وہ بولے کہ کوئی مناسب سمجھ میں آئے گا تو بات آگے بڑھے گی، شادی مصدر ہے شاد کا، اور میں شاد ہوں۔ کوئی بھی سب کو خوش نہیں رکھ سکتا میں سب کو جواب دہ ہوں اور نہ مجھے کسی سے 'پاکستانیت 'کی سند نہیں چاہیے۔ آزادی ہمارے اجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے، پاکستانی برا ہو سکتا ہے، لیکن پاکستان نہیں جو برا ہے اسے ٹانگ دو! پاکستان میں مختلف ممالک کی سازشیں ہیں، لیکن ملک دشمنوں سے نمٹنے میں کوئی تفریق نہیں ہونا چاہیے۔
گفتگو ذاتی زندگی سے عام حالات پر آنکلی، وہ کہنے لگے کہ ہم نے قناعت کی زندگی دیکھی، آج تو مجبوری کا نام قناعت ہے۔ معاف کرنا تو وہ ہے جب آپ قدرت رکھتے ہوئے چھوڑیں۔ پہلے سب ایک جیسے تھے، سال میں دو جوڑے بنتے، ایک جمعة الوداع اور دوسرا عید کا۔ بقرعید پر یہ اختیار دیا جاتا تھا کہ دونوں میں سے کوئی بھی پہن لو۔ چاند رات تو ان جوڑوں اور جوتوں کو دیکھنے میں ہی کٹ جاتی کہ کل یہ پہننے ہیں۔ سارا بگاڑ معدوں میں لقمہ حرام پہنچنے سے آیا اور جب انسانی شخصیت کی موت ہو جائے تو وہ جدید سہولیات اور آلات سے متاثر کرتا ہے۔ پہلے کھلے ہوئے 'پوسٹ کارڈ' آتے تھے کوئی نہیں دیکھتا تھا، آج آپ موبائل کھول رہے ہوں تو دوسروں کی کھوج ہوتی ہے کہ پاس ورڈ دیکھ لیں۔ ہم دوسروں کی ذاتی معلومات چاہتے ہیں اور وہی سوال اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں۔
٭دراصل لوگوں کی اردو خراب ہوئی تو میں نمایاں ہوا!
ریڈیو پر انگریزی زدہ زبان کے بہ جائے شستہ اور ستھری اردو اختیار کرنے والے رضوان زیدی کہتے ہیں کہ اردو کسی مخصوص طبقے کی نہیں، بلکہ پاکستان کی قومی زبان ہے، مجھے اپنے ملک کی تمام زبانوں پر فخر ہے، لیکن اردو کو اس کا مقام نہیں ملا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اداکارہ میرا سے انگریزی کی توقع رکھتے ہیں، وہ غلط بولے تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ٹی وی پر مزاحیہ کرداروں سے بہترین اردو بلوا کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
رضوان زیدی کا خیال ہے کہ انہیں انگریزی نہیں آتی اور اردو بھی اچھی نہیں، دراصل لوگوں کی اردو خراب ہو گئی، اس لیے وہ 'نمایاں' ہوئے، کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے کہ فلاں صوبے نے اردو کی بہت خدمت کی، یہ تو ان کی ضرورت تھی۔ آپ اُن کی زبانوں میں دس ایسی شہرت یافتہ غزلیں دکھا دیں! آج اردو کے اگر کُل 500 شاعر ہیں، اگر وہ نہ ہوتے تو شاید 400 ہوتے، لیکن اگر یہ 100 اردو استعمال نہ کرتے، تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ میں کسی کا قد چھوٹا نہیں کر رہا، لیکن اردو کے وسیلے نے بھی انہیں آگے پہنچایا۔ کوئی بھی زبان رکتی نہیں، یہ بہاﺅ ہے، کہیں نہ کہیں راستہ بنا لیتا ہے۔ کسی نے اردو میں کام کیا، تو اردو پر احسان نہیں، بلکہ یہ اردو کا اُن پر احسان تھا کہ جس کے ذریعے وہ معتبر ہوئے۔' ہم نے دیگر علاقوں کے دعوے کی بات کی؟ تو رضوان بولے کہ کوئی بھی علاقہ اگر خدمت کا دعویٰ کرتا ہے، تو وہ غلط ہے، اردو نہ ہوتی تو کسی بھی علاقے کے شعرا کا کیا نام ہوتا؟
٭10 سال تک ہاتھ سے لکھ کر تہنیتی کارڈ بھجوائے!
رضوان زیدی کہتے ہیں کہ میرا ادب وموسیقی سے شغف والد کے سبب ہے، والد نے لغت لاکر دی، جو لفظ اچھا لگتا اسے لکھتا اور پھر عام بول چال میں استعمال کرتا۔ ارشد جمال انصاری نے اس میں میری مدد کی۔' رضوان نے باقاعدہ خطاطی تو نہیں سیکھی، لیکن والد کے پریس میں اس کے بنیادی رموز سے واقف ہوگئے، وہ ہر سال عید، بقرعید اور سال نو پر اپنے ہاتھ سے تہنیتی کارڈ لکھ کر والد کے پریس سے چھپواتے اور دوستوں، رشتے داروں سمیت مختلف شخصیات کو 250 سے 350کارڈ بھیجتے، لیکن جواب صرف دو، تین کے آتے۔ جن میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے لازمی جواب دیا۔
1995ءتا 2005ءیہ مشق کی، ایک برس ناغہ کیا، تو فقط آٹھ، دس لوگوں نے ہی کمی محسوس کی، پھر اس مشق سے تھک گئے، کہتے ہیں کہ اب فیس بک پر کارڈ لگا کر رسم پوری کر دیتا ہوں، 'قسم' کے رشتے ساتھ ہوں، تو زندگی آسان ہو جاتی ہے اور رسم کا کیا ہے۔ روایتوں کی تبدیلی کے حوالے سے رضوان زیدی کہتے ہیں کہ پہلے خطوط اور عید کارڈ کے ذریعے قلبی لگاﺅ کا اظہار ہوتا تھا، جو آج 'وٹس ایپ' کے رسمی رابطے تک آگیا ہے، شاید آنے والے وقت میں ہم شاید ترسیں کہ کوئی بات کرنے والا ملے۔
٭جب ہماری ہڈیاں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں
مختلف سماجی سرگرمیوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے رضوان زیدی نے بتایا کہ 20، 25 برس پہلے ہم نے 'کراچی یوتھ آرگنائزیشن' کے تحت بچوں کی جیل میں 700 بچوں کے کھانے کا پروگرام کیا، لیکن دیکھا کہ بچے تو بیرکوں میں تھے اور پولیس کے اہل خانہ اور بچے آئے بیٹھے تھے!
مباحثے میں ردعمل کے سوال پر رضوان زیدی نے کہا کہ کئی بار پٹتے پٹتے بچے۔ 1995-96ءمیں 'این ای ڈی یونیورسٹی' کے آڈیٹوریم میں مباحثہ بہ عنوان 'بیلچے اٹھالینا ڈگریاں جلا دینا!" تھا۔ ایک مقرر نے یہ کہہ دیا کہ "جس کا گھر میں داخلہ بند ہوتا ہے، اسے وزیر داخلہ بنا دیا جاتا ہے۔" یہ سننا تھا کہ وہاں کشیدگی پھیل گئی اور ایک طلبہ تنظیم کے لڑکے نے وہا آکر پستول لوڈ کر لی ایسے میں 'اسلامی جمعیت طلبہ' سے وابستہ 'پاکستان ڈبیٹ کونسل' کے ایک رکن نے رینجرز سے جا کر بات کی، پھر رینجرز نے پورے آڈیٹوریم کو گھیرے میں لیا اور ہم وہاں سے سلامت نکل پائے۔
اُس دن ہماری تو ہڈیاں ٹوٹ جاتیں، لیکن ہمارے ساتھ طالبات بھی تھیں، جن کے والدین نے بھروسا کر کے ہمارے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر ہم نے 'این ای ڈی یونیورسٹی' میں متبادل راستوں سے طلبہ کو نکالا یہ بھی سنا گیا کہ 'نیپا چورنگی' کے قریب طلبہ تنظیم کے کارندے 'پوائنٹ' روک روک کر دیکھ رہے ہیں کہ کون تھا جس نے ایسا کہا ایک اور پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے رضوان زیدی نے بتایا کہ کچھ برس قبل جامعہ کراچی میں 17 سال بعد 'اے پی ایم ایس او' کا گولڈ میڈل مقابلہ ہوا، جس میں جمعیت سے وابستہ مرزا ثوبان بیگ نے پیلے رنگ کی 'رابعہ' کے نشان والی شرٹ پہنے ہوئے شرکت کی اور فاتح ہوئے۔ ثوبان کے والد لقمان بیگ لانڈھی سے جماعت اسلامی کے کارکن تھے، جو شہید ہوئے، جس میں ہو سکتا ہے 'ایم کیو ایم' ملوث ہو، لیکن پروگرام میں حیدر عباس رضوی نے انہیں انعام دیا اور کہا کہ طالب علم کسی بھی جماعت کا ہو، ہے کراچی کا!
اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ جن کی لکھائی عمدہ ہو، تو وہ 'لکھاری' بھی ہوں، یا جن کی آواز عمدہ ہو، تو تلفظ بھی اچھا ہو اور وہ بہترین لفظ کات کر عمدہ جملے بھی تخلیق کر سکتے ہوں۔۔۔ لیکن اگر اچھے خط (لکھائی)، عمدہ تحریر (مندرجات)، بھلی آواز اور درست تلفظ یک جا ہوں تو یقیناً ایسا ذرا کم کم ہی ہوتا ہے۔
یہ ذکر ہے سید رضوان زیدی کا، جن کے لیے یہ تو ہمارے وہ لفظ ہیں، جو مختصر تعارف کے لیے ہم سے بن پڑے۔۔۔ اُن کے دیگر گُن جاننے کے لیے پوری 'تحریری ملاقات' کرنا ضروری ہے۔۔۔
رضوان زیدی بتاتے ہیں کہ اُن کے والدین کا تعلق 'یو پی' سے ہے، آبائی کاروبار 'پرنٹنگ پریس' کا تھا، والد نے ہجرت کے بعد 'پیر الٰہی بخش کالونی' کے اسکول میں تدریس کی، جہاں اصلاح الدین، اطہر شاہ خان اور احمد مقصود حمیدی وغیرہ اُن کے شاگرد ہوئے۔ وہ 16 دسمبر 1972ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، آٹھ بہن بھائی تھے، چھوٹی بہن کا انتقال ہو گیا۔ وہ ایس ایم پبلک اسکول میں چھٹی جماعت میں فیل ہوئے، تو اسکول بدل کر سال ضایع ہونے سے بچایا، پھر 'فیئر فیلڈ اسکول' سے 1988ء میں 'سی' گریڈ میں میٹرک اور سٹی کالج سے 'ڈی' گریڈ میں انٹر کیا، لیکن اساتذہ کی تربیت اور مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔
رضوان زیدی نے پہلی نوکری 800 روپے ماہ وار پر 1993-94ء میں اسنوکر کلب میں بطور 'مارکر' کی، جہاں ایک روپے فی منٹ کے نرخ سے حساب رکھتے۔ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سے ایک ڈپلومہ کیا، اور پھر 'کوالٹی کنٹرول انسپکٹر' کے تحت سندھ بھر میں ذمہ داریاں انجام دیں۔ اسی ملازمت کے دوران شام کے کالج سے بی اے اور 'پرائیوٹ' امیدوار کے طور پر ایم اے (اردو) کیا۔ کہتے ہیں کہ ہمیں نصابی کتب نہیں ملتی تھیں، تب پرائیوٹ طلبہ کے لیے اتوار یا شام کو جامعہ کراچی کا کتب خانہ کھولنے کی تجویز دی تھی۔
رضوان زیدی 1992-93ء سے 'پاکستان ڈیبٹ کونسل' سے منسلک ہیں، اس کی شروعات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ پہلے جنید اقبال، عامر لیاقت حسین کی 'ینگ ڈیبٹر سوسائٹی' سے منسلک تھے۔ پھر انہوں نے الگ 'پاکستان ڈیبٹ کونسل ' بنائی۔ جس میں وہ بھی شامل ہوگئے، ہم نے اُن کا عہدہ پوچھا تو رضوان زیدی بولے کہ ہمارا کوئی باقاعدہ دستور ہے اور نہ مالیاتی گوشوارہ، سب زبانی رکن ہیں، شاید ایک مرتبہ ہی کسی سے چار، پانچ سو لیے ہوں۔ اگر اسے کسی 'این جی او' کے طور پر چلاتے، تو جائز طور پر بھی بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ ہم نے جدید کیمرے کے بغیر صرف ذہنوں پر کام کیا، اس لیے کام نظر نہیں آتا۔ فنڈ کا کوئی کھاتا ہی نہ تھا، ہم اپنے جیب خرچ سے اخراجات نکالتے۔ ہم نے پہلی ٹرافی شیشے کے دو پیالوں کو پیندوں سے جوڑ کر تیار کی تھی۔ آزاد کشمیر میں ہمارے آرگنائزر تھے، جو اب آسٹریلیا چلے گئے، پنجاب میں شعیب عزیز اور کفیل ہمارے لیے کام کر رہے ہیں۔
ڈبیٹ کونسل کے کام کے حوالے سے رضوان زیدی کا کہنا ہے کہ یہ بلا معاوضہ کالج اور یونی ورسٹی کے باہر طلبہ کی تربیت کرتا ہے۔ تمام مقررین اپنے تعلیمی اداروں کی جانب سے حصہ لیتے ہیں، بہت سے کالج بھی ہمیں مدعو کرتے ہیں۔ آرٹس کونسل میں مباحثے کے حوالے سے 100سے زائد اسکول میں تربیت کرائی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میں قطعی مقرر نہ تھا، لیکن میں نے اساتذہ سے مباحثے کے بنیادی رموز اور اوزان سیکھے۔ جس کی بنیاد پر کل پاکستان کی سطح تک منصفی کے فرائض انجام دیے۔' یہ سن کر ہمارے ذہن میں آیا کہ جو کام خود نہ کیا اس کا معیار کا فیصلہ آپ کیسے کرتے ہیں تو وہ بولے کہ خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور سہیل رعنا وغیرہ بھی گائیک نہ تھے، لیکن ان کا کام سامنے ہے۔ تعلیم کے ساتھ اصل چیز شعور ہے، تب ہی میٹرک پاس سعادت منٹو پر 'پی ایچ ڈی' ہو رہی ہے۔
رضوان زیدی کہتے ہیں کہ خطابت یک طرفہ سلسلہ ہے، مباحثے میں دوطرفہ دلائل ہوتے ہیں جو ہمیں برداشت سکھاتے ہیں اور نئی فکر دیتے ہیں۔ مباحثہ ختم ہونے سے سماج میں برداشت کی جگہ ہیجان اور نفرت نے لے لی، اب ہم ہر چیز کو منفی انداز میں دیکھتے ہیں۔ رضوان زیدی کہتے ہیں کہ مباحثے کی تیاری کراتے ہوئے دونوں جانب کے نکات تیار کراتے ہیں، لیکن دلیل کے طور پر قرآن وحدیث کا حوالہ نہیں دیتے، کہ ہمارا علم اتنا نہیں، پھر ہم اسے کیسے رد کر سکتے ہیں! لیکن ایک مباحثے میں انیق احمد نے کہہ دیا کہ میں تو اس دلیل کو مانتا ہی نہیں، جس میں قرآن کا حوالہ نہ ہو، خوب تالیاں بج گئیں۔۔۔
مباحثے کی تیکنیک میں رضوان زیدی تلفظ، بدن بولی، مواد، انداز، لہجہ، موضوع سے مطابقت اور حوالے وغیرہ کو پیمانہ بناتے ہیں، کہتے ہیں کہ حاضرین کی داد کوئی معنی نہیں رکھتی، بعض 'مقرر' واہ واہ کرا کے چلے جاتے ہیں، لیکن معیار پر پورا نہیں اترتے۔ پہلے کسی شعر پر تالی پٹ جائے، تو بے عزتی تصور ہوتی، آج تو سب تالیاں ہی پٹوا رہے ہیں یہ مشاعروں کی تہذیب نہ تھی، لیکن آج روا ہے۔
'پاکستان ڈبیٹ کونسل' میں عابد علی امنگ کا کردار کلیدی قرار دیتے ہوئے رضوان زیدی کہتے ہیں کہ میڈم رخسانہ (عبداللہ گرلز کالج) فرحت عظیم (سرسید کالج)، پروفیسر ہارون رشید، میڈم سلمیٰ (پی ای سی ایچ ایس کالج) ادریس غازی اور صحافی ولی رضوی مرحوم وغیرہ کی بڑی راہ نمائی رہی۔ ٹی وی میزبان فیصل کریم، عبداللہ جمال، رمشہ کنول، ردا سیفی، ہم سے وابستہ رہے، متحدہ کے فیصل سبز واری، فیصل علی کے نام سے ہمارے مباحثوں میں حصہ لیتے، دیگر میں حافظ طارق محمود، عامر اسحق سہروردی، عدنان نقوی، ذیشان اقبال، ثوبان بیگ سمیت ایک طویل فہرست ہے۔ شہر کے لگ بھگ 99 فی صد مقررین 'ڈبیٹ کونسل' سے فیض اٹھا چکے۔
ہم نے پوچھا کہ اوروں اور 'ڈبیٹ کونسل' سے وابستہ رہنے والوں کے کام میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟ وہ بولے کہ ''مباحثہ اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے، ایک ہی منظر کا زاویہ بدل جاتا ہے۔''
مطالعے کی کمی کو مباحثے کی سب سے بڑی کم زوری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'انٹرنیٹ میں اِدھر اُدھر سے نکات اٹھا لیتے ہیں، لیکن ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ یہ مقرر نے خود تیار کیا ہے یا مستعار لیا ہے۔ طلبہ بھلے 'ای بک' پڑھیں، لیکن کتاب سے رشتہ جوڑیں، بنیادی اخلاقیات تھام کر ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے۔''
رضوان زیدی نے انکشاف کیا کہ انہیں ریڈیو پر 'خراب تلفظ' کہہ کر دو بار رد کیا گیا۔ پھر 'ہاٹ ایف ایم 105' پر اظہر حسین نے 'آڈیشن' لیا، یوں 26 نومبر 2006ء کو ان کا پہلا پروگرام نشر ہوا۔ وہ کہتے ہیں ریڈیو پر کسی بناوٹ کے بغیر عام انداز میں بات کرتا ہوں، ہماری ادائی پروگرام کے حساب سے ہوتی۔ ہفتے کے چھے پروگرام سے ایک پروگرام کر دیا، لیکن ریڈیو سے وابستگی برقرار رکھی۔ 'پاکستانیت' کے موضوع پر سارا سال جاری رہنے والا پروگرام 'تم ہو پاسباں اس کے' ہر جمعرات کی رات 10 تا 12 گزشتہ نو سال سے جاری ہے۔
رضوان زیدی کہتے ہیں کہ میں 'سیاسی سٹائر' لکھنے والا دوسرا لکھاری ہوں۔ 'اے آر وائے' کے مباحثے 'ہم اور آپ' میں حاضرین کے طور پر شریک ہوا، 12 برس پہلے 'شائستہ اینڈ یو' سے چینلوں کے لیے لکھنا شروع کیا، رمضان کی نشریات کے 'مباحثوں' کے لیے کام کیا، مختلف ٹیلی فلم، ساحر لودھی کا پروگرام 'یہ شام تیرے نام' اور فیصل قریشی کا 'مسکراتی مورننگ' لکھا، 2009ء سے 'اے آر وائے' میں ہیں، ان دنوں 'سینئر کونٹینٹ مینجر' کی مسند پر ہیں۔ ہم نے آج کے چینلوں کے 'چلن' کا پوچھا تو وہ بولے کہ میں تو مسیحا ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہا، میں تو کر ہی ڈراما رہا ہوں۔
رضوان زیدی کہتے ہیں کہ کوئی سیاسی وابستگی نہیں، لیکن ووٹ ضرور دیتے ہیں، گھر میں فرنیچر پالش سے بڑھئی کا سارا کام وہ خود کرتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کی عزت کو ترقی کا راز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ والدہ سے چپلوں اور جھاڑوں سے خوب پٹا۔ پہلے ایک کا خوف ہوتا تھا، کہ 'آنے دو شام کو ابو کو!' وہی نسل انسان بنی ہے، والدین بے شک جلاد نہ بنیں، لیکن بچوں کو جواب دہی کا احساس ضرور ہو۔ میرے ایک دوست کے والد ناخواندہ تھے، لیکن کاپیوں پر سرخ دائرے دیکھ کر پکڑتے کہ یہ کیوں؟ بی اماں جیسی ماں کے شوکت علی جیسے بچے تھے، آج 'پی ایچ ڈی' کرنے کے باوجود اولاد کیسی ہے؟
رضوان زیدی کے بقول اگر بچپن کا دوست مصحف نہ ہوتا، تو میں آج اس مقام پر نہ ہوتا، وہ اور میرے باس علی عمران بہن کی بیماری میں ساتھ کھڑے رہے، یہ لوگ زندگی کا حاصل ہیں۔ فیس بک پر رابطے کافی سمجھنے والے وہیں رہیں، زندگی میں نہ آئیں۔ میرا رجحان مزاح کی طرف ہے، لیکن بہن کے سانحہ ارتحال کے بعد زندگی کے 'جوکر' کا گلا گھونٹ دیا ہے!
خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی برابری کے حامی رضوان زیدی کہتے ہیں سب رشتے متوازی ہیں۔ 18 سال تک بچے کی کفالت کا ذمہ مرد کا ہے، تو وہ بھی کہیں نہ کہیں مقام رکھنا چاہیے۔ ہم اپنی بیٹیوں کو گھونٹ کر رکھتے ہیں، پھر جہاں تازہ ہوا کا جھونکا ملتا ہے وہ بہک جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیٹیوں کو محبت دی جائے۔
٭جب نول کشور کی 'چتا' کو آگ ہی نہ لگی
رضوان زیدی نے بتایا کہ اُن کے دادا 'مدرسہ دیو بند' کے فارغ التحصیل تھے۔ ان کی 1901ءمیں دستار بندی ہوئی، وہ دستار آج بھی گھر میں محفوظ ہے۔ ہندوستان میں وہ مشہور زمانہ نول کشور پرنٹنگ پریس میں 'شعبہ قرآن' کے انچارج تھے۔ نول کشور نے نہ صرف اپنے اس شعبے میں سارے مسلمان رکھے، بلکہ ان کی تاکید تھی کہ کوئی 'قرآن سیکشن' میں بغیر وضو کے داخل نہیں ہوگا۔ جب نول کشور صاحب اس دنیا سے گزر گئے تو ہندو مت کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں، اس دوران سارے جتن کر لیے گئے، لیکن ان کے چتا (جسد) کو آگ نہیں لگی، بالآخر انہیں دفنایا گیا! کہتے ہیں کہ یہ مستند ترین بات ہے ، یہ والد نے اُن کے دادا نے سنی اور انہوں نے اپنے والد سے سنی ہے۔
٭نئے کپڑوں اور جوتے دیکھنے میں چاند رات کٹ جاتی تھی!
"ابھی تک غیر شادی شدہ کیوں؟" اس سوال پر رضوان زیدی کچھ جھجکے اور پھر بولے کہ "جس کو ہم نے مناسب سمجھا، اُس نے ہم کو مناسب نہیں سمجھا!"
"پھر آپ نے کسی کو بھی مناسب نہیں سمجھا؟" ہم بے ساختہ پوچھ بیٹھے، تو وہ بولے کہ کوئی مناسب سمجھ میں آئے گا تو بات آگے بڑھے گی، شادی مصدر ہے شاد کا، اور میں شاد ہوں۔ کوئی بھی سب کو خوش نہیں رکھ سکتا میں سب کو جواب دہ ہوں اور نہ مجھے کسی سے 'پاکستانیت 'کی سند نہیں چاہیے۔ آزادی ہمارے اجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے، پاکستانی برا ہو سکتا ہے، لیکن پاکستان نہیں جو برا ہے اسے ٹانگ دو! پاکستان میں مختلف ممالک کی سازشیں ہیں، لیکن ملک دشمنوں سے نمٹنے میں کوئی تفریق نہیں ہونا چاہیے۔
گفتگو ذاتی زندگی سے عام حالات پر آنکلی، وہ کہنے لگے کہ ہم نے قناعت کی زندگی دیکھی، آج تو مجبوری کا نام قناعت ہے۔ معاف کرنا تو وہ ہے جب آپ قدرت رکھتے ہوئے چھوڑیں۔ پہلے سب ایک جیسے تھے، سال میں دو جوڑے بنتے، ایک جمعة الوداع اور دوسرا عید کا۔ بقرعید پر یہ اختیار دیا جاتا تھا کہ دونوں میں سے کوئی بھی پہن لو۔ چاند رات تو ان جوڑوں اور جوتوں کو دیکھنے میں ہی کٹ جاتی کہ کل یہ پہننے ہیں۔ سارا بگاڑ معدوں میں لقمہ حرام پہنچنے سے آیا اور جب انسانی شخصیت کی موت ہو جائے تو وہ جدید سہولیات اور آلات سے متاثر کرتا ہے۔ پہلے کھلے ہوئے 'پوسٹ کارڈ' آتے تھے کوئی نہیں دیکھتا تھا، آج آپ موبائل کھول رہے ہوں تو دوسروں کی کھوج ہوتی ہے کہ پاس ورڈ دیکھ لیں۔ ہم دوسروں کی ذاتی معلومات چاہتے ہیں اور وہی سوال اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں۔
٭دراصل لوگوں کی اردو خراب ہوئی تو میں نمایاں ہوا!
ریڈیو پر انگریزی زدہ زبان کے بہ جائے شستہ اور ستھری اردو اختیار کرنے والے رضوان زیدی کہتے ہیں کہ اردو کسی مخصوص طبقے کی نہیں، بلکہ پاکستان کی قومی زبان ہے، مجھے اپنے ملک کی تمام زبانوں پر فخر ہے، لیکن اردو کو اس کا مقام نہیں ملا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اداکارہ میرا سے انگریزی کی توقع رکھتے ہیں، وہ غلط بولے تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ٹی وی پر مزاحیہ کرداروں سے بہترین اردو بلوا کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
رضوان زیدی کا خیال ہے کہ انہیں انگریزی نہیں آتی اور اردو بھی اچھی نہیں، دراصل لوگوں کی اردو خراب ہو گئی، اس لیے وہ 'نمایاں' ہوئے، کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے کہ فلاں صوبے نے اردو کی بہت خدمت کی، یہ تو ان کی ضرورت تھی۔ آپ اُن کی زبانوں میں دس ایسی شہرت یافتہ غزلیں دکھا دیں! آج اردو کے اگر کُل 500 شاعر ہیں، اگر وہ نہ ہوتے تو شاید 400 ہوتے، لیکن اگر یہ 100 اردو استعمال نہ کرتے، تو ان کا مقام کیا ہوتا۔ میں کسی کا قد چھوٹا نہیں کر رہا، لیکن اردو کے وسیلے نے بھی انہیں آگے پہنچایا۔ کوئی بھی زبان رکتی نہیں، یہ بہاﺅ ہے، کہیں نہ کہیں راستہ بنا لیتا ہے۔ کسی نے اردو میں کام کیا، تو اردو پر احسان نہیں، بلکہ یہ اردو کا اُن پر احسان تھا کہ جس کے ذریعے وہ معتبر ہوئے۔' ہم نے دیگر علاقوں کے دعوے کی بات کی؟ تو رضوان بولے کہ کوئی بھی علاقہ اگر خدمت کا دعویٰ کرتا ہے، تو وہ غلط ہے، اردو نہ ہوتی تو کسی بھی علاقے کے شعرا کا کیا نام ہوتا؟
٭10 سال تک ہاتھ سے لکھ کر تہنیتی کارڈ بھجوائے!
رضوان زیدی کہتے ہیں کہ میرا ادب وموسیقی سے شغف والد کے سبب ہے، والد نے لغت لاکر دی، جو لفظ اچھا لگتا اسے لکھتا اور پھر عام بول چال میں استعمال کرتا۔ ارشد جمال انصاری نے اس میں میری مدد کی۔' رضوان نے باقاعدہ خطاطی تو نہیں سیکھی، لیکن والد کے پریس میں اس کے بنیادی رموز سے واقف ہوگئے، وہ ہر سال عید، بقرعید اور سال نو پر اپنے ہاتھ سے تہنیتی کارڈ لکھ کر والد کے پریس سے چھپواتے اور دوستوں، رشتے داروں سمیت مختلف شخصیات کو 250 سے 350کارڈ بھیجتے، لیکن جواب صرف دو، تین کے آتے۔ جن میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے لازمی جواب دیا۔
1995ءتا 2005ءیہ مشق کی، ایک برس ناغہ کیا، تو فقط آٹھ، دس لوگوں نے ہی کمی محسوس کی، پھر اس مشق سے تھک گئے، کہتے ہیں کہ اب فیس بک پر کارڈ لگا کر رسم پوری کر دیتا ہوں، 'قسم' کے رشتے ساتھ ہوں، تو زندگی آسان ہو جاتی ہے اور رسم کا کیا ہے۔ روایتوں کی تبدیلی کے حوالے سے رضوان زیدی کہتے ہیں کہ پہلے خطوط اور عید کارڈ کے ذریعے قلبی لگاﺅ کا اظہار ہوتا تھا، جو آج 'وٹس ایپ' کے رسمی رابطے تک آگیا ہے، شاید آنے والے وقت میں ہم شاید ترسیں کہ کوئی بات کرنے والا ملے۔
٭جب ہماری ہڈیاں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں
مختلف سماجی سرگرمیوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے رضوان زیدی نے بتایا کہ 20، 25 برس پہلے ہم نے 'کراچی یوتھ آرگنائزیشن' کے تحت بچوں کی جیل میں 700 بچوں کے کھانے کا پروگرام کیا، لیکن دیکھا کہ بچے تو بیرکوں میں تھے اور پولیس کے اہل خانہ اور بچے آئے بیٹھے تھے!
مباحثے میں ردعمل کے سوال پر رضوان زیدی نے کہا کہ کئی بار پٹتے پٹتے بچے۔ 1995-96ءمیں 'این ای ڈی یونیورسٹی' کے آڈیٹوریم میں مباحثہ بہ عنوان 'بیلچے اٹھالینا ڈگریاں جلا دینا!" تھا۔ ایک مقرر نے یہ کہہ دیا کہ "جس کا گھر میں داخلہ بند ہوتا ہے، اسے وزیر داخلہ بنا دیا جاتا ہے۔" یہ سننا تھا کہ وہاں کشیدگی پھیل گئی اور ایک طلبہ تنظیم کے لڑکے نے وہا آکر پستول لوڈ کر لی ایسے میں 'اسلامی جمعیت طلبہ' سے وابستہ 'پاکستان ڈبیٹ کونسل' کے ایک رکن نے رینجرز سے جا کر بات کی، پھر رینجرز نے پورے آڈیٹوریم کو گھیرے میں لیا اور ہم وہاں سے سلامت نکل پائے۔
اُس دن ہماری تو ہڈیاں ٹوٹ جاتیں، لیکن ہمارے ساتھ طالبات بھی تھیں، جن کے والدین نے بھروسا کر کے ہمارے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر ہم نے 'این ای ڈی یونیورسٹی' میں متبادل راستوں سے طلبہ کو نکالا یہ بھی سنا گیا کہ 'نیپا چورنگی' کے قریب طلبہ تنظیم کے کارندے 'پوائنٹ' روک روک کر دیکھ رہے ہیں کہ کون تھا جس نے ایسا کہا ایک اور پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے رضوان زیدی نے بتایا کہ کچھ برس قبل جامعہ کراچی میں 17 سال بعد 'اے پی ایم ایس او' کا گولڈ میڈل مقابلہ ہوا، جس میں جمعیت سے وابستہ مرزا ثوبان بیگ نے پیلے رنگ کی 'رابعہ' کے نشان والی شرٹ پہنے ہوئے شرکت کی اور فاتح ہوئے۔ ثوبان کے والد لقمان بیگ لانڈھی سے جماعت اسلامی کے کارکن تھے، جو شہید ہوئے، جس میں ہو سکتا ہے 'ایم کیو ایم' ملوث ہو، لیکن پروگرام میں حیدر عباس رضوی نے انہیں انعام دیا اور کہا کہ طالب علم کسی بھی جماعت کا ہو، ہے کراچی کا!