’’سوموٹو ایکشن‘‘ عوام کے مفاد میں ہونا چاہیے نعیم قریشی ایڈووکیٹ

عدلیہ تو آزاد ہوگئی، مگر ماتحت عدالتوں سے عوام کو انصاف نہیں ملا


Iqbal Khursheed July 17, 2013
وکلا برادری کے معروف راہ نما اور صدر کراچی بار ایسوسی ایشن، نعیم قریشی ایڈووکیٹ کے حالات و خیالات۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

دبنگ لہجہ۔ کھری باتیں۔ کوئی دکھاوا نہیں۔ الجھاوا نہیں!

اِس قصّے کا ابتدائیہ شکارپور کی معاشرت میں گُندھا ہے۔ پھر کہانی کراچی کی سڑکوں پر گشت کرتی ہے۔ نظریاتی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے۔ گرفتاریاں ہوتی ہیں، قاتلانہ حملہ ہوتا ہے، مگر دباؤ اور دھمکیوں سے بے پروا یہ کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے، اور چیف جسٹس کی بحالی کے لیے شروع ہونے والی اُجلی تحریک کے دوران اوج پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ وکلا برادری کے معروف راہ نما اور صدر کراچی بار ایسوسی ایشن، نعیم قریشی ایڈووکیٹ کی کہانی ہے، جو ایک عوامی آدمی کی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ اصول پسندی اور خدمت خلق کا جذبہ تھا، جس نے وکلا سیاست کے خارزار میں قدم رکھنے کی راہ سجھائی۔ جبر کے دور میں نعرۂ حق بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔

دوران گفت گو اُن کے حالاتِ زندگی کے ساتھ سیاسی مسائل بھی زیر بحث آئے۔ آغاز پیپلزپارٹی اور عدلیہ کے درمیان پانچ برس تک جاری رہنے والی محاذ آرائی سے ہوا۔ اس بابت کہنا ہے کہ آصف علی زرداری پر منصبِ صدارت سنبھالنے سے قبل جو الزامات تھے، وہ محاذ آرائی کا سبب بنے۔ ''پانچ برس اِسی میں نکل گئے، اور انھیں عوام کی خدمت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے، اگر ان کی حکومت آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرے گی، تو عدلیہ ان سے تعاون کرے گی، اور جمہوریت کا مستقبل روشن ہوگا۔''

اِس موڑ پر گفت گو کا رخ ''سوموٹو ایکشن'' اور ''جوڈیشل ایکٹوازم'' کی جانب مڑ گیا۔ کہنا ہے،''سوموٹو ایکشن ہونا چاہیے۔ یہ آئینی ہے۔ سپریم کورٹ کو اس کا اختیار ہے۔ شرط ہے کہ یہ عوام کے مفاد میں ہو۔ منہگائی اور امن و امان کی بگڑی صورت حال پر سوموٹو ایکشن لینا سودمند ہے، لیکن اگر یہ اجتماعی کے بجائے انفرادی معاملہ ہو، کسی ایک شخص سے متعلق، تو اِس سے عدالت کا وقت ضایع ہوتا ہے۔'' کچھ حلقے پارلیمنٹ کی فوقیت کی بات کرتے ہیں، چند عدلیہ کے حق میں دلائل دیتے ہیں، مگر نعیم قریشی کے نزدیک آئین بالاتر ہے، قانون کے سامنے ہر شخص جواب دہ ہے۔

حالاتِ زیست کھنگالنے سے پتا چلتا ہے کہ اُن کا پورا نام نعیم الدین قریشی ہے۔ اجداد کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ ہجرت کے بعد اُن کے والد، عنایت اﷲ نے سندھ کے شہر شکارپور کو مسکن بنایا۔ یافت کے ذرایع کاروباری میدان میں کھوجے۔ جوتا سازی کی ایک فیکٹری لگائی، جو اُن کی شب و روز کی محنت سے چل نکلی۔ اُسی شہر میں، سات بھائیوں میں تیسرے، نعیم قریشی نے 1953 میں آنکھ کھولی۔ شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد آبائی شہر کے فطری حسن نے گرویدہ بنا لیا۔ کہتے ہیں،''شکاپور بہت محبتوں کا شہر تھا۔ خوب صورتی کی وجہ سے اُسے 'سیکنڈ پیرس' کہا جاتا۔ اُس شہر سے میری کئی حسین یادیں وابستہ ہیں۔'' والد کے مزاج میں شفقت نمایاں تھی۔ اولاد اور اُن کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ رہا۔ گھر میں ہر سہولت میسر تھی۔ والدین کی راہ نمائی بھی حاصل رہی۔ یوں محرومیوں کے سائے سے محفوظ، وہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔ بچپن میں خاصے فعال، بلکہ اُن کے اپنے الفاظ میں بڑے شیطان ہوا کرتے تھے۔ ابتدا ہی سے لیڈری کا شوق تھا۔ ہر کام میں آگے آگے رہتے۔ ہاکی کھیلا کرتے تھے اس زمانے میں۔ ایک بار ہاکی اسٹک سر پر لگنے سے شدید زخمی ہوگئے۔ زخم کا نشان آج بھی موجود ہے۔

شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوا کرتا، پر کبھی فیل ہونے کی ہزیمت برداشت نہیں کرنی پڑی۔ 69-70 میں اسلامیہ ہائی اسکول، شکارپور سے، آرٹس سے میٹرک کیا۔ اب کراچی کا رخ کیا۔ اِس فیصلے کا ایک سبب تو اعلیٰ تعلیم کی خواہش تھی، اور دوسری وجہ ون یونٹ کے بعد بدلتے لسانی رویے ٹھہرے۔

شہر قائد کا رخ کرنے کے بعد ناظم آباد نمبر دو میں، 60 روپے ماہ وار پر ایک مکان کرایے پر لے لیا۔ یادیں کھوجتے ہوئے کہتے ہیں، ''اُس سے پہلے ہم نے کراچی دیکھا ہی نہیں تھا۔ یہ شہر اُس وقت مجھے قید خانہ لگا۔ شکار پور میں بڑا مکان، کشادہ ماحول تھا، مگر یہاں ہم سُکڑ گئے۔''

سٹی کالج میں اُنھوں نے داخلہ لے لیا۔ 75ء میں گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ اُسی زمانے میں وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کا خیال سوجھا۔ ایس ایم لا کالج سے 79ء سے ایل ایل بی کیا۔ لاکالج میں ایل ایل ایم کے پہلے بیج کا وہ حصہ رہے۔ دو برس بعد یہ مرحلہ بھی طے کر لیا۔

اس عرصے میں طلبا سیاست میں بھی فعال رہے۔ جھکائو بائیں بازو کی جانب تھا۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے نظریات بھاتے تھے۔ این ایس ایف کے عہدے داران جان عالم، مسرور احسن، حسن فیروز اور دیگر سے دوستی بھی رہی۔ ان ہی روابط اور نظریات نے پہلی گرفتاری کی راہ ہم وار کی۔ اُن کے مطابق 75ء میں پشاور یونیورسٹی میں حیات محمد شیرپائو کے قتل کے بعد احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا، جس پر قابو پانے کے لیے کراچی کی تمام درس گاہوں کے یونین لیڈرز کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سٹی کالج کے یونین سیکریٹری کی حیثیت سے وہ بھی اِس فیصلے کی لپیٹ میں آئے۔ لانڈھی کی بچہ جیل میں ڈیڑھ ماہ گزرے۔ کہتے ہیں،''وہ تجربہ تلخ ثابت نہیں ہوا۔ ہمارے ساتھ قیدیوں والا سلوک نہیں کیا گیا۔ خاصی سہولت تھی۔ حسن فیروز اور حافظ تقی سمیت کئی طلبا راہ نما ہمارے ساتھ تھے۔'' 5 فروری کی رات اُنھیں رہا کیا گیا۔ وہ کشمیر ڈے تھا۔ سڑکیں ویران تھیں، اور ٹرانسپورٹ غائب۔ لانڈھی جیل سے پیدل، لگ بھگ چار گھنٹے کا سفر طے کرکے وہ سٹی کالج پہنچے۔ والد اُس وقت شکارپور میں تھے، انھیں اِس ''کارنامے'' کا بعد میں علم ہوا، البتہ کراچی میں مقیم اُن کی والدہ کو اِس پورے عرصے میں شدید پریشانی سے گزرنا پڑا۔ ڈانٹا بھی اُنھیں، مگر وہ راہ زندگی کا انتخاب کرچکے تھے۔

83ء میں عملی میدان میں قدم رکھا۔ بیرسٹر این کے جتوئی کی فرم سے وہ منسلک ہوگئے۔ وہاں ایک برس بیتا۔ وہ تجربہ شان دار رہا۔ جتوئی صاحب سے، بہ قول اُن کے، بہت کچھ سیکھا۔ اب آزاد حیثیت میں پریکٹس شروع کی۔ خیال یہی تھا کہ عوام کے ساتھ ساتھ وکلا کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کام کیا جائے۔ اس مقصد کی آب یاری میں معروف وکلا راہ نما، امین لاکھانی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ کہتے ہیں،''امین لاکھانی میرے آئیڈیل تھے۔ وہ چھے سال سے زاید عرصے کراچی بار کے صدر اور چار سال سیکریٹری رہے۔ غریب پرور آدمی تھے۔ خود کو خدمت خلق کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ میں نے اُن سے اکتساب فیض کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں آج جو کچھ ہوں، امین لاکھانی کی وجہ سے ہوں۔''

تیزاب سے جلائی جانے والی ایک ساتھی وکیل کے کیس سے کیریر کی ابتدا کی۔ مجرم گرفتار تو نہیں ہوسکا، مگر اُس پیچیدہ کیس سے کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ پھر قتل کا ایک کیس سلجھایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کیریر آگے بڑھتا رہا۔ سول سے زیادہ کرمینل کیسز توجہ کا مرکز رہے۔ شب و روز کی محنت سے ایک قابل وکیل کی حیثیت سے شناخت بنا لی۔

اِس عرصے میں وہ وکلا سیاست میں بھی فعال رہے۔ اس کا سبب بھی امین لاکھانی کی صحبت تھی، جن کے زیرسایہ وکلا کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے انھوں نے جدوجہد شروع کی۔ 85ء میں پی این اے کی تحریک کے دوران اُن پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ چھے گولیاں لگیں۔ ڈیڑھ ماہ اسپتال میں رہے، مگر پسپا نہیں ہوئے۔ بستر سے اٹھنے کے بعد پھر سڑکوں پر تھے۔ یقین رکھتے ہیں کہ جو رات قبر میں ہے، وہ باہر نہیں آسکتی۔ 94ء میں جب ملیر ضلع الگ ہوا، کورٹس منتقل ہوئیں، ملیر بار تخلیق کیا گیا، تو کراچی بار ایسوسی ایشن نے امین لاکھانی کی سرپرستی میں تحریک شروع کی۔ یہ تحریک اُنھیں پھر جیل لے گئی۔

نعیم قریشی کے بہ قول، وہ کبھی عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگے۔ 2006 میں سیکریٹری کے عہدے پر الیکشن لڑنے کا بھی ایک سبب تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ مدمقابل ایک ایسے صاحب تھے، جن کی وجہ سے امین لاکھانی کو ماضی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان صاحب نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، تو نعیم قریشی بھی میدان میں آگئے۔ پہلی ہی کوشش میں کام یابی اُن کی سمت چلی آئی۔ نعیم صاحب کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا، کیوں کہ کئی نامی گرامی شخصیات اپنی پہلی کوشش میں ناکامی کا تلخ ذایقہ چکھ چکی تھیں۔ دسمبر 2006 میں ملنے والی کام یابی جیسے اُن سے نتھی ہوگئی۔ اگلے تین برس تک یہ عہدہ ان ہی کے پاس رہا۔ اِس عرصے میں اپنے مقاصد کے لیے کام کرنے کا بھرپور موقع ملا۔

2010 میں اُنھوں نے سندھ بار کونسل کے الیکشن میں حصہ لیا، اور پانچ برس کے لیے اُس کے رکن منتخب ہوگئے۔2010-11 میں کراچی بار کی صدارت کے لیے قسمت آزمائی۔ ابتدائی کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، مگر 2013 میں ریکارڈ ووٹ لے کر وہ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوگئے۔ اِس ''ہیوی مینڈیٹ'' کو وہ دوستوں کی محبت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد اُنھوں نے وکلا کے لیے ایک ڈسپنسری کے قیام کی کوششیں شروع کیں، جو ثمرآور ثابت ہوئیں۔ وکلا کی ہائوسنگ اسکیم کے لیے جس سلسلے کا 2007 میں آغاز کیا تھا، وہ بھی پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ سندھ حکومت اِس منصوبے کے لیے پانچ سو ایکٹر زمین دے چکی ہے۔ وفاقی حکومت سے بھی فلاحی منصوبوں کے لیے بار کو دو کروڑ روپے کی گرانٹ ملی۔

نعیم قریشی کی داستان کا اہم ترین حصہ وہ ہے، جب وکلا برادری نے پاکستان کی تاریخ کی اہم ترین تحریک کا آغاز کیا۔ بتاتے ہیں، 18 فروری 2007 کو اُنھوں نے بہ طور سیکریٹری حلف لیا، جس کے چند ہی ہفتوں بعد وکلا تحریک کا آغاز ہوگیا، جو آنے والے کئی برس تک جاری رہی۔ اِس پورے عرصے میں اُنھوں نے کراچی کی سطح پر انتہائی فعال کردار ادا کیا۔ ''انصاف سب کے لیے'' کا نعرہ بلند کیا۔ صحافیوں اور سول سوسائٹی کو اِس تحریک میں شامل کیا۔ اس جرم کی ''پاداش'' میں 2007 کے دوران اُنھیں تین بار گرفتار کیا گیا۔ 2008 میں بھی جیل یاترا کی، مگر چیف جسٹس کی بحالی تک وہ چین سے نہیں بیٹھے۔ جس روز افتخار محمد چوہدری کی بحالی کا اعلان ہوا، وہ پابند سلاسل تھے۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،''یہ ہمارے لیے قابل فخر بات ہے کہ ہم نے زمانۂ طالب علمی میں اپنے حقوق منوانے کے لیے، اِس بار کی حفاظت اور وکلا تحریک کے لیے گرفتاریاں دیں، مگر اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔''

کیا وکلا تحریک سے وابستہ توقعات پوری ہوئیں؟ اِس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں،''ہم اس تحریک میں سرخرو ہوئے۔ سول سوسائٹی نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا، البتہ انصاف کا جو نعرہ لگایا گیا تھا، وہ پورا نہیں ہوا۔ تحریک کے نتیجے میں عدلیہ تو آزاد ہوگئی، مگر ماتحت عدالتوں سے عوام کو انصاف نہیں مل سکا۔ دیکھیں، 85 فی صد مقدمات ماتحت عدلیہ میں آتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تو تاریخی فیصلے دیے، مگر کرپشن کی وجہ سے ماتحت عدلیہ عوام کو انصاف فراہم نہیں کرسکی۔'' اُن کے مطابق اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ ''ذمے دار فقط عدلیہ نہیں۔ انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔'' نعیم صاحب کے بہ قول، 92ء میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک آرڈر کے بعد کورٹ کی حدود میں اینٹی کرپشن یونٹ کا داخلہ ممنوع ہوگیا۔ ''اِس فیصلے سے ماتحت عدلیہ کے اسٹاف کو مکمل آزادی مل گئی۔ وہ دیدہ دلیری سے کرپشن کرنے لگے۔ جب چیک اینڈ بیلنس ختم ہوجائے گا، تو کرپشن کو کوئی روک نہیں سکے گا۔''

وکلا تحریک میں کلیدی کردار ادا کرنے والے کراچی بار ایسوسی ایشن پر بات نکلی، تو کہنے لگے،''اس بار کا قیام 48ء میں عمل میں آیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی اس کے رکن رہے۔ اِس بار نے ہمیشہ آمروں کے خلاف آواز بُلند کی۔ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ کراچی بار ایسوسی ایشن نے آمروں کے خلاف پلیٹ فورم کا کردار ادا کیا۔ پاکستان کا تقریباً ہر بڑا سیاست داں اِس بار میں تقریر کر چکا ہے۔''

2007 میں نعیم قریشی کی جانب سے ارباب غلام رحیم اور 2013 میں فاروق ایچ نائیک کو تقریب حلف برداری میں مدعو کرنے پر کچھ حلقوں کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،''ہماری کوشش ہے کہ یہ بار اپوزیشن کا پلیٹ فورم رہے، تاہم مسائل حکومتیں حل کرتی ہیں۔ اِسی وجہ سے ہم نے ارباب غلام رحیم کو مدعو کیا، اُن کے سامنے وکلا ہائوسنگ اسکیم کا معاملہ اٹھایا۔ رواں برس فاروق ایچ نائیک کو مدعو کیا گیا، جنھوں نے وکلا کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں دو کروڑ کی گرانٹ دی۔ حکومتی ارکان کو مدعو کرنے کا مقصد یہ ہی رہا کہ وکلا کے مسائل حل کیے جائیں۔''

اُنھیں شکایت ہے کہ سالانہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود کراچی کی عدالتوں میں چلنے والے 85 فی صد مقدمات کے اختتام پر ملزم بری ہوجاتا ہے۔ ''10 فی صد مقدمات میں اقبال جرم کے بعد ملزم کو مختصر سزا ہوتی ہے۔ کنوکشن ریٹ درحقیقت فقط 5 فی صد ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن مضبوط نہیں ہوگی، لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا۔'' اس موقعے پر وہ گواہوں کے تحفظ کے بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں،''یہ ازحد ضروری ہے۔ جب تک گواہ کو تحفظ نہیں ملے گا، اُسے قانون پر یقین نہیں ہوگا، وہ بیان دینے کے لیے سامنے نہیں آئے گا۔''

یوں تو زندگی میں کئی خوش گوار لمحے آئے، مگر بیت اﷲ کی زیارت حسین ترین لمحہ تھا زندگی کا۔ والدہ کا انتقال زندگی کا کرب ناک ترین دن تھا۔ کہتے ہیں،''مجھے اِس بات کا دکھ ہے کہ جب میری ماں کا یہ خواب، یہ خواہش کہ اُس کا بیٹا ترقی کرے، اپنا نام بنائے، پوری ہوئی، اس وقت وہ دنیا سے رخصت ہوچکی تھی۔ پریکٹس شروع کرنے کے بعد اُنھوں نے مجھے گاڑی خرید کر دی، آفس کا انتظام کیا، مگر وہ اُس مرحلے تک میرا ساتھ نہیں دے سکیں۔''

اِس معروف وکلا راہ نما کے نزدیک بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ ملک کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی شکایت ہے کہ پاکستان، خصوصاً کراچی میں ٹیکس کی ادائیگی کا نظام بکھر چکا ہے۔ ''ہندوستان اور بنگلادیش میں آپ ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر ایک موٹرسائیکل بھی نہیں خرید سکتے، مگر یہاں ہم کروڑوں کے بنگلے خرید لیتے ہیں، ہر سہولت سے استفادہ کرتے ہیں، مگر ٹیکس نہیں دیتے۔ ہم بنیادی طور پر ٹیکس چور ہیں۔'' وہ نوجوان وکلا کو مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔ ''یہ ایک قابل عزت پیشہ ہے۔ ہم لوگوں کی مشکلات حل کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ میرا اپنے تمام بھائیوں کو یہی مشورہ ہے کہ نیک نیتی سے کام کریں۔ دولت کے بجائے عزت کمائیں۔ رزق دینا اﷲ کا کام ہے۔''

اب کچھ پسند ناپسند کی بات ہوجائے؛ دفتر میں تو وہ کوٹ پینٹ میں نظر آتے ہیں، لیکن شلوار قمیص میں خود کو زیادہ آرام دہ پاتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ ہر قسم کے کھانے پسند ہیں۔ خود بھی بہت اچھے ''کک'' ہیں۔ شاعری میں وہ اپنے ماموں، مولانا ماہر القادری، حفیظ جالندھری اور جالب کے مداح ہیں۔ فکشن میں منٹو کو سراہتے ہیں۔ ڈراما نگاروں میں امجد اسلام امجد کا نام لیتے ہیں۔ گائیکی میں میڈم نورجہاں کے مداح ہیں۔ فلموں کا موضوع نکلا، تو ماضی میں پہنچ گئے۔ '' میں نے ایک ہی فلم سنیما میں دیکھی، جس کے بعد اتنی پٹائی ہوئی کہ توبہ کر لی۔ 69ء میں وحید مراد اور محمدعلی کی فلم 'کنیز' دیکھی تھی، جس کے بعد ہاتھ پیر باندھ کر لٹکا دیا گیا۔ پھر کبھی سنیما کا رخ نہیں کیا۔''

86ء میں شادی ہوئی۔ اولاد نہیں ہے، جس کا دُکھ ضرور ہے، مگر مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کی وجہ سے یہ کمی بڑی حد تک پوری ہوجاتی ہیں۔ بہ قول اُن کے،''مجھے تو بار اور گھر دونوں ایک جیسے لگتے ہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں