ملالہ اندھیرے میں جگنو
گہری تاریکی ہو، گھنا جنگل ہو، جس میں خونخوار درندے ہونکتے ہوں، روشنی کی رمق نظر نہ آتی ہو...
گہری تاریکی ہو، گھنا جنگل ہو، جس میں خونخوار درندے ہونکتے ہوں، روشنی کی رمق نظر نہ آتی ہو، ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کوئی جگنو اڑتا ہوا گزر جائے تو محسوس ہوتا ہے جیسے روشنی کا کوندا لپک گیا ہو۔
بہت دنوں سے ہم ایک ایسے ہی عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ صرف بری خبریں ہمارے کانوں تک پہنچتی ہیں۔ ہر طرف خون کے تھالے ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب ارفع کریم نے اپنی ذہانت کا لوہا منوایا تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔ وہ اندھیری رات میں امید کا ستارہ تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ 'خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود' کی تصویر بن کر آخری سفر پر روانہ ہوگئی۔ اس کی ناوقت موت کا ہم سب نے سوگ منایا۔
اور پھر اچانک مینگورا، سوات کے افق پر ایک ستارہ طلوع ہوا ۔ بارہ برس کی ایک بچی جو 'گل مکئی' کے فرضی نام سے اپنے علاقے کے لوگوں اور بہ طور خاص وہاں کی لڑکیوں اور عورتوں پر گزرنے والے ستم کی روداد لکھ رہی تھی۔ اس کی یہ ڈائری علاقے میں کام کرنے والے بی بی سی کے نمائندے کے ہاتھ لگی اور اس کی اردو ویب سائٹ پر نمودار ہوئی۔ امن اور تعلیم کی بات کرنے والی یہ بچی لوگوں کو حیران کرگئی۔ وہ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ 2009 میں اسے اپنے علاقے سے جانا پڑا تھا اسی وقت اس نے اپنی ٹیڑھی میڑھی تحریر میںایک ڈائری لکھنی شروع کی تھی۔ 'گل مکئی' کے نام سے لکھی جانے والی اس ڈائری کی شہرت کو پر لگ گئے۔ صحافی یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ انتہا پسند جن کے نام سے اچھے اچھوں کے چہرے زرد پڑ جاتے ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھانے والی یہ کون لڑکی ہے اور کس طرح وہ یہ باتیں لکھ رہی ہے۔
کچھ لوگوں کو یہ گمان بھی گزرا کہ شاید امن، تعلیم اور سب کے لیے خوشحالی کی آرزو، کسی کم عمر لڑکی کے نام سے یہ کام کوئی اور کررہا ہے لیکن آہستہ آہستہ سب ہی جان گئے کہ 'گل مکئی' دراصل سوات کی 'ملالہ' ہے۔ مقامی صحافیوں نے بی بی سی کے لیے اس کے انٹرویو کیے۔ بلاگ پر اس کی ڈائری کے جملے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ایسے علاقے میں امن کا اور بچوں کی تعلیم کے حق کا استعارہ بن گئی جہاں ہر طرف دہشت گرد دندناتے پھرتے تھے۔ وہ ملک میں اور ملک سے باہر مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے بلائی گئی۔ اسے مختلف اعزازات دیے گئے اور جب سوات کے حالات بہتر ہوئے اور سواتیوں کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوئی تو ملالہ بھی اپنے گھروالوں کے ساتھ گھر کو آئی اور اس نے علاقے کی لڑکیوں کو حوصلہ دیا ۔ اسکول پھر سے آباد ہوئے۔ بچیوں کی چہکار سے علاقہ گونج اٹھا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھی جو سوات سے لے کر سرگودھا تک اپنی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ملالہ کو دھمکیاں دیں لیکن جب وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی تو اسے اور اس کی ساتھی لڑکیوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔
ایک دوپہر اس وین پر حملہ ہوا جس میں وہ اپنی ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ سفر کررہی تھی۔ اس پر حملہ ہوا اور ساری دنیا میں یہ خبر صدمے کے ساتھ سنی گئی کہ انتہا پسندوں نے اس پر گولیاں برسادیں۔ یہ خبر پاکستان کے ان تمام لوگوں کو سوگوار کرگئی جو تعلیم کو انسانوں کا زیور سمجھتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ جس مذہب نے اپنی ابتدا ''پڑھ'' کے لفظ سے کی ہو اور جس نے تحصیل علم کو مردوں اور عورتوں دونوں پر فرض کیا ہو، اس کے ماننے والے کس طرح اسکول تباہ کرسکتے ہیں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو ''عین اسلام'' خیال کرتے ہیں۔
ملالہ نے موت سے جس طور پنجہ آزمائی کی، پاکستان کے مقامی ڈاکٹروں، صدر آصف علی زرداری، متحدہ عرب امارات کی اوربرطانوی حکومت نے جس طرح ملالہ کی جان بچانے کے لیے دن رات ایک کردیے۔ اس کو داد دینے کے لیے مجھے لفظ نہیں ملتے۔
اس رات جب نیویارک میں صبح ہوگئی تھی اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی سرکردگی میں نوجوانوں کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا۔ اس روز ملالہ نے ایک ایسی شاندار تقریر کی جس پر دنیا کی 80 قوموں کے نمائندے اور اس تقریب میں خصوصی طورپر شرکت کے لیے آنے والے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے تقریر کے ہر نکتے پر بے ساختہ اس لڑکی کو داد دی جس کے بچنے کا صرف چند مہینوں پہلے کوئی امکان نہیں رہا تھا اور جس پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں نے نہ صرف اس حملے کی ذمے داری قبول کی بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ انھیں موقع ملا تو وہ پھر اس پر حملہ کریں گے۔ ملالہ اپنے عزم اور اپنے خیالات کے ساتھ زندہ اور موجود ہے۔ اس کا نام دہشت گردی کی دلدل میں پھنسے ہوئے پاکستان کے لیے امید کا روشن ستارہ بن گیا ہے۔
ملالہ کو اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو وہ ایک ایسی نوعمر لڑکی ہے جس نے دنیا کو بدل ڈالنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ دنیا میں ہمیں متعدد ایسی لڑکیاں اور عورتیں ملتی ہیں جو بہت کم عمری سے نابغۂ روزگار تھیں اور جن کا نام آج بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ ان میں لگ بھگ 550 ق م کی یونانی شاعرہ سیفو ہے۔ جس کے کلام کا بیشتر حصہ ضائع ہوگیا لیکن آج بھی وہ دنیا کی پہلی شاعرہ کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ یہ وہی ہے جس کے بارے میں افلاطون کا کہنا تھا کہ وہ 10 عظیم شاعروں میں سے ایک تھی۔
اسی طرح پندرہویں صدی کی جون آف آرک ہے جس نے فرانسیسیوں کو برطانوی قبضے کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا اور صرف 17 برس کی عمر میں فرانس کی افواج کو فتح سے ہم کنار کیا۔ کوئی عورت ایسا کارنامہ کیسے انجام دے سکتی تھی؟ چنانچہ ''جادوگرنی'' قرار دے کر زندہ جلا دی گئی۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ بعد میں وہ ''ولیہ'' کے رتبے پر فائز کی گئی۔ آج کی نسائی تحریک کی بنیاد گزار میری ول اسٹون کرافٹ نے اٹھارہویں صدی میں عورتوں کے حقوق پر وہ کتاب لکھی جسے آج بھی نسائی تحریک کی بائبل کی حیثیت حاصل ہے۔اسی طرح انیسویں صدی کی امریکی ادیب ہیریٹ بیچر اسٹووہے جس کے ناول ''انکل ٹامز کیبن'' کے بارے میں ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ غلامی کے خلاف جدوجہد اور امریکی خانہ جنگی کے آغاز میں اسٹوو کے ناول نے بنیادی کردار ادا کیا۔ انیسویں صدی میں متعدد ایسی عورتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ تبدیل کیا۔ ان میں ملکہ وکٹوریہ، فلورنس نائیٹ اینگل، ایمیلین پینک ہرسٹ جس نے عورتوںکو ووٹ کا حق دلانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ یہ تقدیر کا مذاق ہے کہ 21 برس کی عمر کی عورت کو ووٹ دینے کا حق اس کی موت کے صرف تین ہفتے بعد ملا۔
اسی طرح میری کیوری ہے، دنیا کی پہلی عورت جسے نوبل پرائز دیا گیا۔ وہ بھی ایک نہیں، دو مرتبہ۔ ہیلن کیلر جو دو برس کی عمر سے پہلے بصارت اور سماعت سے محروم ہوئی اور اس نے تمام زندگی اندھوں اور بہروں کی فلاح کے لیے جدوجہد کرتے گزار دی۔ مدر ٹریسا، روزا پارکس، اینی بیسنٹ، ایلینر روز ویلٹ، سمون دی بووا، مسز اندرا گاندھی، بے نظیر بھٹو اور ان کے علاوہ بھی عورتوںکے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے تاریخ پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اب ان لوگوں میں ملالہ کا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔
12 جولائی کو ملالہ نے کیسی اچھی باتیں کیں۔ اس نے حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے ان تمام گم نام مردوں اور عورتوں کو یاد کیا جو اس راہ میں قربان ہوگئے اور جو اس وقت بھی ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور امن کے قیام ، تعلیم کے حق کے ساتھ ہی مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کی لڑائی لڑرہے ہیں۔ اس نے کہا کہ آج کے دن کو میرے نام سے منسوب کیا گیا ہے لیکن یہ درحقیقت ہر اس نوجوان لڑکی اور لڑکے کا دن ہے جو تعلیم کے حق اور انصاف کے لیے دنیا کے کسی بھی کونے میں کام کررہا ہے۔ اس کا یہ جملہ بے شمار دلوں کو چھو گیا کہ میں یہاں دنیا کے ہر بچی اور بچے کے اس حق کے لیے آواز بلند کرتی ہوں کہ اسے تعلیم کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ میں تمام انتہا پسندوں اور طالبان کی بچیوں اور بچوں کے لیے بھی اس حق کی طلب گار ہوں۔ اس روز ملالہ کے خیالات کا دائرہ تمام پیغمبروں، مصلحین اور مفکرین کے نظریات کا احاطہ کررہا تھا۔ وہ عدم تشدد کی اور اس فلسفے کو ماننے والے تمام اہم ترین لوگوں کا نام لے رہی تھی۔ وہ باچاخان اور مدر ٹریسا کو یاد کررہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ جب ہم سوات میں تھے اور ہم نے بندوقوں کو دیکھا تب ہم نے قلم اورکتاب کی طاقت کو جانا اور ہم یہ بھی سمجھ گئے کہ انتہا پسندوں کو تعلیم سے اور عورتوں سے خوف آتا ہے۔