گلستان ادب میں
ادب کے گلشن میں ہر روز نئی نئی کلیاں کھلتی ہیں اور تازہ پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں۔۔۔
ادب کے گلشن میں ہر روز نئی نئی کلیاں کھلتی ہیں اور تازہ پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ ان ہی خوش رنگ پھولوں کے دم سے چمن کی رونق ہے۔ گلستان ادب میں پچھلے دنوں کئی کتابوں کی اشاعت ہوئی۔ ارمغان رفیع الدین ہاشمی جس کے مرتب ڈاکٹر خالد ندیم ہیں، یہ کتاب 408 اردو اور 118 انگریزی کے صفحات پر مشتمل ہے، گویا 526 اوراق پر ڈاکٹر خالد ندیم کی محنت و ریاضت، ادب سے بے پایاں محبت کا منہ بولتا ثبوت موجود ہے۔
مذکورہ کتاب میں مختلف ملکوں اور درسگاہوں سے تعلق رکھنے والوں کے وقیع مضامین شامل ہیں، ان مضامین کے خالق ڈاکٹر محمد کیومرثی تہران یونیورسٹی سے، عبدالوہاب خان سلیم نیویارک سے، ڈاکٹر سعید اختر درانی برمنگھم سے، پروفیسر ایمیریطس شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، ڈاکٹر خالد ندیم سرگودھا یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے بارے میں ''تقدیم'' کے حوالے سے سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے مضمون قلم بند کیا ہے اور اس مضمون کے قاری کو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ انھوں نے ان کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی بنیادی شناخت ایک معلم کی ہے اور اس اعتبارسے وہ اساتذہ کی اس روایت سے تعلق رکھتے ہیں جس میں حافظ محمود شیرانی، ڈاکٹر سید عبداﷲ، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹرغلام حسین ذوالفقار، سید وقار عظیم، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی اور ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا جیسی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔
ایک ادیب اور قلم کار کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کا میدان تگ و تاز بہت وسیع اور ہمہ جہت رہا ہے۔ افسانہ، انشائیہ، خاکہ، شخصیہ، تبصرہ، تجزیہ، تنقید، تحقیق و سفرنامہ غرض اردو ادب کے کئی شعبوں میں انھوں نے قابل لحاظ اضافے کیے ہیں۔ اقبالیات، مودودیات اور دینیات سے انھیں بالخصوص دلچسپی رہی ہے۔ ڈاکٹر خالد ندیم کا اپنے استاد پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کے لیے کتاب کی شکل میں نذرانہ محبت و عقیدت ہے۔ ڈاکٹر خالد ندیم سرگودھا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور کئی علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔ تنقید و تحقیق ہی ان کا میدان ہے۔
''اجمال'' کتاب نمبر 5 حال ہی میں شائع ہوئی۔ ''اجمال'' میں شامل افسانے بہت خوب ہیں تو مضامین کا بھی جواب نہیں۔ فہیم الاسلام انصاری نے دو وضاحتیں بھی مضامین کی شکل میں پیش کی ہیں، ایک ''ایک وضاحت'' اور دوسری محمد علی صدیقی کے حوالے سے ایک وضاحت۔ دونوں مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور اہل بصیرت کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ مرحوم اسرار حسین کی غزل پڑھ کر اسرار حسین یاد آ گئے۔
یہ زیب اذکار کے چھوٹے بھائی ہیں، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ جہاں موجودہ افسانہ نگاروں کے افسانے شامل اشاعت ہیں وہاں کرشن چندر کا خوبصورت افسانہ ''ٹیکسی ڈرائیور'' بھی موجود ہے۔ جوگندر پال کے افسانوں کا مطالعاتی سفر شفیق احمد شفیق، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا مضمون ہم ترجمہ کیسے نہ کریں، اختر شیرانی ایک تجزیاتی مطالعہ، حمیرا اطہر، کراچی ادبی میلہ فہیم الاسلام انصاری، افسانوی مجموعہ ''تماشا'' پر ایک نظر، راقم الحروف، فکاہیہ، طاہر نقوی وغیرہ کے مضامین بہت سی معلومات کے در وا کرتے ہیں۔
شہر میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں خصوصاً کراچی، کوئٹہ، پشاور اور دوسری کئی جگہوں پر آئے دن دھماکے ہوتے رہتے ہیں ان دھماکوں سے انسانی جان و مال کا زیاں ہونا، دھماکوں کے حوالے سے ایک اہم نام یاد آیا ہے وہ نام ہے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا، وہ دھماکے کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے ہیں اور ہر سال دو سال بعد خوبصورت کتابوں کی اشاعت کی شکل میں ادبی میدان میں دھماکے بڑے زور و شور کے ساتھ کرتے ہیں۔ لیکن ان دھماکوں سے انسان زندہ سلامت رہتا ہے اور دل و دماغ بھی صحیح سالم، بس خوش گوار و لطیف جذبات ضرور انسانی دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ ''پورب سے یورپ تک'' حال ہی میں ان کی کتاب آئی ہے۔
دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ادب کے شائقین کے لیے کسی خوبصورت تحفے سے کم نہیں، جسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انعامی اسکیم میں نکلنے والا ورلڈ ٹور کا ٹکٹ ہاتھ لگ گیا ہو، چونکہ بات یہ ہے کہ ''پورب سے یورپ تک'' کا سفر بالکل مفت اور گھر بیٹھے کر سکتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا آئے۔ رنگ واقعی چوکھا آیا، تقریب تعارف بھی کامیاب ہوئی اور کتابیں بھی قدردانوں نے خوب خریدیں، گویا ''آم کے آم گٹھلیوں کے دام'' تاریخی و سیاسی واقعات نے کتاب کو وقیع بنا دیا ہے، ہر ملک، ہر شہر کی اپنی اپنی طرز معاشرت ہے خاص جگہوں اور خاص شخصیات کے حالات زندگی بھی درج ہیں، کتاب کیا ہے معلومات کا خزانہ ہے۔ شاہد رضوان کے تحریر کردہ دو افسانوں کے مجموعے بعنوان ''پتھر کی عورت'' اور ''پہلا آدمی'' موصول ہوئے۔ شاہد رضوان کے تمام ہی افسانے معاشرتی حقائق کے گرد گھومتے ہیں اور کھٹی میٹھی گولیوں کا مزہ دیتے ہیں، ان کا شمار اچھا لکھنے والوں میں ہوتا ہے، بنت کے اعتبار سے ان کے افسانے دلچسپ بھی ہیں اور سماج کے عکاس بھی ہیں۔
گزشتہ دنوں گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں حسب معمول ادبی تقریب کا انعقاد ہوا، افسانہ نگار اور گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے استاد شمیم منظر نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور جرمن شاعر کی نظم کا اردو میں ترجمہ بھی پیش کیا۔ واضح رہے کہ شمیم منظر جرمن اور انگریزی زبان کے بہت اچھے مترجم ہیں اور ترجمہ کرنے کا فریضہ وہ بحسن خوبی انجام دیتے ہیں۔ اس دفعہ گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی طرف سے ''خاک میں صورتیں'' اور ''اردو شاعری میں تصور زن'' کا تعارف کرایا گیا اس کا اجمالاً ذکر آخری سطور میں کروں گی۔
پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں ادبی تقریبات کا انعقاد بڑے جوش و جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے اور ادبی انجمنیں ہر ماہ یا ہر ہفتے ان ادبی محافل کو سجاتی ہیں۔ جہاں ان محفلوں میں حاضرین کو کچھ سیکھنے کے مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں، وہاں اچھا شعر وادب بھی سننے کے لیے میسر آ جاتا ہے۔ فی زمانہ حالات بے حد خراب چل رہے ہیں، ہر دوسرے روز دردناک واقعات رونما ہوتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہر دن پابندی سے کی جاتی ہے۔
نامعلوم قاتل نامعلوم جگہوں کے مکین ہیں اسی وجہ سے انھیں گرفتار نہیں کیا جاتا ہے لیکن مقتول کا پورا گھرانہ برباد ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے حالات نے شہریوں سے ان کا اطمینان و سکون چھین لیا ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ زیست تو بسر کرنی ہی ہوتی ہے، لہٰذا اپنے اپنے امور انجام دینے کے لیے تگ و دو لازمی ہوتی ہے۔ ادبی و معاشرتی تقاریب بھی معمولات کا حصہ ہیں جو آئے دن رونما ہوتی ہیں۔
بات کتابوں کی چل رہی ہے تو مجھے (خیام بھائی) اے خیام کا ناول ''سراب منزل'' یاد آ گیا جو حال ہی میں شائع ہوا ہے، اس ناول کی خاصیت یہ ہے کہ اس کی کہانی کے ذریعے دیار غیر کے معاشرتی حالات کی نشاندہی کی ہے اور ان پاکستانی نوجوانوں کا المیہ بیان کیا ہے جو تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستان میں ان کی قدر نہیں کی جاتی اور پھر وہ ملازمت کے حصول کے لیے قسمت آزمائی کا فیصلہ کرتے ہیں اور دیار غیر جانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، یہ کوششیں قانونی و غیرقانونی ہر طرح سے کی جاتی ہیں۔
یہ ایک اچھا ناول اور قابل مطالعہ ہے۔ ساتھ ساتھ ایک بات اور کہتی چلوں کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں قلمکاروں کی وہ قدر دانی نہیں ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ تمام سہولتیں اور مراعات سیاستدانوں کو فراہم کی جاتی ہیں اور جو معاشرتی تاریخ کو اپنی تحریروں میں سموتے ہیں اور تخلیق کاروں کی تخلیقات کے ذریعے ہی ہر زمانے کا واقعہ محفوظ ہوجاتا ہے، ان اہم لوگوں کو نظر انداز کرنا گزشتہ اور موجودہ حکومت کی ناانصافی کے سوا کچھ نہیں۔