جو کچھ نہ بن سکے انھیں ’’پائلٹ‘‘ بنادیا
اب ثابت ہوا ہے کہ جو میٹرک نہیں کرتے وہ کرشمہ کر دکھاتے ہیں۔
''لاجواب سروس بہ کمال لوگ'' کے سلوگن میں ''لاجواب سروس'' تو خیر ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن ''بہ کمال لوگ'' سمجھ میں نہیں آتا تھا، اب جاکے سمجھے جب سول ایوی ایشن اتھارٹی نے عدالت عظمیٰ کے تین رُکنی بینچ کے سامنے انکشاف کیا کہ پی آئی اے کے سات پائلٹس کی تعلیمی اسناد جعلی پائی گئیں، جن میں سے پانچ نے میٹرک بھی نہیں کیا ہے۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم کیا جانے والا یہ بینچ قومی ایئرلائن کے پائلٹس اور دیگر اسٹاف کی تعلیمی اسناد کی تصدیق سے متعلق معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔
یہ تو آپ نے بہت سُنا ہوگا کہ ''جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں'' اب ثابت ہوا ہے کہ جو میٹرک نہیں کرتے وہ کرشمہ کر دکھاتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا ''جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دل بنادیا''، اسی طرح نان میٹرک حضرات جو کچھ نہ بن سکے قومی ایئرلائن نے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے انھیں پائلٹ بنادیا۔
ذرا سوچیے، اگر کسی مسافر کو دوران پرواز یہ خبر ملی ہو کہ قومی ایئرلائن کے پائلٹوں میں ایسے بھی ہیں جو میٹرک پاس بھی نہیں، تو اسے آس پاس ہر طرف موت دکھائی دینے لگی ہوگی، اور دل کی وہ حالت ہوئی ہوگی کہ منزل پر پہنچتے ہی بائی پاس کا مرحلہ آگیا ہوگا۔ ایسے کم زور دل خواتین وحضرات اب ہر فضائی سفر سے پہلے دعا مانگیں گے ''خُدایا! یہ سفر ہمیں راس ہو، کپتان کم ازکم میٹرک پاس ہو۔''
لگتا ہے کہ جعلی اسناد والے اور نان میٹر پائلٹوں سے جہاز اُڑوانے کے کام یاب تجربے کو دنیا بھر کی ایئرلائنز خوشی خوشی اپنائیں گی، یوں انھیں ''سستے'' اور پرواز کے لیے فوری طور پر تیار کپتان میسر آسکیں گے۔ کسی کو بہ طور کپتان بھرتی کرنے کے لیے اس طرح کے سوالات کیے جائیں گے:
''بچپن میں کاغذ کے جہاز بنا کے اُڑائے ہیں؟''
''کبھی رکشہ چلایا ہے؟''
''چنگچی کتنی بار چلا چکے ہو؟''
''کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکل چلائی ہے؟''
''ٹرک ڈرائیونگ کا تجربہ ہے؟''
جواب اثبات میں آنے پر نوکری پَکی، اور جہاز کی ''چابی'' دے کر کہہ دیا جائے گا،''چَل اُڑ جا رے پنچھی۔''
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم کیا جانے والا یہ بینچ قومی ایئرلائن کے پائلٹس اور دیگر اسٹاف کی تعلیمی اسناد کی تصدیق سے متعلق معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔
یہ تو آپ نے بہت سُنا ہوگا کہ ''جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں'' اب ثابت ہوا ہے کہ جو میٹرک نہیں کرتے وہ کرشمہ کر دکھاتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا ''جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دل بنادیا''، اسی طرح نان میٹرک حضرات جو کچھ نہ بن سکے قومی ایئرلائن نے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے انھیں پائلٹ بنادیا۔
ذرا سوچیے، اگر کسی مسافر کو دوران پرواز یہ خبر ملی ہو کہ قومی ایئرلائن کے پائلٹوں میں ایسے بھی ہیں جو میٹرک پاس بھی نہیں، تو اسے آس پاس ہر طرف موت دکھائی دینے لگی ہوگی، اور دل کی وہ حالت ہوئی ہوگی کہ منزل پر پہنچتے ہی بائی پاس کا مرحلہ آگیا ہوگا۔ ایسے کم زور دل خواتین وحضرات اب ہر فضائی سفر سے پہلے دعا مانگیں گے ''خُدایا! یہ سفر ہمیں راس ہو، کپتان کم ازکم میٹرک پاس ہو۔''
لگتا ہے کہ جعلی اسناد والے اور نان میٹر پائلٹوں سے جہاز اُڑوانے کے کام یاب تجربے کو دنیا بھر کی ایئرلائنز خوشی خوشی اپنائیں گی، یوں انھیں ''سستے'' اور پرواز کے لیے فوری طور پر تیار کپتان میسر آسکیں گے۔ کسی کو بہ طور کپتان بھرتی کرنے کے لیے اس طرح کے سوالات کیے جائیں گے:
''بچپن میں کاغذ کے جہاز بنا کے اُڑائے ہیں؟''
''کبھی رکشہ چلایا ہے؟''
''چنگچی کتنی بار چلا چکے ہو؟''
''کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکل چلائی ہے؟''
''ٹرک ڈرائیونگ کا تجربہ ہے؟''
جواب اثبات میں آنے پر نوکری پَکی، اور جہاز کی ''چابی'' دے کر کہہ دیا جائے گا،''چَل اُڑ جا رے پنچھی۔''