کراچی میں بڑے جانوروں کے داخلے کی لائسنس فیس کی نیلامی میں گھپلا ہواٹرانسپیرنسی
گزشتہ سال 2011-12میں یہ حقوق 8کروڑ 15لاکھ روپے میں فروخت کیے گئے تھے۔ شکایت کنندہ
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی حدود میں بڑے جانوروں کے داخلے کے لائسنس کی فیس کی وصولی کے حقوق کی حالیہ نیلامی پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی نے چیف آفیسر ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے نام ایک خط میں کہا کہ 3جولائی 2013 کو شہر کے داخلی راستوں پر بڑے جانوروں کے داخلے اور ہیلتھ کلیرنس کے لائسنس پر فیس کے حقوق کی نیلامی کے حوالے سے سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں کیونکہ یہ حقوق مخصوص 8کروڑ روپے کی قیمت سے 60فیصد کم پر نیلام کیے گئے ہیں۔ ڈی سی کراچی نے 28جون2013کو نیلامی کا جو اشتہار دیا تھا اس میں قیمت کا تخمینہ 8کروڑ ظاہر کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں حقوق3کروڑ 32لاکھ 11ہزار روپے میں نیلام کردیے گئے جو اصل قیمت سے کہیں کم مالیت تھی۔
شکایت کنندہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال 2011-12میں یہ حقوق 8کروڑ 15لاکھ روپے میں فروخت کیے گئے تھے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ڈسٹرکٹ کونسل کے بعض عہدیداروں اور بولی دینے والی پارٹیوں نے ساز باز کی ہے۔ ٹرانسپیرنسی نے چیف آفیسر سے درخواست کی کہ وہ اس شکایت کا جائزہ لیں اور اگر یہ اعتراضات درست پائے جائیں تو میسرز ایس ڈی انٹرپرائزز کو دیا گیا ٹھیکہ منسوخ کردیا جائے اور بدعنوانی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی کی جائے۔
ٹرانسپیرنسی کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی نے چیف آفیسر ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے نام ایک خط میں کہا کہ 3جولائی 2013 کو شہر کے داخلی راستوں پر بڑے جانوروں کے داخلے اور ہیلتھ کلیرنس کے لائسنس پر فیس کے حقوق کی نیلامی کے حوالے سے سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں کیونکہ یہ حقوق مخصوص 8کروڑ روپے کی قیمت سے 60فیصد کم پر نیلام کیے گئے ہیں۔ ڈی سی کراچی نے 28جون2013کو نیلامی کا جو اشتہار دیا تھا اس میں قیمت کا تخمینہ 8کروڑ ظاہر کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں حقوق3کروڑ 32لاکھ 11ہزار روپے میں نیلام کردیے گئے جو اصل قیمت سے کہیں کم مالیت تھی۔
شکایت کنندہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال 2011-12میں یہ حقوق 8کروڑ 15لاکھ روپے میں فروخت کیے گئے تھے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ڈسٹرکٹ کونسل کے بعض عہدیداروں اور بولی دینے والی پارٹیوں نے ساز باز کی ہے۔ ٹرانسپیرنسی نے چیف آفیسر سے درخواست کی کہ وہ اس شکایت کا جائزہ لیں اور اگر یہ اعتراضات درست پائے جائیں تو میسرز ایس ڈی انٹرپرائزز کو دیا گیا ٹھیکہ منسوخ کردیا جائے اور بدعنوانی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی کی جائے۔