فنڈز کی بندش سے صفائی کا نطام مفلوج شہر میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے

ہزاروں گھوسٹ ملازمین کی بھرتی کرکے صفائی ستھرائی کے نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔


Staff Reporter July 16, 2013
ضلعی افسران کی جانب سے ڈیزل کی مد میں چوری اور گھوسٹ سینیٹری ملازمین کی بھرتیوں کے باعث صفائی ستھرائی کا نظام تباہ وبرباد ہوگیا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس / فائل

صوبائی حکومت کی جانب سے آکٹرائے ضلع ٹیکس میں کٹوتی اور پراپرٹی ٹیکس کی مد میں فنڈز کی ایک سال سے بندش کے باعث پانچوں بلدیاتی اضلاع میں میں مالی بحران پیدا ہوگیااور بلدیاتی امور کے کام درہم برہم ہوگئے ہیں۔

ضلعی افسران کی جانب سے ڈیزل کی مد میں چوری اور گھوسٹ سینیٹری ملازمین کی بھرتیوں کے باعث صفائی ستھرائی کا نظام تباہ وبرباد ہوگیا ہے، اورنگی، سائٹ، محمودآباد، لیاقت آباد، پیرکالونی، رنچھوڑ لائن، اولڈ سٹی ایریا، صدر، لانڈھی، ملیر،کورنگی اور دیگر علاقوں میں صفائی ستھرائی کی صورتحال نہایت مخدوش ہوگئی، تفصیلات کے مطابق بلدیہ شرقی، جنوبی، غربی، وسطی اور ملیر میں سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز میں کٹوتی کے باعث صفائی ستھرائی کا نظام6ماہ سے شدید متاثر ہے، بلدیاتی افسران کی غفلت کے باعث رمضان میں بھی صفائی مہم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا،کچرا نہ اٹھانے کے باعث مختلف علاقوں میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگ گئے،اہم مارکیٹوں اور شاہراؤں پرکئی عرصے سے صفائی ستھرائی نہیں کی جارہی ہے۔

بلدیاتی اداروں کی جانب سے رمضان میں بھی صفائی ستھرائی کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس کے باعث بیشتر علاقوں میں مساجد اور تراویح کے مقامات کے اطراف کچرے کے ڈھیر لگ چکے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ سب سے مخدوش صورتحال اورنگی زون کی ہے جہاں ماضی میں گھوسٹ ملازمین کی تقرری وبعدازاں برطرفی کے باعث سینیٹری ورکرز کی قلت پیدا ہوگئی، علاوہ ازیں ڈیزل کی چوری کے باعث کچرا گاڑیاں لینڈفل سائٹ پر کچرا پھینکنے نہیں جاتیں، ذرائع نے بتایا کہ او زیڈ ٹی اور پراپرٹی ٹیکس کی مد میں فنڈز کی عدم فراہمی سے صفائی ستھرائی کا نظام ضرور متاثر ہے تاہم بلدیاتی اداروں کے حکام کی بدعنوانی نے پورے بلدیاتی نظام کو مفلوج کردیا،10 سال میں ان بلدیاتی اداروں میں ترقیاتی کاموں کے فنڈز میں خورد برد کرکے کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی ۔



جبکہ ہزاروں گھوسٹ ملازمین کی بھرتی کرکے صفائی ستھرائی کے نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث میونسپل کارپویشنز میں کسی قسم کا نظم ونسق قائم نہیں جبکہ یہ ادارے عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے ضامن تصور کیے جاتے ہیں، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ادارے میونسپل سروسز کے ذرائع کے مطابق پورے شہر میں کنٹونمنٹ بورڈز، پانچوں ضلعی بلدیات اور ضلعی کونسل کراچی سے 12ہزار ٹن یومیہ کچرا پیدا ہورہا ہے جس میں صرف3ہزار یومیہ کچرا لینڈ فل سائٹ پرڈمپ کیا جارہا ہے، پانچوں بلدیات کے سینیٹری ورکرز کچرے کو آگ لگا کر آلودگی بھی پھیلا رہے ہیں جبکہ لیاری وملیر ندی اورنالوں میں بھی یہی کچرا ڈمپ کیا جارہا ہے، ضلع شرقی کے میونسپل کمشنر اشفاق ملاح نے بتایا کہ بلدیہ شرقی کو گذشتہ مالی سال میں آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد میں608ملین، پراپرٹی ٹیکس کی مد405ملین کا شارٹ فال ہے۔

ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ حل کرلیا گیاتاہم کچرا اٹھانے کی گاڑیوں کی مرمت اور ایندھن کی مد میں فنڈز درکار ہیں، بلدیہ شرقی کے چاروں زونز میں یومیہ 1600 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے تاہم گاڑیوں کی قلت اور ڈیزل کیلیے مطلوبہ فنڈز نہ ہونے کے باعث صرف400ٹن یومیہ کچرا اٹھایا جارہا ہے، بلدیہ شرقی پر کئی پٹرول پمپس اور صفائی ستھرائی کا نظام چلانے والے کنٹریکٹرز کے واجبات کی مد میں بالترتیب9کروڑ اور8کروڑ روپے واجب الادا ہیں، اشفاق ملاح نے کہا فنڈز کے حصول کیلیے سندھ حکومت کے محکمہ فنانس سے بات چیت جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔