خود غرضی بے حسی اورسفاکی کے شاہکار
ہمارے نزدیک درندہ صفت انسان وہ خودکش بمبار ہے جو اپنے ساتھ ساتھ کئی زندگیاں بھی ختم کر ڈالتا ہے۔۔۔
کیا ایسا انسان جو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویدار ہو وہ بے رحم، بے حس اور خود غرض ہو سکتا ہے؟ اللہ سے محبت کرنے والے کے اندر اس کے رحیم و رحمن کی صفات کا کچھ رنگ تو ہونا ہی چاہیے۔ جس دن سے اس سوال نے جنم لیا ہے زندگی میں بھونچال سا آ گیا ہے۔ سوال اگر نا آسودہ رہے تو زندگی صرف سانس کی آمد و رفت کا نام رہ جاتی ہے۔ کار دنیا سب عبث لگتا ہے۔ ہم بے رحم و سفاک انسان صرف اس فرد کو سمجھتے ہیں، جن کی گولیوں کا نشانہ معصوم لوگ بن رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک درندہ صفت انسان وہ خودکش بمبار ہے جو اپنے ساتھ ساتھ کئی زندگیاں بھی ختم کر ڈالتا ہے۔ ہم اذیت پسند اس شخص کو گردانتے ہیں، کوستے ہیں، بد دعائیں دیتے ہیں جو دن دہاڑے لوٹ مار کرتا ہے۔ کسی کا موبائل چھین لیا، کسی کی رقم، کسی سے زیورات اتروا لیے تو کسی کی گاڑی چھین لی۔ بلا شبہ یہ سب بے رحمی و سفاکی ہے لیکن ... پھر وہی لیکن؟ ہاں! یہ سب ہے بے رحمی و سفاکی، لیکن ایک اطمینان ہے اور وہ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی اللہ رب العزت سے محبت کا دعوے دار نہیں۔ ان میں سے کسی کو شاید ہی رب کو جواب دہی کا خوف ہو ان کو تو شاید یہ بھی علم نہیں کہ ایک دن اُس کے حضور پیش ہونا اس کا سامنا کرنا ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ جو رب سے محبت کا دعوے دار ہو وہ بے رحم و سفاک کیسے ہو سکتا ہے؟ اُ س کی محبت کا دم بھرنے والا قدم قدم پہ جھوٹ، دھوکا دہی سے کیسے کام لے سکتا ہے؟ کس طرح اس کی بتائی ہوئی حدود کو پامال کر سکتا ہے، اس کی قدروں کو روند سکتا ہے؟ سوال سے ایک اور سوال جنم لیتا اور پھر سوالات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
بے رحمی صرف انسانوں کو قتل کرنا، لوٹ مار کرنا، ان کے حقوق سلب کرنا نہیں بے رحمی و سفاکی کی حد تو یہ ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو، اپنے قریبی عزیز رشتوں کو اپنی جھوٹی انا، جھوٹی محبت اور جھوٹے وعدوں کی بھینٹ چڑھائیں۔ اپنی وہ حرص جنھیں ہم خواہشات کا نام دیتے ہیں اس کی تسکین، اس کے حصول کے لیے اپنے ہر رشتے، ہر چاہت، اپنی اقدار و روایات کو پامال کر دیں۔ ہاں یہ بھی سفاکی کی ایک قسم ہے جو زیادہ اذیت ناک ہے۔ انسان کو پل پل مارتی، لمحہ لمحہ اذیت میں مبتلا رکھتی ہے اس کا ہر لمحہ درد سے پر ہوتا ہے، اس کی ہر سوچ کرب ناک ہوتی ہے، اس کی آنکھ ہر لمحہ نم رہتی ہے۔ یہ ہے سفاکی کی انتہا۔ کوئی ہم پر اعتماد کرے، اعتبار کرے، یقین کرے ہم بار بار اس کے اعتماد کو بداعتمادی، یقین کو بے یقینی میں بدلتے رہیں۔ کوئی ہمیں دوست سمجھے ہم اس کے لیے آستین کا سانپ بن جائیں۔
کوئی ہمیں غم گسار سمجھ کے اپنے دکھ بانٹیں ہم اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑک دیں یہ ہے اصل سفاکی اور انتہا درجے کی بے رحمی، جب ہم جیتے جاگتے وجودوں کو چلتی پھرتی زندہ لاشوں میں تبدیل کر دیں او ر اس گمان میں رہیں کہ ہم حق پر ہیں۔ ہم دعویٰ کریں رب سے محبت کا، مخلوق سے محبت کا اور اسی مخلوق کے لیے ہم اذیت کا باعث بن جائیں کسی کو ہم پھول دیں تو کسی کے لیے ہم خار بچھا دیں۔ اللہ تعالیٰ کو تو توازن پسند ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں توازن، زندگی کے ہر فیصلے میں عدل تا کہ ہم خود سے منسلک ہر فرد کے ساتھ انصاف کا، عدل کا، رحم کا معاملہ کر سکیں۔
توازن کہتے ہیں ہر ایک کے حقوق کے احترام اس کی ادائیگی کو۔ خواہشات سب کی ہوتی ہیں، آرزوئیں سب رکھتے ہیں اس کے حصول کے لیے اپنے فرائض کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں تو تمام قدریں پامال ہو جاتی ہیں۔ حقوق و فرائض کی ادائیگی محبت پیدا کرتی ہے جب کہ پامالی نفرت۔ زند گی کے ہر معا ملے میں توازن و اعتدال رہے تو زندگی کا حُسن برقرار رہتا ہے۔ کسی کو دوست کہیں، رفیق کہیں پھر اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسے استعمال کریں جو اپنے دوستوں سے اپنے اقرباء سے وفا نہیں کر سکتا وہ زندگی میں کبھی بھی اپنے آپ سے وفا نہیں کر سکے گا۔
امانت میں خیانت کرنے والا انسان سکون نہیں پا سکتا، لوگوں کی معصومیت و اعتماد سے کھیلنے والے فرد کو خوشیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بظاہر نظر آنے والی خوشیاں نظر کا فریب ہیں ضمیر کی آواز پر کان دھریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر کی تنہائیاں چیخ چیخ کر ہمیں اپنے غلط ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ ہم سب اپنی ذات کے پجاری بن گئے ہیں، ہم بس اپنی پرستش کر رہے ہیں، خود ستائی و خود فریبی کا شکار ہو کر ایسے ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جن سے صرف ہم نہیں ہم سے وابستہ کئی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ وقت گزر جاتا، زندگی اپنی ڈگر پر آ جاتی ہے زخم بھر جاتے ہیں، لیکن جو گھاؤ ہم اپنے رویوں اور اپنی زبانوں سے انسانوں کو دیتے ہیں ان سے تا عمر لہو رستا رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وقتی و لمحاتی خوشیوں کے لیے خود کو حاصل و محرومی کے خوف سے نجات دلائیں۔
انفرادی مقصد کا حصول انسان کو تنہا کر دیتا ہے سامنے دکھائی دینے والی کامیابی کے پیچھے بڑے آنسو اور دکھ پوشیدہ ہوتے ہیں خود کو اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے وقف کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ ضرورت کے سودے اور جذبوں سے عاری رشتوں اور ملاقاتوں کے سلسلوں کو ختم کر کے رشتوں کے تقدس کا احیاء کریں یہ جب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے ساتھ، اپنے رب کے ساتھ مخلص ہوں ہر کام میں اللہ کی بتائی ہوئی حدود و قیود کا خیال رکھیں اپنے نفس کو شر اور ظلم سے بچانے کی کوشش کریں۔ انسان ظلم کو تو بھول سکتا، معاف کر سکتا ہے ظالم کو نہیں۔ سکون اور خوشیاں بانٹنے والا فرد دوسروں کی خوشیوں اور سکون کا احترام کرتا ہے۔ یہ ہے سمجھنے اور کرنے کا کام انسان کا انسانیت پر سے اعتبار اٹھ رہا ہے ہر فرد دوسرے سے خوف زدہ ہے کہ کہیں یہ ہمیں استعمال تو نہیں کر رہا، اس کے کوئی مذموم مقاصد تو نہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم مکمل اخلاص کے ساتھ اللہ رب العزت کو اپنا سہارا بنائیں اور خود کو خلق ِ خدا کے لیے وقف کر دیں کہ مسلمان کی تو صفت ہی یہی ہے کہ وہ لیتا کم اور دیتا زیادہ ہے۔
کوئی اس دور میں وہ آئینے تقسیم کرے
جن میں باطن بھی نظر آتا ہو ظاہر کی طرح
ہمارے نزدیک درندہ صفت انسان وہ خودکش بمبار ہے جو اپنے ساتھ ساتھ کئی زندگیاں بھی ختم کر ڈالتا ہے۔ ہم اذیت پسند اس شخص کو گردانتے ہیں، کوستے ہیں، بد دعائیں دیتے ہیں جو دن دہاڑے لوٹ مار کرتا ہے۔ کسی کا موبائل چھین لیا، کسی کی رقم، کسی سے زیورات اتروا لیے تو کسی کی گاڑی چھین لی۔ بلا شبہ یہ سب بے رحمی و سفاکی ہے لیکن ... پھر وہی لیکن؟ ہاں! یہ سب ہے بے رحمی و سفاکی، لیکن ایک اطمینان ہے اور وہ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی اللہ رب العزت سے محبت کا دعوے دار نہیں۔ ان میں سے کسی کو شاید ہی رب کو جواب دہی کا خوف ہو ان کو تو شاید یہ بھی علم نہیں کہ ایک دن اُس کے حضور پیش ہونا اس کا سامنا کرنا ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ جو رب سے محبت کا دعوے دار ہو وہ بے رحم و سفاک کیسے ہو سکتا ہے؟ اُ س کی محبت کا دم بھرنے والا قدم قدم پہ جھوٹ، دھوکا دہی سے کیسے کام لے سکتا ہے؟ کس طرح اس کی بتائی ہوئی حدود کو پامال کر سکتا ہے، اس کی قدروں کو روند سکتا ہے؟ سوال سے ایک اور سوال جنم لیتا اور پھر سوالات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
بے رحمی صرف انسانوں کو قتل کرنا، لوٹ مار کرنا، ان کے حقوق سلب کرنا نہیں بے رحمی و سفاکی کی حد تو یہ ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو، اپنے قریبی عزیز رشتوں کو اپنی جھوٹی انا، جھوٹی محبت اور جھوٹے وعدوں کی بھینٹ چڑھائیں۔ اپنی وہ حرص جنھیں ہم خواہشات کا نام دیتے ہیں اس کی تسکین، اس کے حصول کے لیے اپنے ہر رشتے، ہر چاہت، اپنی اقدار و روایات کو پامال کر دیں۔ ہاں یہ بھی سفاکی کی ایک قسم ہے جو زیادہ اذیت ناک ہے۔ انسان کو پل پل مارتی، لمحہ لمحہ اذیت میں مبتلا رکھتی ہے اس کا ہر لمحہ درد سے پر ہوتا ہے، اس کی ہر سوچ کرب ناک ہوتی ہے، اس کی آنکھ ہر لمحہ نم رہتی ہے۔ یہ ہے سفاکی کی انتہا۔ کوئی ہم پر اعتماد کرے، اعتبار کرے، یقین کرے ہم بار بار اس کے اعتماد کو بداعتمادی، یقین کو بے یقینی میں بدلتے رہیں۔ کوئی ہمیں دوست سمجھے ہم اس کے لیے آستین کا سانپ بن جائیں۔
کوئی ہمیں غم گسار سمجھ کے اپنے دکھ بانٹیں ہم اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑک دیں یہ ہے اصل سفاکی اور انتہا درجے کی بے رحمی، جب ہم جیتے جاگتے وجودوں کو چلتی پھرتی زندہ لاشوں میں تبدیل کر دیں او ر اس گمان میں رہیں کہ ہم حق پر ہیں۔ ہم دعویٰ کریں رب سے محبت کا، مخلوق سے محبت کا اور اسی مخلوق کے لیے ہم اذیت کا باعث بن جائیں کسی کو ہم پھول دیں تو کسی کے لیے ہم خار بچھا دیں۔ اللہ تعالیٰ کو تو توازن پسند ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں توازن، زندگی کے ہر فیصلے میں عدل تا کہ ہم خود سے منسلک ہر فرد کے ساتھ انصاف کا، عدل کا، رحم کا معاملہ کر سکیں۔
توازن کہتے ہیں ہر ایک کے حقوق کے احترام اس کی ادائیگی کو۔ خواہشات سب کی ہوتی ہیں، آرزوئیں سب رکھتے ہیں اس کے حصول کے لیے اپنے فرائض کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں تو تمام قدریں پامال ہو جاتی ہیں۔ حقوق و فرائض کی ادائیگی محبت پیدا کرتی ہے جب کہ پامالی نفرت۔ زند گی کے ہر معا ملے میں توازن و اعتدال رہے تو زندگی کا حُسن برقرار رہتا ہے۔ کسی کو دوست کہیں، رفیق کہیں پھر اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسے استعمال کریں جو اپنے دوستوں سے اپنے اقرباء سے وفا نہیں کر سکتا وہ زندگی میں کبھی بھی اپنے آپ سے وفا نہیں کر سکے گا۔
امانت میں خیانت کرنے والا انسان سکون نہیں پا سکتا، لوگوں کی معصومیت و اعتماد سے کھیلنے والے فرد کو خوشیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بظاہر نظر آنے والی خوشیاں نظر کا فریب ہیں ضمیر کی آواز پر کان دھریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر کی تنہائیاں چیخ چیخ کر ہمیں اپنے غلط ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ ہم سب اپنی ذات کے پجاری بن گئے ہیں، ہم بس اپنی پرستش کر رہے ہیں، خود ستائی و خود فریبی کا شکار ہو کر ایسے ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جن سے صرف ہم نہیں ہم سے وابستہ کئی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ وقت گزر جاتا، زندگی اپنی ڈگر پر آ جاتی ہے زخم بھر جاتے ہیں، لیکن جو گھاؤ ہم اپنے رویوں اور اپنی زبانوں سے انسانوں کو دیتے ہیں ان سے تا عمر لہو رستا رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وقتی و لمحاتی خوشیوں کے لیے خود کو حاصل و محرومی کے خوف سے نجات دلائیں۔
انفرادی مقصد کا حصول انسان کو تنہا کر دیتا ہے سامنے دکھائی دینے والی کامیابی کے پیچھے بڑے آنسو اور دکھ پوشیدہ ہوتے ہیں خود کو اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے وقف کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ ضرورت کے سودے اور جذبوں سے عاری رشتوں اور ملاقاتوں کے سلسلوں کو ختم کر کے رشتوں کے تقدس کا احیاء کریں یہ جب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے ساتھ، اپنے رب کے ساتھ مخلص ہوں ہر کام میں اللہ کی بتائی ہوئی حدود و قیود کا خیال رکھیں اپنے نفس کو شر اور ظلم سے بچانے کی کوشش کریں۔ انسان ظلم کو تو بھول سکتا، معاف کر سکتا ہے ظالم کو نہیں۔ سکون اور خوشیاں بانٹنے والا فرد دوسروں کی خوشیوں اور سکون کا احترام کرتا ہے۔ یہ ہے سمجھنے اور کرنے کا کام انسان کا انسانیت پر سے اعتبار اٹھ رہا ہے ہر فرد دوسرے سے خوف زدہ ہے کہ کہیں یہ ہمیں استعمال تو نہیں کر رہا، اس کے کوئی مذموم مقاصد تو نہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم مکمل اخلاص کے ساتھ اللہ رب العزت کو اپنا سہارا بنائیں اور خود کو خلق ِ خدا کے لیے وقف کر دیں کہ مسلمان کی تو صفت ہی یہی ہے کہ وہ لیتا کم اور دیتا زیادہ ہے۔
کوئی اس دور میں وہ آئینے تقسیم کرے
جن میں باطن بھی نظر آتا ہو ظاہر کی طرح