طبیعیات دانوں نے پہلی مرتبہ ایٹم میں ’کمزور نیوکلیائی قوت‘ کی پیمائش کرلی

ماہرین گزشتہ 20 برس سے ایٹمی مرکزے میں نیوٹرون اور پروٹون کے درمیان کمزور قوت ناپنے کی کوشش کررہے تھے


ویب ڈیسک January 17, 2019
ماہرین نے ایٹم کے اندر کمزور نیوکلیائی قوت کی پیمائش میں کامیابی حاصل کی ہے۔ فوٹو: فائل

ماہرین نے برسوں کی کوشش کے بعد چار کائناتی قوتوں میں سے ایک 'کمزور نیوکلیائی قوت' یا ویک نیوکلیئر فورس کی پیمائش میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس ضمن میں ماہرین دہائیوں سے کوشش کررہے تھے۔

یہ نتائج اوک رِج نیشنل لیبارٹریز میں این ڈی پی گیما تجربات کے ذریعے انجام دیئے گئے ہیں جن کی نگراں پروفیسر ڈبلیو مائیکل سنو نے کی ہے جو انڈیانا یونیورسٹی بلومنگٹن کالج آف سائنسس میں پروفیسر بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، 'ایٹموں کے اندر مرکزے (نیوکلیئس) میں موجود پروٹون اور نیوٹرون کے درمیان کمزور قوت کو ناپنا بہت اہم کام ہے۔ اس سے کائنات پر راج کرنے والی چار بنیادی قوتوں کو جاننے میں بہت مدد ملے گی۔''

فزکس کی رو سے مضبوط (اسٹرونگ) قوت، برقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) قوت، کمزور (ویک نیوکلیئر) قوت، اور ثقل (گریوٹی) کی چاروں قوتوں سے ہی کائنات کا نظم و نسق چل رہا ہے۔ ان میں سے ایک بھی ختم ہوجائے تو زندگی اور کائنات دونوں کا وجود ختم ہوجائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ پروٹون اور نیوٹرون دیگر چھوٹے ذرات یعنی کوارکس سے مل کر بنتے ہیں اور اسٹرونگ فورس کوارکس کو مضبوطی سے باندھے رکھتی ہے جبکہ کمزور نیوکلیائی قوت، ایٹمی مرکزے میں نیوٹرون کو پروٹون میں بدلنے کی وجہ بنتی ہے جس کے نتیجے میں تابکاری (ریڈیو ایکٹیویٹی) کا عمل واقع ہوتا ہے۔

اس تجربے میں کمزور نیوکلیائی قوت کو الگ کرکے اس کی پیمائش کی گئی تھی۔ اس کےلیے ایک پیچیدہ تجربہ کیا گیا جس میں این پی ڈی گیما نامی ایک خصوصی آلہ استعمال کیا گیا۔ اس میں انتہائی سرد نیوٹرونوں کے گھماؤ (اسپن) کو قابو کیا گیا۔ جب تمام نیوٹرونوں کا اسپن یا اینگیولر مومینٹم ایک سمت میں آگیا تو ان نیوٹرونوں کو مائع ہائیڈروجن میں موجود پروٹونوں سے ٹکرادیا گیا جس سے طاقتور گیما شعاعیں پیدا ہوئیں۔ اب ان گیما شعاعوں کی عددی قیمت کی بنیاد پر کمزور قوت کی پیمائش کی گئی ۔

یعنی ماہرین نے نیوٹرون اور پروٹون کے گھماؤ کی بنیاد پر گیما شعاعوں اور ان کے تشاکلات (سمٹری) کی پیمائش کی۔

اس تحقیق کی تفصیلات ہفت روزہ تحقیقی جریدے ''نیچر'' کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں