صحرا میں اذان دوسرا اور آخری حصہ
شہر خطرناک آلودگی کے سبب شہریوں کے لیے بیماریوں کا سبب بن رہا ہے
کراچی کی صحت اور صفائی کا جائزہ لیا جائے تو یہ گندہ ترین شہر بن چکا ہے۔ بلدیاتی ادارے موجود ہیں مگر وہ کام سے عاری ہیں۔ ساری دنیا میں سوکھے کچرے کو 'ری سائیکل' کیا جاتا ہے اور گیلے کچرے سے کھاد بنائی جاتی ہے اور بجلی کی فراہمی بھی ان سے بنائی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اخباروں میں خبر آئی تھی کہ کسی کمپنی نے کچرے کے اس مفید مقصد کو پیش نظر رکھ کر اپنا منصوبہ پیش کیا تھا اور پورے شہر کراچی سے کچرے کی صفائی کا بیڑا اٹھایا تھا مگر اسے بھگادیا گیا اور موجودہ صورتحال میں اس کچرے کو جلاکر مزید آلودگی پھیلائی جارہی ہے۔
جب کہ شہر خطرناک آلودگی کے سبب شہریوں کے لیے بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ اس کو کم کرنے کے لیے شہر میں جگہ جگہ سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹ پر شجر کاری کی گئی ہے جوکہ اب بھی ناکافی ہے مگر اس پر طرۂ یہ کہ جب درخت بڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی شاخیں پھیل جاتی ہیں تو کے ای ایس یا بلدیہ کے سورما ان کو کاٹ کاٹ کر ٹنڈ منڈ بنا دیتے ہیں کہ جی یہ بجلی کے تاروں کی سپلائی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ یہ ایک سنگین جرم ہے جب کہ ساری دنیا میں جہاں بھی بجلی کے تار درختوں سے گزرتے ہیں ان پر PVC یا کسی اور میٹریل کی کورنگ کردی جاتی ہے اور سالہا سال سے موجود درختوں کو نہیں چھیڑا جاتا۔ عدالت عالیہ نے انگلش میڈیم اسکولوں کی بھاری بھرکم فیسوں اور تعلیم کو انتہائی منافع بخش کاروبار بنانے والوں کے خلاف ایکشن لیا ہے تو مالکوں کی مافیا نے بجائے اپنے منافع میں کمی کرنے کے اسٹاف میں چھانٹی اور دیگر سہولتوں میں کمی کا وطیرہ اختیارکرلیا ہے ۔
دنیا کا ایسا کون سا شہر ہے جہاں رینجرز برس ہا برس سے تعینات ہو ۔ لاء اینڈ آرڈر قائم کرنے میں پولیس کی مدد کررہی ہو مگر نہ پولیس ریفارم ہورہی ہو نہ تربیت اور امن وامان قائم کرنے کا سارا بوجھ رینجرز پر ہی ڈال دیا گیا ہے اور پولیس سیاسی نابغوں کی لونڈی بنی ہوئی ہو؟
کراچی میں ٹرانسپورٹ کی ناگفتہ بہ صورتحال کا تجزیہ ایوب خان صاحب کے دور سے شروع کرتے ہیں جب کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم کی گئی جگہ جگہ ان کے ڈپو اور ورکشاپ وسیع قطع اراضی پر قائم تھے۔ ڈبل ڈیکر بسیں چلائی گئیں سرکلر ریلوے بنی جس کو ٹرانسپورٹ مافیا نے اور کچھ اپنوں نے کھا پی کر برابرکردیا اور ان ڈپوؤں کے وسیع قطعات اراضی بمعہ تعمیرات کے غتر بود ہوگئے۔ اسی طرح محمد علی ٹراموے کمپنی کی پٹڑیاں جو کینٹ اسٹیشن، صدر، بندر روڈ سے ہوتی ہوئی کیماڑی، ٹاور تک جاتی تھیں اور جس کا بہت بڑا ڈپو بندر روڈ پر پلازہ کے سامنے ایک وسیع قطعہ اراضی پر بنا ہوا تھا۔ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا۔ نواز شریف کے دور میں گرین بس کے نام پر پل اور انڈر پاس بنانے کے منصوبے بنے جو ابھی زیر تعمیر ہیں اور سندھ گورنمنٹ ان پر سست روی سے عمل پیرا ہے مگر کوئی مربوط ٹرانسپورٹ کا نظام قائم ہوتا نظر نہیں آرہا ۔
ایوب خان صاحب کے دور میں KDA کے چیف ٹاؤن پلانر احمد علی ہوا کرتے تھے جن کی ایمانداری اور فرض شناسی کا ثبوت وہ مشہور واقعہ ہے کہ اسی زمانے میں ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل نیا نیا بنا تھا اور ڈیزائن کے حساب سے انھوں نے ساتھ کی زمین کا کچھ حصہ جو پولو گراؤنڈ کہلاتا تھا دبا لیا جس پر احمد علی نے انھیں نوٹس جاری کردیا تو وہ کیونکہ انٹرنیشنل پارٹی تھی اس نے ایوب خان تک رسائی حاصل کی جس پر اس وقت کے کنونشن لیگ کے جنرل سیکریٹری جو اس وقت کے ایک صنعتی گروپ سے وابستہ تھے کو بھیجا گیا کہ یہ کون سر پھرا ٹاؤن پلانر ہے۔ اس پر احمد علی نے جواب دیا کہ میں اس شہر کی تعمیرات کا کسٹوڈین ہوں اگر آج میں نے اسے جائز قرار دیا تو یہ نظیر بن جائے گی اور پھر تجاوزات کی بھرمار ہوجائے گی۔
اگر ایوب صاحب اسے ریگولرائز کرنا چاہتے ہیں تو اپنے قلم سے مجھے لکھ دیں میں اس کی تعمیل کر لوں گا لیکن اپنے قلم سے اسے جائز قرار نہیں دے سکتا۔ اس زمانے میں کراچی کے ماسٹر پلان پر زور و شور سے کام جاری تھا جس میں یو این کے ایک ایکسپرٹMr. Yadrasco بھی شامل تھے۔ اسی زمانے میں احمد علی نے لیاری ندی کے بارے میں ایک شاندار پلان تیار کیا تھا جس کے مطابق اس کے کناروں پر آباد سندھیوں نے اپنے باغ لگائے ہوئے تھے اور کافی حصہ خالی بھی پڑا تھا۔
ملیر میں بھی باغات تھے اور ان سب کی پانی کی ضرورت ٹیوب ویلوں سے پوری ہوجاتی تھی۔ لیاری ندی شہر کے بیچوں بیچ سے گزرتی تھی اور سال میں ایک دفعہ ضرور بارش کے پانی سے پوری بھر جاتی تھی اور پھر یہ پانی سمندر میں جا گرتا تھا۔ احمد علی صاحب کا پلان اس کے پانی کو روک کر اس میں واٹر ٹرانسپورٹ چلانے کا تھا اور سارے کناروں پر جو زمینیں تھیں انھیں لیز پر دے کر اس میں سبزیاں اور فروٹ کے باغات اگانا تھے۔ اس شاندار منصوبے سے جہاں شہریوں کو سستی ٹرانسپورٹ مہیا ہوجاتی وہیں سارا شہر پلوشن فری بھی ہو جاتا اور شہریوں کو تازہ فروٹ اور سبزیاں بھی سستے داموں میسر آتیں اور شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا مگر افسوس یہ منصوبہ بھی کہیں فائلوں میں دب گیا۔ ان کی زندگی میں نارتھ ناظم آباد ڈویلپ ہوچکا تھا اور فیڈرل بی ایریا میں کام جاری تھا۔ گلشن اقبال کی اسکیم بھی تکمیل کے مراحل میں تھی اور کراچی کے ماسٹر پلان میں شامل تھی مگر بعد میں سب کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ اب لیاری ندی گٹر نالہ بن چکی ہے اور اس کے کناروں پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔
کراچی کا ماسٹر پلان لاپتہ ہے اور اب سرکلر ریلوے دوبارہ کھولنے کی بات چلی ہے تو عرض ہے کہ 2005 میں کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے یو ٹی سی) قائم کی گئی اس ادارے نے جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے مالی تعاون سے منصوبے کی فزیبلٹی پر کام شروع کیا۔ 2013 میں جائیکا نے اپنے فنڈز سے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور متاثرین کی نوآبادکاری کے لیے اپنی فزیبلٹی مکمل کی۔ اس پر جاپان حکومت نے آسان شرائط پر قرضہ بھی منظور کرلیا۔ مگر ٹوٹی کہاں پہ کمند؟ جائیکا اس سارے منصوبے کو بہترین انداز میں انسانی بنیادوں پر اپنی نگرانی میں مکمل کرنا چاہتی تھی مگر اس وقت کی سندھ کی حکومت اپنے کھانچوں کو ہاتھ سے جاتا کیسے دیکھ سکتی تھی۔
اس نے اس سارے معاملے کو اپنی نگرانی میں کروانے پر اصرار کیا لیکن جائیکا نے منع کردیا اور یوں یہ منصوبہ ختم ہوگیا۔ اب 2016 میں KCR منصوبے کو نواز شریف دور حکومت میں سی پیک سے منسلک کردیا گیا اور یہ منصوبہ سندھ حکومت کے حوالے ہوگیا لیکن اصل معاملہ جوں کا توں رہا یعنی سندھ حکومت کو وفاق نے نہ تو سرکلر ریلوے کی اراضی دینے کا فیصلہ کیا اور نہ ہی اربن ٹرانسپورٹ کے محکمے کو سندھ حکومت کے حوالے کیا۔
علاوہ ازیں چین اور حکومت پاکستان کا ابھی حتمی معاہدہ بھی طے نہیں ہوا پھر جنوری 2018 میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس اور وزارت ریلوے کے اجلاس کے نتیجے میں ریلوے کی اراضی سے تجاوزات کے خاتمے، متاثرین کی نوآبادکاری اور یہ بھی طے پایا کہ وزارت ریلوے کراچی سرکلر ریلوے کی اراضی سندھ حکومت کے حوالے کرے گی اور سندھ حکومت اتنی ہی مالیت کی اراضی ریلوے کو سندھ میں کسی دوسرے مقام پر الاٹ کرے گی دیکھیں اب یہ بیل کب منڈھے چڑھتی ہے۔وزیر اعظم صاحب کو چاہیے کہ اپنی شخصیت کے خودساختہ حصار سے نکلیں اور مختلف شعبہ جات کے ایماندار، مخلص اور ذاتی مفاد سے بالاتر قومی مفادات کو ترجیح دینے والوں کو اپنا مشیر مقرر کریں اور ان سے براہ راست عوام کے مسائل کی آگاہی حاصل کریں ورنہ اس وقت تو عوام کی حالت یہ ہے کہ:
جب کسی نے حال پوچھا رو دیا
چشمِ تر تو نے تو مجھ کو کھو دیا
دنیا کے سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور اس صورتحال میں پاکستان کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا لازم ہے اور اس کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے دشمن چوکس ہے اور اندرونی طور پر خلفشار اور انتشار پیدا کرنے کے لیے بے تاب ہے۔
شاید کوئی بندہ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
جب کہ شہر خطرناک آلودگی کے سبب شہریوں کے لیے بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ اس کو کم کرنے کے لیے شہر میں جگہ جگہ سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹ پر شجر کاری کی گئی ہے جوکہ اب بھی ناکافی ہے مگر اس پر طرۂ یہ کہ جب درخت بڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی شاخیں پھیل جاتی ہیں تو کے ای ایس یا بلدیہ کے سورما ان کو کاٹ کاٹ کر ٹنڈ منڈ بنا دیتے ہیں کہ جی یہ بجلی کے تاروں کی سپلائی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ یہ ایک سنگین جرم ہے جب کہ ساری دنیا میں جہاں بھی بجلی کے تار درختوں سے گزرتے ہیں ان پر PVC یا کسی اور میٹریل کی کورنگ کردی جاتی ہے اور سالہا سال سے موجود درختوں کو نہیں چھیڑا جاتا۔ عدالت عالیہ نے انگلش میڈیم اسکولوں کی بھاری بھرکم فیسوں اور تعلیم کو انتہائی منافع بخش کاروبار بنانے والوں کے خلاف ایکشن لیا ہے تو مالکوں کی مافیا نے بجائے اپنے منافع میں کمی کرنے کے اسٹاف میں چھانٹی اور دیگر سہولتوں میں کمی کا وطیرہ اختیارکرلیا ہے ۔
دنیا کا ایسا کون سا شہر ہے جہاں رینجرز برس ہا برس سے تعینات ہو ۔ لاء اینڈ آرڈر قائم کرنے میں پولیس کی مدد کررہی ہو مگر نہ پولیس ریفارم ہورہی ہو نہ تربیت اور امن وامان قائم کرنے کا سارا بوجھ رینجرز پر ہی ڈال دیا گیا ہے اور پولیس سیاسی نابغوں کی لونڈی بنی ہوئی ہو؟
کراچی میں ٹرانسپورٹ کی ناگفتہ بہ صورتحال کا تجزیہ ایوب خان صاحب کے دور سے شروع کرتے ہیں جب کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم کی گئی جگہ جگہ ان کے ڈپو اور ورکشاپ وسیع قطع اراضی پر قائم تھے۔ ڈبل ڈیکر بسیں چلائی گئیں سرکلر ریلوے بنی جس کو ٹرانسپورٹ مافیا نے اور کچھ اپنوں نے کھا پی کر برابرکردیا اور ان ڈپوؤں کے وسیع قطعات اراضی بمعہ تعمیرات کے غتر بود ہوگئے۔ اسی طرح محمد علی ٹراموے کمپنی کی پٹڑیاں جو کینٹ اسٹیشن، صدر، بندر روڈ سے ہوتی ہوئی کیماڑی، ٹاور تک جاتی تھیں اور جس کا بہت بڑا ڈپو بندر روڈ پر پلازہ کے سامنے ایک وسیع قطعہ اراضی پر بنا ہوا تھا۔ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا۔ نواز شریف کے دور میں گرین بس کے نام پر پل اور انڈر پاس بنانے کے منصوبے بنے جو ابھی زیر تعمیر ہیں اور سندھ گورنمنٹ ان پر سست روی سے عمل پیرا ہے مگر کوئی مربوط ٹرانسپورٹ کا نظام قائم ہوتا نظر نہیں آرہا ۔
ایوب خان صاحب کے دور میں KDA کے چیف ٹاؤن پلانر احمد علی ہوا کرتے تھے جن کی ایمانداری اور فرض شناسی کا ثبوت وہ مشہور واقعہ ہے کہ اسی زمانے میں ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل نیا نیا بنا تھا اور ڈیزائن کے حساب سے انھوں نے ساتھ کی زمین کا کچھ حصہ جو پولو گراؤنڈ کہلاتا تھا دبا لیا جس پر احمد علی نے انھیں نوٹس جاری کردیا تو وہ کیونکہ انٹرنیشنل پارٹی تھی اس نے ایوب خان تک رسائی حاصل کی جس پر اس وقت کے کنونشن لیگ کے جنرل سیکریٹری جو اس وقت کے ایک صنعتی گروپ سے وابستہ تھے کو بھیجا گیا کہ یہ کون سر پھرا ٹاؤن پلانر ہے۔ اس پر احمد علی نے جواب دیا کہ میں اس شہر کی تعمیرات کا کسٹوڈین ہوں اگر آج میں نے اسے جائز قرار دیا تو یہ نظیر بن جائے گی اور پھر تجاوزات کی بھرمار ہوجائے گی۔
اگر ایوب صاحب اسے ریگولرائز کرنا چاہتے ہیں تو اپنے قلم سے مجھے لکھ دیں میں اس کی تعمیل کر لوں گا لیکن اپنے قلم سے اسے جائز قرار نہیں دے سکتا۔ اس زمانے میں کراچی کے ماسٹر پلان پر زور و شور سے کام جاری تھا جس میں یو این کے ایک ایکسپرٹMr. Yadrasco بھی شامل تھے۔ اسی زمانے میں احمد علی نے لیاری ندی کے بارے میں ایک شاندار پلان تیار کیا تھا جس کے مطابق اس کے کناروں پر آباد سندھیوں نے اپنے باغ لگائے ہوئے تھے اور کافی حصہ خالی بھی پڑا تھا۔
ملیر میں بھی باغات تھے اور ان سب کی پانی کی ضرورت ٹیوب ویلوں سے پوری ہوجاتی تھی۔ لیاری ندی شہر کے بیچوں بیچ سے گزرتی تھی اور سال میں ایک دفعہ ضرور بارش کے پانی سے پوری بھر جاتی تھی اور پھر یہ پانی سمندر میں جا گرتا تھا۔ احمد علی صاحب کا پلان اس کے پانی کو روک کر اس میں واٹر ٹرانسپورٹ چلانے کا تھا اور سارے کناروں پر جو زمینیں تھیں انھیں لیز پر دے کر اس میں سبزیاں اور فروٹ کے باغات اگانا تھے۔ اس شاندار منصوبے سے جہاں شہریوں کو سستی ٹرانسپورٹ مہیا ہوجاتی وہیں سارا شہر پلوشن فری بھی ہو جاتا اور شہریوں کو تازہ فروٹ اور سبزیاں بھی سستے داموں میسر آتیں اور شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا مگر افسوس یہ منصوبہ بھی کہیں فائلوں میں دب گیا۔ ان کی زندگی میں نارتھ ناظم آباد ڈویلپ ہوچکا تھا اور فیڈرل بی ایریا میں کام جاری تھا۔ گلشن اقبال کی اسکیم بھی تکمیل کے مراحل میں تھی اور کراچی کے ماسٹر پلان میں شامل تھی مگر بعد میں سب کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ اب لیاری ندی گٹر نالہ بن چکی ہے اور اس کے کناروں پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔
کراچی کا ماسٹر پلان لاپتہ ہے اور اب سرکلر ریلوے دوبارہ کھولنے کی بات چلی ہے تو عرض ہے کہ 2005 میں کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے یو ٹی سی) قائم کی گئی اس ادارے نے جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے مالی تعاون سے منصوبے کی فزیبلٹی پر کام شروع کیا۔ 2013 میں جائیکا نے اپنے فنڈز سے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور متاثرین کی نوآبادکاری کے لیے اپنی فزیبلٹی مکمل کی۔ اس پر جاپان حکومت نے آسان شرائط پر قرضہ بھی منظور کرلیا۔ مگر ٹوٹی کہاں پہ کمند؟ جائیکا اس سارے منصوبے کو بہترین انداز میں انسانی بنیادوں پر اپنی نگرانی میں مکمل کرنا چاہتی تھی مگر اس وقت کی سندھ کی حکومت اپنے کھانچوں کو ہاتھ سے جاتا کیسے دیکھ سکتی تھی۔
اس نے اس سارے معاملے کو اپنی نگرانی میں کروانے پر اصرار کیا لیکن جائیکا نے منع کردیا اور یوں یہ منصوبہ ختم ہوگیا۔ اب 2016 میں KCR منصوبے کو نواز شریف دور حکومت میں سی پیک سے منسلک کردیا گیا اور یہ منصوبہ سندھ حکومت کے حوالے ہوگیا لیکن اصل معاملہ جوں کا توں رہا یعنی سندھ حکومت کو وفاق نے نہ تو سرکلر ریلوے کی اراضی دینے کا فیصلہ کیا اور نہ ہی اربن ٹرانسپورٹ کے محکمے کو سندھ حکومت کے حوالے کیا۔
علاوہ ازیں چین اور حکومت پاکستان کا ابھی حتمی معاہدہ بھی طے نہیں ہوا پھر جنوری 2018 میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس اور وزارت ریلوے کے اجلاس کے نتیجے میں ریلوے کی اراضی سے تجاوزات کے خاتمے، متاثرین کی نوآبادکاری اور یہ بھی طے پایا کہ وزارت ریلوے کراچی سرکلر ریلوے کی اراضی سندھ حکومت کے حوالے کرے گی اور سندھ حکومت اتنی ہی مالیت کی اراضی ریلوے کو سندھ میں کسی دوسرے مقام پر الاٹ کرے گی دیکھیں اب یہ بیل کب منڈھے چڑھتی ہے۔وزیر اعظم صاحب کو چاہیے کہ اپنی شخصیت کے خودساختہ حصار سے نکلیں اور مختلف شعبہ جات کے ایماندار، مخلص اور ذاتی مفاد سے بالاتر قومی مفادات کو ترجیح دینے والوں کو اپنا مشیر مقرر کریں اور ان سے براہ راست عوام کے مسائل کی آگاہی حاصل کریں ورنہ اس وقت تو عوام کی حالت یہ ہے کہ:
جب کسی نے حال پوچھا رو دیا
چشمِ تر تو نے تو مجھ کو کھو دیا
دنیا کے سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور اس صورتحال میں پاکستان کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا لازم ہے اور اس کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے دشمن چوکس ہے اور اندرونی طور پر خلفشار اور انتشار پیدا کرنے کے لیے بے تاب ہے۔
شاید کوئی بندہ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں