امل ہلاکت کیس نجی اسپتال ایمبولینس سروس اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن ذمہ دارقرار
سپریم کورٹ نے کراچی پولیس، سندھ ہیلتھ کمیشن، نجی اسپتال، ایمبولینس سروس سے جواب طلب کرلیا
امل ہلاکت کیس میں عدالتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے جس میں نجی اسپتال، ایمبولینس سروس اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 10 سالہ بچی امل کی ہلاکت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی نے رپورٹ جمع کرادی، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کمیٹی نے 4 زاویوں سے معاملے کو دیکھا ہے، پولیس میں فائرنگ کی تربیت کا فقدان ہے، تربیت کے بغیر پولیس کو آٹومیٹک بھاری ہتھیار دیے گئے، پولیس نے اپنی غیر ذمہ داری قبول کی، امن فاؤنڈیشن ایمبولنس سروس نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کو مزید بتایا کہ این ایم سی اسپتال کراچی نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اسپتال نے زخمی امل کو اسپتال سے منتقلی کے لیے بنیادی سہولت نہیں دی،اسپتال نے کمیٹی میں بھی صاف جھوٹ بولا ہے، بچی کی موت کی تاریخ اور وقت بھی تبدیل کیا گیا ہے، تاریخ اور وقت بدل کر یہ ثابت کیا گیا کہ بچی اسپتال پہنچنے سے پہلےفوت ہوچکی تھی، سندھ ہیلتھ کمیشن نے بھی اسپتال کے حق میں رپورٹ دی، سندھ ہیلتھ کمیشن کی رپورٹ قابل افسوس ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے امل کے والدین سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ معزرت خواہ ہوں یہ کیس نمٹا نہیں سکا، امل کی والدہ نے کہا کہ عدالت، بینچ اور عدالتی کمیٹی کے شکرگزارہیں، عدالت نے اپنے اقدامات سے حوصلہ بڑھایا، چیف جسٹس نے جواب میں ریمارکس دیئے کہ حوصلہ کیا بڑھے گا،بچی کے جانے سے حوصلہ ختم ہو گیا تھا، بد قسمت واقعے پر بہت افسوس ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمیٹی رپورٹ میں امل ہلاکت کے ذمہ داران کا تعین کیا گیا ہے، کمیٹی کی رپورٹ پر ذمہ داران کو جواب دینے کا موقع ملنا چاہیے، رپورٹ میں تعین ذمہ داران کورپورٹ کی نقل فراہم کی جائے۔ سپریم کورٹ نے کراچی پولیس، سندھ ہیلتھ کمیشن، نجی اسپتال، ایمبولینس سروس سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت10 روز کے لیے ملتوی کردی۔
امل ہلاکت کیس؛
گزشتہ برس 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر مبینہ پولیس مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر موجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے 18 ستمبر کو واقعے کا نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 10 سالہ بچی امل کی ہلاکت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی نے رپورٹ جمع کرادی، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کمیٹی نے 4 زاویوں سے معاملے کو دیکھا ہے، پولیس میں فائرنگ کی تربیت کا فقدان ہے، تربیت کے بغیر پولیس کو آٹومیٹک بھاری ہتھیار دیے گئے، پولیس نے اپنی غیر ذمہ داری قبول کی، امن فاؤنڈیشن ایمبولنس سروس نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کو مزید بتایا کہ این ایم سی اسپتال کراچی نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اسپتال نے زخمی امل کو اسپتال سے منتقلی کے لیے بنیادی سہولت نہیں دی،اسپتال نے کمیٹی میں بھی صاف جھوٹ بولا ہے، بچی کی موت کی تاریخ اور وقت بھی تبدیل کیا گیا ہے، تاریخ اور وقت بدل کر یہ ثابت کیا گیا کہ بچی اسپتال پہنچنے سے پہلےفوت ہوچکی تھی، سندھ ہیلتھ کمیشن نے بھی اسپتال کے حق میں رپورٹ دی، سندھ ہیلتھ کمیشن کی رپورٹ قابل افسوس ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے امل کے والدین سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ معزرت خواہ ہوں یہ کیس نمٹا نہیں سکا، امل کی والدہ نے کہا کہ عدالت، بینچ اور عدالتی کمیٹی کے شکرگزارہیں، عدالت نے اپنے اقدامات سے حوصلہ بڑھایا، چیف جسٹس نے جواب میں ریمارکس دیئے کہ حوصلہ کیا بڑھے گا،بچی کے جانے سے حوصلہ ختم ہو گیا تھا، بد قسمت واقعے پر بہت افسوس ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمیٹی رپورٹ میں امل ہلاکت کے ذمہ داران کا تعین کیا گیا ہے، کمیٹی کی رپورٹ پر ذمہ داران کو جواب دینے کا موقع ملنا چاہیے، رپورٹ میں تعین ذمہ داران کورپورٹ کی نقل فراہم کی جائے۔ سپریم کورٹ نے کراچی پولیس، سندھ ہیلتھ کمیشن، نجی اسپتال، ایمبولینس سروس سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت10 روز کے لیے ملتوی کردی۔
امل ہلاکت کیس؛
گزشتہ برس 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر مبینہ پولیس مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر موجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے 18 ستمبر کو واقعے کا نوٹس لیا تھا۔