لوڈشیڈنگ کی بہار

بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے آپ کی طرح میں بھی پریشان ہوں۔ پنجاب میں ان دنوں ایسی خوفناک حبس ہوتی ہے کہ۔۔۔

latifch910@yahoo.com

بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے آپ کی طرح میں بھی پریشان ہوں۔ پنجاب میں ان دنوں ایسی خوفناک حبس ہوتی ہے کہ اللہ کی پناہ' سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے، شاید اسی حبس سے گھبرا کر شاعر نے کہا تھا کہ حبس ایسا ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ۔ ایسے میں بجلی بند ہو جائے تو گھروں میں موجود خواتین' بچوں اور بوڑھوں پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اب پہلے والے زمانے تو رہے نہیں' جب آبادی کم ہوتی تھی، گھر کھلے اور صحن میں درخت ہوتے تھے۔ دوسرے شہروں کا تو پتہ نہیں کم از کم لاہور میں ان دنوں دریائے راوی بھرپور جوان ہوا کرتا تھا' اس میں بہنے والا برف کی طرح سرد پانی گرم ہوا سے یوں بغل گیر ہوتا کہ وہ سارا غصہ بھول کر ٹھنڈی ٹھار ہو جاتی ،اس راوی اور درختوں نے ہی اس حبس کے موسم کو رومانویت عطا کی تھی' استاد برکت علی خان کا گایا ہوا یہ اردو ماہیا اس رومانویت کی قسم کھاتا ہے۔

ساون کے پڑے جھولے

تم بھول گئے ہم کو

ہم تم کو نہیں بھولے

راوی کا کنارا ہو


ہر موج کے ہونٹوں پر

افسانہ ہمارا ہو

اب وہ لاہور ہے' نہ اس کے درخت و باغات اور راوی بھی سوکھ کر گندا نالا بن گیا' اس لیے تو گھبرا کر لوگ سڑکوں پر آ کر مظاہرے کرتے ہیں۔ اب مسئلہ وہی ہے کہ فالتو بجلی کہاں سے آئے؟ ڈیم بنانا ہو یا کسی ملک سے بجلی لینی ہو' اس میں وقت لگتا ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ تریاق فوری چاہیے۔ برسوں کی بدعنوانی' لاپروائی اور ایڈہاک ازم نے آج یہ دن دکھائے ہیں کہ ہم کشکول اٹھائے نگر نگر المدد المد دکی صدا دے رہے ہیں۔ بجلی کا بحران بے قابو ہو گیا ہے۔ بجلی کی قلت تو اپنی جگہ رہی' اس کا سارا انفراسٹرکچر ہی فرسودہ ہو گیا ہے۔ نئی ٹرانسمیشن لائنیں،نئے ٹرانسفارمرز اور دیگر ساز وسامان کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں' یہ کہاں سے آئیں گے؟ پاکستان کے دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا عالمی بینک کے پیسے اور تکنیکی مہارت سے بن گئے' اس کے بعد بھی بجلی کے جو چھوٹے بڑے منصوبے بنے' وہ غیر ملکی امداد سے ہی بنے' چاہیے تو یہ تھا کہ بجلی کی اس نعمت کو ''بندے دے پتراں ''کی طرح استعمال کیا جاتا لیکن ہوا یہ کہ اسے پرایا مال سمجھ کر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ایسے علاقوں میں بھی بجلی کی سہولت فراہم کر دی گئی جہاں بجلی کا بل دینے کا رواج ہی نہیں اور نہ ہی حکام نے ان علاقوں کے مکینوں کو ایسا سبق پڑھایا جس میں یہ نصیحت کی جاتی کہ بل دینا حب الوطنی بھی ہے اور اسلام کے مطابق فرض بھی۔ بلوچستان میں افسری کرنے والے ایک معروف کالم نگار نے ایک بار بڑا دلچسپ مگرانکشاف انگیز واقعہ سنایا۔ انھوں نے بتایا کہ چمن میں پاکستانی علاقے سے افغانستان میں بجلی دی جاتی تھی۔ یہ کام دونوں ملکوں کی حکومتوں کے کسی معاہدے کے تحت نہیں ہو رہا تھا بلکہ وہاں کے افسر حضرات اپنے ملک کی بجلی دیدہ دلیری سے دوسرے ملک کے شہریوں کو دے رہے تھے۔ انتہائی معمولی رشوت کے عوض بجلی اسمگل کی جاتی اور رقم افسروں کی جیب میں چلی جاتی۔ میں یہ واقعہ سن کر حیران رہ گیا' یہ کیسی ریاست ہے جس کا ایک افسر اپنی مرضی سے دوسری ریاست میں بجلی فراہم کر رہا تھا اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا'من مانی اور دھونس دھاندلی کا یہ ہے وہ کلچر جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔

پیپلز پارٹی والے توجیسی تیسی گزار کر چلے گئے' وہ ملک کو جیسا ہے' ویسے کے فارمولے پر چلاتے رہے' اب مسلم لیگ ن کی باری ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بجلی چوروں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے۔ بڑی اچھی بات ہے' چوری بجلی کی ہو یا دولت کی' دونوں ہی برائیاں ہیں اور یہ ختم ہونی چاہئیں لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ بجلی چور پکڑنے کی ساری مہم پنجاب میں جاری ہے' باقی جگہ خاموشی ہے۔ اس مہم میں چھوٹے صوبے وفاق کے ساتھ تعاون کرتے ہیں یا نہیں' یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، البتہ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں نے توکہہ دیا ہے کہ ان کے صوبے میں لوڈ شیڈنگ جان بوجھ کر کی جا رہی ہے' صوبے کو مقررہ حصے سے کم بجلی دینے کے خلاف عدالت میں جانے اور یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ پیسکوکے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کو وفاق سے بجلی کا پورا حصہ مل رہا ہے لیکن سیاستدان کسی انجینئر یا ماہر کی بات کہاں سنتے ہیں۔ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کہتے رہے کہ کالا باغ ڈیم سے نوشہرہ کو خطرہ نہیں لیکن اے این پی والے نہیں مانے۔ سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔

اب خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر سراج الحق نے تو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا بہترین علاج تجویز کر دیا ہے۔ انھوں نے واپڈا کا کنٹرول ہی مانگ لیا ہے' یعنی بجلی پیدا کرنے، تقسیم کرنے اور بل وصول کرنے کی ساری ذمے داری خیبر پختونخوا حکومت کو سونپی جائے' مینوں دھرتی قلعی کرا دے تے میں نچاں ساری رات۔ ( مجھے زمین قلعی کرا دے، پھر میں رات بھر رقص کروں گی) میرا خیال ہے کہ ان کی تجویز بہترین اور بر وقت ہے' اس پر عمل کر کے لوڈ شیڈنگ پر قابو ہی نہیں پایا جا سکتا بلکہ افغانستان کو مفت بجلی بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔ سابق دور میں پاکستان ریلوے غلام احمد بلور کے کنٹرول میں تھا' ان کی بہترین انتظامی صلاحیتیں یوں بکھر کر سامنے آئیں کہ آج ہمارا ریلوے افغانستان کے ہم پلہ ہونے کے بالکل قریب ہے' نئے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو چاہیے کہ وہ اسی رفتار سے ریلوے کی ترقی کا سفر جاری رکھیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم افغانستان سے پیچھے رہ جائیں۔ ریلوے کی بے مثال ترقی کو دیکھتے ہوئے وفاق کو فوری طور پر واپڈا سے جان چھڑا لینی چاہیے بلکہ اسٹیل ملز اور پی آئی اے بھی جناب سراج الحق کے سپرد کر دینے چاہئیں' میرا تو خیال ہے کہ ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کا ٹھیکہ بھی خیبر پختونخوا حکومت کو دے دیناچاہیے۔ اس کے بعد دیکھیں پاکستان کیسے ترقی کرتا ہے۔
Load Next Story