عوامی سزا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر ہاتھ پیر چلائے اشرافیہ اربوں کھربوں روپوں کی مالک بنی ہوئی ہے۔
پچھلے ہفتے وہ دکان سے آٹا ادھار لانے جا رہا تھا کہ راستے میں اچانک گولیاں چلنے کی آواز آئی اور لوگ اپنے آپ کو گولیوں سے بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگتے نظر آئے وہ بھی ایک دکان میں پناہ کے لیے گھس گیا۔ دکان کا مالک ایک لوہے کی الماری کے پیچھے چھپا کھڑا تھا۔
دکاندار پہلے تو اسے بھی گولی باز سمجھ کر لٹھ سے اس کا استقبال کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ وہ چیخا ''میں ڈاکو نہیں ہوں میں تو دکان سے آٹا لینے آیا تھا میرے پاس آٹا خریدنے کے لیے پیسے بھی نہیں تھے میں رشید ماما کی دکان سے آٹا ادھار لینے آیا تھا کہ اچانک گولیاں چلنے کی آواز آئی اور میں گولیوں سے بچنے کے لیے ادھر آگیا۔'' '' رشید بھائی یہ گولیاں کیوں چل رہی تھیں؟'' ''ارے یوسف میاں کیا آپ محلے میں نہیں رہتے'' ڈاکوؤں نے ہمارا جینا مشکل کر دیا ہے راجہ محلے میں ڈاکوؤں نے دو بندوں کو مار دیا تھا۔ دو جوان لڑکوں کی موت سے سارا محلہ ہی نہیں ساری بستی خوفزدہ ہے۔''
راجہ بھائی کی گلی کے نوجوان دو ہفتوں سے ڈاکوؤں کے انتظار میں تھے۔ آج دو ڈاکو اپنے محلے میں آکر لوٹ مار کر رہے تھے، سارے لوگ اپنے اپنے گھروں میں چھپ گئے تھے جان سب کو پیاری ہوتی ہے نا۔ محلے کے لوگوں کو چھپتا ہوا دیکھ کر ڈاکوؤں کے حوصلے بڑھ گئے وہ حسب سابق دادا بنے گولیاں چلاتے گلی میں گھس آئے تھے گلی کے سارے لوگ اپنے اپنے گھروں میں چھپ گئے لیکن بندو خان کے دو بہادر بیٹھے ریوالور لے کر نکلے اور ڈاکوؤں کو دیکھتے ہی ان پر گولیاں چلا دیں گولی ایک کے سر پر لگی دوسری گولی دوسرے ڈاکو کے دل پر لگی۔ دونوں بھائی چیخنے لگے۔
ہم نے ڈاکوؤں کو مار دیا ہے لوگ گھروں سے نکلیں اب کوئی خطرہ نہیں۔ ڈرے سہمے لوگ گلیوں سے باہر آنے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجوم جمع ہوگیا اور مرے ہوئے ڈاکوؤں کے گرد جمع ہوگیا اور بندو خان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ نوجوان لڑکے بہت مشتعل تھے وہ مرے ہوئے ڈاکوؤں کو جلانا چاہتے تھے لیکن گلی کے بزرگوں نے انھیں روک دیا۔ لڑکے بہت مشتعل ہوئے تھے وہ کسی کی سننے کے لیے تیار نہ تھے جب بندوخان کے بیٹوں نے ہجوم کو سمجھایا کہ ڈاکو مر چکے ہیں مرے ہوؤں کو مارنا یا جلانا مناسب نہیں۔
تھوڑی دیر میں پولیس آگئی اور جب ہجوم نے یک زبان ہوکر مرے ہوئے ڈاکوؤں کے مظالم کی داستانیں سنائیں اور پولیس والوں کو بتایا کہ ڈاکو اب تک 13 آدمی مار چکے ہیں اور گلی کے گھروں میں لوٹ مار کرکے سب کو خالی ہاتھ کردیا ہے، دو ماہ سے ظلم کا یہ سلسلہ جاری ہے ان ظالموں نے تمام گھروں کو لوٹا اور مزاحمت کرنے پر اب تک تیرہ بندوں کو مار دیا۔ ان کے بچے یتیم ہوگئے ہیں ، محلے میں ایک ٹیچر رہتے تھے جو گلی کے لوگوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ انھوں نے ہجوم سے کہا بھائیو! آج آپ نے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اگر یہ مظاہرہ پہلے کیا جاتا تو نہ ڈاکوؤں کو ادھر آنے کی ہمت ہوتی نہ اس کے تیرہ بھائی مارے جاتے نہ غریبوں کے گھر لوٹے جاتے، بہرحال آپ نے بہادری کا مظاہرہ کیا ہے اب مجھے یقین ہے کہ ڈاکو ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔ یہ کارنامہ آپ کے اتحاد کی وجہ سے ہوا ہے آیندہ بھی اگر آپ متحد رہیں گے تو آپ کا محلہ محفوظ ہوگا ڈاکوؤں کو ادھر آنے کی ہمت نہیں ہوگی۔
محلے کے غیر متنازعہ ٹیچر اپنے مکان کے باہر چبوترے پر بیٹھ کر سوچ رہے تھے کہ ڈاکوؤں نے بے شک اہل محلہ پر ظلم کیا ہے ہر گھر پر ڈاکہ ڈال کر غریبوں کی جمع پونجی لوٹ لی ہے۔ سارا علاقہ ڈاکوؤں کے مظالم سے خوفزدہ تھا یہ ظلم اس لیے ہو رہا تھا کہ جرائم کو روکنے والے مجرموں کے ساتھی اور حصے دار بن گئے تھے جب تک لوگ بٹے ہوئے تھے اور ان میں اتحاد نہیں تھا ڈاکو اپنی من مانی کرتے رہے اب جب کہ عوام متحد ہیں تو ڈاکوؤں کی دال پتلی ہوگئی ہے۔
ٹیچر ارشاد احمد ایک باخبر آدمی تھے، وہ اپنے شہر اپنے ملک کے علاوہ ساری دنیا کے واقعات سے باخبر تھے مہینوں سے اخباروں اور ٹی وی میں اعلیٰ سطح پر اربوں روپوں کی لوٹ مارکی داستانیں سارے ملک میں پھیلی ہوئی تھیں ، عوام کے اربوں روپوں پر ڈاکا ڈال کر اشرافیہ نے عوام کو کنگال کردیا ہے۔ یہ سلسلہ برسوں عشروں سے جاری ہے ۔ عدلیہ اور قومی اداروں نے اعلیٰ سطح پر لٹیروں کے خلاف احتساب کا عمل شروع کردیا ہے بڑے بڑے عالی مرتبت جن کا نام ادب سے لیا جاتا تھا آج جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مصاحبین بے پناہ دولت کے سہارے انھیں جیلوں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن وہ عوام آج ان کا ساتھ نہیں دے رہے جو کل تک ان کے حکم کو خدا کا حکم سمجھ کر اس کی تعمیل کرتے تھے۔ کچھ متبرک لوگوں نے احتساب کا مقابلہ کرنے کے لیے اے سی پی بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اب ہر طرف سناٹا ہے البتہ سابق لٹیری کلاس ہاتھ پیر مار رہی ہے کہ کسی طرح عوام کو ورغلا کر سڑکوں پر لائے لیکن کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔
ایک بات جو عام اور خاص لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ اشرافیہ اربوں روپوں کی مالک تھی اسے کسی چیز کی کمی نہ تھی دولت کی بھرمار کے علاوہ عزت شہرت بے پناہ اختیارات، اس کے باوجود ناجائز طریقوں سے اربوں کی کرپشن کا ارتکاب انسان کی کس جبلت کو ظاہرکرتا ہے۔ ملک کی اشرافیہ دوسروں سے بہتر طریقے سے جانتی ہے کہ ملک کی آبادی کا 53 فیصد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے ، دو وقت کی روٹی کے لیے وہ سارا دن اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے آسودہ زندگی گزارنا اس کا حق ہے لیکن یہ کیسا ظلم ہے کیسا انیائے ہے کہ یہ طبقہ آسودہ زندگی سے واقف تک نہیں۔ اشرافیہ کے کتوں کو جو غذا ملتی ہے انسان اشرف المخلوقات اس خوراک سے بدتر خوراک استعمال کرتا ہے۔ اس کے بچے تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ اسے مقدر کا کھیل کہہ کر غریب طبقات کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بغیر ہاتھ پیر چلائے اشرافیہ اربوں کھربوں روپوں کی مالک بنی ہوئی ہے اور غریب عوام سارا دن اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں۔ یہ ہے وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت جس کے نام کی مالا جپی جاتی ہے۔ اب اس جمہوریت کی طرف عوام حقارت سے دیکھتے ہیں اور اشرافیہ اور اس کے چمچے آج بھی اس جمہوریت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں جس نے عوام کو کنگال اور لٹیروں کو ارب پتی کھرب پتی بنادیا ہے۔