جرم چھوٹا نہیں تھا
انھیں پاناما کے رپورٹ کی روشنی میں اگر سزا دی بھی گئی تو دبئی میں ایک فرم کا اقامہ رکھنے پر
سپریم کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدرکی ضمانت برقرار رکھتے ہوئے سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی۔عدالت عظمیٰ نے قراردیا کہ حکم عبوری ہے، ہائی کورٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
یاد رہے پاناما لیکس کے منظرعام پر آجانے سے لے کر آج تک سابق وزیراعظم میاںنواز شریف اپنے اوپر لگائے گئے بے شمار الزامات کے تحت جزا وسزا کے جس قانونی عمل سے گزر رہے ہیں، اُس میں ابھی تک کرپشن اورمالی بدعنوانی سے متعلق ایک بھی شہادت ایسی نہیں ملی ، جسے عدالتی فیصلوں کی بنیاد بنایا جا سکے۔اپریل2017ء میں بنائی جانے والی جے آئی ٹی اور اُس کی رپورٹ کے تحت سپریم کورٹ سے 28ء جولائی 2017ء کو آنے والے فیصلے کے ذریعے فوراً سے پیشتر میاں صاحب کو نااہل قرار دیکر ایوان وزیراعظم سے بیدخل کرکے جی ٹی روڈ پر روانہ توکردیا لیکن استغاثہ کی جانب سے لگائے جانے والے کسی الزام کو درست اور صحیح ثابت نہیں کیا ۔
انھیں پاناما کے رپورٹ کی روشنی میں اگر سزا دی بھی گئی تو دبئی میں ایک فرم کا اقامہ رکھنے پر ۔ عدالت نے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا کام بعد ازاں نیب کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا اوراُسے اپنی نگرانی میں مقررہ ٹائم فریم میں رپورٹ تیارکرنے کا حکم بھی صادر فرمادیا ،مگر کرپشن کے ایسے ہی الزامات کے تحت ابھی حال ہی میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں بنائی جانے والی ایسی ہی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر آصف علی زرداری اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف نا اہلی کا فوری فیصلہ کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اُسے قانونی عمل سے گزارنے کے لیے نیب کے حوالے کردیا۔عدل وانصاف کے اِس دہرے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کے لیے یہ سمجھنا کوئی غلط اور بے جا نہیں ہوگاکہ میاں صاحب کا گناہ کوئی چھوٹا موٹا نہیں تھا۔وہ ہماری نادیدہ قوتوں کے لیے انتہائی ناپسندیدہ قرار دیے جاچکے تھے۔
پاناما لیکس کے 480 ملزمان میں میاں صاحب کا نام گرچہ براہ راست شامل بھی نہیں تھا لیکن فیصلہ کرنے والوں نے صرف انھیں اکیلے ہی عدالتی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ۔ باقی تمام ملزمان آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں اور میاں صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ میاں صاحب اور اُن کاخاندان کوئی نیا نیا امیر نہیں بنا تھا وہ پاکستان بننے سے پہلے بھی بہت بڑی جائیدادوں کے مالک تھے ۔ہمارے یہاں ایسے بہت سے مالدار لوگ آج بھی کسی عدالتی تحقیقات سے مبرا اور بچے ہوئے ہیں جن کا ذریعہ آمدنی مشکوک اور غیر واضح ہے۔ جہانگیر ترین کوئی جدی پشتی امیر نہیں تھے وہ پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ بننے سے پہلے لاہور کے ایک کالج میں صر ف لیکچرار تھے لیکن آج وہ اربوں اورکھربوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ عدالت نے گرچہ انھیں بھی نا اہل قرار دیدیا لیکن وہ کسی مزید تحقیقات یا نیب کی ذریعے کسی قانونی سزا کے حقدار نہیں گردانے گئے۔عدالت نے انھیں صرف نا اہل کرنے پر اکتفاکرکے قانونی خانہ پوری مکمل کردی۔ اُن سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ تم اِ تنے مختصر عرصے میں کیسے اتنے امیر بن گئے۔
میاں صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے آج اپنے جن جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں اُس میں اول ذکر اُن کی وہ خود سری اور خود اعتمادی تھی جس کی بدولت وہ اپنے سے بھی طاقتور حلقوں کوکسی خاطر میں لانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والا شخص ہی سب سے بڑا طاقتور حکمراں ہوتا ہے۔ اُن کی یہ خوش گمانی اُن کے آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کا سبب بن گئی۔ اُن کا دوسرا قصور بھی کوئی چھوٹا موٹا اور معمولی نہ تھا۔وہ اِس ملک کو خود کفالت اور خود انحصاری کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔
اپنے مختصر سے چار سالہ دور اقتدار میں انھوں نے نہ صرف کراچی شہر میں امن و امان بحال کروا دیا بلکہ اپنے نیک نیتی اوردرست حکمت عملی سے سارے ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ بھی کر دیا ۔ یہ دونوں کام اُن سے پہلے آنے والے کوئی بھی حکمراں نہیں کر سکے۔ عالمی اِسٹیبلشمنٹ کے لیے میاں صاحب پہلے ہی ناپسندیدہ حکمراں تھے ۔1998ء میں انھوں نے بل کلنٹن کی دھمکی اور تنبیہ کے باوجود ایٹمی دھماکے کرکے اِس ملک کو ایک نیوکلیئر اسٹیٹ کا درجہ دلوا دیا تھا اور اپنے اِس آخری دور میں توانائی کے بحران کو حل کرکے ملکی تعمیر وترقی کے ایسے منصوبے تشکیل دیے جن سے اِس ملک و قوم کے اپنے پیروں پرکھڑے ہونے اور عالمی طاقتوں کے شکنجے سے نکل جانے کے آثار پیدا ہونے لگے تھے۔
چین کے ساتھ باہمی روابط بڑھانے اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو تیزی سے روبہ عمل لانے کا جرم کوئی معمولی نہ تھا ۔دنیا کی سامراجی قوتیں پاکستان کو اتنا خود مختار اور مضبوط دیکھنا گوارا کر ہی نہیں سکتی تھیں۔ہماری ستر سالہ تاریخ میں جب کبھی ایسا موقعہ آیاکہ یہ ملک نااُمیدیوں اور مایوسیوں کے اندھیروں سے نکل کر روشن اور خوشحال راہوں پر گامزن ہونے لگاکوئی نہ کوئی سانحہ یا اندوہناک واقعہ رونما کردیاگیا کہ اِس سمت میں ساری کامیابیاں اورپیش رفتاریاں ،ناکامیوں اور نامرادیوں کے بھنور میں پھنس کر رہ گئیں۔
میاں صاحب کے دور میں موٹر ویز اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیرسے ہم تیزی سے ایک خوشحال مستقبل کی جانب بڑھنے لگے تھے۔ اسٹاک مارکیٹ دنیا کی امرجنگ مارکیٹ کاروپ دھارنے لگی تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے لگے تھے۔ افراط زر مسلسل کم ہورہا تھا۔ جی ڈی پی 6فیصدتک جا پہنچا تھا۔آئی ایم ایف کی بے ساکھیوں سے اِس قوم کو نجات مل چکی تھی ۔ یہ ساری صورتحال ہمارے دشمنوں کے لیے قطعی ناقابل قبول ہونے لگی تھیں۔ میاں صاحب کا اقتدار میں مزید رہنا اُن کے مفادات کے لیے شدید نقصان دہ تصورکیاجانے لگا ۔لہٰذا فیصلہ کیا گیاکہ انھیں فی الفور اور فورا ً سے پیشتر اقتدار سے ہٹا دیا جائے ۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے لوگ دانستہ وغیر دانستہ طور پر اِن غیر ملکی طاقتوں کے اہداف پورے کرنے میں معاون و مددگار بن گئے۔
آج اِس ملک کے افق پر ایک بار پھر مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایک غیر یقینی صورتحال کاعالم ہے۔کوئی ٹھوس تجویزاور منصوبہ زیرغور نہیں ہے۔ حکومت وقت کی ساری توانائی اور صلاحیت قرضے اور امداد حاصل کرنے میں صرف ہو رہی ہے۔کسی ملک سے ایک دو ارب مل جانے کو ہمارے حکمراں اپنی سب سے بڑی کامیابی تصورکر رہے ہیں۔ دوسری جانب نئے نئے ٹیکسوں کا بوجھ غریب عوام پر لاد کر مالیاتی خسارے پورے کیے جا رہے ہیں۔ روپے کی قیمت گرا کر بھی ہمارے ایکسپورٹ بڑھنے کی بجائے کم ہی ہوتی جارہی ہے۔
حکومت کی معاشی ماہرین پر مشتمل ٹیم ابھی تک کوئی جوہر نہیں دکھاسکی ہے۔ یہی وہ خطرناک صورتحال ہے جس کا خمیازہ ہماری قوم اگلے کئی سال تک بھگتی رہے گی۔میاں صاحب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے والوں کو اِس بات پر اطمینان تو ہوگیاکہ انھوں نے ایک خود سراور خود اعتماد شخص کو نشان عبرت بنادیا لیکن انھیں اِس بات کا قطعی احساس نہیں کہ اُن کے اِس طرز عمل نے اِس ملک و قوم کا کتنا بڑا نقصان کردیا ہے۔ نقصان میاں صاحب کے چلے جانے کا نہیں بلکہ اِس ملک کے تیزی سے دگرگوں ہوتے حالات کا ہے۔ ایک شخص کو جیل میںڈال کر کرپشن کا کتنا پیسہ ہم واپس لاپائے ہیں یا پھر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مالی بدعنوانی کا کیا تدارک کر پائے ہیں ۔
ہم تو ابھی تک اِس ملک سے ہونے والی غیر قانونی منی لانڈرنگ کو بھی نہیں روک پائے۔جتنا روپیہ ہم دوست ممالک سے قرضوں کی شکل میں حاصل کررہے ہیں اُس سے زیادہ پیسہ منی لانڈرنگ کی صورت میں قومی خزانے سے آج بھی نکلاجا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کی بجائے مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں۔کاسہ گدائی تھامے مجبور اور بے بس پاکستان ہماری دشمن قوتوں کے لیے انتہائی ضروری اور اہم تھا اور میاں صاحب کو اقتدار سے محروم کر کے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے ہیں۔میاں صاحب کے منطقی انجام سے انھیں اب کوئی دلچسپی نہیں اُن کامقصد اور ٹارگٹ بہرحال پورا ہوچکا ہے۔