منی بجٹ کے وسیع اثرات
اسی لیے عالمی مارکیٹ میں پاکستانی صنعت کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے
آئی ایم ایف (IMF) کی شرائط کے بیشتر مطالبات، گیس بجلی کے نرخ تو پہلے ہی بڑھ چکے تھے۔ بقیہ عام استعمال کی چیزوں پر رہا سہا بھاؤ بڑھا جن میں مسالہ جات اور خوردنی تیل پر عائد معمولات نے عوام کی ریڑھ کی ہڈی پر ضرب لگا کے رکھ دی۔ لہٰذا 15 جنوری کے بعد پاکستان کے عوام پر جو محصولات کا بوجھ لادا جا چکا ہے اس سے آئی ایم ایف کے افسران بالا کے روبرو ہمارے رہنما آرام سے بیٹھ سکیں گے اور ان کو خاطر خواہ قرض تو نہ سہی مگر نو دس ارب ڈالر کے قرب و جوار یا 13 ارب تک کے قرض کی رقم کی توقع کے احکامات روشن ہوگئے ہیں مگر اب بھی پاکستان کے ڈیم کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے جوکہ ملک کی اولین ترجیح ہے مگر اس کی تعمیر کا تخمینہ تقریباً 1450 ارب ڈالر ہے جس کے لیے جو بھی کوششیں بھی کی گئیں وہ ناکام نظر آتی ہیں۔
اشتہارات جو ڈیم کے لیے چلائے گئے ان کی رقم 13 ارب تھی اور جو رقم اس ضمن میں حاصل ہوئی وہ 9 ارب گویا اس مہم میں چار ارب کا خسارہ ہوا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ عوامی شعور انحطاط پذیر ہے اور اعلیٰ طبقات کو ملک کے نشیب و فراز سے زیادہ دلچسپی نہیں کیونکہ ان کے لیے ہر ملک، ملکِ ما است کیونکہ یہ لوگ دہری شہریت کے حامل ہیں اور بعض تو ان میں اسمبلی کے اراکین بھی ہیں۔
گزشتہ جمعے کو میں نے ہمت کرکے یہ لب کشائی کی کہ چند ارب کے لیے دست کشائی سے یہ کہیں بہتر ہوتا کہ زمین کی حد ملکیت ایک سروے کے بعد اس کی حد مقرر کی جائے اور سبز انقلاب کا آغاز کیا جائے تاکہ شہروں پر دیہات کا دباؤ گھٹ سکے اور دیہات میں بے زمین نوجوانوں کو دس یا کم ازکم 5 ایکڑ زمین اقساط میں دی جائے۔ اس طرح زمین سے جو فصل ملے گی وہ دگنا ہوگی کیونکہ ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ملک سے نہ وفا کر پاتے ہیں اور نہ زمین سے وہ روایتی انداز میں فصل تیار کرتے ہیں ان کو اپنے ملک کے امپورٹڈ فوڈ آئٹم کا بھی کوئی ادراک نہیں۔ وہ صرف کپاس، گیہوں، چاول کی فصلوں سے آگاہ ہیں بقیہ پھلوں میں کیلے کی حد تک ملک کو کفالت نصیب ہوئی ہے مگر جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک تک کی پیداواری صلاحیت کا انھیں ذرا بھی ادراک نہیں لہٰذا اب جو بھی حکومت برسر اقتدار آئے اس کو زمینات کے پیداواری علم کی ابتدائی نالج ضروری ہے تاکہ فی ایکڑ زمینی پیداوار کا اندازہ ہوسکے۔ لہٰذا آئیے ہم فی ایکڑ پیداوار کا ایک اندازہ لگاتے چلیں۔
اگر ہم عمودی لمبائی میں ایک ہزار قدم چلیں اور چوڑائی میں 800 قدم چلیں تو یہ تقریباً ایک ایکڑ کا رقبہ ہوگا تو 4 ماہ میں ایک ایکڑ کی پیداوار گیہوں کی 100من کے لگ بھگ ہوگی لہٰذا ایک ایکڑ کی پیداواری صلاحیت معمولی دیکھ بھال کے بعد 1,20000 رقم حاصل ہوگی اب پانی کھاد اور دیگر اشیاء کے اخراجات نکال کر اصل رقم ایک ایکڑ میں 70 تا 80 ہزار روپے کے لگ بھگ حاصل ہوگی لہٰذا ایک خاندان جو B یا 9 افراد پر مشتمل ہوگا اس کو 4 ماہ میں 80 ہزار ملیں گے مگر یہ رقم بہت نہیں ہے، ناگہانی منزلوں سے گزرنا ہوگا لیکن موسم کے نشیب و فراز سے گزرنا تو پڑتا ہوگا اسی لیے ایک دو ایکڑ زمین والے اکثر لوگ زمین ٹھیکے پر دے کر اپنے خاندان کے ہمراہ شہروں کا رخ کرتے ہیں اس طرح شہروں میں کچی آبادیوں کے انبار لگ رہے ہیں اور ان لوگوں کی خواتین گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتی ہیں جب کہ بڑے زمیندار طبقے اسمبلی کا رخ کرتے ہیں اور عام قسم کی روایتی زمیندار کو فروغ دیتے ہیں یا شہروں میں آکر اعلیٰ ملازمتوں کی خانہ پری کرتے ہیں لہٰذا یہ سوچنا کہ بڑے زمینداروں میں ایک نہ ایک دن پاکستان میں ایسا لیڈر پیدا ہوگا جو زمین کی منصفانہ تقسیم کرے گا جیساکہ ذوالفقار علی بھٹو نے کوشش کی۔ مگر بڑے زمینداروں نے یہ ہدف ناکام بنادیا تھا۔ مگر اب کسی لیڈر کو جرأت نہ ہوگی کہ وہ حد ملکیت پر نظر ثانی کرے اور ملک کی قسمت بدلنے کی ہمت کرے۔
چھوٹے چھوٹے قرضوں کے ذریعے ملک چلانے کی کوشش کی جاتی رہے یا آئی ایم ایف سے بجلی اور گیس کا ٹیرف بنوائے تاکہ ملکی اشیاء اس قدر مہنگی تیار ہوں کہ بیرون ملک ان کی کوئی مارکیٹ نہ رہے اسی لیے پاکستانی مصنوعات ایکسپورٹ مارکیٹ میں اپنا مقام بنانے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ ظاہر ہے پاکستانی مزدور مجبور ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے نرخ پر زندگی نہیں گزار سکتا کیونکہ پاکستان میں مہنگائی کا دور دورہ ہے۔ حال ہی میں مجموعی طور پر 30 فیصد مہنگائی کا تناسب بڑھا ہے لہٰذا ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے اہداف حاصل کرنا پاکستانی صنعت کاروں کے بس میں نہیں حالانکہ پاکستانی ہنرمندوں میں ایک سے ایک اعلیٰ ہیں اور کپاس کی کوالٹی بھی اپنی نوعیت کی آپ ہے۔ پاکستانی کپاس کا ریشہ نمی جذب کرنے میں بے مثال ہے اور زیادہ توانا ہے۔ پروڈکشن کی قیمت بھی اضافی ہے۔
اسی لیے عالمی مارکیٹ میں پاکستانی صنعت کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جب کہ زمینداروں کو جدید دنیا کے اجناس کی پیداواری صلاحیت سے آشنائی نہیں۔ حالانکہ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی اور ٹنڈو جام کی یونیورسٹی ملک کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ لیکن ان کو جس طریقے سے استعمال کیا جانا تھا اس کو اس شایان شان طریقے سے استعمال نہیں کیا جاتا۔ سبز انقلاب کا تذکرہ جو بار بار کر رہا ہوں وہ زرعی انقلاب کا سفر ہے۔ ہمارے جھنڈے کا رنگ اس میں ہی ملک کی فلاح ہے۔ فلپائن، ملائیشیا، ویتنام، کمبوڈیا اور گرد و نواح کے ممالک خوردنی تیل بڑی مقدار میں ایکسپورٹ کرتے ہیں اور پاکستان ان ممالک سے امپورٹ کرتا ہے جب کہ پاکستان کا ساحلی علاقہ نہ ہی بھاری مقدار میں تیل پیدا کرتا ہے اور نہ ناریل بڑی مقدار میں ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ غذائی پیداوار میں مشروم (کھمبی) پروٹین کا بہترین ذریعہ ہے جسے بھارت بھی ایکسپورٹ کر رہا ہے مگر ہمارے ہاں نہ کوئی ایکسپورٹ آئٹم پر توجہ ہے بس دنیا کے سامنے حاجت روائی کی فریاد ہے۔ اس سے ملک و ملت کو کوئی فائدہ ہونے کا نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کو ہموار راہوں پر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مزید قدر و قیمت گرانے سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا بلکہ ایکسپورٹ ریٹ گارمنٹس اور فیبرکس کے کم ہو جائیں گے جب کہ پرزہ جات کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور قرضوں کی مد میں اربوں روپے کے اضافے ہوں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا معیشت مزید دباؤ کا شکار ہوجائے گا۔ منی بجٹ جس کا نام ہے کہ بس وہ آنے کو ہے درحقیقت وہ تو آچکا ہے محض چند اور طوق آئی ایم ایف ڈالنے کو ہے جس سے عوام کے پاؤں اور بوجھل ہوجائیں گے۔ منی بجٹ جس کا نام ہے میکشی اثرات میں ڈوبی زندگی ہوگی۔