متحدہ مشکل صورت حال سے نبرد آزما
رابطہ کمیٹی نے بی بی سی کے الزامات کو مسترد کر دیا
شہر قائد کی اہم سیاسی قوت متحدہ قومی موومنٹ اس وقت تاریخ کے ایک مشکل موڑ پر کھڑی محسوس ہوتی ہے۔
کچھ دن قبل قائد متحدہ الطاف حسین کی جانب سے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے شدید تحفظات ظاہر کیے گئے تھے، جب کہ رواں ہفتے بی بی سی کی جانب متحدہ پر نئے الزامات عاید کر دیے گئے ہیں، جس کے مطابق لندن پولیس کی جانب سے الطاف حسین کے گھر سے بھاری رقم کی برآمدگی کے بعد ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور تشدد پر اکسانے کے الزامات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے انسداد دہشت گردی یونٹ نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں 6 دسمبر 2012ء اور 18 جون 2013ء کو ان کے دفتر اور رہائش گاہ پر چھاپے مارے۔ متحدہ کے راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے رقم ملنے کی تصدیق کی، لیکن اس بات کو مسترد کیا کہ یہ رقم غیر قانونی طریقے سے لائی گئی ہے۔
بی بی سی ہی کے پروگرام نیوز نائٹ میں 2001ء میں الطاف حسین کی جانب سے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو لکھے گئے خط کو بھی سچا قرار دیا کہ جس میں انہوں نے پاکستان میں عسکریت پسندوں کی نشان دہی کے لیے تعاون کی پیش کش کی تھی۔ اس ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ متحدہ کے علاوہ برطانوی حکومت بھی ہمیشہ اس خط کی تردید کرتی رہی ہے۔ تاہم بی بی سی کا موقف اس کے برعکس سامنے آیا ہے۔
دوسری طرف متحدہ مخالف تند وتیز بیانات سے شہرت پانے والے سابق وزیر داخلہ سندھ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے صدر آصف زرداری کی اس ہدایت یا حکم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے، جس میں انہوں نے برطانوی پولیس سے نہ ملنے کا کہا گیا۔ کافی عرصے منظر نامے سے پرے رہنے کے بعد ذوالفقار مرزا کی لندن روانگی بھی متحدہ کے خلاف ثبوت دینے سے ہی متعلق کہی جا رہی ہے۔ 2011ء میں انہوں نے میٹرو پولیس کو متحدہ کے حوالے سے کچھ شواہد اور دستاویز دی تھیں۔ خاندانی ذرایع سے سامنے آنے والی خبروں کے مطابق وہ لندن میں قیام کے دوران برطانوی پولیس سے ملاقاتیں کریں گے۔
نئی پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے متحدہ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ بی بی سی کی رپورٹ سے اب متحدہ کے خلاف عالمی سازش کا یقین ہو گیا ہے۔ ایک اخباری کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ کارکنوں کو الطاف حسین سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اچھا ہوتا کہ بی بی سی جیسا ذمہ دار ادارہ پروپیگنڈے کے بہ جائے صحافتی اصولوں کے مطابق ایم کیو ایم کا بھی موقف لے لیتا۔
ڈاکٹر خالد مقبول نے 10 جولائی کو بی بی سی پر ایم کیو ایم کے حوالے سے نشر ہونے والے پروگرام کے حوالے سے کہا کہ اس میں الطاف حسین کی تقاریر کے کچھ حصے سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیے گئے ہیں، جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں متحدہ کی پارلیمانی راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے لندن سے واپسی پر ذرایع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں متحدہ کے خلاف اب تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ عالمی ذرایع ابلاغ کو بھی ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
متحدہ کے مرکزی راہ نما نے صحافیوں کو بتایا کہ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کے افسران سے ملاقات میں انہیں باور کرایا ہے کہ انہیں گُم راہ کیا جا رہا ہے۔ الطاف حسین تو دور کی بات، میٹروپولیٹن پولیس نے نہ تو ایم کیو ایم کے کسی راہ نما کو گرفتار کیا اور نہ ہی فرد جرم عاید کی۔ فاروق ستار نے ایک اور جگہ کہا کہ مائنس الطاف حسین کا خواب دیکھنے والے شرمندہ ہوں گے۔ بغیر ثبوت کے الزام لگانا میڈیا ٹرائل ہی ہے، جس کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بی بی سی نے ایم کیو ایم سے متعلق مکمل رپورٹ ویب سائٹ پر شایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی دباؤ کو رد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایسا اپنے وکیل سے مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ پر اس بار لگائے جانے والے الزامات کی نوعیت پہلے سے خاصی مختلف نظر آتی ہے، کیوں کہ اس کا محرک برطانوی ذرایع ابلاغ ہیں۔
شہر کی اس تمام صورت حال کے دوران سندھ کابینہ میں توسیع کا عمل بھی انجام پا گیا، جس کے بعد صوبائی کابینہ میں وزرا کی تعداد 16 ہو چکی ہے۔ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد کابینہ اراکین کی تعداد18 تک محدود کردی گئی ہے۔ اس تعلق سے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب متحدہ کے حکومت میں شمولیت کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں، جب کہ متحدہ ابھی اپنے داخلی معاملات میں الجھی ہوئی ہے، اس لیے شاید حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا معاملہ خاصا پیچھے چلا گیا ہے۔
لیاری میں جاری مسلسل بد امنی اور دہشت گردی کے ستائے لوگوں کی اندرون سندھ نقل مکانی کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے صورت حال کا نوٹس لیا گیا، جس کے بعد وفاقی سیکریٹری داخلہ قمر الزماں چوہدری اور ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان نے لیاری کا مختصر دورہ کیا۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد ٹیم اسلام آباد روانہ ہوگئی، جہاں وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔
وزیر اعلا سندھ سید قائم علی شاہ نے یہ شکوہ کیا کہ لیاری پر وزیراعظم کی کمیٹی مجھ سے ملے بغیر ہی چلی گئی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بدا منی کیس کی سماعت بھی ہوئی۔ اس موقع پر رینجرز کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ لیاری میں کچھی برادری اور گینگ وار ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ جس کے باعث لیاری میں بد امنی ہے۔ رینجرز نے بتایا کہ 18 مئی سے لیاری میں خصوصی آپریشن جاری کر رکھا ہے۔ رپورٹ میں سال کی پہلی سہ ماہی میں اہدافی قتل میں کمی اور کئی نو گو ایریاز کے خاتمے کا دعوا بھی کیا گیا۔
جماعت اسلامی بنگلادیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کو 90 برس کی سزا سنائے جانے کے خلاف کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا۔ مظاہرے سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے کہا کہ انہیں پاکستان دوستی کی سزا دی جا رہی ہے۔ پروفیسر غلام اعظم سمیت جماعت اسلامی بنگلا دیش کے دیگر تمام راہ نماؤں کو دی جانے والی سزائیں کالعدم قرار دی جائیں۔
محمد حسین محنتی نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ بنگلادیشی حکومت پر سزا واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اقوام متحدہ اور او آئی سی سے بھی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ جماعت اسلامی کے راہ نما نسیم صدیقی نے کہا کہ پروفیسر غلام اعظم کا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوںنے پاکستان کو دولخت کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کی لیکن افسوس کہ آج حکومت اور ذرایع ابلاغ سب خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
کچھ دن قبل قائد متحدہ الطاف حسین کی جانب سے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے شدید تحفظات ظاہر کیے گئے تھے، جب کہ رواں ہفتے بی بی سی کی جانب متحدہ پر نئے الزامات عاید کر دیے گئے ہیں، جس کے مطابق لندن پولیس کی جانب سے الطاف حسین کے گھر سے بھاری رقم کی برآمدگی کے بعد ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور تشدد پر اکسانے کے الزامات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے انسداد دہشت گردی یونٹ نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں 6 دسمبر 2012ء اور 18 جون 2013ء کو ان کے دفتر اور رہائش گاہ پر چھاپے مارے۔ متحدہ کے راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے رقم ملنے کی تصدیق کی، لیکن اس بات کو مسترد کیا کہ یہ رقم غیر قانونی طریقے سے لائی گئی ہے۔
بی بی سی ہی کے پروگرام نیوز نائٹ میں 2001ء میں الطاف حسین کی جانب سے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو لکھے گئے خط کو بھی سچا قرار دیا کہ جس میں انہوں نے پاکستان میں عسکریت پسندوں کی نشان دہی کے لیے تعاون کی پیش کش کی تھی۔ اس ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ متحدہ کے علاوہ برطانوی حکومت بھی ہمیشہ اس خط کی تردید کرتی رہی ہے۔ تاہم بی بی سی کا موقف اس کے برعکس سامنے آیا ہے۔
دوسری طرف متحدہ مخالف تند وتیز بیانات سے شہرت پانے والے سابق وزیر داخلہ سندھ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے صدر آصف زرداری کی اس ہدایت یا حکم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے، جس میں انہوں نے برطانوی پولیس سے نہ ملنے کا کہا گیا۔ کافی عرصے منظر نامے سے پرے رہنے کے بعد ذوالفقار مرزا کی لندن روانگی بھی متحدہ کے خلاف ثبوت دینے سے ہی متعلق کہی جا رہی ہے۔ 2011ء میں انہوں نے میٹرو پولیس کو متحدہ کے حوالے سے کچھ شواہد اور دستاویز دی تھیں۔ خاندانی ذرایع سے سامنے آنے والی خبروں کے مطابق وہ لندن میں قیام کے دوران برطانوی پولیس سے ملاقاتیں کریں گے۔
نئی پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے متحدہ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ بی بی سی کی رپورٹ سے اب متحدہ کے خلاف عالمی سازش کا یقین ہو گیا ہے۔ ایک اخباری کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ کارکنوں کو الطاف حسین سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اچھا ہوتا کہ بی بی سی جیسا ذمہ دار ادارہ پروپیگنڈے کے بہ جائے صحافتی اصولوں کے مطابق ایم کیو ایم کا بھی موقف لے لیتا۔
ڈاکٹر خالد مقبول نے 10 جولائی کو بی بی سی پر ایم کیو ایم کے حوالے سے نشر ہونے والے پروگرام کے حوالے سے کہا کہ اس میں الطاف حسین کی تقاریر کے کچھ حصے سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیے گئے ہیں، جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں متحدہ کی پارلیمانی راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے لندن سے واپسی پر ذرایع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں متحدہ کے خلاف اب تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ عالمی ذرایع ابلاغ کو بھی ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
متحدہ کے مرکزی راہ نما نے صحافیوں کو بتایا کہ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کے افسران سے ملاقات میں انہیں باور کرایا ہے کہ انہیں گُم راہ کیا جا رہا ہے۔ الطاف حسین تو دور کی بات، میٹروپولیٹن پولیس نے نہ تو ایم کیو ایم کے کسی راہ نما کو گرفتار کیا اور نہ ہی فرد جرم عاید کی۔ فاروق ستار نے ایک اور جگہ کہا کہ مائنس الطاف حسین کا خواب دیکھنے والے شرمندہ ہوں گے۔ بغیر ثبوت کے الزام لگانا میڈیا ٹرائل ہی ہے، جس کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بی بی سی نے ایم کیو ایم سے متعلق مکمل رپورٹ ویب سائٹ پر شایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی دباؤ کو رد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایسا اپنے وکیل سے مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ پر اس بار لگائے جانے والے الزامات کی نوعیت پہلے سے خاصی مختلف نظر آتی ہے، کیوں کہ اس کا محرک برطانوی ذرایع ابلاغ ہیں۔
شہر کی اس تمام صورت حال کے دوران سندھ کابینہ میں توسیع کا عمل بھی انجام پا گیا، جس کے بعد صوبائی کابینہ میں وزرا کی تعداد 16 ہو چکی ہے۔ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد کابینہ اراکین کی تعداد18 تک محدود کردی گئی ہے۔ اس تعلق سے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب متحدہ کے حکومت میں شمولیت کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں، جب کہ متحدہ ابھی اپنے داخلی معاملات میں الجھی ہوئی ہے، اس لیے شاید حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا معاملہ خاصا پیچھے چلا گیا ہے۔
لیاری میں جاری مسلسل بد امنی اور دہشت گردی کے ستائے لوگوں کی اندرون سندھ نقل مکانی کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے صورت حال کا نوٹس لیا گیا، جس کے بعد وفاقی سیکریٹری داخلہ قمر الزماں چوہدری اور ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان نے لیاری کا مختصر دورہ کیا۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد ٹیم اسلام آباد روانہ ہوگئی، جہاں وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔
وزیر اعلا سندھ سید قائم علی شاہ نے یہ شکوہ کیا کہ لیاری پر وزیراعظم کی کمیٹی مجھ سے ملے بغیر ہی چلی گئی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بدا منی کیس کی سماعت بھی ہوئی۔ اس موقع پر رینجرز کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ لیاری میں کچھی برادری اور گینگ وار ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ جس کے باعث لیاری میں بد امنی ہے۔ رینجرز نے بتایا کہ 18 مئی سے لیاری میں خصوصی آپریشن جاری کر رکھا ہے۔ رپورٹ میں سال کی پہلی سہ ماہی میں اہدافی قتل میں کمی اور کئی نو گو ایریاز کے خاتمے کا دعوا بھی کیا گیا۔
جماعت اسلامی بنگلادیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کو 90 برس کی سزا سنائے جانے کے خلاف کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا۔ مظاہرے سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے کہا کہ انہیں پاکستان دوستی کی سزا دی جا رہی ہے۔ پروفیسر غلام اعظم سمیت جماعت اسلامی بنگلا دیش کے دیگر تمام راہ نماؤں کو دی جانے والی سزائیں کالعدم قرار دی جائیں۔
محمد حسین محنتی نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ بنگلادیشی حکومت پر سزا واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اقوام متحدہ اور او آئی سی سے بھی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ جماعت اسلامی کے راہ نما نسیم صدیقی نے کہا کہ پروفیسر غلام اعظم کا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوںنے پاکستان کو دولخت کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کی لیکن افسوس کہ آج حکومت اور ذرایع ابلاغ سب خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔