سندھ حکومت کے خلاف سیاسی مہم میں دوبارہ تیزی آ گئی

ای سی ایل میں آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو زرداری سمیت 172 افراد کے نام شامل ہیں

ای سی ایل میں آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو زرداری سمیت 172 افراد کے نام شامل ہیں

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سندھ حکومت کے خلاف پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی سیاسی جماعتوں کی جو مہم سست پڑگئی تھی، اب اس میں دوبارہ تیزی آرہی ہے کیونکہ وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے حکم کی اپنی توضیح کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت 20 افراد کے نام اس ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، جو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں وفاقی وزارت داخلہ نے جاری کی تھی۔

اس ای سی ایل میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، بلاول بھٹو زرداری، سید مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام شامل ہیں، جن کے بارے میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ افراد جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ملوث ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور اتحادیوں کی سندھ حکومت کے خلاف مہم کیا رخ اختیار کرتی ہے کیونکہ اس مہم پر بعض ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی معاملات بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بعض اہم واقعات رونما ہوئے، جو سندھ حکومت کے مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے امریکی قونصل جنرل جو این ویگنر نے بلاول ہاؤس کراچی میں ملاقات کی۔ حروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے صدر پیر پگارا کی زیر صدارت گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کا اجلاس کنگری ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے دو روز بعد پیر پگارا نے خان گڑھ ضلع گھوٹکی جا کر جی ڈی اے کے رہنما سردار علی گوہر خان مہر سے ملاقات کی۔ حالانکہ سردار علی گوہر خان مہر دو دن قبل جی ڈی اے کے اجلاس میں بھی موجود تھے۔

سندھ اسمبلی نے صوبے میں جاری گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف اتفاق رائے سے مذمتی قرارداد منظور کر لی۔ یہ سارے واقعات وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد رونما ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے نئی صورت حال میں سندھ کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ 25 جنوری کو سندھ کا دورہ کر سکتے ہیں جبکہ ان کے دورے کی تیاری کے لئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری 15اور 16جنوری کو سندھ کا دورہ کر رہے ہیں۔


امریکی قونصل جنرل جو این ویگنر کی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے، جب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو مقدمات میں جکڑنے کی پوری منصوبہ بندی کرلی ہے اور پیپلز پارٹی کے قائدین کی گرفتاریوں کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ امریکی سفارت کاروں نے بلاول بھٹو زرداری سے ان معاملات پر ضرور بات کی ہوگی۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس ملاقات میں افغانستان کی صورت حال پر بھی بات ہوئی ہوگی کیونکہ امریکہ 17 سال بعد وہاں سے فوجی انخلاء کر رہا ہے۔ اسے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ پاکستان کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی بھی حمایت درکار ہے۔ پیپلز پارٹی افغان مسئلے کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی تجویز پر اپنے تحفظات رکھتی ہے۔ اس ملاقات کے اثرات کچھ دنوں کے بعد ظاہر ہو سکتے ہیں۔

دوسری طرف پیر پگارا کی زیر صدارت جی ڈی اے کا اجلاس کنگری ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس وفاقی کابینہ کی طرف سے پیپلز پارٹی کے بعض قائدین کے نام ای سی ایل سے نہ نکالنے کے فیصلہ کے بعد ہوا۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی حکومت کو گرانے کے لئے اپوزیشن ایک بار پھر سرگرم ہوگئی ہے لیکن اس اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ حالانکہ تحریک انصاف اور جی ڈی اے کی دیگر جماعتیں مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیر پگارا کو سید مراد علی شاہ کے خاندان سے ایک خاص نسبت ہے۔ اجلاس میں اگرچہ سرور علی گوہر خان مہر نے شرکت کی تھی لیکن پیر پگارا دو دن بعد ان سے ملنے خان گڑھ چلے گئے۔

شاید پیر پگارا یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ سندھ میں تبدیلی کی صورت میں سردار علی گوہر خان مہر وزیراعلیٰ کے لیے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار ہو سکتے ہیں بشرطیکہ سید مراد علی شاہ کی حکومت کو گرانے میں تحریک انصاف اور دیگر اتحادی خود کوشش کریں۔ پیر پگارا اس کوشش کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد وہ ساتھ رہیں گے۔ سردار علی گوہر خان مہر کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں۔ اپوزیشن کی ان کوششوں کے دوران سندھ اسمبلی نے گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف وفاقی حکومت کے خلاف مذمتی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔ یہ وفاقی حکومت کے لیے لمحہ فکر ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان سندھ کے دورے میں کیا کرتے ہیں۔ یہ ابھی کہنا قبل از وقت ہے۔ جی ڈی اے نے انہیں کہا ہے کہ وہ خان گڑھ میں سردار علی گوہر خان مہر کی رہائش گاہ پر وزیراعظم سے ملاقات کریں گے۔ سندھ حکومت کے خلاف اس مہم کے باوجود وفاقی حکومت کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ خصوصاً فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت میں توسیع ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے نوڈیرو میں ہونے والے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی، جس میں فوجی عدالتوں کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ افغانستان کا مسئلہ اور دیگر خارجی اور داخلی مسائل بھی ہیں۔ ان کے پیش نظر وفاقی حکومت سندھ حکومت کے خلاف کہاں تک جاسکتی ہے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
Load Next Story