صحافت برائے امن پیس جرنلزم
پیس جرنلزم کسی تنازعہ میں مختلف النوع بدامنی کی وجہ بننے والے عوامل کا جائزہ لیتا اور انہیں رپورٹ کرتا ہے
KARACHI:
پیس جرنلزم (Peace Journalism) یا صحافت برائے امن، شعبہ ابلاغیات کا ایک اہم موضوع ہے جسے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور، ڈاکٹر جان گلتونگ (Johan Galtung) نے باقاعدہ اکیڈمک ڈسپلن کے طور پر فروغ دیا اور اس اعتبار سے انہیں اس شعبے کا بانی مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر گلتونگ کے مطابق امن کا تعلق محض تناؤ کے عدم وجود سے نہیں ہوتا بلکہ اس کےلیے انصاف کا وجود بھی ضروری ہے۔ اسی لیے انہوں نے ''امن سب کےلیے'' (peace for all) کے نعرے پر پیس جرنلزم کی بنیاد رکھی۔ جان گلتونگ نے اپنے مقالات میں اسے دو اشاریوں، یعنی منفی (Negative Peace) اور مثبت (Positive Peace) میں تقسیم کیا ہے۔ امن کے منفی اشاریئے سے مراد کسی معاشرے میں تنازعات یا تشدد کا عدم وجود ہے جبکہ مثبت اشاریئے سے مراد ایسا معاشرہ ہے جہاں انصاف، برابری اور ہم آہنگی جیسی اقدار کو پذیرائی حاصل ہو۔
آمرانہ معاشرے جہاں بظاہر حکومتی جبر کے سبب امن و امان نظر آتا ہے لیکن اندر ہی اندر لاوا اُبل رہا ہوتا ہے، امن کے منفی اشاریوں کی تشریح کرتے ہیں کیونکہ موقع ملنے پر جب وہاں لاوا پھٹتا ہے تو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ زیادہ دیر تک جبر کے ہتھکنڈوں سے لوگوں کو دبانا ممکن نہیں ہوتا۔ مسائل کا حل امن کےلیے ناگزیر ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور مشرق وسطیٰ میں ''عرب بہار'' اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں کہ جہاں ریاستوں نے وقتی طور پر قوت کے بل بوتے پر امن قائم رکھا لیکن وقت آنے پر ان معاشروں میں انتشار پھیل گیا کیونکہ وہاں بنیادی معاشرتی مسائل کے حل کےلیے امن کے مثبت اشاریوں کو فروغ نہیں دیا گیا تھا۔ اس لیے جان گلتونگ، امن کے مثبت اشاریوں کی اہمیت پر زیادہ زور دیتا ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ کے بقول، امن صرف منفی علامات (negative forces) جیسے جنگ، تناؤ اور مسائل کے عدم وجود سے نہیں بلکہ مثبت علامات (positive forces) جیسے انصاف اور دوسروں کےلیے خیر سگالی کے جذبات سے پہچانا جاتا ہے۔
وار جرنلزم اور پیس جرنلزم کو اسی سیاق و سباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں وار جرنلزم پروپیگنڈا، ردعمل، جنگ میں جیت اوراشرافیہ کے ''ہم اور وہ'' اور تشدد کے اظہاری پہلوؤں جیسے بیانیے (narrative) کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتا ہے، وہاں اس کے برعکس پیس جرنلزم جنگی صورتحال کو کنٹرول کرنے پر زور دیتے ہوئے، جنگ لڑنے والے فریقین کو انسانیت کا درس دینے اور جنگ سے متاثرہ ہر شخص کی آواز بنتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تجویز کرتا ہے۔ پیس جرنلزم کسی تنازعے میں فریق بننے اور انتشار پھیلانے والی خبروں سے گریز کرتا اور کسی ایک فریق کے مؤقف کو جانبدارانہ طور پر رپورٹ کرنے کی بجائے مجموعی طور پر امن کوفروغ دینے کی بات کرتا ہے کیونکہ جنگ میں نہ کوئی فاتح ہوتا ہے اور نہ مفتوح بلکہ جنگ انسانیت کی نفی ہوتی ہے۔
پیس جرنلزم محض تنازعہ کے فریقین پر فوکس کرنے کی بجائے اس تنازعہ کے سیاسی، مذہبی، گروہی، نظریاتی یا معاشرتی بدامنی کا سبب بننے والے دیگر مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتا اور انہیں رپورٹ کرتا ہے۔
پیس جرنلزم (پی جے) ایک وسیع اور دلچسپ موضوع ہے اور اس کی بنیاد مثبت اشاریئے ہیں جو جنگ اور امن، دونوں صورتوں میں قابل تقلید ہیں۔ یہ کسی بھی تنازعے کی وجوہ کا جائزہ لیتا اور تنازعے کے حل کےلیے فریقین میں مذاکرات پر زور دیتا ہے۔ پی جے تنازعہ کے متحارب گروپوں میں تقسیم پیدا کرنے کی بجائے انہیں مذاکرات کی میز پر اکٹھا کرنے پر زور دیتے ہوئے جھگڑے کے کسی ایک فریق کو اچھا یا کسی دوسرے فریق کو برا کہنے سے اجتناب کرتا ہے۔ پی جے سرکاری پروپیگنڈے کو مسترد کرتا ہے اور حقائق جانچنے کےلیے متبادل ذرائع تلاش کرتا ہے۔
پی جے صحافت یا رپورٹنگ میں توازن رکھنے کےلیے مسائل اور مصائب کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مسئلے کے تمام فریقوں کے مؤقف کو سامنے رکھتے ہوئے امن کےلیے حل تجویز کرتا ہے۔ یہ اشرافیہ یا طاقتور لوگوں کی آواز بننے کی بجائے مظلوموں کی آواز بنتا ہے۔ یہ تشدد اور تنازعہ سے جڑی فضولیات اور سنسنی خیزی میں الجھنے کی بجائے مسائل کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیتا ہے۔
پیس جرنلسٹ رپورٹنگ کرتے وقت نتائج سے لاپرواہ ہو کر ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی رپورٹنگ میں سوچ سمجھ کر درست اور مثبت الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں تاکہ ان کی کسی چھوٹی سی کوتاہی سے کوئی آگ نہ بھڑک اٹھے۔ وہ جنگ کے شکار علاقے سے لی گئی کسی ایسی تصویر کو رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں جس سے کوئی غلط فہمی یا انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ پیس جرنلزم نان سینس میڈیا (debunk media) کی طرف سے پھیلائے جانے والے دقیانوسی تصورات (stereotypes)، روایتی باتوں (myths) اور غلط تصورات (misperceptions) پر مبنی بیانیے کے مقابلے میں جوابی بیانیہ (counter narrative) پیش کرتا ہے۔
اگر ہم وسیع تناظر میں دیکھیں تو کسی ریاست میں امن کا احاطہ کرنے کےلیے پیس جرنلزم منتخب جمہوری حکومتوں کے تسلسل، کاروبار کےلیے سازگار ماحول، کرپشن کے خاتمے یا اس میں کمی، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے، انسانی وسائل کی ترقی، پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات، میڈیا کی آزادی اور ملکی وسائل کی مساویانہ تقسیم جیسے مثبت امن (positive peace) کے اشاریوں پر نظر رکھتا ہے اور ان ہی کی بنیاد پر مختلف ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ مثبت امن کو فروغ دینے والے ممالک کس قدر فائدے میں رہتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان اشاریوں میں بہتری سے فی کس جی ڈی پی میں 2.9 فیصد تک اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ 2005 سے لے کر 2017 تک جن ممالک نے مثبت امن کے اشاریوں کو فروغ دیا، وہاں اس سے غفلت کرنے والے ممالک کی نسبت جی ڈی پی میں دو فیصد زیادہ بہتری دیکھنے میں آئی۔ اس سے ملکی کرنسی کی قیمت مستحکم ہوتی ہے۔
وہ ممالک جہاں مثبت امن کے اشاریے مضبوط ہیں، وہ بُرے وقتوں یا سانحات میں بڑے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ بڑے سیاسی یا قدرتی جھٹکوں کے امکانات ان ممالک میں 84 فیصد زیادہ ہوتے ہیں جہاں مثبت امن کے اشاریئے کمزور ہوں۔ زیادہ تر مثبت امن رکھنے والے ممالک میں انقلابی تحریکیں پُرتشدد نہیں ہوتیں اور ان کے اثرات محدود رہتے ہیں جبکہ کمزور مثبت اشاریئے رکھنے والی ریاستوں میں پُرتشدد انقلابی تحریکوں کی کامیابی کے امکانات نوے فیصد تک ہوتے ہیں۔ 2005 سے 2015 کے درمیان قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح ان ممالک میں کہ جہاں مثبت اشاریئے کمزور ہیں، دیگر ممالک کی نسبت 13 گُنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔
پاکستان بھی ان ممالک میں سے ہے جہاں مثبت امن (positive peace) کے اشاریئے انتہائی کمزور ہیں کیونکہ پاکستان میں پیس جرنلزم کا تصور یا تو انتہائی محدود ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہمارے میڈیا میں یکطرفہ منفی خبروں کی ہر وقت بھر مار رہتی ہے جن میں پیس جرنلزم اور ڈیویلپمنٹ جرنلزم کے عوامل کا خیال نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا ہمارے روایتی میڈیا پر اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے اور اب نیو میڈیا یا سوشل میڈیا عوامی زندگی (public sphere) میں مقبول ہورہا ہے۔
ہمارے صحافیوں، اینکر پرسنز، رپورٹرز اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیس جرنلزم کے فلسفے اور تصور سے روشناس ہونے کی شدید ضرورت ہے۔ قانون ساز اسمبلی، انتظامیہ اور عدلیہ کے بعد میڈیا ریاست کاچوتھا ستون ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافتی ادارے و تنظیمیں، این جی اوز اور منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ ہمارے صحافی بھائیوں کو پیس جرنلزم کی تربیت دیں تاکہ ہمارے انفرادی رویوں، اداروں اور ہماری معاشرتی ساخت میں مثبت روایا ت اور اقدار کو فروغ مل سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پیس جرنلزم (Peace Journalism) یا صحافت برائے امن، شعبہ ابلاغیات کا ایک اہم موضوع ہے جسے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور، ڈاکٹر جان گلتونگ (Johan Galtung) نے باقاعدہ اکیڈمک ڈسپلن کے طور پر فروغ دیا اور اس اعتبار سے انہیں اس شعبے کا بانی مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر گلتونگ کے مطابق امن کا تعلق محض تناؤ کے عدم وجود سے نہیں ہوتا بلکہ اس کےلیے انصاف کا وجود بھی ضروری ہے۔ اسی لیے انہوں نے ''امن سب کےلیے'' (peace for all) کے نعرے پر پیس جرنلزم کی بنیاد رکھی۔ جان گلتونگ نے اپنے مقالات میں اسے دو اشاریوں، یعنی منفی (Negative Peace) اور مثبت (Positive Peace) میں تقسیم کیا ہے۔ امن کے منفی اشاریئے سے مراد کسی معاشرے میں تنازعات یا تشدد کا عدم وجود ہے جبکہ مثبت اشاریئے سے مراد ایسا معاشرہ ہے جہاں انصاف، برابری اور ہم آہنگی جیسی اقدار کو پذیرائی حاصل ہو۔
آمرانہ معاشرے جہاں بظاہر حکومتی جبر کے سبب امن و امان نظر آتا ہے لیکن اندر ہی اندر لاوا اُبل رہا ہوتا ہے، امن کے منفی اشاریوں کی تشریح کرتے ہیں کیونکہ موقع ملنے پر جب وہاں لاوا پھٹتا ہے تو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ زیادہ دیر تک جبر کے ہتھکنڈوں سے لوگوں کو دبانا ممکن نہیں ہوتا۔ مسائل کا حل امن کےلیے ناگزیر ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور مشرق وسطیٰ میں ''عرب بہار'' اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں کہ جہاں ریاستوں نے وقتی طور پر قوت کے بل بوتے پر امن قائم رکھا لیکن وقت آنے پر ان معاشروں میں انتشار پھیل گیا کیونکہ وہاں بنیادی معاشرتی مسائل کے حل کےلیے امن کے مثبت اشاریوں کو فروغ نہیں دیا گیا تھا۔ اس لیے جان گلتونگ، امن کے مثبت اشاریوں کی اہمیت پر زیادہ زور دیتا ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ کے بقول، امن صرف منفی علامات (negative forces) جیسے جنگ، تناؤ اور مسائل کے عدم وجود سے نہیں بلکہ مثبت علامات (positive forces) جیسے انصاف اور دوسروں کےلیے خیر سگالی کے جذبات سے پہچانا جاتا ہے۔
وار جرنلزم اور پیس جرنلزم کو اسی سیاق و سباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں وار جرنلزم پروپیگنڈا، ردعمل، جنگ میں جیت اوراشرافیہ کے ''ہم اور وہ'' اور تشدد کے اظہاری پہلوؤں جیسے بیانیے (narrative) کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتا ہے، وہاں اس کے برعکس پیس جرنلزم جنگی صورتحال کو کنٹرول کرنے پر زور دیتے ہوئے، جنگ لڑنے والے فریقین کو انسانیت کا درس دینے اور جنگ سے متاثرہ ہر شخص کی آواز بنتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تجویز کرتا ہے۔ پیس جرنلزم کسی تنازعے میں فریق بننے اور انتشار پھیلانے والی خبروں سے گریز کرتا اور کسی ایک فریق کے مؤقف کو جانبدارانہ طور پر رپورٹ کرنے کی بجائے مجموعی طور پر امن کوفروغ دینے کی بات کرتا ہے کیونکہ جنگ میں نہ کوئی فاتح ہوتا ہے اور نہ مفتوح بلکہ جنگ انسانیت کی نفی ہوتی ہے۔
پیس جرنلزم محض تنازعہ کے فریقین پر فوکس کرنے کی بجائے اس تنازعہ کے سیاسی، مذہبی، گروہی، نظریاتی یا معاشرتی بدامنی کا سبب بننے والے دیگر مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتا اور انہیں رپورٹ کرتا ہے۔
پیس جرنلزم (پی جے) ایک وسیع اور دلچسپ موضوع ہے اور اس کی بنیاد مثبت اشاریئے ہیں جو جنگ اور امن، دونوں صورتوں میں قابل تقلید ہیں۔ یہ کسی بھی تنازعے کی وجوہ کا جائزہ لیتا اور تنازعے کے حل کےلیے فریقین میں مذاکرات پر زور دیتا ہے۔ پی جے تنازعہ کے متحارب گروپوں میں تقسیم پیدا کرنے کی بجائے انہیں مذاکرات کی میز پر اکٹھا کرنے پر زور دیتے ہوئے جھگڑے کے کسی ایک فریق کو اچھا یا کسی دوسرے فریق کو برا کہنے سے اجتناب کرتا ہے۔ پی جے سرکاری پروپیگنڈے کو مسترد کرتا ہے اور حقائق جانچنے کےلیے متبادل ذرائع تلاش کرتا ہے۔
پی جے صحافت یا رپورٹنگ میں توازن رکھنے کےلیے مسائل اور مصائب کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مسئلے کے تمام فریقوں کے مؤقف کو سامنے رکھتے ہوئے امن کےلیے حل تجویز کرتا ہے۔ یہ اشرافیہ یا طاقتور لوگوں کی آواز بننے کی بجائے مظلوموں کی آواز بنتا ہے۔ یہ تشدد اور تنازعہ سے جڑی فضولیات اور سنسنی خیزی میں الجھنے کی بجائے مسائل کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیتا ہے۔
پیس جرنلسٹ رپورٹنگ کرتے وقت نتائج سے لاپرواہ ہو کر ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی رپورٹنگ میں سوچ سمجھ کر درست اور مثبت الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں تاکہ ان کی کسی چھوٹی سی کوتاہی سے کوئی آگ نہ بھڑک اٹھے۔ وہ جنگ کے شکار علاقے سے لی گئی کسی ایسی تصویر کو رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں جس سے کوئی غلط فہمی یا انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ پیس جرنلزم نان سینس میڈیا (debunk media) کی طرف سے پھیلائے جانے والے دقیانوسی تصورات (stereotypes)، روایتی باتوں (myths) اور غلط تصورات (misperceptions) پر مبنی بیانیے کے مقابلے میں جوابی بیانیہ (counter narrative) پیش کرتا ہے۔
اگر ہم وسیع تناظر میں دیکھیں تو کسی ریاست میں امن کا احاطہ کرنے کےلیے پیس جرنلزم منتخب جمہوری حکومتوں کے تسلسل، کاروبار کےلیے سازگار ماحول، کرپشن کے خاتمے یا اس میں کمی، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے، انسانی وسائل کی ترقی، پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات، میڈیا کی آزادی اور ملکی وسائل کی مساویانہ تقسیم جیسے مثبت امن (positive peace) کے اشاریوں پر نظر رکھتا ہے اور ان ہی کی بنیاد پر مختلف ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ مثبت امن کو فروغ دینے والے ممالک کس قدر فائدے میں رہتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان اشاریوں میں بہتری سے فی کس جی ڈی پی میں 2.9 فیصد تک اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ 2005 سے لے کر 2017 تک جن ممالک نے مثبت امن کے اشاریوں کو فروغ دیا، وہاں اس سے غفلت کرنے والے ممالک کی نسبت جی ڈی پی میں دو فیصد زیادہ بہتری دیکھنے میں آئی۔ اس سے ملکی کرنسی کی قیمت مستحکم ہوتی ہے۔
وہ ممالک جہاں مثبت امن کے اشاریے مضبوط ہیں، وہ بُرے وقتوں یا سانحات میں بڑے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ بڑے سیاسی یا قدرتی جھٹکوں کے امکانات ان ممالک میں 84 فیصد زیادہ ہوتے ہیں جہاں مثبت امن کے اشاریئے کمزور ہوں۔ زیادہ تر مثبت امن رکھنے والے ممالک میں انقلابی تحریکیں پُرتشدد نہیں ہوتیں اور ان کے اثرات محدود رہتے ہیں جبکہ کمزور مثبت اشاریئے رکھنے والی ریاستوں میں پُرتشدد انقلابی تحریکوں کی کامیابی کے امکانات نوے فیصد تک ہوتے ہیں۔ 2005 سے 2015 کے درمیان قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح ان ممالک میں کہ جہاں مثبت اشاریئے کمزور ہیں، دیگر ممالک کی نسبت 13 گُنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔
پاکستان بھی ان ممالک میں سے ہے جہاں مثبت امن (positive peace) کے اشاریئے انتہائی کمزور ہیں کیونکہ پاکستان میں پیس جرنلزم کا تصور یا تو انتہائی محدود ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہمارے میڈیا میں یکطرفہ منفی خبروں کی ہر وقت بھر مار رہتی ہے جن میں پیس جرنلزم اور ڈیویلپمنٹ جرنلزم کے عوامل کا خیال نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا ہمارے روایتی میڈیا پر اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے اور اب نیو میڈیا یا سوشل میڈیا عوامی زندگی (public sphere) میں مقبول ہورہا ہے۔
ہمارے صحافیوں، اینکر پرسنز، رپورٹرز اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیس جرنلزم کے فلسفے اور تصور سے روشناس ہونے کی شدید ضرورت ہے۔ قانون ساز اسمبلی، انتظامیہ اور عدلیہ کے بعد میڈیا ریاست کاچوتھا ستون ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافتی ادارے و تنظیمیں، این جی اوز اور منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ ہمارے صحافی بھائیوں کو پیس جرنلزم کی تربیت دیں تاکہ ہمارے انفرادی رویوں، اداروں اور ہماری معاشرتی ساخت میں مثبت روایا ت اور اقدار کو فروغ مل سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔