جنوری 1953کے شہداء اور آج کے حالات
پاکستان کی تاریخ کی اس اہم ترین تحریک کو نظر اندازکر دینا بہت بڑی زیادتی ہے
لاہور:
پاکستان کے قیام کے بعد طالب علموں کی موثر تحریک کا آغاز 1949 میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تحت ہوا ۔ ڈاکٹر سرور اس کے منتخب کنوینر تھے ۔رفتہ رفتہ ڈی ایس ایف طلباء کی مقبول تنظیم بن گئی۔ 7 جنوری 1953 میں ملک بھر کے طالب علموں نے یوم مطالبات کا اعلان کیا۔ ڈی جے کالج کراچی سے ایک پر امن مظاہرے اور جلوس کی شکل میں احتجاج ہوا ۔ طلباء اس وقت کے وزیرِ تعلیم فضل الرحمان کو مطالبات پیش کرنا چاہتے تھے ۔
طلباء تعلیمی سہولیات کی فراہمی اور اضافے کا مطالبہ کررہے تھے۔اس میں فیسوں میں کمی، مزید تعلیمی اداروں کا قیام ، اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ، اسکول،کالج اور یونیورسٹی میں ہاسٹلز، لائبریریوں اور لیبارٹریوں کا قیام ۔ اس پر امن مظاہرے کوکُچلنے کے لیے طاقت کا بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا گیا ۔ لاٹھی چارج اور آنسوگیس کے بے دریغ استعمال سے طلباء کو منتشرکردیا گیا جس کا شدید ردعمل ہوا دوسرے دن شہر بھرکے طلباء سراپا احتجاج بن گئے ۔ طلباء پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں باہر نکل آئے ۔8 جنوری کو فائرنگ ، لاٹھی چارج اورآنسوگیس کے استعمال کے نتیجے میں 27 افراد جاں بحق ہوئے ۔ پاکستان کے ترقی پسند اسے ایک سیاہ دن کی حیثیت سے آج بھی یاد کرتے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ کی اس اہم ترین تحریک کو نظر اندازکر دینا بہت بڑی زیادتی ہے اس تحریک ہی کے نتیجے میں ملک بھر میں سیاسی بیداری کی لہرکا آغاز ہوا تھا ، یہ نظریاتی سیاست کا دور تھا۔ جس کے اثرات 1968 کی تحریک میں سامنے آئے۔ 1953 کی تحریک میں شامل اہم ناموں میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ، سلیم عاصمی ، آصف جیلانی ، غازی صلاح الدین، عابد حسن منٹو، مرزا محمدکاظم ، صفت اللہ قادری ، مظہرجمیل ، ہارون احمد وغیرہ کے نام شامل ہیں جو اپنے شعبوں میں نمایاں رہے۔ ملک سے بائیں بازوکی نظریاتی سیاست کوکمزورکرنے کا عمل مختلف حکومتوں کے دوران جاری رہا ۔آج سیاست بدل گئی ہے سیاست میں تجارت داخل ہوگئی ہے۔
بد قسمتی یہ ہے کہ اس وقت سے آج تک ملک میں کسی ایسی عوامی تحریک کو آگے نہیں بڑھنے دیا گیا ، جو مجموعی طور پر عوامی خوشحالی کا باعث بنتی جس سے ملک ترقی کی جانب گامزن ہوتا اقتصادی وسیاسی استحکام ہوتا۔ ایک خود مختار، آزاد، مستحکم اور محفوظ قوم کی حیثیت سے ہماری پہچان ہوتی ۔ اس کے برعکس ہم حالات کی خرابی کے بد ترین بحران کی جانب گامزن ہیں۔
وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے ملک کے مسائل فوری حل کا تقاضا کر رہے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ پیچیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ ملک کے محدود وسائل پر بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ ہے۔ آبی ذرایع کی کمی سے پانی کا بحران سر پر منڈلا رہا ہے۔ بے روزگاری اور ناخواندگی کے حل کی طرف عملی اقدامات کی کمی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑی بڑی اصلاحات کا دعویٰ کرنے والے ٹریفک کے نظام کو بھی ٹھیک نہ کرسکے، پولیس کا نظام تباہ ہے۔ انصاف کے لیے برسوں کا انتظار معمول کی بات ہے۔ بد عنوانی کا زہر سرکاری اداروں کوکھوکھلا کر رہا ہے۔
مہنگائی اور غربت میں اضافہ جاری وساری ہے۔امیر اور غریب کا فرق بڑھ رہا ہے۔ زراعت ، تجارت اور صنعت زوال پذیر ہے ملک میں توانائی کا بحران ہے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔ قومی اتحاد کا فقدان ہے انتشار سے دشمن قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ صحت عامہ کی سہولیات کا فقدان ہے ۔ بد عنوانی کے خلاف مہم کو طاقتورگروہ پیروں تلے روندنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ انتہائی مشکلوں سے قابو میں آنے والے طاقتور بڑے لوگوں کے لیے جیلوں میں بھی محلوں جیسی سہولیات پیدا کر دی جاتی ہیں ۔ انھیں اسپتال منتقل کردیا جاتا ہے جہاں شاہانہ دیکھ بھال ہوتی ہے۔
بدعنوانی اور لاقانونیت سمیت دیگر اہم مسائل پر قابو پانے میں حکومت کے اقدامات ناکافی یا سست روی کا شکار نظر آتے ہیں۔ سرکاری دفاترکے کام کرنے کے طریقہ کار میں خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی ۔کام روکنے کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔ خرابی کی یہ صورت حال گزشتہ 70 سال کی حکومتی خرابیوں کے نتائج میں اس نہج تک پہنچی ہے۔
موجودہ حالات میں حکومت پر اپوزیشن اپنا دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کی قیادت نواز شریف اور آصف علی زرداری کے پاس ہے۔ فی الحال اپوزیشن کا اتحاد مشکل ہے لیکن موجودہ نظام نواز شریف اور آصف زرداری کی قوت کے سامنے جس طرح بے بس نظر آتا ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ آیندہ دنوں میں اپوزیشن متحد بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے ہی خورشید شاہ یا کسی اورکو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق ہوگیا تو متفقہ نمایندہ سامنے آنے کی صورت میں وزیراعظم عمران خان کو عہدے سے برطرف کرنے کی کوششیں تیز ہوجائیں گی۔
سندھ حکومت کا کارڈ پہلے ہی آصف علی زرداری کے پاس ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سامنے بے بس ہے، قومی اسمبلی میں اسے معمولی اکثریت ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں ۔ ٹاک شوز میں اپوزیشن کے رہنما حکومت پر بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے ہیں۔ موجودہ جمہوریت میں ہر نشست کی بھاری قیمت ہے قومی اسمبلی کی ایک نشست کا انتخابی خرچہ 10 سے پچاس کروڑ کے درمیان ہے بعض حلقوں میں اس سے بھی زائد ہے۔ موجودہ نظام قوانین کے باوجود ان اخراجات کی روک تھام میں ناکام ہے۔ 20سے 50 کروڑ خرچ کر کے رکن اسمبلی بننے والے کس طرح بد عنوانی کی روک تھام کریں گے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ جمہوریت کے بارے میں بڑھ چڑھ کر دعوے کیے جاتے ہیں۔
مغربی جمہوریت میں قانون کی حکمرانی پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہے، ہر شخص قانون کے تابع ہے ۔ ہماری جمہوریت ان اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتی جس کی وجہ سے ہم مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان کے عوام کو بظاہر ووٹ کا حق حاصل ہے، لیکن ریاستی امور میں ان کی خواہشات کا کوئی احترام نہیں ہے، ان کے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ وہ بے اختیار ہیں محض چند افراد کے پاس اختیارات ہیں ، وہی دولت مند ہیں ۔مقتدر طبقات نے جس طرح جنوری 1953 میں ڈی ایس ایف کی تحریک پر ریاستی قوت کے استعمال سے حملہ کیا اور بعد میں مختلف حربوں سے اسے کمزورکیا۔ اس کے نتائج بہت خراب ہوئے۔ آج پاکستان میں ہر سطح پر مخلص، دیانتدار اور عوام کی خیر خواہی رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں انقلابی تبدیلی آئے گی تو پارلیمنٹ میں بہتر لوگ سامنے آئیں گے۔
ایک صاف ستھری انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کے بغیر اچھی حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کے مقتدر طبقات دولت ، مراعات اور عیش وعشرت کے نشے سے باہر نہ آئے تو موجودہ مسائل اس قدر بڑھ جائیں گے کہ اس کا حل ناممکن ہو جائے گا۔ خرابی کی صورت حال سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھانے کے لیے گھاٹ لگائے بیٹھی ہیں ، عوام کو کمزور رکھ کر ملک کو طاقتور نہیں بنایا جاسکتا ۔ عوام کی بہتری کے لیے ضروری ہے پانی، خوراک، توانائی، رہائش، تعلیم ، صحت اور ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت عوام کو میسر ہوں۔ انھیں تحفظ ملے ۔ روزگار کی فراہمی ہو۔ ملک میں زرعی مصنوعات میں اضافہ ہو۔ صنعتوں کو فروغ حاصل ہو ۔ برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس کے لیے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ پوری قوم کو اس کے لیے متحرک ہونا ہوگا۔ ہر شخص کو کردارادا کرنا ہوگا۔ بہتری کے لیے بھر پور جدوجہد کا راستہ ہی واحد حل ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد طالب علموں کی موثر تحریک کا آغاز 1949 میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تحت ہوا ۔ ڈاکٹر سرور اس کے منتخب کنوینر تھے ۔رفتہ رفتہ ڈی ایس ایف طلباء کی مقبول تنظیم بن گئی۔ 7 جنوری 1953 میں ملک بھر کے طالب علموں نے یوم مطالبات کا اعلان کیا۔ ڈی جے کالج کراچی سے ایک پر امن مظاہرے اور جلوس کی شکل میں احتجاج ہوا ۔ طلباء اس وقت کے وزیرِ تعلیم فضل الرحمان کو مطالبات پیش کرنا چاہتے تھے ۔
طلباء تعلیمی سہولیات کی فراہمی اور اضافے کا مطالبہ کررہے تھے۔اس میں فیسوں میں کمی، مزید تعلیمی اداروں کا قیام ، اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ، اسکول،کالج اور یونیورسٹی میں ہاسٹلز، لائبریریوں اور لیبارٹریوں کا قیام ۔ اس پر امن مظاہرے کوکُچلنے کے لیے طاقت کا بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا گیا ۔ لاٹھی چارج اور آنسوگیس کے بے دریغ استعمال سے طلباء کو منتشرکردیا گیا جس کا شدید ردعمل ہوا دوسرے دن شہر بھرکے طلباء سراپا احتجاج بن گئے ۔ طلباء پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں باہر نکل آئے ۔8 جنوری کو فائرنگ ، لاٹھی چارج اورآنسوگیس کے استعمال کے نتیجے میں 27 افراد جاں بحق ہوئے ۔ پاکستان کے ترقی پسند اسے ایک سیاہ دن کی حیثیت سے آج بھی یاد کرتے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ کی اس اہم ترین تحریک کو نظر اندازکر دینا بہت بڑی زیادتی ہے اس تحریک ہی کے نتیجے میں ملک بھر میں سیاسی بیداری کی لہرکا آغاز ہوا تھا ، یہ نظریاتی سیاست کا دور تھا۔ جس کے اثرات 1968 کی تحریک میں سامنے آئے۔ 1953 کی تحریک میں شامل اہم ناموں میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ، سلیم عاصمی ، آصف جیلانی ، غازی صلاح الدین، عابد حسن منٹو، مرزا محمدکاظم ، صفت اللہ قادری ، مظہرجمیل ، ہارون احمد وغیرہ کے نام شامل ہیں جو اپنے شعبوں میں نمایاں رہے۔ ملک سے بائیں بازوکی نظریاتی سیاست کوکمزورکرنے کا عمل مختلف حکومتوں کے دوران جاری رہا ۔آج سیاست بدل گئی ہے سیاست میں تجارت داخل ہوگئی ہے۔
بد قسمتی یہ ہے کہ اس وقت سے آج تک ملک میں کسی ایسی عوامی تحریک کو آگے نہیں بڑھنے دیا گیا ، جو مجموعی طور پر عوامی خوشحالی کا باعث بنتی جس سے ملک ترقی کی جانب گامزن ہوتا اقتصادی وسیاسی استحکام ہوتا۔ ایک خود مختار، آزاد، مستحکم اور محفوظ قوم کی حیثیت سے ہماری پہچان ہوتی ۔ اس کے برعکس ہم حالات کی خرابی کے بد ترین بحران کی جانب گامزن ہیں۔
وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے ملک کے مسائل فوری حل کا تقاضا کر رہے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ پیچیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ ملک کے محدود وسائل پر بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ ہے۔ آبی ذرایع کی کمی سے پانی کا بحران سر پر منڈلا رہا ہے۔ بے روزگاری اور ناخواندگی کے حل کی طرف عملی اقدامات کی کمی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑی بڑی اصلاحات کا دعویٰ کرنے والے ٹریفک کے نظام کو بھی ٹھیک نہ کرسکے، پولیس کا نظام تباہ ہے۔ انصاف کے لیے برسوں کا انتظار معمول کی بات ہے۔ بد عنوانی کا زہر سرکاری اداروں کوکھوکھلا کر رہا ہے۔
مہنگائی اور غربت میں اضافہ جاری وساری ہے۔امیر اور غریب کا فرق بڑھ رہا ہے۔ زراعت ، تجارت اور صنعت زوال پذیر ہے ملک میں توانائی کا بحران ہے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔ قومی اتحاد کا فقدان ہے انتشار سے دشمن قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ صحت عامہ کی سہولیات کا فقدان ہے ۔ بد عنوانی کے خلاف مہم کو طاقتورگروہ پیروں تلے روندنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ انتہائی مشکلوں سے قابو میں آنے والے طاقتور بڑے لوگوں کے لیے جیلوں میں بھی محلوں جیسی سہولیات پیدا کر دی جاتی ہیں ۔ انھیں اسپتال منتقل کردیا جاتا ہے جہاں شاہانہ دیکھ بھال ہوتی ہے۔
بدعنوانی اور لاقانونیت سمیت دیگر اہم مسائل پر قابو پانے میں حکومت کے اقدامات ناکافی یا سست روی کا شکار نظر آتے ہیں۔ سرکاری دفاترکے کام کرنے کے طریقہ کار میں خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی ۔کام روکنے کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔ خرابی کی یہ صورت حال گزشتہ 70 سال کی حکومتی خرابیوں کے نتائج میں اس نہج تک پہنچی ہے۔
موجودہ حالات میں حکومت پر اپوزیشن اپنا دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کی قیادت نواز شریف اور آصف علی زرداری کے پاس ہے۔ فی الحال اپوزیشن کا اتحاد مشکل ہے لیکن موجودہ نظام نواز شریف اور آصف زرداری کی قوت کے سامنے جس طرح بے بس نظر آتا ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ آیندہ دنوں میں اپوزیشن متحد بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے ہی خورشید شاہ یا کسی اورکو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق ہوگیا تو متفقہ نمایندہ سامنے آنے کی صورت میں وزیراعظم عمران خان کو عہدے سے برطرف کرنے کی کوششیں تیز ہوجائیں گی۔
سندھ حکومت کا کارڈ پہلے ہی آصف علی زرداری کے پاس ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سامنے بے بس ہے، قومی اسمبلی میں اسے معمولی اکثریت ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں ۔ ٹاک شوز میں اپوزیشن کے رہنما حکومت پر بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے ہیں۔ موجودہ جمہوریت میں ہر نشست کی بھاری قیمت ہے قومی اسمبلی کی ایک نشست کا انتخابی خرچہ 10 سے پچاس کروڑ کے درمیان ہے بعض حلقوں میں اس سے بھی زائد ہے۔ موجودہ نظام قوانین کے باوجود ان اخراجات کی روک تھام میں ناکام ہے۔ 20سے 50 کروڑ خرچ کر کے رکن اسمبلی بننے والے کس طرح بد عنوانی کی روک تھام کریں گے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ جمہوریت کے بارے میں بڑھ چڑھ کر دعوے کیے جاتے ہیں۔
مغربی جمہوریت میں قانون کی حکمرانی پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہے، ہر شخص قانون کے تابع ہے ۔ ہماری جمہوریت ان اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتی جس کی وجہ سے ہم مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ پاکستان کے عوام کو بظاہر ووٹ کا حق حاصل ہے، لیکن ریاستی امور میں ان کی خواہشات کا کوئی احترام نہیں ہے، ان کے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ وہ بے اختیار ہیں محض چند افراد کے پاس اختیارات ہیں ، وہی دولت مند ہیں ۔مقتدر طبقات نے جس طرح جنوری 1953 میں ڈی ایس ایف کی تحریک پر ریاستی قوت کے استعمال سے حملہ کیا اور بعد میں مختلف حربوں سے اسے کمزورکیا۔ اس کے نتائج بہت خراب ہوئے۔ آج پاکستان میں ہر سطح پر مخلص، دیانتدار اور عوام کی خیر خواہی رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں انقلابی تبدیلی آئے گی تو پارلیمنٹ میں بہتر لوگ سامنے آئیں گے۔
ایک صاف ستھری انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کے بغیر اچھی حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کے مقتدر طبقات دولت ، مراعات اور عیش وعشرت کے نشے سے باہر نہ آئے تو موجودہ مسائل اس قدر بڑھ جائیں گے کہ اس کا حل ناممکن ہو جائے گا۔ خرابی کی صورت حال سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھانے کے لیے گھاٹ لگائے بیٹھی ہیں ، عوام کو کمزور رکھ کر ملک کو طاقتور نہیں بنایا جاسکتا ۔ عوام کی بہتری کے لیے ضروری ہے پانی، خوراک، توانائی، رہائش، تعلیم ، صحت اور ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت عوام کو میسر ہوں۔ انھیں تحفظ ملے ۔ روزگار کی فراہمی ہو۔ ملک میں زرعی مصنوعات میں اضافہ ہو۔ صنعتوں کو فروغ حاصل ہو ۔ برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس کے لیے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ پوری قوم کو اس کے لیے متحرک ہونا ہوگا۔ ہر شخص کو کردارادا کرنا ہوگا۔ بہتری کے لیے بھر پور جدوجہد کا راستہ ہی واحد حل ہے۔