امام مولوی اور مساجد

میں اپنی درخواست واپس لیتی ہوں، مجھے اب طلاق نہیں چاہیے


Dr Naveed Iqbal Ansari January 18, 2019
[email protected]

یہ جمعہ کا دن تھا جب میرے پاس ایک پرانے دوست ملنے آئے،ان کی شادی ہوچکی تھی اور اب وہ مسائل سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں، ملاقات پر ان سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال بھی ہو رہا تھا کہ جمعے کی نمازکا وقت ہوگیا۔ میں نے نمازکو چلنے کا کہا توکہنے لگے '' اتنی جلدی کیا ہے کون سا ہم نے مولوی صاحب کا خطبہ سننا ہے، مولوی نے کیا ہمارے علم میں اضافہ کرنا ہے'' میں نے اپنے دوست سے کہا کہ '' تمھاری یہ وہی پرانی تقریر ہے مولویوں کے خلاف، یہ بات بھی غلط نہیں کہ عام طور پر ہمیں مسجد میں اسلامی قصے،کہانیاں ہی سننے کو ملتی ہیں ، چلو آج پھر سن لیں۔ '' ہم مسجد پہنچے تو امام صاحب کا واعظ جاری تھا وہ کسی عورت کا قصہ سنا رہے تھے، مسجد میں داخل ہوتے ہی ہمارے دوست کوہنسی آگئی، میںنے کہا ، بھئی پہلے قصہ سن لو پھر ہنس لینا۔

امام صاحب نے جو قصہ بیان کیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس پہنچی اور اپنے شوہر سے علیحدگی لینے کے لیے درخواست کی۔ جب اس عورت سے پوچھا گیا کہ اسے اپنے شوہر سے کیا شکایت ہے تواس نے کہا کہ کوئی شکایت نہیں ہے،کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے، اچھا پہننے کودیتا ہے، کوئی جبر بھی نہیں ہے ، دن اچھے گزر رہے ہیں مگر مجھے پھر بھی اس کے ساتھ نہیں رہنا ۔ یہ سن کر آپﷺ نے شوہرکو بلانے کے لیے کسی شخص کو بھیجا ۔ جب اس عورت کے شوہر کو پتہ چلا کہ آپ ﷺ یاد کر رہے ہیں تو وہ جلدی سے گھوڑے پر چڑھنے لگا، جلد بازی میں اس کا پیر پھسل گیا اور چوٹ لگ گئی، چنانچہ وہ شخص لنگڑاتا ہوا پہنچا۔ عورت نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا کہ میں اپنی درخواست واپس لیتی ہوں، مجھے اب طلاق نہیں چاہیے۔

اس پر عورت سے پوچھا گیا کہ ''یہ کیا معاملہ ہے؟'' عورت نے جواب دیا کہ'' جب سے شادی ہوئی میں نے کبھی اپنے شوہر کوبیمارنہیںدیکھا، جہاد سے بھی شوہر واپس آیا توکوئی زخم اس کے بدن پر نہیں دیکھا، میں نے سنا ہے کہ جس کو کوئی دکھ تکلیف نہ پہنچے اس سے خدا خوش نہیں ہوتا، خدا اپنے محبوب بندوں کو ہی یہ نعمت دیتا ہے لہذا میں کسی ایسے آدمی کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی کہ جس سے خدا خوش نہ ہو مگر اب جب کہ میرے شوہرکو چوٹ لگ گئی ہے تومجھے یقین ہوگیا ہے کہ میرا رب میرے شوہر سے ناراض نہیںہے۔''

اس واقعے کوبیان کرنے کے بعد امام صاحب نے کسی عالم کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ '' اللہ والے جب بیمار ہوتے ہیں تو یہ بھی نہیں کہتے کہ '' اے اللہ مجھے اس بیماری سے نجات دے'' بلکہ یوں کہتے ہیںکہ '' اے اللہ! یہ بیماری بھی تیری نعمت ہے اور صحت بھی تیری نعمت ہے، اپنی رحمت سے مجھے صحت والی نعمت عطا فرما'' امام صاحب نے اپنے خطبے میںمزیدفرمایا کہ ''ہم ذرا سی مصیبت پرگھبرا جاتے ہیں، ذراسی تنگی پر پریشان ہوجاتے ہیں، حالانکہ تنگی،کشادگی سب اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اللہ کبھی دے کر آزماتا ہے اورکبھی بندے سے لے کرآزماتا ہے۔ ہم صرف دنیاوی کامیابی پرسمجھتے ہیں کہ ہم واقعی کامیاب ہیں اور اللہ بھی ہم سے خوش ہے، جب کہ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ ہم آخرت میں کامیاب ہوں۔

کل تک ہمیں آخرت کی فکر ہوتی تھی کہ کسی طرح آخرت سنور جائے اسی لیے ک یہ جمعہ کا دن تھا جب میرے پاس ایک پرانے دوست ملنے آئے،ان کی شادی ہوچکی تھی اور اب وہ مسائل سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں، ملاقات پر ان سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال بھی ہو رہا تھا کہ جمعے کی نمازکا وقت ہوگیا۔ میں نے نمازکو چلنے کا کہا توکہنے لگے '' اتنی جلدی کیا ہے کون سا ہم نے مولوی صاحب کا خطبہ سننا ہے، مولوی نے کیا ہمارے علم میں اضافہ کرنا ہے'' میں نے اپنے دوست سے کہا کہ '' تمھاری یہ وہی پرانی تقریر ہے مولویوں کے خلاف، یہ بات بھی غلط نہیں کہ عام طور پر ہمیں مسجد میں اسلامی قصے،کہانیاں ہی سننے کو ملتی ہیں ، چلو آج پھر سن لیں۔ '' ہم مسجد پہنچے تو امام صاحب کا واعظ جاری تھا وہ کسی عورت کا قصہ سنا رہے تھے، مسجد میں داخل ہوتے ہی ہمارے دوست کوہنسی آگئی۔

میں نے کہا ، بھئی پہلے قصہ سن لو پھر ہنس لینا۔ امام صاحب نے جو قصہ بیان کیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس پہنچی اور اپنے شوہر سے علیحدگی لینے کے لیے درخواست کی۔ جب اس عورت سے پوچھا گیا کہ اسے اپنے شوہر سے کیا شکایت ہے تواس نے کہا کہ کوئی شکایت نہیں ہے،کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے، اچھا پہننے کودیتا ہے، کوئی جبر بھی نہیں ہے ، دن اچھے گزر رہے ہیں مگر مجھے پھر بھی اس کے ساتھ نہیں رہنا ۔ یہ سن کر آپﷺ نے شوہرکو بلانے کے لیے کسی شخص کو بھیجا ۔ جب اس عورت کے شوہر کو پتہ چلا کہ آپ ﷺ یاد کر رہے ہیں تو وہ جلدی سے گھوڑے پر چڑھنے لگا، جلد بازی میں اس کا پیر پھسل گیا اور چوٹ لگ گئی، چنانچہ وہ شخص لنگڑاتا ہوا پہنچا۔ عورت نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا کہ میں اپنی درخواست واپس لیتی ہوں، مجھے اب طلاق نہیں چاہیے۔

اس پر عورت سے پوچھا گیا کہ ''یہ کیا معاملہ ہے؟'' عورت نے جواب دیا کہ'' جب سے شادی ہوئی میں نے کبھی اپنے شوہر کوبیمارنہیںدیکھا، جہاد سے بھی شوہر واپس آیا توکوئی زخم اس کے بدن پر نہیں دیکھا، میں نے سنا ہے کہ جس کو کوئی دکھ تکلیف نہ پہنچے اس سے خدا خوش نہیں ہوتا، خدا اپنے محبوب بندوں کو ہی یہ نعمت دیتا ہے لہذا میں کسی ایسے آدمی کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی کہ جس سے خدا خوش نہ ہو مگر اب جب کہ میرے شوہرکو چوٹ لگ گئی ہے تومجھے یقین ہوگیا ہے کہ میرا رب میرے شوہر سے ناراض نہیںہے۔''

اس واقعے کوبیان کرنے کے بعد امام صاحب نے کسی عالم کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ '' اللہ والے جب بیمار ہوتے ہیں تو یہ بھی نہیں کہتے کہ '' اے اللہ مجھے اس بیماری سے نجات دے'' بلکہ یوں کہتے ہیںکہ '' اے اللہ! یہ بیماری بھی تیری نعمت ہے اور صحت بھی تیری نعمت ہے، اپنی رحمت سے مجھے صحت والی نعمت عطا فرما'' امام صاحب نے اپنے خطبے میںمزیدفرمایا کہ ''ہم ذرا سی مصیبت پرگھبرا جاتے ہیں، ذراسی تنگی پر پریشان ہوجاتے ہیں، حالانکہ تنگی،کشادگی سب اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اللہ کبھی دے کر آزماتا ہے اورکبھی بندے سے لے کرآزماتا ہے۔ ہم صرف دنیاوی کامیابی پرسمجھتے ہیں کہ ہم واقعی کامیاب ہیں اور اللہ بھی ہم سے خوش ہے، جب کہ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ ہم آخرت میں کامیاب ہوں۔کل تک ہمیں آخرت کی فکر ہوتی تھی کہ کسی طرح آخرت سنور جائے اسی لیے کسی سے لین دین کے لیے زبان سے اقرار اور عہد کر لیا جاتا تھا ، وعدہ پورا کیا جاتا تھا، زندگی کی آخری تمنا یہی ہوتی تھی کہ حج کی سعادت نصیب ہوجائے اور مرتے وقت زبان پرکلمہ نصیب ہوجائے، مگر اب یہ خواہشیں دل میں نہیںہوتیں، اسٹامپ پیپر پر لکھی ہوئی تحریر سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں صرف اس لیے کہ دنیا کسی طرح اچھی ہوجائے، اب آخرت کی کتنے لوگوں کو فکر ہے؟ یہ فکر ہی نفسا نفسی کی کیفیت کو ختم کرتی ہے۔ اب تو جمعہ کی نماز میں بھی بالکل آخری وقت میںآتے ہیں کہ مولوی کی بات سن کر اپنا وقت کیوںضایع کریں۔

امام صاحب کا بیان کافی پر اثر محسوس ہو رہا تھا ، جب ہم مسجد سے باہر نکلے تو میں نے مسکرا کر اپنے دوست کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے کہنے لگا'' بھئی آج تو مان گیا مولوی صاحب نے واقعی میرے دل کے تار چھو لیے، میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ یہی باتیں گھر جاکر بیوی بچوں کو بھی سناؤ، سچ پوچھو تو میں جن مسائل میں اس وقت گرفتار ہوں ان کا علاج اس تقریر میں مل گیا ہے۔'' میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ''کبھی تمھاری موٹر سائیکل پنچر ہوئی ہے؟ جب موٹر سائیکل پنچر ہوتی ہے تو ہم اسے پیدل گھسیٹتے ہوئے اپنی نظروں کو ہر طرف گھماتے ہیں اور تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی پرانا ٹائرکسی بانس میں لٹکا ہوا مل جائے اور جیسے ہی ہماری نظر اس پرانے ٹائر پر پڑجائے ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ حل ہوگیا لیکن جب موٹر سائیکل پنچرنہ ہو تو ہم راستوں سے تیزی سے گزر جاتے ہیں ہمیں احساس ہی نہیںہوتا کہ کتنے پنچر والے نظرسے گذرے۔''

بس یہی حال ہمارا جمعے کے بیان سننے کا تھا ، آج ہم مسائل سے دوچار تھے تو فوراً ہمیں اس امام کے بیان کی بات سمجھ آگئی ورنہ جبتک ہم مسائل سے دوچار نہ تھے، اسی امام کے بیان کومولوی کی فرسودہ باتیں والا بھاشن کہہ کر رد کردیتے تھے۔

مساجد ایک ایسا زبردست مرکز ہیں کہ جہاںسے معاشرے کو درست راہ پر رکھنے میں مدد ملتی ہے خاص کر لوگ اگر جمعہ کا بیان سنیں تب ۔ مساجد کی اہمیت کومذہبی نہیں لبرل لوگ بھی سمجھتے ہیں، سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک لبرل دانشور نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سند یافتہ لوگوں کو (غالباً) سترہ گریڈ دے کر سرکاری طور پر مساجد میں تقررکردیں اس طرح روایتی مولویوں سے جان چھوٹ جائے گی اور روشن خیال مولوی مساجد میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔ اس مشورے پر عمل درآمد کے لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلرسے رابطہ کیا گیا جنھوں نے اپنے طلبہ کواس پیشکش سے آگاہ کیا مگر کسی ایک طالب علم نے بھی یہ پیشکش قبول نہ کی اور یوں یہ منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ ایک صاحب علم کا اس واقعے پر تبصرہ تھا کہ یونیورسٹی میں جس جدید ماحول اور تعلیمی نظام میں ان کو تعلیم دی گئی اس کے بعد یہ طلبہ وہ قناعت، شکرگزاری اور سادگی کا ماحول کیسے قبول کرسکتے تھے جس میں اس ملک کی مساجد کے بیچارے مولوی گزارا کرتے ہیں۔

بہرکیف اگر جمعہ کا بیان سنیں تو انسان میں اخلاقی اور روحانی کیفیت بیدار ہوتی ہے اور یہ وہ قوت ہے جو لوگوں میں صبر، قناعت اور سکون وغیرہ پیدا کرتی ہے اور یہ خوبیاں ہیں جو معاشرے کے لوگوںکو ازخود نظم وضبط اور قانون پر عمل پیرا ہونے میں مدد فراہم کرتی ہیں پھر کسی سی سی ٹی کیمروں کی یا کسی ایسی مشین کی ضرورت نہیں رہتی جہاں ملازمین آتے جاتے کارڈ پنچ کرتے ہوں یا انگھوٹے لگاتے ہوں، ذرا غورکریں کسی کلرک کی تنخواہ سے بھی کہیں کم تنخواہ لینے والے موذن اور مولوی اپنی ڈیوٹی سے ایک منٹ بھی لیٹ نہیںہوتے، خواہ سخت سردی ہو یا بارش وغیرہ تمام مساجد میں بیک وقت اذانیں اپنے اپنے وقت پر دی جاتی ہیں اور فجرکی نماز بھی ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ہوتی۔

پھر بھی ہم طنزکے طور پر امام کو مولوی کہنے سے نہیں چوکتے۔آئیے ! امام اور جمعہ کے بیان کی اہمیت کو سمجھیں۔ یہ جمعہ کا دن تھا جب میرے پاس ایک پرانے دوست ملنے آئے،ان کی شادی ہوچکی تھی اور اب وہ مسائل سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں، ملاقات پر ان سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال بھی ہو رہا تھا کہ جمعے کی نمازکا وقت ہوگیا۔ میں نے نمازکو چلنے کا کہا توکہنے لگے '' اتنی جلدی کیا ہے کون سا ہم نے مولوی صاحب کا خطبہ سننا ہے، مولوی نے کیا ہمارے علم میں اضافہ کرنا ہے'' میں نے اپنے دوست سے کہا کہ '' تمھاری یہ وہی پرانی تقریر ہے مولویوں کے خلاف، یہ بات بھی غلط نہیں کہ عام طور پر ہمیں مسجد میں اسلامی قصے،کہانیاں ہی سننے کو ملتی ہیں ، چلو آج پھر سن لیں۔ '' ہم مسجد پہنچے تو امام صاحب کا واعظ جاری تھا وہ کسی عورت کا قصہ سنا رہے تھے۔

مسجد میں داخل ہوتے ہی ہمارے دوست کوہنسی آگئی، میں نے کہا ، بھئی پہلے قصہ سن لو پھر ہنس لینا۔ امام صاحب نے جو قصہ بیان کیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس پہنچی اور اپنے شوہر سے علیحدگی لینے کے لیے درخواست کی۔ جب اس عورت سے پوچھا گیا کہ اسے اپنے شوہر سے کیا شکایت ہے تواس نے کہا کہ کوئی شکایت نہیں ہے،کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے، اچھا پہننے کودیتا ہے، کوئی جبر بھی نہیں ہے ، دن اچھے گزر رہے ہیں مگر مجھے پھر بھی اس کے ساتھ نہیں رہنا ۔ یہ سن کر آپﷺ نے شوہرکو بلانے کے لیے کسی شخص کو بھیجا ۔ جب اس عورت کے شوہر کو پتہ چلا کہ آپ ﷺ یاد کر رہے ہیں تو وہ جلدی سے گھوڑے پر چڑھنے لگا، جلد بازی میں اس کا پیر پھسل گیا اور چوٹ لگ گئی، چنانچہ وہ شخص لنگڑاتا ہوا پہنچا۔ عورت نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا کہ میں اپنی درخواست واپس لیتی ہوں، مجھے اب طلاق نہیں چاہیے۔

اس پر عورت سے پوچھا گیا کہ ''یہ کیا معاملہ ہے؟'' عورت نے جواب دیا کہ'' جب سے شادی ہوئی میں نے کبھی اپنے شوہر کوبیمارنہیںدیکھا، جہاد سے بھی شوہر واپس آیا توکوئی زخم اس کے بدن پر نہیں دیکھا، میں نے سنا ہے کہ جس کو کوئی دکھ تکلیف نہ پہنچے اس سے خدا خوش نہیں ہوتا، خدا اپنے محبوب بندوں کو ہی یہ نعمت دیتا ہے لہذا میں کسی ایسے آدمی کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی کہ جس سے خدا خوش نہ ہو مگر اب جب کہ میرے شوہرکو چوٹ لگ گئی ہے تومجھے یقین ہوگیا ہے کہ میرا رب میرے شوہر سے ناراض نہیںہے۔''

اس واقعے کوبیان کرنے کے بعد امام صاحب نے کسی عالم کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ '' اللہ والے جب بیمار ہوتے ہیں تو یہ بھی نہیں کہتے کہ '' اے اللہ مجھے اس بیماری سے نجات دے'' بلکہ یوں کہتے ہیںکہ '' اے اللہ! یہ بیماری بھی تیری نعمت ہے اور صحت بھی تیری نعمت ہے، اپنی رحمت سے مجھے صحت والی نعمت عطا فرما'' امام صاحب نے اپنے خطبے میںمزیدفرمایا کہ ''ہم ذرا سی مصیبت پرگھبرا جاتے ہیں، ذراسی تنگی پر پریشان ہوجاتے ہیں، حالانکہ تنگی،کشادگی سب اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔

اللہ کبھی دے کر آزماتا ہے اورکبھی بندے سے لے کرآزماتا ہے۔ ہم صرف دنیاوی کامیابی پرسمجھتے ہیں کہ ہم واقعی کامیاب ہیں اور اللہ بھی ہم سے خوش ہے، جب کہ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ ہم آخرت میں کامیاب ہوں۔کل تک ہمیں آخرت کی فکر ہوتی تھی کہ کسی طرح آخرت سنور جائے اسی لیے کسی سے لین دین کے لیے زبان سے اقرار اور عہد کر لیا جاتا تھا ، وعدہ پورا کیا جاتا تھا، زندگی کی آخری تمنا یہی ہوتی تھی کہ حج کی سعادت نصیب ہوجائے اور مرتے وقت زبان پرکلمہ نصیب ہوجائے، مگر اب یہ خواہشیں دل میں نہیںہوتیں، اسٹامپ پیپر پر لکھی ہوئی تحریر سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں صرف اس لیے کہ دنیا کسی طرح اچھی ہوجائے، اب آخرت کی کتنے لوگوں کو فکر ہے؟ یہ فکر ہی نفسا نفسی کی کیفیت کو ختم کرتی ہے۔ اب تو جمعہ کی نماز میں بھی بالکل آخری وقت میںآتے ہیں کہ مولوی کی بات سن کر اپنا وقت کیوںضایع کریں۔

امام صاحب کا بیان کافی پر اثر محسوس ہو رہا تھا ، جب ہم مسجد سے باہر نکلے تو میں نے مسکرا کر اپنے دوست کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے کہنے لگا'' بھئی آج تو مان گیا مولوی صاحب نے واقعی میرے دل کے تار چھو لیے، میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ یہی باتیں گھر جاکر بیوی بچوں کو بھی سناؤ، سچ پوچھو تو میں جن مسائل میں اس وقت گرفتار ہوں ان کا علاج اس تقریر میں مل گیا ہے۔'' میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ''کبھی تمھاری موٹر سائیکل پنچر ہوئی ہے؟ جب موٹر سائیکل پنچر ہوتی ہے تو ہم اسے پیدل گھسیٹتے ہوئے اپنی نظروں کو ہر طرف گھماتے ہیں اور تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی پرانا ٹائرکسی بانس میں لٹکا ہوا مل جائے اور جیسے ہی ہماری نظر اس پرانے ٹائر پر پڑجائے ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ حل ہوگیا لیکن جب موٹر سائیکل پنچرنہ ہو تو ہم راستوں سے تیزی سے گزر جاتے ہیں ہمیں احساس ہی نہیںہوتا کہ کتنے پنچر والے نظرسے گذرے۔''

بس یہی حال ہمارا جمعے کے بیان سننے کا تھا ، آج ہم مسائل سے دوچار تھے تو فوراً ہمیں اس امام کے بیان کی بات سمجھ آگئی ورنہ جبتک ہم مسائل سے دوچار نہ تھے، اسی امام کے بیان کومولوی کی فرسودہ باتیں والا بھاشن کہہ کر رد کردیتے تھے۔

مساجد ایک ایسا زبردست مرکز ہیں کہ جہاںسے معاشرے کو درست راہ پر رکھنے میں مدد ملتی ہے خاص کر لوگ اگر جمعہ کا بیان سنیں تب ۔ مساجد کی اہمیت کومذہبی نہیں لبرل لوگ بھی سمجھتے ہیں، سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک لبرل دانشور نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سند یافتہ لوگوں کو (غالباً) سترہ گریڈ دے کر سرکاری طور پر مساجد میں تقررکردیں اس طرح روایتی مولویوں سے جان چھوٹ جائے گی اور روشن خیال مولوی مساجد میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔ اس مشورے پر عمل درآمد کے لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلرسے رابطہ کیا گیا جنھوں نے اپنے طلبہ کواس پیشکش سے آگاہ کیا مگر کسی ایک طالب علم نے بھی یہ پیشکش قبول نہ کی اور یوں یہ منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ ایک صاحب علم کا اس واقعے پر تبصرہ تھا کہ یونیورسٹی میں جس جدید ماحول اور تعلیمی نظام میں ان کو تعلیم دی گئی اس کے بعد یہ طلبہ وہ قناعت، شکرگزاری اور سادگی کا ماحول کیسے قبول کرسکتے تھے جس میں اس ملک کی مساجد کے بیچارے مولوی گزارا کرتے ہیں۔

بہرکیف اگر جمعہ کا بیان سنیں تو انسان میں اخلاقی اور روحانی کیفیت بیدار ہوتی ہے اور یہ وہ قوت ہے جو لوگوں میں صبر، قناعت اور سکون وغیرہ پیدا کرتی ہے اور یہ خوبیاں ہیں جو معاشرے کے لوگوںکو ازخود نظم وضبط اور قانون پر عمل پیرا ہونے میں مدد فراہم کرتی ہیں پھر کسی سی سی ٹی کیمروں کی یا کسی ایسی مشین کی ضرورت نہیں رہتی جہاں ملازمین آتے جاتے کارڈ پنچ کرتے ہوں یا انگھوٹے لگاتے ہوں، ذرا غورکریں کسی کلرک کی تنخواہ سے بھی کہیں کم تنخواہ لینے والے موذن اور مولوی اپنی ڈیوٹی سے ایک منٹ بھی لیٹ نہیںہوتے، خواہ سخت سردی ہو یا بارش وغیرہ تمام مساجد میں بیک وقت اذانیں اپنے اپنے وقت پر دی جاتی ہیں اور فجرکی نماز بھی ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ہوتی۔ پھر بھی ہم طنزکے طور پر امام کو مولوی کہنے سے نہیںچوکتے۔آئیے ! امام اور جمعہ کے بیان کی اہمیت کو سمجھیں۔ی سے لین دین کے لیے زبان سے اقرار اور عہد کر لیا جاتا تھا ، وعدہ پورا کیا جاتا تھا، زندگی کی آخری تمنا یہی ہوتی تھی کہ حج کی سعادت نصیب ہوجائے اور مرتے وقت زبان پرکلمہ نصیب ہوجائے، مگر اب یہ خواہشیں دل میں نہیںہوتیں، اسٹامپ پیپر پر لکھی ہوئی تحریر سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں صرف اس لیے کہ دنیا کسی طرح اچھی ہوجائے، اب آخرت کی کتنے لوگوں کو فکر ہے؟ یہ فکر ہی نفسا نفسی کی کیفیت کو ختم کرتی ہے۔ اب تو جمعہ کی نماز میں بھی بالکل آخری وقت میںآتے ہیں کہ مولوی کی بات سن کر اپنا وقت کیوںضایع کریں۔

امام صاحب کا بیان کافی پر اثر محسوس ہو رہا تھا ، جب ہم مسجد سے باہر نکلے تو میں نے مسکرا کر اپنے دوست کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے کہنے لگا'' بھئی آج تو مان گیا مولوی صاحب نے واقعی میرے دل کے تار چھو لیے، میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ یہی باتیں گھر جاکر بیوی بچوں کو بھی سناؤ، سچ پوچھو تو میں جن مسائل میں اس وقت گرفتار ہوں ان کا علاج اس تقریر میں مل گیا ہے۔'' میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ''کبھی تمھاری موٹر سائیکل پنچر ہوئی ہے؟ جب موٹر سائیکل پنچر ہوتی ہے تو ہم اسے پیدل گھسیٹتے ہوئے اپنی نظروں کو ہر طرف گھماتے ہیں اور تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی پرانا ٹائرکسی بانس میں لٹکا ہوا مل جائے اور جیسے ہی ہماری نظر اس پرانے ٹائر پر پڑجائے ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ حل ہوگیا لیکن جب موٹر سائیکل پنچرنہ ہو تو ہم راستوں سے تیزی سے گزر جاتے ہیں ہمیں احساس ہی نہیںہوتا کہ کتنے پنچر والے نظرسے گذرے۔''

بس یہی حال ہمارا جمعے کے بیان سننے کا تھا ، آج ہم مسائل سے دوچار تھے تو فوراً ہمیں اس امام کے بیان کی بات سمجھ آگئی ورنہ جبتک ہم مسائل سے دوچار نہ تھے، اسی امام کے بیان کومولوی کی فرسودہ باتیں والا بھاشن کہہ کر رد کردیتے تھے۔

مساجد ایک ایسا زبردست مرکز ہیں کہ جہاںسے معاشرے کو درست راہ پر رکھنے میں مدد ملتی ہے خاص کر لوگ اگر جمعہ کا بیان سنیں تب ۔ مساجد کی اہمیت کومذہبی نہیں لبرل لوگ بھی سمجھتے ہیں، سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک لبرل دانشور نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سند یافتہ لوگوں کو (غالباً) سترہ گریڈ دے کر سرکاری طور پر مساجد میں تقررکردیں اس طرح روایتی مولویوں سے جان چھوٹ جائے گی اور روشن خیال مولوی مساجد میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔ اس مشورے پر عمل درآمد کے لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلرسے رابطہ کیا گیا جنھوں نے اپنے طلبہ کواس پیشکش سے آگاہ کیا مگر کسی ایک طالب علم نے بھی یہ پیشکش قبول نہ کی اور یوں یہ منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ ایک صاحب علم کا اس واقعے پر تبصرہ تھا کہ یونیورسٹی میں جس جدید ماحول اور تعلیمی نظام میں ان کو تعلیم دی گئی اس کے بعد یہ طلبہ وہ قناعت، شکرگزاری اور سادگی کا ماحول کیسے قبول کرسکتے تھے جس میں اس ملک کی مساجد کے بیچارے مولوی گزارا کرتے ہیں۔

بہرکیف اگر جمعہ کا بیان سنیں تو انسان میں اخلاقی اور روحانی کیفیت بیدار ہوتی ہے اور یہ وہ قوت ہے جو لوگوں میں صبر، قناعت اور سکون وغیرہ پیدا کرتی ہے اور یہ خوبیاں ہیں جو معاشرے کے لوگوںکو ازخود نظم وضبط اور قانون پر عمل پیرا ہونے میں مدد فراہم کرتی ہیں پھر کسی سی سی ٹی کیمروں کی یا کسی ایسی مشین کی ضرورت نہیں رہتی جہاں ملازمین آتے جاتے کارڈ پنچ کرتے ہوں یا انگھوٹے لگاتے ہوں، ذرا غورکریں کسی کلرک کی تنخواہ سے بھی کہیں کم تنخواہ لینے والے موذن اور مولوی اپنی ڈیوٹی سے ایک منٹ بھی لیٹ نہیںہوتے، خواہ سخت سردی ہو یا بارش وغیرہ تمام مساجد میں بیک وقت اذانیں اپنے اپنے وقت پر دی جاتی ہیں اور فجرکی نماز بھی ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ہوتی۔ پھر بھی ہم طنزکے طور پر امام کو مولوی کہنے سے نہیںچوکتے۔آئیے ! امام اور جمعہ کے بیان کی اہمیت کو سمجھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔